مفکر ملت حضرت مولانا اسرار الحق قاسمی

 

اس کار گاهِ عالم کا چمکتا دمکتا وجود، اس کے بلند وبالا محلات، وسیع وعریض حویلیاں، فلک نما مینارے، تلاطم وتموج سے بھرپور سمندر، بہتی ندیاں، اٹکھیلیاں کرتی کرنیں، مہکتے وخوش بو بكھیرتے پھول، دمکتا اور ضيا بار كرنيں نچھاور كرتا چاند، روشن وتاب ناك ستارے، چمکتا اور نورريز سورج، جھلملاتی ومسكراتی کلیاں، پنپتے ننھے منّے کونپل، لہلہاتے سرسبز وشاداب کھیت، چہچہاتی و پھدکتی هوئی چڑیائيں، اڑتے بادل، گرجتے سحاب؛ کسی کو اللہ نے دوام نہیں بخشا ہے۔ پھول اپنے وقت پر کھلتے ہیں، اپنی خوشبو بکھیر کر دوسروں کیلئے فرحت و مسرت، سرور وابتہاج، خوشی وشادمانی  کا سامان مہیا کرتے ہیں، جن سے قلب وجگر ميں تازگی آجاتی ہے، فكر ونظر ميں جلا اور عجب كيف وسرور حاصل ہوتا ہے؛ ليكن انجام كار پھر ان كے مقدر ميں مرجھانا طے ہے۔ بلند و بالا محلات، اونچی اونچی بلڈنگيں، آسمان كی بلندی سے شانہ ملاتی ہوئی عمارتيں چند سالوں بعد اپنے مکیں کی خستہ حالی، اپنے رہنے والوں كی بے كيفی وناہمواری، اپنی رعنائی وزيبائی، ظاهری چمك دمك اور جلوه نمائياں كھوتی ہوئی ان کی وحشت ناكی وویرانی بیان کرنے لگتی ہیں۔ مكمل روانی كے ساتھ تيز رفتار ميں بہتی ندیاں خشک ہوکر دلدل اور کیچڑ ميں تبدیل ہوجايا کرتی ہيں۔ 
غرضیکہ بنانے والے نے سب کے مقدر میں عدم بقا اور فنا لکھا ہے، یہاں دوام کسی کو نہیں، جو بھی آیا ہے اسے وقت موعود پر اس دار فانی سے عالمِ جاودانی کی جانب کوچ کر جانا ہے۔ شاہ و گدا، امیر و غریب، عرب وعجم، ہندی وتركی، ايرانی وتورانی؛  ہر کسی کو اس دنیا سے رشتہ توڑنا ہے. انسان اپنی لاکھ چاہتوں، امنگوں، اميدوں اور کوششوں کے باوجود اپنے مقدر سے ہار جاتا ہے۔ ستاروں پر کمندیں پھینکنے والے جب موت کے شکنجہ میں آتے ہیں تو معصوم بچوں کی مانند بلبلا اٹھتے ہیں، سمندروں کو مسخر کرنے، ہواؤں پر قابو پانے، پہاڑوں کو ریزہ ميں تبدیل کرنے والے اور آسمان کی بلندی کو چھونے کا دعوی کرنے والے بھی اس حقیقت سے منھ نہیں موڑ سکے ہیں. یہ اس دنیا کا ایسا سچ ہے جسے ہر فرد بشر بغیر کسی شک و شبہ کے تسلیم کرتا ہے. اس دار فانی کو الوداع ہر کسی کو کہنا ہے، کچھ ایسے فنا ہوتے ہیں کہ کوئی ان کا نام لینے والا بھی نہیں رہتا، اور کچھ ایسے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں جو رہتی دنیا تک کیلئے باعث رحمت، سبب الفت اور باعث برکت سمجھے جاتے ہیں. جن کے بتائے ہوئے اصولوں پر چل کر کامیابی وكامرانی اور فلاح وبہبود کی منزل طے کی جاسکتی ہے، جن کے بتائے ہوئے طريق كار اور چھوڑے ہوے نقوش کو اپنا کر دین و دنیا میں سرخروئی وسرفرازی اور سربلندی ملتی ہے. انہیں چند نابغہ روزگار علمی، ادبی، فنی، تصنيفی، تاليفی، دينی، ملی، سياسی، سماجی، رفاہی، فلاحی، اصلاحی، فكری ہستيوں اور عبقری شخصيتوں میں سے ایک حضرت اقدس مولانا محمد اسرار الحق صاحب قاسمی كشن گنجی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی بھی تھی. ایک ایسی شخصیت جن کی ہر ہر ادا قابل فخر ہوا کرتی تھی، جن کی وضع قطع اسلاف کی یاد تازہ کئے دیتی تھی، جن کا رہن سہن صوفیائے کرام کی نشانی تھی. آپ نہایت متواضع، ملنسار، خوش اخلاق، خوش گفتار، خوش مزاج، باذوق، باہمت، پر عزم تھے. آپ کی ذات گرامی اپنے آپ میں ایک انجمن تھی. ایک ایسی انجمن جس نے زندگی بھر چراغ سے چراغ جلائے. جن چراغوں کی روشنی میں امت کا ایک بڑا طبقہ اپنا مستقبل سنوارنے میں منہمک ہے.

ولادت با سعادت: حضرت مولاناؒ نے ایک پسماندہ علاقہ کے پسماندہ ٹپو نامی گاؤں میں 1942ء میں ،جناب امید علی صاحبؒ کے گھر آنکھیں کھولی تھیں. آپ کا گاؤں کشن گنج شہر سے تقریبا 40 میل کی دوری پر واقع ہے. ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ کے مختلف مدارس میں حاصل کی. بعد ازاں اپنی تشنگی کو بجھانے کیلئے مسکن ومركز علم و عمل دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا. حضرت مولاناؒ نے دارالعلوم کی چہار دیواری میں ایک طویل عرصہ گزارا، از عربی اول تا دورہ حدیث شریف، مادر علمی کی گود میں وقت کے جبال العلم اور زہد و تقوی کے پیکر اکابر اساتذہ سے اکتساب فیض کیا تھا. زمانۂ دارالعلوم میں حضرت مولاناؒ کی تحریری اور تقریری صلاحیتوں نے اشارہ دے دیا تھا کہ ایک متوسط گھر میں پیدا ہونے والا اسرار، خدائی اسرار سے بھرا ہوا ہے، اور مستقبل میں اللہ اس سے اپنے اسرار و رموز بھی کھولے گا. زمانۂ طالب علمی میں خارجی مطالعہ، تقریری مسابقوں میں حصہ داری اور مضمون نگاری کے شوق نے آپ کے ذہن میں وسعت اور حالات حاضرہ سے گہری وابستگی پیدا کردی تھی.

 زمانہ درس و تدریس: دارالعلوم دیوبند سے 1964ء میں فراغت کے بعد آپ مدھے پورہ میں قائم مدرسہ رحیمیہ سے وابستہ ہوئے، یہاں آپ کا قیام گرچہ بہت طویل نہیں تھا؛ لیکن پھر بھی آپ نے مختصر مدت میں ہی وہ انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، جو آج تک برقرار ہے. بعد ازاں آپ بیگوسرائے میں قائم مدرسہ بدرالاسلام سے وابستہ ہوگئے.
یہاں آپ نے درس و تدریس کے علاوہ اپنی تحریری  صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کتابیں تصنیف فرمائیں. آپ کی اولیں تصنیف (مسلم پرسنل لاء اور ہندوستانی مسلمان) اسی زمانہ کی تصنیف ہے. آپ کے درس و تدریس کا زمانہ بہت طویل نہیں رہا تھا؛ لیکن جو وقت بھی آپ نے گزارا، اس میں طلبہ کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی ہر ممکن سعی کی ہے. جو کتابیں بھی آپ سے وابستہ ہوئی، آپ نے اس کا حق ادا کیا تھا، سہل اور شستہ انداز درس کسی بھی طالب علم کو اپنی جانب متوجہ کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے اور یہ دونوں وصف، اللہ نے آپ میں ودیعت رکھ دیا تھا. انتظامی امور میں مہارت کی بنا پر آپ دونوں مدرسوں میں ناظم تعلیمات کی حیثیت سے رہے. اسی درمیان فدائے ملت حضرت مولانا اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر انتخاب آپ پر پڑی. حضرت مدنی نے پہلی ہی نظر میں اس قیمتی گوہر ناياب کو بھانپ لیا تھا. بعد کے زمانہ نے یہ ثابت کردیا تھا کہ آپ کا حسن انتخاب کس قدر قابل رشک تھا. حضرت مدنی کی ایما پر آپ 1973/74 میں جمعیۃ علماء ہند سے وابستہ ہوگئے۔ 

ملی کاموں سے وابستگی: درس و تدریس سے وابستگی کے زمانہ میں ہی قوم کی خستہ حالی آپ کے دل کا ناسور بن گئی تھی. آئے دن ہورہے فرقہ وارانہ فسادات، اور مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی نے آپ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا. چناں چہ آپ نے درس و تدریس سے علاحدگی اختیار کرتے ہوئے رفاہی کام اور امت کی فلاح و بہبود کی خاطر ہندوستان کی قدیم ترین تنظیم جمعیۃ علمائے ہند کے دامن سے وابستہ ہوگئے. جمعیۃ سے وابستگی کے بعد آپ کو میدان عمل میں کھل کر کام کرنے کا موقع ملا. آپ کی فکری بلندی اور وسعت نے آپ کو جمعیۃ کا قلم بنا دیا. آپ نے جمعیۃ کے پلیٹ فارم سے لکھا اور خوب لکھا. ہر ہر ملی مسائل پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا. اپنے زور قلم سے ایوان باطل میں تہلکہ مچانے لگے. جمعیۃ علمائے ہند کیلئے مولانا محمد میاں صاحب دیوبندیؒ کے بعد اگر کسی نے جمعیۃ کیلئے لکھنے کا حق ادا کیا ہے تو وہ حضرت مولانا کی ذات گرامی ہے. 
آپ کے شبانہ روز کی جدوجہد اور سعی پیہم كو دیكھتے ہوے اربابِ جمعیۃ نے 1974ء میں آپ کو جمعیۃ کا سکریٹری منتخب فرمايا۔ آپ کو ‘‘الجمعیۃ’’ کا ایڈیٹر منتخب کیا گیا. اس عرصہ میں آپ کے لیل و نہار کی فعالیت قابل دید ہوا کرتی تھی. کیا دن! کیا رات! کیا صبح! اور کیا شام! جب ضرورت پڑی جہاں ضرورت پڑی، خدا کا یہ بندہ موجود ہوتا۔ سیلاب متاثرین کی داد رسی ہو، یا  سماوی آفات کے مارے ہوئے لوگ، یا پھر فرقہ وارانہ فسادات میں بلوائیوں کے ذریعہ تباہ کئے ہوئے لوگ ؛ ہر کسی کیلئے مسیحا  بن کر بروقت پہونچ کر، ان کے درد کا مداوا کرتے، انہیں آس دلاتے اور ان کی ڈھارس بندھواتے اور پھر ان کی بازآبادکاری کیلئے حتی الامکان زود سعی کرتے تھے. چند سالوں بعد 1981ء میں آپ کو جمعیۃ علمائے ہند کا جنرل سکریٹری منتخب کیا گیا۔ جمعیۃ جیسی عظیم تنظیم کے جنرل سکریٹری ہونے کے باوجود آپ ہمہ دم ہر کسی کےلئے میسر ہوا کرتے تھے۔ آپ کی سادگی قابل دید ہوا کرتی تھی۔ بڑے تو بڑے آپ مدارس کے طلبہ سے بھی اس طرح پرتپاک سے ملا کرتے کہ دوسروں کو گمان ہوتا شاید یہ کوئی اپنا عزیز ہے۔ یہاں تو ہر کوئی اپنا تھا، ملنے والے کو ایک ملاقات میں ہی ایسا اثر ہوتا کہ ہمیشہ دوبارہ ملاقات کی خواہش ہوتی۔ آپ کی خوش اخلاقی اور تواضع نے عوام تو عوام، آپ کو خواص کا بھی مرکز نظر بنادیا تھا۔ ایک جہاں آپ کا گرویدہ ہوچلا تھا۔ آپ ایک امید اور ایک ایسی کرن کے طور پر نمودار ہوئے تھے، جو صرف دن کے اجالے میں ہی نہیں؛ بلکہ رات کے اندھیرے میں بھی اپنی قوم کو لے کر چلنے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ہمہ وقت مستعد رہا کرتے تھے۔ آپ تقریبا 1991ء تک جمعیۃ علمائے ہند کے باوقار عہدہ پر مکمل شان نیازی سے متمکن رہے۔ چند ناگزیر اسباب و وجوہات کی بنا پر آپ نے جمعیۃ سے 1991ء میں علاحدگی اختیار کرلی۔ 
تصوف و سلوک: 
آپ محض ایک خشک عالم دین نہیں تھے؛ بلکہ رجوع الی اللہ اور توکل علی اللہ آپ کا خاصہ تھا۔ جہاں آپ نے دوسروں کو آباد کرنے کا کام کیا، وہیں اپنے دل کی شمع کو جلائے رکھنے کیلئے اور روحانی قوت اور تعلق مع اللہ کو قوی بنانے کیلئے وقت کے عظیم مفتی اور نامور عالم دین حضرت مفتی مظفر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دامن سے وابستہ ہوگئے، جہاں سے آپ مسلسل سلوک وتصوف کی منزلیں طے کرتے رہے اور اپنے قلب و جگر کو مجلی و مصفی بناتے رہے۔ تصوف و سلوک کے میدان میں بھی اللہ نے آپ کو بلند مقام عطا فرمایا تھا. چنانچہ آپ کو بعد ازاں حضرت مفتی مظفر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے خلافت سے نوازا. حضرت مفتی صاحب کے انتقال کے بعد، اگرچہ آپ کی اپنی شخصیت محتاج تعارف نہیں تھی. پورے ملک میں آپ ایک عظیم قائد اور بے لوث خادم کے طور پر جانے جاتے تھے؛ لیکن پھر بھی آپ نے اپنے لئے ایک مرشد کا انتخاب فرمایا، تاکہ سلوک و تصوف کے ذریعہ دل کی دنیا بھی ہمیشہ آباد رہے، اس میں کوئی زنگ لگنے نہ پائے اور پائے استقامت میں لغزش نہ واقع ہوجائے۔
اس سلسلہ میں آپ نے شیخ المشائخ  علامہ قمر الزماں الہ آبادی دامت برکاتہم کو منتخب کیا۔ اگرچہ آپ نے کہیں باضابطہ کوئی خانقاہ یا ذکر و اذکار کی مجلس نہیں بنائی تھی؛ لیکن تنہائی میں ہمیشہ یاد الہی میں مشغول رہا کرتے تھے۔ آپ کو دوبارہ حضرت مولانا قمر الزماں الہ آبادی دامت برکاتہم سے سند خلافت ملی ہے۔ اس سے حضرت مولاناؒ کی ذات اور تعلق مع اللہ کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں.
آپ اس کی جیتی جاگتی مثال تھے۔
جمعیۃ علمائے ہند سے علاحدگی کے بعد آپ قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کی سرپرستی میں اپنے سفر کو جاری و ساری رکھا۔ اسی درمیان حضرت قاضی صاحبؒ مسلم مجلس مشاورت کے داخلی انتشار کی وجہ سے آل انڈیا ملی کونسل قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب اس ادارہ کو وجود بخشا گیا، تو اس کی دیکھ بھال، اس کو پروان چڑھانے اور اس کو فعال سے فعال تر بنانے کیلئے ایک مرد آہن کی ضرورت پیش آئی، جو ہر حال میں اسے بلندی تک پہونچائے، اس کے عظیم مقاصد سے لوگوں کو آگاہ کرائے، اور اسے قوم و ملت کیلئے بارآور بنائے، جس کیلئے حضرت قاضی صاحبؒ نے آپ كو منتخب فرمایا اور آل انڈیا ملی کونسل کا جنرل سکریٹری منتخب فرمایا۔ آل انڈیا ملی کونسل کے پلیٹ فارم سے آپ نے قوم کی خدمت کیلئے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا. آپ رفاہی کام کے منجھے ہوئے تھے، ہندوستان کے مختلف دور دراز کے گاؤں دیہات اور قصبوں میں کام کرنے کا بہترین تجربہ موجود تھا، اور اسی تجربہ نے آپ کی شخصیت کو آل انڈیا ملی کونسل کیلئے ضروری قرار دیا تھا۔ ملی کونسل میں رہتے ہوئے آپ اس کے کام کاج سے لوگوں کو متعارف کرانے کیلئے وقتا فوقتا خطوط و مضامین بھیجا کرتے تھے، جو عام طور پر ملی کونسل کے اغراض و مقاصد اور انجام دئے گئے کام اور مستقبل کے لائحۂ عمل پر مشتمل ہوا کرتے تھے۔ آل انڈیا ملی کونسل نے جب اپنا مجلہ(ملی اتحاد) شائع کرنے کا فیصلہ کیا تو ایڈیٹر کیلئے آپ سے زیادہ موزوں شخصیت جو کما حقہ اس کام کو پائہ تکمیل تک پہونچائے اور کوئی نہیں تھا. بحیثت ایڈیٹر آپ نے ملی اتحاد کو علمی اور عوامی حلقوں میں محبوب بنا دیا تھا. حضرت قاضی صاحبؒ کی رفاقت نے آپ میں مزید جلا بخشا تھا۔ آپ اپنے کام کے تئیں نہایت مخلص اور مدبر تھے. قاضی صاحبؒ کے مشورہ اور ان کی رائے اور بھی ہمت بڑھا دیا کرتی تھی۔

آل انڈیا تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن کا قیام: سن 2000ء میں آپ نے اپنی خود کی تنظیم قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے پورے ملک کو دیکھا تھا۔ اس بات کا آپ کو شدت سے احساس تھا کہ مسلمانوں کی پس ماندگی کے وجوہات میں سے ایک تعلیمی پس ماندگی بھی ہے۔ آپ نے اپنے چند رفقا کی مدد سے (آل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن) کی بنیاد رکھی۔ آپ نے اس کام کیلئے سب سے زیادہ موزوں اور مناسب سیمانچل کے علاقہ کو سمجھا، جسے ہندوستان کا سب سے پس ماندہ علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ آپ نے اپنے آل انڈيا تعلیمی فاؤنڈیشن کے تحت مکاتب کا جال پھیلانا شروع کیا۔ چھوٹے چھوٹے گاؤں جہاں تعلیم وتعلم کا دور دور تک واسطہ نہیں تھا، مکتب قائم کرکے ان میں علم کی شمع کو جلایا۔ اس مدت میں آپ نے 130 کے لگ بھگ مکاتب قائم کئے۔ بعد ازاں حالات حاضرہ کے پیش نظر (ملی گرلز اسکول) قوم کی بچیوں کیلئے قائم کیا، جہاں تقریبا فی الحال 550 بچیاں زیر تعلیم ہے۔
علاوہ ازیں آپ نے دین اسلام کی اشاعت و ترویج کی خاطر مدارس کے قیام کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے ملک کے مختلف علاقوں میں مدارس کی بنیاد ڈالی۔ جن میں قابل ذکر مدرسہ الفلاح غازی آباد، مدرسہ اسراریہ سنتوش پور کولکاتہ اور مدرسہ الصفہ تعلیم آباد ٹپو کشن گنج ہے۔ ان کے علاوہ تقریبا 150؍ سے زائد مدرسوں کے آپ سرپرست تھے۔ سرپرست برائے نام نہیں؛ بلکہ ہمیشہ ہر طرح کی خبر گیری کیا کرتے تھے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاخ: کشن گنج جیسے پس ماندہ علاقہ میں جہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کا بھی مناسب انتظام نہیں ہے۔ ایسے میں آپ نے کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شاخ کا قیام کا فیصلہ کیا۔ اس کام کو انجام دینے کیلئے آپ کو در در کی ٹھوکریں مقدر میں آئیں، بظاہر نحیف و ناتواں نظر آنے والی یہ شخصیت، عزم و حوصلہ کا پہاڑ ثابت ہوئی. اس وقت کے وزیر اعظم، کانگریس چیئرپرسن، وزیر تعلیم اور بہار کے وزیر اعلی اور بھی دیگر بڑے عہدیداران سے مل کر اس معاملہ کو جلد از جلد مکمل کرانے کی تگ و دو میں لگے رہے؛ لیکن یہ کام جس قدر بڑا تھا اسی قدر صبر آزما بھی ثابت ہورہا تھا۔ سعیٔ بسیار کے بعد بھی جب امید کی کرنیں موہوم نظر آنے لگیں، تو آپ نے کشن گنج کی عوام کو لیکر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا. 12 اکتوبر 2010 کو تقریبا چار لاکھ کی عوام کے ساتھ سڑکوں پر اتر آئے. اپنی مانگ کو ہر حال میں قبول کئے جانے کا مطالبہ کیا، تب کہیں جاکر بہار حکومت نے مطلوبہ زمین 224؍ ایکڑ برانچ کیلئے فراہم کیا. اور دنیا نے دیکھا کہ ایک صوفی منش کے ساتھ اس وقت کی عظیم سیاسی شخصیات بشمول کانگریس صدر اور بہار کے وزیر اعلی نے برانچ کا سنگ بنیاد رکھا. علمی دنیا میں آپ کا یہ عظیم کارنامہ سیمانچل کے علاقہ پر احسان عظیم ہے.
آپ سیمانچل کے علاقہ میں ایمس کیلئے بھی کوشاں تھے لیکن وقت نے ساتھ نہیں دیا اور آپ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

میدان سیاست

جمعیۃ علمائے ہند اور آل انڈیا ملی کونسل میں رہ کر آپ کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوچلا تھا کہ قوم و ملت کی جو خدمت بسہولت سیاست سے جڑ کر ہوسکتی ہے وہ سیاست سے دوری بنائے رکھنے میں ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے. آپ کے پیش نظر حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی زندگی تھی. جو عالم باعمل ہونے کے ساتھ ساتھ عملی سیاست میں بھی سرگرم تھے. چنانچہ آپ نے بھی ‘‘در کف جام شریعت، در کف سندان عشق’’ کے تحت پہلی مرتبہ 1985ء میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا؛ لیکن آپ کو کامیابی نہ مل سکی. اس کے بعد بھی جیسا کہ آپ کی عادت تھی، ہمت سے کام لیتے ہوئے دوبارہ انتخاب میں حصہ لیا؛ لیکن پھر بھی کامیابی نہیں مل سکی۔ بالآخر 2009ء میں کانگریس کے ٹکٹ پر کشن گنج سے پہلی بار فتح کا پرچم بلند کیا اور قوم کی نمائندگی کیلئے ہندوستان کے سب سے عظیم ادارے کا حصہ بنے. 2014 کے پارلیمانی انتخاب میں جب پورا ہندوستان زعفرانی رنگ میں رنگا ہوا تھا، ہر طرف وعدوں اور قسمو‍ں کے ذریعہ عوام کو پھسلایا جارہا تھا، ستارے توڑ کر لانے جیسے ارادوں سے پورا ہندوستان ہل رہا تھا اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ پورا ہندوستان زعفرانی رنگ میں رنگ دیا جائے گا. اس شور شرابہ اور ہنگامہ کے درمیان میں بھی مولاناؒ  کی شخصیت اسی طرح برقرار رہی جیسے پہلے ہوا کرتی تھی. 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں تقریبا دو لاکھ ووٹوں سے آپ نے جیت درج کرائی تھی.

سیاست میں کھٹی میٹھی باتیں ہوا کرتی ہیں. ہر پارٹی کی اپنی کچھ پالیسی ہوا کرتی ہے، اور تمام لیڈران اسی دائرہ میں رہ کر کام کرتے ہیں. جب موجودہ این ڈی اے حکومت نے طلاق مخالف بل پارلیمنٹ میں پیش کیا، اور اسی دن اسے پاس بھی کروا دیا. اس وقت آپ پارلیمنٹ میں موجود نہیں تھے. قوم کے چند افراد نے آپ کی تمام قربانیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے طعن و تشنیع کے وہ تیر چلائے جسے سن کر اور دیکھ کر دل تڑپ جائے. لیکن آپ نے اس بل کو راجیہ سبھا میں روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی. اپنی پارٹی کو اس بات پر آمادہ کیا کہ ہر حال میں اس بل کی مخالفت کی جائے اور آپ کی یہ کوشش بارآور ثابت ہوئی. ممبر آف پارلیمنٹ ہونے کے باوجود آپ میں ہٹو بچو کا مزاج نہیں تھا. جو کچھ اور جیسا پہلے تھا وہی حالت بعد میں چل کر بھی برقرار رہی تھی.

 میدان خطابت

خطابت كی گل افشانی سے كون ناواقف ہوگا، ہر زمانہ ميں اس كی جولانیاں اپنا رنگ دكھائی ہیں؛ حتی انسانيت كا سب سےاشرف ترين اور افضل ترين طبقہ انبیائے كرام بھی اپنے اپنے وقت سب سے بڑے خطيب ہوا كرتے تھے اور خطابت كی جلوه سامانيوں سے مسرور عوام كو دين حق كی طرف بلاتے تھے۔ حق تعالی نے اس تسلسل كو برقرار ركھا اور ہر دور ميں اُس كا سكہ چلا ہے، جس كی تقرير وخطابت اور بيان ميں سحر آفرينی اور جادو بيانی غالب رہی ہے۔ حضرت مولانا اسرار الحق صاحب قاسمیؒ بھی میدان خطابت کے عظیم شہسوار تھے، الله تعالی نے آپ كو ميدان خطابت ميں بڑی مہارت عطا فرمائی تھی، آپ كا انداز نہايت ہی عمده، دلوں كو موه لينے والا، جذبات كو اپيل كرنے والا، خوابيده احساسات كو بيدار كرنے والا، سوئے ہوے ضمیر كو جھنجھوڑنے والا، قوم مسلم كو عمل پر آماده كرنے والا، روح میں تازگی پيدا كرنے والا، جسم وجان ميں ايمانی حرارت كو اجاگر كرنے والا ہوتا تھا۔ آپ كی تقرير ميں آبشاری تسلسل ہوتا تھا، دھیماپن اور نہایت ہی جاذبیت، دل كشی، رعنائی وزيبائی ليے هوے قلب ونظر كی فرحت وانبساط اور شادمانی وشادكامی كا سامان ہوتی تھی۔ 

ابتدائی زمانہ سے ہی آپ نے خطابت کے میدان میں اپنا لوہا منوایا تھا. پارلیمنٹ سے لے کر گلی کوچوں اور شہروں کے ہر طرح کے پروگرام میں پوری قوت کے ساتھ اپنی بات کو کہنے اور عوام الناس کے دلوں میں اپنی بات کو اتارنے کے فن سے ماہر تھے. سیاسی موضوع ہو یا اسلامی موضوع، ہر دونوں موضوع پر سیر حاصل گفتگو کیا کرتے تھے. حالات حاضرہ کے پیش نظر عموما بیداری لانے کی کوشش کرتے، اور اس کام کیلئے آپ نے خطابت کے میدان کا بھر پور استعمال کیا تھا. آپ کا انداز خطابت پیشہ وارانہ نہیں؛ بلکہ مصلحانہ ہوا کرتا تھا۔ یہی وہ جذبہ تھا، جس کی بنا پر آپ ممبر آف پارلیمنٹ ہونے کے باوجود چھوٹے بڑے ہر طرح کے پروگراموں میں شرکت کرلیا کرتے تھے۔ اس زمانہ میں جہاں کچھ شہرت مل جائے تو ان سے ملنے اور وقت لینے کیلئے مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے، پر تکلف انتظامات مکمل کئے جاتے ہیں؛ لیکن آپ کے تواضع و سادگی کا یہ عالم تھا کہ بسا اوقات صرف ایک فون یا ایک خط بھیجنے پر ہی بلا کسی تأمل اور تکلف کے پہونچ جایا کرتے تھے۔ جب آپ علمی گفتگو کرتے، تو آپ علم کے لعل و گہر لٹایا کرتے، اور جب اصلاحی خطاب ہوتا، تو ایسا محسوس ہوتا کہ فی الوقت کوئی ایسا شعبہ حیات نہیں ہے جن کی جانب آپ نے راہنمائی نہ کی ہو.

سیاست گرچہ آپ کا میدان عمل بن چکا تھا، لیکن پھر بھی آپ مدارس و مساجد کے جلسںوں میں دینی اور اصلاحی موضوع پر بات کرتے، سیاست کو اگر موضوع بیان بناتے تو اسے دین اسلام کی روشنی میں اس کی اہمیت اور حالات کے تئیں اس کی ضرورت کی جانب لوگوں کو متوجہ کیا کرتے تھے. قصہ گوئی اور واقعات کے بجائے حقیقت شناسی کا تجزیہ کرتے اور عوام کی بھر پور توجہ اس جانب مبذول کیا کرتے تھے.

 تصنیف و تالیف

آپ کی شخصیت ان چند نابغہ روزگار ہستیوں میں سے ایک تھی، جنہیں اللہ تعالی نے بیک وقت کئی میدان کیلئے منتخب فرمایا تھا. درس و تدریس اور خطابت کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف میں بھی ملکہ حاصل تھا. اشاعت علم کے ہر سہ پہلو کے آپ شہسوار تھے. آپ کی تصنیف کردہ تمام کتابیں فکری موضوعات پر مشتمل ہے. اس سے آپ کی فکری بلندی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے. ایک درجن کے لگ بھگ کتابیں آپ کے قلم سے منصہ شہود میں آئی. آپ کی قابل ذکر تصنیفات یہ ہیں:

(۱)انسانی اقدار (۲)اسلام اور سوسائٹی (انگريزی) (۳)مسلم پرنسل لا اور ہندوستان (۴)سلگتے مسائل (۵)اسلام اور مسلمانوں كی ذمہ دارياں (۶)معاشره اور اسلام (۷)دين فطرت (۸)ہندوستانی مسلمان اور ان كی ذمہ دارياں (۹)عورت اور مسلم معاشره (۱۰)خطبات لسسٹر (۱۱)حقيقت نماز (۱۲)دعا: عبادت بھی، حل مشكلات بھی۔

علاوہ ازیں آپ کے دینی، علمی، فکری مضامین ومقالات ملک کے مختلف اردو اخبارات میں بلا ناغہ شائع ہوا کرتے تھے. مختلف اداروں کے ماہنامہ شماروں میں تسلسل کے ساتھ آپ کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں؛ حتی کہ آپ کا لکھا ہوا مضمون بعض ماہناموں ميں آپ کی وفات کے بعد بھی شائع ہوا ہے  اُن كی اہمیت وافاديت ان شاء الله! برقرار رہے گی۔

2014ء کے پارلیمانی الیکشن کے معا بعد آپ نے مسلم آبادی اور ان کے ووٹ کی اہمیت کے تئیں ایک تجزیاتی مضمون لکھا تھا۔ اس مضمون میں آپ نے کئی انتخابی حلقوں کے متعلق واضح انداز میں لکھا تھا کہ یہاں ہم سے کیا چوک ہوئی ہے اور ہم نے کیوں اپنی سیٹ گنوائی. آپ کا یہ تجزیاتی مضمون تقریبا ہندوستان کے تمام انتخابی حلقوں کو گھیرے ہوئے تھا، جہاں مسلم ووٹرس بنیادی حیثیت رکھتے ہیں. آپ کے اس مضمون کو سامنے رکھ كر مسلمانوں کو 2019 کیلئے لائحہ عمل طے کرنا چاہئے.

آپ کا آخری مضمون جس میں آپ نے علماء کرام کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلایا ہے. اور جاتے ہوئے بھی علماء کیلئے ایک فکر چھوڑ گئے ہیں.

 تواضع و انکساری

آپ انتہائی ساده مزاج، مرنجاں مرنج طبيعت كے مالك تھے، آپ نہايت ہی ظريف الطبع اور خوش اخلاق تھے، تواضع وانكساری كا يہ عالم تھا كہ سياسی اعتبار سے اتنے عظيم عہده پر فائز ہونے كے باوجود بھی كبھی كوئی ركھ ركھاؤ اور اپنے ليے ہٹو بچو كو آپ نے پسند نہيں فرمايا۔ ہميشہ سادگی كو پسند فرماتے، اوڑھنے پہننے ميں بھی، رہنے سہنے ميں بھی، چلنے پھرنے ميں بھی، الغرض زندگی كے ہر نشيب وفراز ميں آپ نے سادگی كو اپنے ساتھ سجائے ركھا۔ 

 خورد نوازی  اور ضيافت ومہمان نوازی

بڑوں كا حد درجہ احترام فرماتے تھے، اپنے چھوٹوں كی قدر فرماتے، جوہری كی نظر پائی تھی، كھرے كھوٹے كی پركھ ركھتے تھے، ذره نوازی، خورد پروری ميں ضرب المثل تھے، ذروں كو آفتاب وماہتاب بنانے كا ہنر جانتے تھے، اچھے كام پر خوشی كا اظہار، حوصلہ افزائی، دل جوئی فرماتے اور تعريفی وستائشی كلمات سے نوازتے اور خوب پیٹھ تھپتھپاتے تھے۔ ضيافت ومہمان نوازی بھی مثالی تھی، خوب دل كھول كر وسعت بھر نوازش فرماتے۔

 سفر آخرت

۷؍ دسمبر ۲۰۱۸ء جمعہ كی رات تھی، آپ نے اس رات ميں تين جلسوں كو خطاب فرمايا، جن ميں سے ايك آپ كا ہی قائم كرده اداره ‘‘دارالعلوم صفہ’’ ميں منعقد كيا گيا تھا، آخری جلسہ كشن گنج شہر ميں حليميہ چوك ميں تھا، جس كو آپ نے خطاب كيا اور رات تقريباً ايك بجے آرام گاه تشريف لے گئے۔ دو گھنٹہ آرام فرمانے كے بعد تين بجے شب اپنے معمول كے مطابق تہجد كی نماز ادا فرمانے كی غرض سے بيدار هوے اور وضو فرمايا، جائے نماز پر جارہے تھے كہ دل كا دوره پڑا، آپ نے گارڈ كو آواز دی، دوڑتا هوا آيا اور وہاں موجود ديگر افراد بھی جمع هوگئے اور آپ كو ڈاكٹركے يہاں لے جانے كے ليے گاڑی پر بٹھايا، آپ نے گاڑی كا دروازه خود ہی سے كھولا، بيٹھے اور فرمايا كہ كہاں لے جارہے هو؟ فرمايا گيا كہ ڈاكٹر كے يہاں، آپ نے  فرمايا: ميں تو الله كے يہاں جارہاہوں، آپ سب مجھے معاف كردينا۔اتنا فرماكر آپ نے جان، جانِ جاناں كے سپرد فرماديں۔ انا لله وانا اليہ راجعون!

يوں تو آپ نے دنيا كے مختلف ملكوں كا سفر فرمايا، ملك كے كونے كونے اور چپے چپے كا دوره كيا؛  ليكن آج كا يہ سفر سب سے منفرد اور الگ تھا، يہاں كا آغاز تو ہے؛ ليكن اس كي انتہا غير متناہی۔ ايك ايسا دائمی سفر جس سے واپسی كي كوئی اميد نہيں۔ بس اب آپ كی ياديں ہيں، نقوش ہيں، قلب وجگر كی تسكين اور فكر ونظر كی باليدگی كے ليے آپ كے علم ريز اور گوہر بار قلم كے نوشتے اور جواهر پارے هيں، جو آپ كو تاريخ كے صفحات پر زنده وتابنده ركھيں گي اور اخلاف كے ليے دائمی وسرمدی رہنمائی كا ذريعہ بھی۔

 گلشن تيری يادوں كا مہكتا ہی رہے گا!

كردار وعمل كی پاكيزگی اور اعلی اخلاق نے آپ كو ہردل عزيزی عطا فرمائی تھی۔ ملك وملت كے تئيں آپ كی بيدار مغزياں ، قربانياں اور شب وروز كی جاں فشانياں تاريخ كے صفحات پر زريں حروف اور سنہرے الفاظ ميں لكھے جائيں گے۔ آپ نے اپنے جذبہ سے جس بھی ميدان ميں قدم ركھا، كامياں آپ كے ہم ركاب هوتی چلی گئيں۔ ايسا نہيں كہ پريشانياں نہيں آئيں؛ آئيں اور يقيناً بہت آئيں؛ ليكن آپ نے اس سے دل گير هوكر ميدان چھوڑا نہيں؛ بلكہ ڈٹ كر مقابلہ كيا اور بہ زبان حال يہ فرمايا كہ ‘‘مشكليں اتنی آئيں كہ آساں هوگئيں’’۔ گويا سب نے خود ہی تھك ہار راستہ چھوڑ ديا اور پردهٔ نيست ميں جاكر ہميشہ ہميش كے ليے چھپ گئيں۔ آپ كی ہمہ جہت خدمات، شش جہت كارنامے، ہشت پہل شب وروز كی كاوشیں ہيں كہ آپ كی يادوں كا گلشن سدا مہكتا ہی رہے گا۔ 

آپ كا جنازه حضرت مولانا منور عالم صاحب كشن گنجی، مہتمم دارالعلوم بہادر گنج، كشن گنج نے پڑھائی۔ محتاط اندازه كے مطابق دو لاكھ سے زائد فرزندان توحيد اور عقيدت مندانِ حضرت پُر اسرارؒ نے شركت فرمائی اور اپنے آبائی گاؤں تاراباری ٹپو كے گور غريباں ميں تدفين عمل ميں آئی۔

الله تعالی آپ كی مغفرت فرمائيں، اعلی علیین ميں مقام كريم عطا فرمائيں، آخرت ساری راحتيں مقدر فرمائيں، پس ماندگان كو صبر جميل كی توفيق اور ملك وملت كو نعم البدل عطا فرمائيں۔ آمين يا رب العالمین۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے