مولانا مملوک علی نانوتوی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

استاذ الکل مولانا مملوک علی نانوتوی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

برصغیر میں علم و عمل کے چراغ کو باقی رکھنے اور انہیں گوشہائے عالم میں پھیلانے کے لئے مختلف ادوار میں مختلف اکابرین نے اہم اور بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں۔ شیخ شرف الدین یحیی منیری، شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی، شیخ  عبد الحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور آپ کے تربیت یافتہ اولاد و احفاد۔ بعد کے ادوار میں مولانا مملوک علی نانوتوی کا کردار قابل ستائش ہے۔ مولانا مملوک علی جیسی شخصیت صدیوں میں روئے زمین پر آتی ہے، آپ کا بڑا اور اہم کارنامہ آپ کی رجال سازی اور رجال شناسی ہے۔ آپ کے تربیت یافتہ افراد نے ہندوستان میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ حافظ احمد علی محدث سہارنپوری ، مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی جیسی تاریخ ساز شخصیت کو بنانے اور سنوارنے میں آپ کا اہم کردار ہے۔حافظ احمد علی محدث سہارنپوری نے ترویج حدیث میں اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ  مولانا قاسم نانوتوی اور قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہما نے اپنے رفقاء کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کی شکل میں امت مسلمہ کو وہ عظیم تحفہ دیا ہے جس کے ثمرات سے آج تک عالم اسلام مستفید ہورہا ہے۔ انہیں دونوں شخصیات سے علماء دیوبند کا علمی و روحانی سلسلہ جاری ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی روحانیت میں سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں) کے تربیت یافتہ ہیں اور علمیت میں ان دونوں حضرات کے رہبر و استاذ مولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ لیکن عجیب اتفاق یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کو حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے واقفیت تو ہے لیکن حضرت مولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے ایسی واقفیت نہیں ہے جن کے وہ مستحق ہیں۔ 

Maulana mamlook Ali Nanautavi
مولانا مملوک علی نانوتوی

ولادت با سعادت

مولانا مملوک علی نانوتوی خاندان صدیقی شیوخ کے چشم وچراغ ہیں۔ آپ کے آباو ء و اجداد نانوتہ ہجرت کرکے نانوتہ پہنچے تھے اور پھر نانوتہ میں ہی انہوں نے بود و باش اختیار کرلیا تھا۔ مولانا مملوک علی کی ولادت  ایک روایت کے مطابق 1204 ہجری  ہے۔ تاریخ ولادت میں گرچہ کچھ اختلاف ہے لیکن قرین قیاس مذکورہ سن ہی ہے۔ آپ کے والد محترم مولوی احمد علی نانوتوی نہایت متقی اور پرہیز گار تھے۔ چنانچہ آپ کی تربیت ابتدا سے ہی ایسے ماحول میں ہوئی جو ہر قسم کے لہو و لعب سے پاک تھا۔ دینی ماحول اور والد محترم کی تربیت نے بچپن سے ہی حصول علم کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ نانوتہ اور اطراف کے علاقے زمانہ قدیم سے علم و عمل کا مسکن اور گہوارہ رہے تھے۔ دہلی کے قرب و جوار میں واقع ہونے کی وجہ سے یہاں کے افراد حصول تعلیم کے بسہولت دہلی کے اسفار کیا کرتے تھے۔ شاہ عبد القدوس گنگوہی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جیسے اصحاب فضل و کمال کے فیوض و برکات سے یہاں کے رہنے والوں نے بھر پور استفادہ کیا تھا۔  

تعلیم و تربیت 

زمانہ کے دستور کے مطابق ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی۔ والد محترم علاقہ کی مشہور و معروف شخصیت ہونے کے ساتھ عالم باعمل اور صاحب نسبت بزرگ شمار کئے جاتے تھے۔ والد محترم نے ابتداء میں علمی ذوق و شوق کو پروان چڑھایا ، علم کی اہمیت و فضیلت کو سینے میں جاگزیں کیا اور رفتہ رفتہ حصول علم کے آداب سے آگہی پیدا فرمائی۔ 

اس دور میں مفتی الہٰی بخش علاقہ میں ممتاز ترین عالم دین کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ آپ کے حلقہ درس میں دور دراز کے طلبہ کا ہجوم رہتا تھا۔ مولانا مملوک علی نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد علمی سلسلہ کو جاری رکھنے کے لئے مفتی الٰہی بخش کی درس گاہ کا انتخاب فرمایا۔ آپ کے درس میں شامل ہوکر علمی تشنگی کی سیرابی حاصل کی۔ مفتی الہی بخش کے فیض یافتگان  میں شیخ محدث احمد علی سہارنپوری (شیخ محدث احمد علی سہارنپوری کے متعلق پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں) اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی جیسے اشخاص بھی شامل ہیں۔مولانا مملوک علی نے کچھ عرصہ بعد سید محمد قلندر جلال آبادی کے حلقہ درس میں شمولیت اختیار کرلیا۔ اس دور میں باضابطہ مدارس نہیں تھے بلکہ علم و فن کے ماہرین اپنے اعتبار سے اپنی درسگاہیں قائم کرتے تھے جہاں علوم و فنون کے متلاشی جمع ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے۔ 

اس زمانہ میں دہلی  علم و فضل کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ صدیوں سے علوم ظاہریہ و باطنیہ کے ماہرین خلق خدا کی سیرابی کا فریضہ انجام دیتے آرہے تھے۔ اب دہلی میں خاندان ولی اللہ کے چشم وچراغ علم حدیث کے فیوض و برکات کے پیمانے چھلکا رہے تھے۔ دوسری جانب دیگر اہل علم کی درسگاہوں نے دہلی کی فضا کو علم کی خوشبو سے معطر کر رکھا تھا۔ انہی چاشنی اور لگن نے مولانا مملوک علی کو دہلی کی درسگاہوں تک پہنچا دیا۔ 

مولانا مملوک علی نانوتوی دہلی میں

دہلی کے قیام میں کچھ دنوں تک آپ مولانا عبداللہ علوی مرشد آبادی کے حلقہ درس میں شامل ہوئے۔ انہیں ایام میں غالباً ہدایہ النحو کا ایک سبق آپ نے مسند ہند شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی پڑھا ہے۔ وہاں سے آپ حضرت مولانا رشید الدین خان کشمیری دہلوی کی درسگاہ میں پہنچے۔ یہاں آپ نے بقیہ علوم کی تکمیل فرمائی اور یہ آپ کے حصول علم کے سفر کی آخری درسگاہ ثابت ہوئی۔ مولانا رشید الدین خان کشمیری سے آپ کے تعلقات کافی گہرے تھے۔ حتی کہ آپ کی فرمائش پر مولانا رشید الدین خان نے کتاب بھی ترتیب دی ہے۔ 

دہلی کالج کا قیام اور مولانا مملوک علی نانوتوی کی وابستگی

تعلیم و تعلم سے فراغت کے بعد مولانا مملوک علی نانوتوی نے درس و تدریس کو اپنا مشغلہ بنایا، لیکن آپ نے درس و تدریس کی ابتدا کہاں سے کی ہے اس سلسلہ میں کوئی حتمی بات نہیں معلوم ہوسکی ہے۔ 1825 میں دہلی کالج کا قیام عمل میں آیا۔ قیام سے قبل ہی صدر مدرس کے طور پر مولانا رشید الدین خان کشمیری اور نائب کی حیثیت سے مولانا مملوک علی نانوتوی کا تقرر عمل میں آچکا تھا۔ مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے لکھا ہے کہ ابتدا کے تین سالوں تک اس کا مکمل نظام مدرسہ کے طرز پر رہا ہے، پھر بعد میں اسے باضابطہ نئی شکل دے دی گئی۔

مولانا مملوک علی نانوتوی نے دہلی کالج میں رہتے ہوئے بے لوث خدمت انجام دی اور کالج کو ترقی و کامیابی کے راستہ پر گامزن کیا۔ آپ کی شبانہ روز کی محنت شاقہ نے دہلی کالج کے ماحول کو ایسے دور میں جب پورے ہندوستان کا علمی ڈھانچہ لارڈ میکالے کے اشاروں پر گھوم رہا تھا اور عیسائی مشنری ہر جانب عیسائیت کی تبلیغ  میں لگی ہوئی تھی یہ ان اداروں میں سےا یک  تھا جو ایسے حالات میں آب و تاب سے چمک دمک رہا تھا، اور  شرور و فتن سے مکمل طور پر محفوظ تھا۔شمس الرحمان فاروقی صاحب لکھتے ہیں: "دہلی کالج میں مولانا مملوک علی کا وہی مرتبہ تھا جو شہر دہلی میں غالب کا تھا، دہلی کالج کے پرنسپل کو جب فارسی کے استاذ کی تلاش ہوئی تو اس نے یہی کہا کہ فارسی میں ہمیں ایسا آدمی درکار ہے جیسے کہ عربی میں (مولانا) مملوک علی ہیں، چنانچہ غالب کا انتخاب ہوا، بعد میں غالب نے معذرت کرلی اور نوکری قبول نہ کی، لیکن اصول تو قائم ہوگیا کہ فارسی میں غالب اور عربی میں مولانا مملوک علی کا کوئی ہم پلہ نہیں”۔ 

مولانا مملوک علی نانوتوی بحیثیت صدر مدرس دہلی کالج

مولانا رشید الدین خان کشمیری کی وفات کے بعد جب صدر مدرس کا عہدہ خالی ہوا تو اس خلا کو پر کرنے کیلئے مولانا مملوک علی نانوتوی سے بہتر کوئی متبادل موجود نہیں تھا۔ آپ کو دہلی کالج کا طویل تجربہ تھا علاوہ ازیں آپ طویل زمانے سے نائب صدر کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے تھے۔ 1841 میں باقاعدہ آپ کو دہلی کالج کیلئے صدر مدرس کی حیثیت سے منتخب کیاگیا۔ دہلی کالج میں رہتے ہوئے آپ نے صدر مدرس کے علاوہ بھی کئی اہم شعبوں کی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کالج کے انگریز پرنسپل بھی آپ کی غیر معمولی خدا داد صلاحیتوں کے قائل تھے اور وقتاً فوقتاً ان باتوں کا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔ 

دہلی کالج میں رہتے ہوئے آپ کیلئے کلکتہ کالج ( مدرسہ عالیہ) کیلئے امین کے عہدہ کی پیشکش ہوئی۔ بلکہ باضابطہ تعلیمی کونسل نے مہر ثبت لگادی تھی، لیکن دہلی والوں سے لگاؤ اور دوست و احباب کے اصرار کی وجہ سے آپ نے عہدہ قبول کرنے سے معذرت پیش کردیا۔ آپ کے قوت حافظہ اور علمی تبحر کو بیان کرتے ہوئے سر سید احمد خان لکھتے ہیں کہ ان کا حال تو یہ ہے کہ اگر تمام کتابیں خاکستر ہو جائیں تو بھی ان کے قوت حافظہ سے انہیں حاصل کیا جاسکتا ہے۔

مولانا مملوک علی نانوتوی کی خارجی مصروفیت

مولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ دہلی کالج کے علاوہ فرصت کے اوقات میں طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے۔درس و تدریس آپ کی زندگی کا نصب العین تھا، چنانچہ تہجد کے وقت سے کالج کے وقت تک اور دیر رات تک خارج میں بھی آپ سے استفادہ کرنے والوں کا ہجوم رہا کرتا تھا۔   انہیں ایام میں آپ کی معیت اور صحبت کا فیض مولانا  قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو نصیب ہوا۔ آپ نے دہلی کالج کے علاوہ بیشتر کتابیں مولانا سے ذاتی طور پر پڑھی ہیں۔ مولانا قاسم نانوتوی (امام محمد قاسم نانوتوی کے متعلق پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں) کے دہلی میں قیام کے دوران ہی قطب عالم مولانا رشید احمد گنگوہی (مولانا رشید احمد گنگوہی کے متعلق پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں) دہلی تشریف لے گئے اور یہاں مولانا مملوک علی نانوتوی کی خدمت میں مولانا قاسم نانوتوی کے ساتھ علوم و فنون کی تعلیم حاصل کی ہے۔ 

سید احمد شہید کی تحریک سے وابستگی

یہ وہ زمانہ تھا جب برائے نام دہلی کی سلطنت مغلیہ سلطنت کے ہاتھوں میں تھی، لیکن ملک کے مختلف علاقوں اور حصوں میں انگریز قابض ہوچکے تھے۔ دہلی پر بھی ان کا تسلط قائم تھا۔ ان حالات کے پیش نظر مسند ہند شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے انگریزوں سے جہاد کو ضروری قرار دے دیا تھا، آپ کے بعد آپ کے جانشین اس فریضہ کو لے کر اٹھے اور انگریزوں کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔ جس وقت مولانا مملوک علی نانوتوی  دہلی میں مقیم تھے انہیں ایام میں سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ دہلی کالج میں ملازمت کی وجہ سے آپ فعال کردار تو ادا نہیں کرسکے لیکن آپ نے ایسے اسباب و وسائل اختیار کئے جن کی وجہ سے نانوتہ اور اطراف کے لوگ کثیر تعداد میں اس تحریک کا حصہ بنے، خود سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اس علاقہ کا دورہ کیا اور یہاں ایک نئی امنگ ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کرکے رخصت ہوئے۔ 

مولانا مملوک علی نانوتوی کا سفر حج

مولانا مملوک علی نانوتوی نے تمام عمر میں ایک مرتبہ سفر حج کیا ہے۔  آپ کے سفر حج کے متعلق آپ کے صاحبزادہ مولانا یعقوب نانوتوی فرماتے ہیں: "1257 ہجری میں حضرت جناب مولانا محمد اسحاق اور جناب مولانا محمد یعقوب صاحب دہلوی دونوں نواسے اور جانشین مولانا شاہ عبد العزیز کے تھے، اچانک ارادہ ہجرت کا کیا، ذی قعدہ میں شاید روانہ ہوگئے، دہلی میں اندھیرا ہوگیا اور آپ صاحبوں کے ساتھ ایک بہت بڑا قافلہ عرب کو روانہ ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت والد مرحوم (مولانا مملوک علی نانوتوی) کو بھی دھیان حج ہوا، خفیہ تدبیر رخصت اور سامان سفر کی کرتے رہے، آخر جب رخصت ایک سال کی مل گئی اور سرکار نے براہ قدر دانی آدھی تنخواہ بھی دی، رجب 1258 ہجری میں وطن سے روانہ ہوئے اور اول ذی الحجہ مکہ پہنچے، زیارت حرمین سے فارغ ہوکر برس دن میں پھر دہلی پہنچے۔ اس وقت یہ سفر جلد طے ہونے میں عجیب سمجھا، رخصت کے دن پورے ہوچکے تھے وطن نہ آسکے، ذی الحجہ میں جب چھٹی سالانہ ہوئی وطن تشریف لائے اور مولوی صاحب کو دہلی ساتھ لے گئے”۔ حضرت مولانا مملوک علی نانوتوی کا یہی پہلا اور آخری حج تھا اس کے علاوہ حضرت مولانا کے کسی اور حج کا تذکرہ نہیں ملتا ہے۔

مولانا مملوک علی نانوتوی کی تصنیفات

 درس وتدریس کی مشغولیت اور طلبہ کے ہجوم کی وجہ سے آپ نے تصنیف و تالیف کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔حالانکہ مولانا مملوک علی نانوتوی نہایت اعلی ادبی ذوق کے حامل تھے اور آپ کی ادیبانہ صلاحیت کے مدح خواں میر و غالب جیسے اشخاص بھی تھے، لیکن درس و تدریس آپ کا اصل میدان تھا اور اسی کو آپ نے زندگی کا نصب العین بنائے رکھا تھا  پھر بھی تقریباً چھ کتابوں پر آپ نے کام کیا ہے۔ مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے انہیں اس طرح ترتیب سے بیان کیا ہے۔

تصحیح سنن ترمذی

اردو ترجمہ سنن ترمذی

تصحیح و حواشی تاریخ یمینی

کتاب المختار فی الاخبار والآثار

ترجمہ اردو تحریر اقلیدس

نتیجہ تحریر

یہ چھ کتابیں ہیں جنہیں آپ نے تمام تر مصروفیات کے باوجود علمی حلقوں کیلئے مرتب فرمایا تھا۔ آپ نے دیوان حماسہ کے حاشیہ پر کام شروع کیا تھا لیکن وہ کسی وجہ سے تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔

وفات

 1267 ہجری 1 ذی الحجہ کو مولانا مملوک علی نانوتوی کی طبیعت خراب ہوئی اور یہی بیماری آپ کے لئے مرض الموت ثابت ہوئی۔ تقریباً گیارہ دنوں تک بستر مرگ پر رہے۔ ان ایام میں آپ کے صاحبزادہ حضرت مولانا یعقوب نانوتوی اور آپ کے شاگرد امولانا محمد قاسم نانوتوی ہمہ وقت خدمت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ بالآخر 11 ذی الحجہ بمطابق 7 اکتوبر 1851 کو آپ اس دار فانی سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہوگئے۔ آپ کے کارناموں کو بیان کرنا اور شمار کرانا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے پہلے شیخ الحدیث آپ کے شاگرد اور صاحبزادہ حضرت مولانا یعقوب نانوتوی ہیں۔ دارالعلوم کے بانی امام محمد قاسم نانوتوی آپ کے شاگرد ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے سرپرست مولانا رشید احمد گنگوہی آپ کے شاگرد ہیں۔ دارالعلوم دیوبند ، مظاہر علوم اور کئی دیگر اداروں کی بنیاد آپ کے ہونہار شاگردوں کا کارنامہ ہے۔

 

 

 

Related Posts

12 thoughts on “مولانا مملوک علی نانوتوی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے