مولانا حبیب الرحمان اعظمی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

ابن حجر ثانی مولانا حبیب الرحمان اعظمی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

جب سے یہ دنیا بسائی گئی ہے ہر دن ہزاروں لاکھوں افراد پیدا ہوتے ہیں اور پھر عمر عزیز کا ایک حصہ گزار کر اپنی اصل منزل کی جانب رواں دواں ہو جاتے ہیں۔ انسانوں سے بھری اس دنیا میں کون کس پر آنسو بہائے اور کون کس کا رونا روئے۔ بعض کی موت قابل رشک ہوتی ہے تو بعض اپنی زندگی سے تنگ آکر خود موت کی تمنا کرتے ہیں۔ بعضے زندگی کا طویل حصہ گزارنے کے بعد بھی جینا چاہتے ہیں اور بعضے کو موت نہیں بلکہ زندگی مایوس کرنے لگتی ہے۔ کچھ ایسے افراد ہوتے ہیں جن کو موت اس طرح خاموشی سے دبے پاوں اپنے باہوں میں بھینچتی ہے کہ ان کے جانے کی اطلاع تک کسی کو نہیں ہوتی ہے، اور نہ کوئی ان پر آنسو بہانے والا ہوتا ہے، جبکہ دوسری جانب بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی موت پر ایک عالم آہ و فغاں میں مبتلا اور ماتم کناں ہوجاتا ہے۔ ان کی موت کو ایک شخص یا فرد کی موت نہیں بلکہ ایک عہد، ایک قوم، ایک قائد اور ایک امت کی موت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایک ایسی چھاؤں کی جدائی کا احساس ہوتا ہے جن کی موجودگی عزم و حوصلہ اور جرات و ہمت کا احساس دلاتی ہے۔ ایسے فرد کی رخصت کا سوگ منایا جاتا ہے جس سے علم و فضل، تحقیق و تدقیق، فہم و فراست کا حسین باب ہمیشہ ہمیش کے لئے بند ہوجاتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا اسی پر ماتم کناں ہوتی ہے جو دنیا کو کچھ دے کر جانے کا جذبہ رکھتے ہیں اور جن کی زندگی کا مقصد دوسروں کی فلاح و بہبود اور کامیابی و خوشحالی ہوا کرتی ہے۔ جو اپنے فیوض و برکات، درس و تدریس، تحریر و تقریر اور مواعظ حسنہ سے ظلمت و تاریکی میں ڈوبے ہوئے بے راہ لوگوں کو نور الہی سے متعارف کراتے ہیں۔ ابن حجر ثانی مولانا حبیب الرحمان اعظمی کی ذات گرامی ان نفوس قدسیہ میں سے تھیں جنہوں نے تا دم حیات علوم نبویہ کی ترویج و اشاعت اور دین اسلام کے متلاشی افراد کی سیرابی کا سامان بہم پہنچاتے رہے ہیں۔مولانا حبیب الرحمان اعظمی نے درس و تدریس کے باب میں اور خصوصا علم حدیث کی خدمت میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ بہت کم لوگوں کا نصیبہ ہوا کرتا ہے۔ درس و تدریس کے علاوہ تحریر و تقریر کے میدان میں بھی آپ نے عوام الناس کی راہنمائی کے لئے ان گنت کام کئے ہیں۔

maulana-habeebur-rahman-azmi, maulana-habeebur-rahman-azmi-ibn-hajar-thani
مولانا حبیب الرحمان اعظمی

تاریخ پیدائش

مولانا حبیب الرحمان اعظمی کی پیدائش ضلع اعظم گڑھ کی مشہور و معروف اور بافیض بستی جگدیش پور میں۱۹۴۲ کو ہوئی۔ سرزمین جگدیش پور نے ہمیشہ اہل علم اور فضل و کمال کے حامل افراد کو اپنی آغوش میں پروان چڑھایا ہے۔ ماضی قریب کے محدث عظیم، مستجاب الدعوات، دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانا شیخ عبد الحق اعظمی اسی سر زمین سے طلوع ہوکر آسمان علم و عمل پر چمکے ہیں اور تقریبا چھ دہائیوں تک مسلسل بخاری شریف کا درس دیا ہے۔ مولانا حبیب الرحمان اعظمی کے والد محترم جناب حافظ انوار الحق رحمۃ اللہ علیہ خدا ترس اور نیک صفت انسان تھے۔ آپ اولاد کی تعلیم و تربیت کے تئیں حد درجہ فکر مند رہا کرتے تھے۔ بچوں کو لہو و لعب اور ضیاع وقت سے اجتناب کرنے کی تلقین کرتے اور انہیں ابتدائی ایام ہی سے علمی مصروفیات و مشغولیات میں وقت بِتانے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی آغوش میں پلنے والے حبیب الرحمان کو دنیائے علم میں تحقیق و تدقیق کا امام اور ابن حجر ثانی کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔

ابتدائی تعلیم

مولانا حبیب الرحمان اعظمی کی ابتدائی تعلیم گاوں کے مکتب سے شروع ہوئی، جہاں آپ نے گاؤں کی مشہور و معروف اور بزرگ ہستی جناب حاجی محمد شبلی صاحب سے حاصل کی۔ گاؤں کی رسم کے اعتبار سے آپ نے قرآن مجید، ابتدائی اردو، ریاضی اور فارسی وغیرہ کی کتابیں پڑھیں۔ مکتب کی تعلیم سے فراغت کے بعد آپ گاؤں کے قریب  (برئی پور) کے مدرسہ سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں رہتے ہوئے آپ نے فارسی زبان و ادب میں کمال حاصل کیا۔ اعظم گڑھ کے مشہور شاعر جناب عبید اللہ اختر مسلمی صاحب سے یہاں رہتے ہوئے آپ نے کسب فیض کیا۔ اور یہیں سے آپ کا شعری ذوق بھی بلند ہوا، اگرچہ آپ نے اس جانب توجہ نہیں دی، لیکن اس کے باوجود دوران درس آپ کے بر جستہ اشعار آپ کے شاعرانہ ذوق کی غمازی کرتے تھے۔

 

مولانا حبیب الرحمان اعظمی نے عربی درجات کی ابتداپھول پور میں واقع مدرسہ (روضۃ العلوم) سے کی۔ یہاں رہتے ہوئے آپ نے عربی درجات کی بعض کتابیں پڑھیں، اور اسی زمانہ میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مولانا شاہ عبد الغنی پھول پوری سے گلستاں پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ عمر کے ابتدائی ایام میں شاہ عبد الغنی پھول پوری رحمۃ اللہ علیہ کی شاگردی اور ان کی مصاحبت نے آپ کے تحصیل علم کے شوق کو مزید مہمیز لگایا اور زندگی کے نصب العین اور ہدف کی تعیین میں کارگر اور معاون ثابت ہوا۔ آپ نے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے کے لئے اعظم گڑھ کی مشہور بستی سرائے میر میں واقع مدرسہ (بیت العلوم) کا رخ کیا۔ مدرسہ بیت العلوم اس زمانہ میں اصحاب فکر و نظر اور علم و فضل کے لعل و گوہر کی آماجگاہ تھا۔ یہاں کے اساتذہ کرام درس و تدریس اور طلبہ کرام کی تربیت کے باب میں امتیازی حیثیت رکھتے تھے، اور یہاں کے طلبہ صلاحیت و صالحیت میں مشہور و معروف تھے۔ مولانا حبیب الرحمان اعظمی نے بیت العلوم کی چہار دیواری میں رہتے ہوئے یہاں کے علمی ماحول سے بھرپور استفادہ کیا، اور یہاں موجود اساتذہ کرام کی شفقتوں کے زیر سایہ متوسطات تک کی کتابیں پڑھیں۔ مولانا حبیب الرحمان اعظمی نے اپنے علمی سفر کو جاری رکھتے ہوئے مشرقی یوپی کی مشہور و معروف درس گاہ (مطلع العلوم بنارس اور دارالعلوم مئو) کا رخ کیا۔مطلع العلوم میں اس وقت شیخ ثانی شیخ عبد الحق اعظمی ؒ درس و تدریس سے وابستہ تھے۔ بعد ازاں،  دارالعلوم مئو میں عربی ہفتم تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے لیے روانہ ہوگئے۔

 

دارالعلوم دیوبند میں داخلہ

طالبان علوم نبویہ کے لئے ملک ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔ اس ادارہ نے اول دن سے ایسے جیالے اور علوم و فنون کے ایسے غواص پیدا کئے ہیں جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ عاجز ہے۔ یہ دارالعلوم کا طرہ امتیاز رہا ہے کہ یہاں ہر دور اور ہر زمانے میں جبال العلوم اساتذہ اور شب بیدار ذمہ داران رہے ہیں۔ بانیان دارالعلوم کی مخلصانہ کاوش اور اساتذہ اور منتسبین کی دعائے نیم شبی کے طفیل آج تک اس کا فیض جاری و ساری ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں واقع ادارے سے طلبہ اپنی علمی تشنگی بجھانے اور نسبت قاسمیہ کو حاصل کرنے کے لئے جوق در جوق تشریف لاتے ہیں۔ یہ سلسلہ ماضی میں بھی جاری تھا اور آج بھی یہ تسلسل کے ساتھ قائم و دائم ہے۔

 

۱۹۶۲ میں جب دور دراز سے طلبہ کرام داخلہ کے لئے دارالعلوم کا رخ کررہے تھے، اور طویل قافلہ دارالعلوم کی جانب رواں دواں تھا، اسی قافلہ میں مولانا حبیب الرحمان اعظمی بھی شامل تھے۔ دارالعلوم دیوبند میں آپ کی تعلیمی مدت بہت مختصر رہی تھی لیکن اس قلیل مدت میں آپ ایک نمایاں اور ذی استعداد طالب علم کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔ تعلیمی صلاحیت و قابلیت کے علاوہ انتظام و انصرام میں بھی آپ ید طولی رکھتے تھے۔

 

مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی (مہتمم دارالعلوم دیوبند) نے اپنے تاثراتی مضمون (حبیب ما رفیق ما) میں مولانا حبیب الرحمان کی کئی اہم اور پوشیدہ خوبیوں کو اجاگر کیا ہے، ان کے شاعرانہ ذوق اور ان کی بذلہ سنجی کو سپرد قرطاس کیا ہے، اور ایک ساتھ گزارے ہوئے ایام کو تین ادوار میں تقسیم کرکے انہیں مختصرا بیان کیا ہے۔ مولانا حبیب الرحمان صاحب اعظمی کی انتظامی صلاحیت کو بیان کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں ضلع مئو اور اس سے متصل قصبات ضلع اعظم گڑھ کا ہی حصہ ہوا کرتے تھے، لیکن اعظم گڑھ شہر اور اس سے متصل علاقوں کے طلبہ، مئو اور اس سے متصل طلبہ کے درمیان باہم چپقلش رہا کرتی تھی۔ ان دونوں علاقوں کی انجمن بھی علیحدہ تھی۔ مولانا حبیب الرحمان صاحب اعظمی نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں انجمنوں کے اختلاف کو ختم کیا اور ایک متحدہ انجمن (انجمن نادیۃ الاتحاد) کے نام سے قائم کی ۔

 

دارالعلوم دیوبند میں آپ کا زمانہ طالب علمی مختصر ہے، لیکن اس مختصر مدت میں آپ نے دارالعلوم دیوبند کی چہار دیواری میں رہنے والے اور یہاں کی مسند تدریس پر جلوہ افروز یکتائے زمانہ اساتذہ کرام سے خوب استفادہ کیا۔ مولانا فخر الدین مرادآبادی، علامہ ابراہیم بلیاوی، حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی، مولانا بشیر احمد خان اور مولانا فخر الحسن مرادآبادی جیسے نامور محدثین اور جبال العلوم افراد سے بھر پور استفادہ کیا تھا۔

 

عملی زندگی کا آغاز

دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مولانا حبیب الرحمان اعظمی نے درس و تدریس کے میدان میں قدم میں رکھا۔ علمی ذوق و شوق اور کتابوں سے لگاؤ نے آپ کو مدرسہ کی چہار دیواری کا شوقین بنا دیا تھا۔ فراغت کے بعد کچھ دنوں کے لئے مدرسہ روضۃ العلوم سے وابستہ رہے لیکن یہاں درس و تدریس اور تحقیق و تدقیق کا وہ میدان آپ کو میسر نہیں ہوا جو آپ کی طبیعت کے موافق ہو، چنانچہ چند ماہ بعد آپ مدرسہ اشرف المدارس گھوسی تشریف لائے۔ یہاں آپ کو علمی صلاحیت سمیت انتظامی امور میں بھی اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرنے کا بھر پور موقع نصیب ہوا۔ آپ ایک جانب طلبہ کرام کی علمی استعداد اور ان کی کامیابی و کامرانی کے لئے  کوشاں رہا کرتے تھے تو دوسری جانب صدر المدرسین کے عہدہ پر فائز ہوکر ان کے آرام اور سہولت کے لئے ہمہ وقت متفکر رہا کرتے تھے۔ آپ کی شبانہ روز کی محنت شاقہ ثمر آور ثابت ہوئی اور یہاں کے طلبہ میں دینی مزاج سمیت علمی رجحان میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مولانا حبیب الرحمان صاحب اعظمی کا زمانہ درس و تدریس مدرسہ اشرف العلوم میں زیادہ طویل نہیں ہوسکا اور کچھ سالوں بعد آپ بنارس کی مشہور و معروف درس گاہ جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب تشریف لائے۔ جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب میں آپ کو فارغ البالی کے اوقات میسر ہوئے اور پھر یہاں سے آپ کی شخصیت کو نکھرنے، سنورنے اور منظر عام پر آنے کا موقع نصیب ہوا۔ یہاں رہتے ہوئے آپ نے علمی مشغولیت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا اور آپ کے اشہب قلم سے کئی ایک نادر و نایاب کتابیں منظر عام پر آئیں۔

 

جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس میں رہتے ہوئے آپ نے بنارس کی مشہور و معروف علمی و روحانی شخصیت حضرت شاہ محمد طیب بنارسی ؒ کے حالات زندگی پر” شجرہ طیبہ” نامی رسالہ مرتب فرمایا۔ ضلع اعظم گڑھ جو زمانہ قدیم سے علماء و صلحاء اور صوفیاء کرام کا مسکن رہا ہے، جہاں کے متوالوں اور دین اسلام کے سچے جانثاروں نے اشاعت اسلام کے لئے ہر طرح کی قربانی دی ہے، اور جس سر زمین نے ہر زمانہ میں بر صغیر کو نامور محدثین، مفسرین ، متکلمین، فقہاء اور علوم اسلامیہ کے وارثین کو اپنی آغوش میں پالا پوسا ہے، اس کے لعل و گوہر جو زمانے کی گردش اور نامناسب حالات کی وجہ سے کہیں گم ہوگئے تھے، یا نسل نو جو ان کی قربانیوں سے ناواقف تھی یا پھر انہوں نے خود کو اخفاراز میں رکھا کہ دنیا ان کے کارناموں سے واقف نہ ہوسکے۔ اعظم گڑھ کی ایسی تمام ہستیوں کو مولانا حبیب الرحمان اعظمی نے زندہ رکھنے کے لئے اور ان کے کارناموں سے دنیا کو متعارف کرانے کے لئے "تذکرہ علماء اعظم گڑھ” نامی کتاب مرتب فرمائی۔ اس کتاب کی ترتیب میں آپ نے بنارس اور جونپور کے مختلف کتب خانوں اور صاحب علم و فن کے ذاتی کتب خانوں سے بھر پور استفادہ کیا اور ہر ہر واقعہ کو محقق بنانے کی آخری حد تک کوشش فرمائی ہے۔

 

 مفتی ابو القاسم نعمانی (مہتمم  دارالعلوم دیوبند) لکھتے ہیں:” ان کا سارا وقت علمی کاموں میں صرف ہوتا، وہ سرسری اور رواں مطالعہ کے قائل نہیں تھے۔ جس موضوع پر کچھ لکھنے کا ارادہ ہوتا اس سے متعلق قدیم و جدید مراجع کا گہرائی سے مطالعہ کرتے اور حاصل مطالعہ یادداشت کی شکل میں جمع کرتے جاتے، اور جب اپنے طور پر مطمئن ہوجاتے تو تحریر کے لئے قلم اٹھاتے”۔

 

مؤتمر ابنائے قدیم کی نظامت

۱۹۸۰ میں جب دارالعلوم دیوبند نے اپنا تاریخ ساز صد سالہ اجلاس منعقد کیا تو اس وقت مؤتمر ابنائے قدیم کی بنیاد رکھی گئی، اور اس کے تحت شائع ہونے والا مجلہ "القاسم” کی ادارت کے لئے مولانا حبیب الرحمان اعظمی کو منتخب فرمایا گیا۔ مولانا حبیب الرحمان اعظمی صاحب کئی سالوں تک اس عہدہ پر متمکن رہے اور القاسم کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے تھے۔

دارالعلوم دیوبند میں بحیثیت مدرس

۱۹۸۲ میں مولانا حبیب الرحمان اعظمی صاحب کو باضابطہ دارالعلوم دیوبند میں مدرس مقرر کیا گیا۔۱۴۰۵ ماہ صفر میں تدریس کے ساتھ ساتھ آپ کو "ماہ نامہ دارالعلوم” کا مدیر بھی منتخب کیا گیا۔ "ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند” کی ادارت ۲۰۱۶ ماہ نومبر تک انجام دیتے رہے تھے۔ تین دہائیوں پر مشتمل آپ کی ادارت میں "ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند” میں آپ کے کئی بیش قیمتی مقالات و مضامین سلسلہ وار شائع ہوئے ہیں، آپ کی معرکۃ الآراء کتاب "مقالات حبیب” ان مضامین کا مجموعہ ہے جسے آپ نے وقتا فوقتا "ماہ نامہ دارالعلوم” کے لئے مرتب فرمایا تھا۔ آپ کے لکھنے اور پڑھنے کا انداز نرالا اور جدا تھا۔ کسی بھی موضوع پر قلم اٹھانے سے قبل آپ گہرائی و گیرائی سے اس کا مطالعہ فرماتے، اس کے ابتدا و انتہا کا تفصیلی جائزہ لیتے، حشو و زائد اور خس و خاشاک کو اپنے قلم کی جولانی سے دور رکھتے، آپ کا مطمح نظر یہ تھا کہ صرف مغزیات اور اصولی چیزوں کو سپرد قرطاس کیا جائے۔ طوالت کے بجائے افادیت کو پیش نظر رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تحریریں تاریخی اور علمی اعتبار سے سند کا درجہ رکھتی ہے۔  

 

آپ کی تحریری صلاحیت کے اعتراف میں مفتی سعید صاحب پالنپوری (سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند)مقالات حبیب کی تقریظ میں  لکھتے ہیں: "مولانا حبیب الرحمان اعظمی صاحب قلم مصنف ہیں، آپ کی بہت سی کتابیں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوچکی ہیں، سیال قلم کے مالک ہیں، جب لکھنے پر آتے ہیں تو لکھتے ہی چلے جاتے ہیں، اور پُر مغز لکھتے ہیں۔ آپ یہ کتاب پڑھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ ان کی سحر بیانی منفردانہ شان کی حامل ہے، مولانا کا علم پختہ، ذہن استوار اور معلومات وافر ہیں، اس لئے ان کی تحریروں میں قاری کو بڑے کام کے نقطے اور نکتے مل جاتے ہیں”ـ

اشتغال علم حدیث

علم حدیث ایک بحر بیکراں ہے، جس کی مختلف شاخیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین کے مختلف طبقات نے الگ الگ فنون کو اپنی دلچسپی کا سامان بنایا اور خود کو ایک فن میں ماہر بنانے اور اس میں درک حاصل کرنے کے لیے ساری عمر لگادی۔ کسی نے روایت حدیث کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو تو کوئی درایت حدیث کی وادی میں زندگی بھر غوطہ زن رہا۔ کسی نے فن اسماء الرجال کو اپنا موضوع بنایا تو کوئی جرح و تعدیل کے باب میں یکتائے زمانہ کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آیا۔ ائمہ محدثین نے علم حدیث کی حفاظت و صیانت کے لئے کسی بھی گوشہ کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے، ہر ہر گوشہ پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اللہ تعالی نے ہر دور میں ایسے ذہین و فطین اور علم کے متوالوں کو پیدا کیا ہے جو حبیب خدا ﷺ کی تعلیمات، سنت اور احادیث کی صیانت کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دے سکیں۔

 

مولانا حبیب الرحمان اعظمی صاحب ان چند نابغہ روزگار شخصیتوں میں سے ہیں جنہوں نے تقریبا علم حدیث کے تمام شعبوں کا احاطہ کیا تھا۔ دوران درس آپ کے تبحر علمی کا اندازہ ہوتا تھا۔ اگر روایت حدیث پر بات کرتے تو یوں محسوس ہوتا کہ یہی آپ کا میدان ہے، اور اسی کو آپ نے اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا ہے۔ اختلافی مسائل میں جب ائمہ اربعہ اور دیگر محدثین کی آراء پر کلام کرتے تو کتابوں کو پٹارے کھول کر رکھ دیا کرتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ آپ طلبہ کو گھول کر پلا رہے ہیں۔ آپ حنفی المسلک تھے، اس لئے اپنے مسلک کی تائید اور توضیح کے لئے احادیث کو بیان کرنا، اگر اس حدیث پر کلام ہو تو دیگر ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال اور ان کی آراء سے استفادہ کرنا اور پھر اپنے مسلک کو موید کرنا آپ کے دروس کی بہترین خوبی تھی۔ راقم کو حضرت الاستاذ سے ابو داود شریف پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ دوران درس آپ کے زبان کی سلاست اور علم حدیث کے مختلف گوشوں پر آپ کے کلام سے طلبہ آپ کے گرویدہ ہوجاتے تھے۔ جب آپ کلام کرتے تو یوں محسوس ہوتا کہ ایک بحر بیکراں ہے جو تسلسل اور روانی کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ بہتے ہوئے پانی کی مانند اتار چڑھاو اور نغمگی کا سماں بندھ جاتا تھا، جس کی دلکشی اور دلفریب نظارے طلبہ کو اپنے سحر میں جکڑ لیا کرتے تھے۔ سند حدیث اور فن اسماء الرجال  پر لب کشائی کرتے تو علم تاریخ و سیر کا سمندر انڈیل دیا کرتے تھے۔ آپ کے دروس کی روانی اور جلوہ تابانی نے آپ کو ابن حجر ثانی کے لقب سے مشہور کردیا تھا۔ یہ آپ کے نام کا ایسا جز بن گیا کہ آج بھی آپ کی ذات کو متعین کرنے کے لئے ابن حجر ثانی کا لاحقہ یا سابقہ لگانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ دارالعلوم دیوبند میں جب "تخصص فی الحدیث”کا شعبہ قائم ہوا تو طلبہ کی تربیت کے لئے مولانا حبیب الرحمان صاحب اعظمی بھی منتخب کئے گئے۔ چند سالوں تک آپ اس شعبہ سے منسلک رہے، لیکن مصروفیات اور عمر کے تقاضوں کی وجہ سے آپ اس شعبہ سے علیحدہ ہوگئے تھے۔

 

مولانا حبیب الرحمان اعظمی کی تصنیفات

 مولانا حبیب الرحمان صاحب اعظمی ان چنندہ اور چیدہ اشخاص میں سے ہیں جن کو رب ذو الجلال نے قوتِ تقریر و تحریر دونوں سے بھر پور حصہ عطا فرمایا تھا۔ آپ علم حدیث کے متوالے اور خوشہ چیں تھے۔ آپ کی عمومی شناخت ایک محدث اور فن اسماء الرجال کے ماہر کی تھی۔ لیکن آپ کے اشہب قلم نے مختلف دینی، سماجی، سیاسی، تاریخی، قومی اور ملکی عناوین پر لعل و گوہر اور موتی لٹائے ہیں۔ فن تدریس میں آپ کی توجہ کا مرکز صرف اور صرف علم حدیث تھا، لیکن تحریر میں آپ ہر فن مولا ثابت ہوئے تھے۔ آپ کی تصنیفات و تالیفات آپ کے اردو ادب کی بہترین غماز ہے۔ آپ کے انداز تحریر سے آپ کے ادبی ذوق اور مہارت کا پتہ چلتا ہے۔ دوران درس کبھی کبھار موقع کی مناسبت سے آپ اردو کے اشعار برملا پڑھا کرتے تھے۔آپ شعر و شاعری کا اچھا ذوق رکھتے تھے، یہ باتیں آپ کی تحریر میں بھی نظر آتی ہیں۔ آپ نے کم و بیش تیس ۳۰ کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ آپ کی مشہور و معروف تصنیف ـ"مقالات حبیب” ہے۔ آپ کی یہ کتاب، گل ہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ آپ نے اس کتاب میں تاریخ، صحابہ کرام کی عظمت، بابری مسجد کی تاریخی حقیقت، شاہ ولی اللہ اور دیگر اکابرین کی خدمات وغیرہ پر جامع اور تفصیلی بحث کی ہے۔

تذکرہ علماء اعظم گڑھ

یہ آپ کے ابتدائی زمانے کی تصنیف ہے، جسے آپ نے عرق ریزی اور تحقیق و تدقیق کے بعد مرتب فرمایا تھا۔ اس کتاب میں اعظم گڑھ کے ان علماء کرام کا تذکرہ ہے جنہوں نے دین اسلام کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا تھا، اور پوری زندگی راہ حق کے متلاشی رہے اور دوسروں کی راہ حق کی جانب راہنمائی کرتے رہے تھے۔

شرح مقدمہ شیخ عبد الحق

طویل زمانے تک آپ نے اس کتاب کو مشکوۃ شریف جلد اول کے ساتھ پڑھایا ہے۔ اس کے علاوہ اس فن میں نخبۃ الفکر اور مقدمہ ابن الصلاح بھی آپ کے زیر درس رہی ہیں۔ آپ نے مقدمہ کی اہمیت و افادیت اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی کے بعض افکار و خیالات اور ان کے تفردات کو الگ بیان کیا ہے اور دیگر ائمہ کی آراء کو اس میں شامل کیا ہے۔

علم حدیث میں امام ابو حنیفہ کا مقام و مرتبہ

ماضی قریب میں بعض ایسے افراد پیدا ہوئے، جنہوں نے امام اعظم امام ابو حنیفہ کی شخصیت کو داغدار کرنے اور ان کے مقام علم کو کم کرنے کے لیے عجیب و غریب قسم کے جھوٹ باندھے ہیں۔ عوام الناس میں غلط فہمی پیدا کرنے کے لیے امام ابو حنیفہ کی علمی خدمات خصوصا علم حدیث کے باب میں انہیں غیر معتبر اور علم حدیث سے نابلد قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ امام ابو حنیفہ کے بیان کردہ مسائل کو حدیث رسول سے مغائر ثابت کرنے کے لئے افترا بازی اور بہتان تراشی جیسے گناہ عظیم سے بھی نہیں چوکے ہیں۔ مولانا حبیب الرحمان اعظمی نے اس کتاب میں ائمہ حدیث، ائمہ فن اسماء الرجال، ائمہ جرح و تعدیل اور ائمہ فقہ و فتاوی کے اقوال کے ذریعہ امام ابو حنیفہ کی شخصیت کو علم حدیث میں کیا مقام و مرتبہ حاصل تھا، بالتفصیل بیان کیا ہے۔

 

مولانا حبیب الرحمان اعظمی امام بخاری کے استاذ حدیث امام مکی بن ابراہیم کا قول نقل کرتے ہیں:

 

"امام ابو حنیفہ، پرہیز گار، عالم، آخرت کے راغب، بڑے راست باز اور اپنے معاصرین میں سب سے بڑے حافظ حدیث تھے”۔

 

امام مسعر بن کدام جو اکابر حفاظ حدیث میں ہیں امام صاحب کی جلالت شان کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 

"میں نے امام ابو حنیفہ کی رفاقت میں حدیث کی تحصیل کی تو وہ ہم پر غالب رہے اور زہد و پرہیزگاری میں مصروف ہوئے تو اس میں بھی وہ فائق رہے اور فقہ ان کے ساتھ شروع کی تو تم دیکھتے ہو کہ اس فن میں کمالات کے کیسے جوہر دکھائے”۔

 

امام ذہبی جو رجال علم و فن میں امتیازی شان رکھتے ہیں، اپنی مشہور تصنیف سیر اعلام النبلا میں لکھتے ہیں:

 

"امام ابو حنیفہ نے حدیث کی تحصیل کی بالخصوص ۱۰۰ ہجری اور اس کے بعد کے زمانہ میں اس اخذ و طلب میں بہت زیادہ سعی کی”۔

 

ان کے علاوہ کئی ایک ائمہ حدیث کے اقوال بیان کئے گئے ہیں جس سے امام ابو حنیفہ پر اعتراض کرنے والوں کے علمی جغرافیہ کا بخوبی جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

 

سر سید احمد خاں کا نظریہ حجیت حدیث بحث و تحقیق کے آئینہ میں

سر سید احمد خاں اپنی تصنیف تہذیب الاخلاق میں لکھتے ہیں:

 

"دنیا میں دو قسم کے امور ہیں ایک روحانی اور دوسرے جسمانی، یا یوں کہو ایک دینی اور دوسرے دنیاوی، سچا مذہب امور دنیا سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ہے”۔

 

یہ الفاظ بتارہے ہیں کہ ان کے خیال میں ادیان و مذاہب کا دائرہ عمل امور دینیات میں محدود ہے، دنیوی معاملات و امور سے دین کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ سر سید احمد خاں کے اس نظریہ نے انہیں خود ساختہ اور من گھڑت تشریح و تفسیر کے دلدل میں پھنسا دیا۔ چنانچہ انہوں نے ہر وہ حدیث جو ان کے مزعومہ عقیدہ قانون فطرت کے خلاف محسوس ہوئی اسے ضعیف، موضوع اور نہ جانے کیا کیا قرار دے دیا ہے۔

 

مولانا حبیب الرحمان اعظمی نے اپنی اس کتاب میں سر سید احمد خاں کے نظریات کی قرآن و حدیث اور اقوال سلف کی روشنی میں تردید فرمائی ہے۔

 

ان کے علاوہ دیگر اہم تصانیف: شجرہ طیبہ۔ اسلام میں تصور امارت۔ بابری مسجد حقائق اور افسانے۔ متحدہ قومیت علماء اسلام کی نظر میں۔ مسائل نماز۔ امام ابوداود اور ان کی سنن۔ شیوخ ابی داود فی السنن، عربی۔ حرمت مصاہرت۔ کیا حدیث حجت نہیں ہے۔

 

مولانا حبیب الرحمان اعظمی کی قومی و ملی خدمات

مولانا حبیب الرحمان اعظمی باضابطہ پروگرام وغیرہ میں شرکت سے گریز کیا کرتے تھے۔ وہ اپنے اوقات کو تعلیم و تعلم اور ذکر و اذکار میں مشغول رکھنے کے خواہاں اور خوگر تھے۔ لیکن جمعیت علماء ہند سے ان کی وابستگی قابل رشک تھی۔ جمعیت علماء ہند کے بیشتر تحریری کام آپ خود انجام دیا کرتے تھے۔ آپ جمعیت علماء ہند کی عاملہ کے رکن بھی تھے اور مختلف اوقات میں اپنی قیمتی آراء سے کاز جمعیت کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ اللہ تعالی حضرت الاستاذ کی سعی جمیلہ اور قومی و ملی خدمات کو قبول فرمائے۔

سفر آخرت

مولانا حبیب الرحمان اعظمی اپنی صحت کا خاص خیال رکھا کرتے تھے۔ عمر کی آٹھ دہائی گزارنے کے بعد بھی آپ کی صحت قابل رشک تھی۔ فجر بعد تفریح کا معمول تھا۔ دارالعلوم دیوبند میں ہمیشہ تنہا رہا کرتے تھے۔ رات کا بیشتر حصہ خدائے وحدہ لا شریک لہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوکر گزار دیا کرتے تھے۔ فرصت کے اوقات کو ہمیشہ کتب بینی اور ذکر و اذکار میں صرف کیا کرتے تھے۔ صفائی معاملات کا حد درجہ خیال رکھا کرتے تھے۔ اکثر و بیشتر مسجد رشید سے نکلتے ہوئے نماز سے فراغت کے بعد ضرورت کی اشیاخود خریدا کرتے تھے۔ آپ کی صحت اور آپ کے طور طریقوں سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ علم حدیث کے اس بحر ذخار سے ابھی اور فائدہ اٹھانا ہے۔ ان کی علمی خدمات کا سلسلہ ہنوز جاری رہے گا۔ لیکن قضائے الہی کے سامنے انسانی تدابیر ہمیشہ ناکام ثابت ہوئی ہے۔ کرونا وائرس کے اس عہد میں جب ہمارے درمیان سے علمی افق پر چمکنے والے اور اپنی علمی شخصیت سے عالَم کو منور کرنے والے ادیب باکمال مولانا نور عالم خلیل امینیؒ، قاری عثمانؒ منصور پوری اور دیگر علماءکے ساتھ سفر آخرت پر  روانہ ہوگئے۔ آپ  بہت خاموشی کے ساتھ مختصر علالت کے بعد رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں میں ۳۰ رمضان المبارک، ۱۲ مئی کو ہمارے درمیان سے ہمیشہ ہمیش کے لئے رخصت ہوگئے۔
اسے ڈھونڈھے گا اب راغب زمانہ
کہ اس جیسا زمانے میں کہاں تھا۔

 

 

 

 

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے