موجودہ حالات میں ایمانی تقاضے

 آج کا پیغام: موجودہ حالات میں ایمانی تقاضے


اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: 

ولا تھنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین۔

تم ہمت نہ ہارو، اور غم نہ کھاؤ، تمہیں غالب رہو گے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ 

قرآن مجید کی اس آیت کے سیاق وسباق میں غزوہ بدر اور غزوہ احد کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔ ان دو غزوات کو اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ایک طرف غزوہ بدر میں تین سو تیرہ نہتے مسلمانوں کو اللہ کی نصرت سے فتح حاصل ہوئی تھی وہیں دوسری جانب غزوہ احد میں ابتدائی فتح کے بعد عارضی شکست سے مسلمانوں کو دو چار ہونا پڑا تھا۔ ان دونوں حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس آیت مبارکہ میں ایک اصول بیان کیا گیا کہ فتح و شکست عارضی شے ہے۔ دنیاوی اسباب و عوامل کی بنا پر کبھی فتح اور کبھی شکست ہوسکتی ہے اور تاریخ عالم کا دستور بھی یہی ہے، لہذا ان عارضی فتح و شکست کو قول فیصل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں صراحت ہے کہ گزشتہ کی غلطیوں پر پچھتاوا کرنے اور ان حالات میں الجھنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مستقبل کے لئے باضابطہ تیاری کی ضرورت ہے اور یہ تیاری خلوص نیت اور صدق دل سے ہو۔ ریا کاری، نام و نمود اور دنیاوی مفادات اگر غالب ہو جائیں اور غلبہ اسلام کے بجائے خود مختاری کی خواہش دل میں موجزن ہو تو پھر نصرت الٰہی کی توقع فضول اور عبث ہے۔ غلبہ اور بلندی حاصل کرنے کیلئے سب سے اہم چیز (ایمان) ہے۔ ایمان کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کے لئے تیار رہنا سچے مومن کی شان ہے۔ ایمان کے تقاضوں میں جس طرح نماز روزہ اور دیگر عبادات شامل ہیں اسی طرح حالات کے مطابق دنیاوی اسباب و عوامل سے خود کو لیس کرنا بھی ضروری ہے۔ سورہ انفال میں اسی بات کو (قوۃ) کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ احوالِ زمانہ کسی بھی صورت مؤمن کو رہبانیت اور گوشہ نشینی کی دعوت نہیں دیتا ہے بلکہ اسلام مؤمن کامل سے دنیا کی امامت کا متقاضی ہے۔

موجودہ حالات میں گرچہ ظاہری حالات مسلمانوں کے حق میں نہیں ہے، اور اقوام عالم میں مسلمان سب سے زیادہ حیران و پریشان ہے، چہار سمت سے مصائب وآلام نے مسلم قوم کو اپنے نرغہ میں لے لیا ہے لیکن یہ حالات عارضی ہے اور جلد یہ ختم ہو جائیں گے بشرطیکہ خدائی قانون اور قرآنی دستور (ایمانی تقاضوں) کو عملی زندگی میں بروئے کار لایا جائے اور خود کو ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کا اہل بنایا جائے۔ جس طرح غزوہ احد کی عارضی شکست نے مسلمانوں میں ایک نیا جوش اور نئی امنگ کو پیدا کیا آج پھر اسی ذوق و شوق اور اتباع سنت کے جذبہ کی ضرورت ہے۔ ایمانی تقاضوں کو پورا کرنا اور اس کے لئے جن اسباب و عوامل کی ضرورت ہے اسے بروئے کار لاتے ہوئے اپنی کامیابی اور منزل کی راہوں کو تلاش کرنا موجودہ حالات کے مسلمانوں کے لئے نہایت ضروری اور اہم ہے۔ ہماری پسماندگی کی اہم اور بڑی وجوہات میں سے چند یہ ہے کہ ہم نے اتحاد و اتفاق کے دامن کو تار تار کردیا جس کے نتیجہ میں ہماری اجتماعیت بکھر گئی اور ہم منتشر ہوگئے۔ اجتماعیت کے فقدان نے ہمیں ٹکڑوں میں تقسیم کردیا جس کی بناء پر ہم میں عالمی شعور اور موجودہ حالات سے نمٹنے کا ادراک کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا گیا۔ ایمانی تقاضوں کی تکمیل کے بجائے ہم عارضی اسباب و وسائل کو بچانے میں مصروف ہوگئے۔ ایمانی تقاضوں کی تکمیل دنیاوی حالات سے نمٹنے کیلئے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

0 thoughts on “موجودہ حالات میں ایمانی تقاضے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے