مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحی : حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب رقمطراز ہیں: مہمان نواز، نرم خو، نرم گفتار، بڑوں کا بے حد احترام کرنے والے، خوردوں پر نہایت شفیق و مہربان، تواضع و انکسار کا پیکر، ذکر اور اتباع سنت کا خاص اہتمام، سادہ مزاج، سادہ دل اور سادہ زبان، اچھے مقرر اور ان سے بڑھ کر مایہ ناز مصنف، زود قلم اور خوش رقم، زندگی بھر لوح و قلم کی رفاقت رکھی، اور مختلف موضوعات پر ہزاروں صفحات لکھے، وقت کی حفاظت کے باب میں علماء کیلئے اسوہ، اور سادہ و خاموش طریقہ پر علم و تحقیق کے کام کیلئے بہترین نمونہ، ان شمائل و خصائل کو اپنے ذہن میں ترتیب دیں، یہ ہیں مخدوم و محترم حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی۔

تاریخ پیدائش: آپ کی پیدائش21 شعبان المعظم 1344 بمطابق 7 مارچ 1926 میں دربھنگہ شہر سے پانچ کلومیٹر دور منشی شمس الدین صاحب کے گھر ہوئی۔ آپ کے والد محترم نہایت متقی و پرہیز گار تھے اور اسی وجہ سے علاقہ میں صوفی شمس الدین کے نام سے متعارف تھے۔

آغاز تعلیم: چار پانچ سال کی عمر میں گاؤں کے مکتب میں میاں جی محمد یوسف صاحب مرحوم کے پاس باضابطہ تعلیم کا آغاز ہوا۔ گاؤں کے دستور کے مطابق ابتداء میں آپ کو ہندی اور کچھ پہاڑے وغیرہ یاد کرائے گئے، اس کے بعد پھر قاعدہ بغدادی اور عم پارہ پڑھایا گیا۔  چند دنوں بعد آپ اپنے چچازاد بھائی امیر شریعت خامس مولانا عبد الرحمن کی معیت میں، جو ان دنوں نیپال کے ایک مدرسہ میں استاد تھے، تشریف لے گئے۔ پانچ سال کی عمر، لیکن اللہ نے آپ کو بلا کا ذہین بنایا تھا۔ کچھ ہی دنوں میں قرآن مجید مکمل کرلیا۔ اور اردو کی متداول کتابیں مولانا عبد الرحمن سے پڑھنے کا شرف ملا۔ دو ڈھائی سال بعد، جبکہ آپ سن شعور کو بھی نہیں پہنچے تھے، مدرسہ وارث العلوم چھپرہ منتقل ہوگئے۔ یہاں فارسی کی ابتدائی کتابیں اور عربی درجات کی کتابیں پڑھیں۔ وارث العلوم میں قیام کے دوران آپ نے طلباء کی تقریری انجمن کی بنیاد ڈالی، جس میں ہر ہفتہ مختلف طلباء اپنی تقاریر پیش کیا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں، آپ نے القاسم نام سے ایک پرچہ نکالنا شروع کیا، جس میں طلباء حصہ لیتے تھے۔ آپ کے انہی ذوق و شوق کی بنا پر اللہ نے آپ کو باکمال خطیب اور بے مثال محرر بنا دیا تھا۔

مفتاح العلوم مئو میں: 9 شوال 1359 بمطابق 1940 میں آپ اعلی تعلیم کے حصول کیلئے مفتاح العلوم تشریف لے گئے۔ اس زمانہ میں مولانا حبیب الرحمن اعظمی محدث اعظمی کا علم حدیث میں ہر طرف شور و غوغا تھا۔ آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کیلئے دور دراز سے طلباء آلام و مصائب برداشت کرکے پہنچا کرتے تھے۔ محدث اعظمی کی صحبت اور نظر عنایت کا اثر تا دمِ حیات آپ کے ساتھ قائم رہا۔ زندگی کے ہر موڑ پر آپ نے اپنے استاد محترم کو اپنے ساتھ پایا، اگر کبھی خطوط وغیرہ بھیجنے میں تاخیر ہوجاتی تو حضرت محدث اعظمی صاحب خود خطوط کے ذریعہ حال و احوال دریافت کیا کرتے تھے اور ہمیشہ اتباع سنت اور خلوص نیت کی تلقین فرماتے تھے۔

تحریک آزادی میں حصہ داری: مفتاح العلوم کی طالب علمی کے زمانے میں ہی، 1942 میں ہندوستان چھوڑو تحریک اپنے شباب کو پہنچ چکی تھی۔ ہر جانب آزادی اور غلامی سے خلاصی کی تدابیر اپنائی جارہی تھی، شہر شہر قریہ قریہ آزادی کے متوالے جوش و خروش کے ساتھ سفید فام حکومت کی مخالفت کررہے تھے، آپ نے بھی شوق سے اس میں حصہ لیا۔ مئو کے اسکولی طلباء اور مدارس کے طلباء سب آپ کی زیر قیادت اس تحریک میں حصہ لے رہے تھے۔ مختلف جلوس نکالے گئے، کئی دیگر ایسے کام انجام دیئے گئے جن کی وجہ سے کئی لوگوں کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوگیا۔ نتیجتاً آپ کو تعلیمی سلسلہ ترک کرکے ایک سال کیلئے گھر بیٹھنا پڑا۔ 
ایک سال بعد جب وارنٹ منسوخ ہوگیا تو دوبارہ آپ مئو تشریف لے گئے اور حضرت محدث اعظمی کی زیر سرپرستی 1944 میں دورہ حدیث کی تکمیل فرمائی۔

تدریس کا آغاز: 1364 ہجری میں، محدث اعظمی کی درخواست پر آپ کو باضابطہ مفتاح العلوم کیلئے بحیثیت استاد منتخب کیا گیا، علاوہ ازیں، فتویٰ نویسی اور دیگر اہم امور بھی آپ کو تفویض کئے گئے۔ محنت، جفا کشی، تندہی، کتاب دوستی، تحقیق و جستجو کی فکر مندی نے آپ کو قلیل مدت میں طلباء کے درمیان مقبول بنا دیا۔ طلباء کا رجوع عام آپ کی جانب ہونے لگا۔ تقریر و تحریر دونوں میدانوں میں آپ ہر ممکنہ طور پر طلباء کی راہنمائی فرماتے تھے۔

ندوہ العلماء میں داخلہ: سال کی تکمیل کے بعد آپ وطن تشریف لے گئے، رمضان بعد واپسی ہوئی، بعض وجوہات کی بنا پر مدرسہ سے علیحدگی کی اختیار کرلی اور اپنے استاد محترم کے مشورہ سے ندوہ العلماء میں داخلہ لینے کا ارادہ کرلیا۔ علامہ سید سلیمان ندوی کی شفقت اور ان کی دعائیں شامل حال تھی۔ 1945 میں آپ نے جب ندوہ العلماء میں داخلہ لیا تو اس وقت تقریباً سو طلباء زیر تعلیم تھے۔ آپ نے حضرت شاہ حلیم عطا، مولانا حمید الدین، مولانا محمد ناظم صاحب اور مولانا اسحاق رحمہم اللّٰہ سے کسب فیض کیا۔ حضرت علی میاں ندوی سے استفادہ کا خصوصی موقع میسر ہوا، لیکن ندوہ العلماء میں قیام کی مدت بہت مختصر رہی۔

نگرام کا سفر: ندوہ العلماء کے استاد مولانا اویس ندوی صاحب جو مفتی صاحب کے احوال و کوائف سے واقف تھے انہوں نے اصرار کیا کہ آپ فراغت کے بعد مزید وقت دے رہے ہیں جبکہ ہمارے مدرسہ کیلئے ایک ایسے عالم کی ضرورت ہے جو صدر مدرس کے عہدہ اور مشکوہ شریف وغیرہ کے اسباق کے ساتھ انصاف کرسکیں۔ میری نظر میں آپ مناسب ہیں۔ ان کا اصرار بڑھتا رہا، بالآخر علامہ سلیمان ندوی اور استاد محترم حضرت محدث اعظمی کے مشورہ سے نگرام منتقل ہوگئے۔ نگرام میں قیام کے دوران، عہدہ صدارت، مسجد کی امامت، جمعہ کی خطابت اور طلباء کی تربیت تمام امور بحسن وخوبی انجام دیا۔ اسی زمانہ میں آپ نے اپنی مشہور تصنیف” اسلام کا نظام مساجد” کو مرتب کرنا شروع کیا۔ آپ کی یہ پہلی کاوش تھی، لیکن اس کام کیلئے آپ نے بالاستیعاب مکمل قرآن مجید اور مشکوہ شریف کا از سر نو مطالعہ کیا تاکہ مسجد سے متعلق تمام آیات و احادیث کو یکجا کیا جائے۔ آپ کی اس کاوش کو علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا مناظر احسن گیلانی، محدث اعظمی، مولانا علی میاں ندوی جیسے جبال علم نے سراہا ہے اور بیش قیمتی مشوروں سے نوازا ہے۔ دو سال بعد 1947 میں جب ملک آزاد ہوا تو حالات کے پر خطر ہونے کی وجہ سے آپ دسمبر 1947 میں وطن واپس ہوگئے۔

مدرسہ معینیہ سانحہ کی مدرسی: ملک کے پرآشوب اور ہنگامہ خیز حالات اس بات کی اجازت نہیں دے رہے تھے کہ، دور دراز کے علاقوں کا سفر کیا جائے۔ دوسری جانب اہل خانہ کا اصرار، ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت محدث اعظمی کے مشورہ سے 16 جنوری 1948 کو آپ مونگیر کیلئے روانہ ہوگئے۔ سانحہ نامی اس گاؤں میں مدرسہ نہیں بلکہ مدرسہ معینیہ ایک مکتب تھا، جس میں علاقہ کے چند طلباء ناظرہ اور حفظ کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ دو اساتذہ تھے، اور تعلیم علاقہ کے ایک صاحب ثروت دیندار فاضل بابو کے گھر کے چبوترے پر ہوتی تھی۔ مشکوہ شریف اور ہدایہ وغیرہ پڑھانے کے بعد یکدم فارسی کی ابتدا کرنا مفتی صاحب کیلئے صبر آزما ثابت ہوا، آپ نے استقامت کے ساتھ تدریسی سلسلہ کو جاری رکھا۔ سانحہ میں قیام کے دوران آپ نے تدریس کے علاوہ تقریر و خطابت کے ذریعہ عوام الناس کی راہنمائی کا شغل جاری رکھا۔ چند دنوں میں آپ کی مقبولیت عروج پر تھی۔ ہر کوئی آپ کی محنت شاقہ اور خلوص کی بنا پر آپ کا دلدادہ تھا۔ اسی اثناء میں آپ کو حضرت محدث اعظمی کی جانب سے ڈابھیل جانے کی پیشکش ہوئی۔ اس وقت ڈابھیل میں حضرت مولانا یوسف بنوری صدر المدرسین تھے۔

مدرسہ تعلیم الدین ڈابھیل کی درسگاہ میں: آپ 1 محرم 1368 ہجری کو ڈابھیل پہنچے۔ مولانا اسلام الحق اعظمی اور مولانا اطہر مبارک پوری سے قدیم شناسائی تھی جو وہاں پہلے سے موجود تھے۔ آپ کے ذمہ جلالین شریف، ہدایہ، مشکوہ شریف اور ابن ماجہ کے اسباق دیئے گئے۔ نوجوانی کا عالم تھا، مفتی صاحب اپنی سوانح میں لکھتے ہیں کہ طلباء میری عمر سے کچھ ہی کم ہوں گے۔ تقریباً ایک ماہ بعد آپ کی طبیعت خراب ہوگئی۔ علاج و معالجہ سے کچھ افاقہ نہیں ہوا۔ مولانا یوسف صاحب بنوری جو خود طبیب حاذق تھے، انہوں نے بھی کئے نسخے لکھ کر دیئے لیکن”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” بالآخر آپ نے علامہ سید سلیمان ندوی اور اپنے استاد محترم محدث اعظمی کے مشورہ سے ڈابھیل چھوڑ دیا اور دوبارہ سانحہ تشریف لے آئے۔

مدرسہ معینیہ کی تعمیر: ڈابھیل سے واپسی کے بعد آپ نے سانحہ میں مستقل قیام کا ارادہ فرما لیا۔ آپ نے مدرسہ کی تعمیر کیلئے جد وجہد شروع کی اور چند دنوں میں زمین اور دیگر ضروریات جمع ہوگئے۔ 12 دسمبر 1949 کو باضابطہ مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی۔ آپ نے چھٹی کے اوقات کو بھی مدرسہ کی تعمیر و ترقی کے لئے وقف کر دیا تھا۔ مسلسل کوشش اور سعی پیہم کے نتیجہ میں دو کشادہ کمرے، ایک آفس اور ایک وسیع و عریض چبوترہ کا کام مکمل ہوگیا۔ سانحہ میں قیام کے دوران علامہ سلیمان ندوی کے توسط سے مولانا منت اللہ رحمانی سے گہرا تعلق پیدا ہوگیا۔ آپ وقتا فوقتاً خانقاہ میں حاضر ہوا کرتے تھے اور وہاں موجود کتابوں سے بھر پور استفادہ کیا کرتے تھے۔ چنانچہ 1952 میں جب مدرسہ معینیہ کی پختہ عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا تو اس وقت شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی مونگیر میں قیام پذیر تھے۔ مولانا منت اللہ رحمانی اور شیخ الاسلام کے دست مبارک سے اس نیک کام کو شروع کیا گیا۔

کتب خانہ رحمانی کے افتتاحی پروگرام میں شرکت: مونگیر میں حضرت امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی نے کتب خانہ کی افتتاحی تقریب میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اور حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب کو مدعو کیا تھا۔ مفتی صاحب نے اس پروگرام میں کتب خانے کی اہمیت و افادیت پر ایک بیش قیمتی  مقالہ پیش کیا۔ آپ کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ یہ مقالہ مستقبل کیلئے کیا حیثیت رکھتا ہے۔ پروگرام کے اختتام پر آپ مدرسہ تشریف لے آئے۔ اسی درمیان رمضان المبارک کی چھٹی گزارنے کیلئے آپ اپنے وطن مالوف روانہ ہوگئے۔ 
سانحہ میں رمضان المبارک میں دارالعلوم دیوبند سے ایک سفیر پہنچے، انہوں نے علاقے کے مختلف افراد سے مفتی ظفیر الدین صاحب کے متعلق معلومات اکٹھا کرنا شروع کردیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب اس علاقہ میں دیوبند سے کوئی سفیر بھیجا گیا ہو، لوگ حیرت زدہ تھے کہ یہ کیوں مفتی صاحب کے متعلق استفسار کرتے پھر رہے ہیں۔ 1375 ہجری ذیقعدہ کے دوسرے ہفتہ میں آپ کو دارالعلوم دیوبند کا خط ملا، جس میں دارالعلوم کے لیٹر پیڈ پر آپ کا نام جلی حروف میں لکھا ہوا تھا۔ حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کا خط تھا جس میں آپ کو دارالعلوم دیوبند کی جانب سے پیشکش کی گئی تھی، اور آپ سے آپ کی تصانیف اور مقالات بھیجنے کی درخواست تھی۔ ان امور کی انجام دہی کے بعد 1 ستمبر 1956 کو حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب کا دوسرا دستی خط موصول ہوا کہ آپ کی تقرری ہوچکی ہے۔ آپ دیوبند تشریف لے آئیں۔ 
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
دارالعلوم دیوبند کو آپ نے اپنی زندگی کے تقریباً پچاس سال دیئے، ان ایام میں آپ نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔

مولانا نور عالم خلیل امینی لکھتے ہیں: "مفتی صاحب نے ہندوستان کے عصر حاضر کے سب سے بڑے محدث اور اسماء الرجال کے فاضل یگانہ حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی (محدث اعظمی) رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، مولانا علامہ سید سلیمان ندوی، امیر شریعت مولانا سید منت اللہ رحمانی، مولانا عبد الرحمن امیر شریعت بہار و اڑیسہ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب، مولانا شاہ فضل اللہ کی صحبت سے نہ صرف فیض پایا، بلکہ ان سے خوب خوب روحانی، علمی اور فکری پیاس بجھائی، اسی لئے نہ صرف یہ کہ ان کا علم شریعت ٹھوس ہے، بلکہ ان کے ہاں فکری استقامت، تجربے کی پختگی اور زبان و قلم کی راست روی کا جو امتیاز نظر آتا ہے، وہ انہیں اساطین علم و کمال و طریقت کا فیض ہے، جو مفتی صاحب نے خدا کی توفیق سے اچھی طرح جذب کیا تھا۔”

دارالعلوم دیوبند میں آمد: 19 ستمبر 1956 میں آپ تقریباً صبح ساڑھے پانچ بجے دیوبند پہنچے۔ آپ کے استقبال کیلئے آپ کے شاگردوں کی بڑی تعداد اسٹیشن پر موجود تھی۔ اسی دن مفتی صاحب حضرت مہتمم قاری طیب صاحب کی خدمت میں پیش ہوئے۔ آپ کو دیکھ کر قاری صاحب نے خوشی کا اظہار فرمایا اور ضابطہ کی کاروائی کا حکم جاری کردیا۔ آپ کی رہائش اور لوازمات کا مدرسہ کی جانب سے انتظام کردیا گیا تھا۔ آپ کا تقرر شعبہ تبلیغ کیلئے ہوا تھا اور اسی کی مناسبت سے حضرت قاری صاحب کے مشورہ سے آپ نے اپنے پہلے کام کا آغاز کیا۔ 

جماعت اسلامی کے دینی رجحانات: آپ نے محض دو مہینے کی قلیل مدت میں عرق ریزی اور کتابوں کی ورق گردانی کرکے کتاب کا مسودہ تیار کرلیا۔ حضرت مہتمم صاحب کے مشورہ سے کتاب کا نام” جماعت اسلامی کے دینی رجحانات” طے کیا گیا۔ یہ آپ کی پہلی کاوش تھی جسے دارالعلوم کے ارباب فضل و کمال کی مجالس میں پزیرائی حاصل ہوئی اور اس کی طباعت مکتبہ دارالعلوم سے ہوئی۔ 

 دارالافتاء میں بحیثیت مرتب فتاویٰ: 6 ذیقعدہ 1376 میں آپ کو شعبہ تبلیغ سے دارالافتاء میں منتقل کردیا گیا۔ یہاں مفتی مہدی حسن صاحب کی ماتحتی میں  اپنے امور انجام دینے تھے۔ دارالافتاء میں منتقلی کے بعد آپ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے حضرت مہتمم صاحب نے فرمایا: "میں چاہتا ہوں یہاں اہل علم کا اضافہ ہو، سیاسی لوگ بہت ہیں اہل علم ملتے نہیں ہیں، آپ جم کر رہیں، ان شاءاللہ کوئی تکلیف نہیں ہونے دی جائے گی”. حضرت مہتمم صاحب جیسی عظیم شخصیت کا یہ تبصرہ مفتی ظفیر صاحب کی علمی صلاحیت کو بتانے کیلئے کافی ہے۔ 

آپ نے محنت و جانفشانی سے ترتیب فتاویٰ کا کام شروع کیا۔ اللہ نے آپ کے وقت میں بہت برکت رکھی تھی۔ جو کام دہائیوں میں ہونا تھا اور جس کام کیلئے دہائیوں کا حساب لگایا گیا تھا، آپ نے اس کام کو قلیل مدت میں بحسن و خوبی اختتام تک پہنچا دیا تھا۔ دو مہینے بعد آپ کو ترتیب فتاویٰ سمیت کار افتاء کی ذمہ داری بھی دے دی گئی۔ اس طرح آپ نے باضابطہ فتوٰی نویسی کا سلسلہ بھی جاری کردیا تھا۔ ترتیب فتاویٰ کا کام آپ نے بہت جلد مکمل کرلیا تھا لیکن پہلی جلد کی اشاعت 1381 ہجری میں ہوئی اور بارہویں جلد کی طباعت 1402 ہجری میں مکمل ہوئی۔ بارہ جلدوں پر مشتمل آپ کا یہ کام اپنے آپ میں شاہ کار ہے، جس سے استفادہ کرکے دیگر افراد نے بھی ترتیب فتاویٰ میں ہاتھ لگایا ہے۔ 

ترتیب کتب خانہ: دارالعلوم کا کتب خانہ معیاری کتابوں کا مسکن تھا۔ نادر و نایاب کتابیں اور مخطوطات کثیر تعداد میں موجود تھیں۔ مختلف علوم و فنون کی معرکۃ الآرا تصنیفات سے دارالعلوم کا کتب خانہ اہل علم کیلئے مرجع بنا ہوا تھا لیکن کتب خانہ کی بے ترتیبی نے اس میں الجھاؤ پیدا کردیا تھا۔ وقت مقررہ پر کتابوں کی دستیابی اور تلاش و یافت جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ ایک سو سال پر محیط یہ کتب خانہ کسی ایسے فرد کی تلاش میں تھا جو اس کے گیسوئے برہم کو سنوار کر قابل دید بنا سکے۔ اسے مرتب کرکے ہر کسی کیلئے بسہولت قابلِ استفادہ بنا سکے اور یہ کام جو ایک صدی سے اپنی بے ترتیبی پر ماتم کناں تھا اس کی تشکیل و تعمیر کیلئے مفتی ظفیر الدین صاحب کا انتخاب عمل میں آیا۔ جس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کثیر عملے کی ضرورت تھی، مفتی صاحب نے جفا کشی، تندہی، خلوص و للہیت کے جذبہ سے سرشار ہوکر دارالعلوم دیوبند کو ایک مرتب اور منظم کتب خانہ بنا کر پیش کردیا تھا۔ 

مختلف کتب خانوں کا معائنہ: اس کام کو شروع کرنے سے قبل آپ نے باجازت اہتمام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، رامپور اور پٹنہ خدا بخش لائبریری کا سفر کیا۔ ان کتب خانوں کی ترتیب کا جائزہ لیا۔ ان کے طریق کار کو سمجھا اور پرکھا۔ وہاں کے منتظمین سے تبادلہ خیال کیا اور نئے عزم و استقامت کے ساتھ دیوبند آکر آپ نے اپنے کام کا آغاز کیا۔ 

تمام کتابوں کو اولا باعتبار زبان الگ الگ حصوں میں تقسیم کیا گیا، عربی، فارسی، اردو نیز دیگر زبانوں کے علیحدہ خانے بنائے گئے۔ بعد ازاں، فنون کے اعتبار سے کتابوں کو منتخب کرکے الگ کیا گیا۔ تفسیر، اصول تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ، علم کلام، علم تصوف، اسرار شریعت اس طرز پر کتابوں کو رکھا گیا اور پھر ان فنون کی مختلف اقسام کی مختلف کتابوں کو از سر نو ترتیب دے کر سجایا گیا۔ 

دارالعلوم کا کتب خانہ مخطوطات سے بھرا ہوا تھا لیکن مرتب نہ ہونے کی وجہ سے استفادہ کافی مشکل تھا۔ آپ نے تمام مخطوطات کو الگ کیا۔ تمام کا تعارف اس طور پر لکھا کہ مصنفین کے مختصر حالات، کتاب کا فن، کتاب کی اہمیت دیگر کتابوں کے حوالہ جات تمام چیزوں کو آپ نے کتابی شکل میں ترتیب دیا۔ مخطوطات کا یہ شاہکار دو جلدوں میں دارالعلوم سے شائع کیا گیا۔ اس سے قبل طلباء کیلئے کتب خانہ سے استفادہ کی گنجائش نہیں تھی، آپ نے مہتمم صاحب سے درخواست کرکے  کتب خانہ کو طلباء کیلئے عام کرایا اور طلباء کی سہولت کے پیش نظر مزید دو گھنٹوں کا اضافہ بھی آپ کی درخواست کا مرہونِ منت ہے۔ 

ماہانہ مجلہ کا اداریہ: 1385 ہجری کو شوری کی مجلس میں آپ کو بلایا گیا۔ اس وقت دارالعلوم کے ماہانہ مجلہ میں اداریہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ آپ سے اداریہ لکھنے کی درخواست کی گئی۔ آپ نے درخواست کو مشروط کرکے قبول کرلیا۔ آپ کی شرط یہ تھی کہ ٹائٹل پر مدیر کے خانہ میں میرا نام نہ لکھا جائے۔ یہ لوگ تھے جن کے خلوص و وفا کی قسمیں کھائی جاسکتی ہیں۔ آپ کی شرط قبول کی گئی اور پھر آپ نے دارالعلوم کے ماہانہ مجلہ میں اپنے علمی و تحقیقی مضامین سے چار چاند لگا دیئے۔ 

دیگر شعبے جات سے تعلق: عربی مجلہ الداعی کی نگرانی کیلئے کمیٹی منتخب کی گئی، جس میں آپ کو بھی شامل کیا گیا۔ مولانا بدر الحسن صاحب کو جب حضرت نانوتوی کی تصانیف کے مطالعہ کیلئے منتخب کیاگیا تو اس کی نگرانی بھی مفتی صاحب کے حصہ میں آئی۔ دارالقضاء کا قیام عمل میں آیا تو کمیٹی میں آپ کا نام بھی شامل کیا گیا۔ اہتمام یا حضرت مہتمم صاحب کے نام جو علمی خطوط آتے تھے ان کے جوابات بھی آپ لکھا کرتے تھے۔ شعبہ مطالعہ قرآنی کا آغاز آپ کی نگرانی میں کیا گیا۔

دیگر اداروں کی جانب سے پیشکش: امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی صاحب نے بارہا آپ سے امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ میں قیام کی درخواست کی۔ حتی کہ انہوں نے حضرت قاری طیب صاحب سے بھی اس سلسلہ میں بات کی لیکن قاری طیب صاحب نے آمادگی ظاہر نہیں کی۔ البتہ جامعہ رحمانی مونگیر اور امارت شرعیہ کے مختلف علمی کام آپ نے انجام دیئے ہیں اور امارت شرعیہ کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے ہوئے (امارت شرعیہ دینی جد وجہد کا روشن باب) مرتب فرمایا۔ ندوہ العلماء کے پچاسی سالہ اجلاس سے قبل حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی نے آپ کو باجازت اہتمام ندوہ العلماء میں چند امور کی انجام دہی کیلئے طلب کیا۔ ندوہ العلماء کا کتب خانہ جسے مرتب کرنے کیلئے حضرت علی میاں ندوی نے چار سال تک مستقل ملازم رکھا تھا لیکن کام نہیں ہوسکا۔ مفتی صاحب نے دیگر امور کے ساتھ تین مہینے کی مختصر مدت میں کتب خانہ کو مرتب کردیا۔ دارالعلوم دیوبند اور ندوہ العلماء دونوں عالمی ادارے کے کتب خانے مفتی صاحب کی علم دوستی اور خلوص و صداقت کی بین دلیل ہے۔ کام کی تکمیل کے بعد مولانا علی میاں ندوی نے آپ سے ندوہ العلماء میں مستقل قیام کی پیشکش کی لیکن دارالعلوم کی محبت نے کہیں اور قیام کی اجازت نہیں دی۔ 

بیعت و سلوک: منکسر المزاجی، تواضع، خاکساری، عبادات کی پابندی اور خشیت الٰہی آپ میں اللہ نے ابتدا سے ہی ودیعت رکھا تھا۔ ابتدا میں جب آپ امیر شریعت خامس مولانا عبد الرحمن صاحب کی زیر سرپرستی حصول علم کی راہ پر گامزن تھے، تو اس زمانہ میں  اوراد و وظائف اور تسبیحات کے سلسلہ میں ان سے رابطہ قائم کئے ہوئے تھے۔ فراغت کے بعد خط و کتابت کے ذریعہ یہ سلسلہ علامہ سید سلیمان ندوی سے بھی جاری رہا لیکن اس وقت تک آپ نے باضابطہ کسی کو اپنا راہبر و مرشد نہیں بنایا تھا۔ ایک دن موقع غنیمت جان کر آپ نے مولانا عبد الرحمن صاحب سے بیعت کی درخواست کی۔ مولانا عبد الرحمن صاحب نے دیگر اکابرین کی جانب رغبت دلائی۔ آپ نے علامہ سید سلیمان ندوی کو اس سلسلہ میں خط لکھا اور اپنا منشاء بھی ظاہر کیا کہ یا تو آپ بیعت فرمالیں یا شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے متعلق مشورہ سے نوازیں۔ بالآخر آپ نے حضرت مدنی کا دامن تھام لیا اور یہی وجہ ہے کہ دارالعلوم میں تقرری کے باوجود آپ مستقل حضرت مدنی کے درس میں شریک ہوتے تھے۔ حضرت مدنی بعدکی وفات کے بعد  آپ نے حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب کا دامن تھاما۔ قاری صاحب نے آپ کو خلافت سے نوازا تھا۔ حضرت مولانا محمد علی مونگیری کے پوتے مولانا فضل اللہ صاحب جو صاحب نسبت بزرگ اور دارالعلوم کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے انہوں نے آپ کو از خود خلعت خلافت سے نوازا تھا۔ 

دارالافتاء میں واپسی: سن 1403 ہجری میں آپ کو کتب خانہ سے دوبارہ دارالافتاء میں منتقل کردیا گیا۔ فتویٰ نویسی کے علاوہ آپ کے ذمہ رسم المفتی اور در مختار کا درس بھی شامل کردیا گیا۔ مفتی صاحب کو دارالعلوم نے مختلف شعبوں میں آزمایا اور ہر جگہ مفتی صاحب کے کام کو سراہا گیا۔ انہوں نے اپنا کام محنت اور شوق سے کیا، کبھی کوتاہی یا دیگر عوارض کی وجہ سے کام میں رخنہ نہیں پڑنے دیا۔ مفتی سعید صاحب پالنپوری لکھتے ہیں کہ مفتی صاحب نے تقریبا ایک لاکھ فتاوی لکھے ہیں۔  

تصنیفات وتالیفات: آپ زود قلم تھے، آپ کے قلم میں روانی و جولانی تھی، جب لکھتے تو لکھتے چلے جاتے۔ الفاظ نہایت مناسب اور متوازن ہوا کرتے تھے۔ الفاظ کے ہیچ و خم اور مترادفات کی بھر مار کے بجائے انداز بیان اور مواد پیش نظر رکھتے تھے۔ آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں سے بعض کتابیں شاملِ نصاب بھی ہے۔ آپ کی کئی کتابوں کا ترجمہ مختلف زبانوں میں کیا جاچکا ہے۔ آپ کے مقالات و مضامین ان مرتب کتابوں کے علاوہ ہیں۔ اگر تمام مضامین و مقالات کو یکجا کیا جائے تو یہ عظیم علمی سرمایہ ثابت ہوگا جو کئی جلدوں پر مشتمل ہوگا۔ آپ کی مشہور تصانیف یہ ہیں:

جرم و سزا کتاب و سنت کی روشنی میں

امارت شرعیہ دینی جد وجہد کا روشن باب

اسلام کا نظام امن

درس قرآن

اسلام کا نظام حیات

اسلامی حکومت کے نقش و نگار

اسلام کا نظام تعمیر سیرت

اسلام کا نظام مساجد

ان کے علاوہ فتاویٰ دارالعلوم کی بارہ جلدیں آپ کی محنت شاقہ کا روشن باب ہے۔ 

سفر آخرت: ضعف، کمزوری اور بچوں کے اصرار بسیار کے بعد آپ نے 2008  میں دارالعلوم سے سبکدوشی کا فیصلہ کرلیا۔ تقریبا زندگی کے 53  سال آپ نے دارالعلوم  دیوبند کو  دیا تھا۔ ان ایام میں یہاں کے سرد و گرم حالات کو آپ نے بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا تھا۔  لیکن کبھی آپ نے اپنے دامن پر کوئی داغ نہیں لگنے دیا۔ آپ فطرتا کم گو اور گوشہ نشین تھے اور اخیر تک آپ اپنے ان اصولوں پر کار بند رہے ۔  بالآخر طویل راہ کا یہ مسافر جس نے تمام عمر کتابوں کی ورق گردانی اور قلم کی روانی میں گزاردیا تھا 31 مارچ بروز جمعرات 2011  کو ہمیشہ کے لئے اپنے محبوب کی بارگاہ میں پہنچ گیا۔  علم و عمل کا عظیم سرمایہ جس نے متعدد ملکی اور قومی علمی تنظیموں کی سرپرستی کا فریضہ انجام دیا تھا اور بے شمار سیمینار میں اپنے وقیع مقالات سے علمی فضا کو قائم رکھا تھا وہ  سدا کے لئے لاکھوں چاہنے والوں کو چھوڑ کر دار آخرت کو کوچ کرگیا ۔  بروز جمعہ آپ کی تدفین  آپ کے قائم کردہ ادارہ مدرسہ شمس العلوم کے احاطہ میں عمل میں آئی۔

کتنے عظیم لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے

جی چاہتاہے ان کے نقش قدم چومتا چلوں

Related Posts

2 thoughts on “مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحی : حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے