مسلمان لڑکیوں میں بڑھتا ہوا فتنہ ارتداد

 

مسلمان لڑکیوں میں بڑھتا ہوا فتنہ ارتداد

علامہ انور شاہ کشمیری فرماتے ہیں: "ایک مسلمان کا مرتد ہوجانا بھی مسلمانوں کے لئے مصیبت کبری ہے۔ بالخصوص عورتوں کا ارتداد معاذ اللہ، معاذ اللہ بڑا مہلک ہوگا، خدا نہ کرے کہ عورتوں میں اس قسم کی تحریک سرایت کر جائے”۔علامہ انور شاہ کشمیری نے ایک صدی قبل جس خدشے کا اظہار کیا تھا آج وہ حقیقت کا روپ دھار کر مسلم معاشرہ کو ڈس رہا ہے۔ مسلمان لڑکیوں میں بڑھتے ہوئے فتنہ ارتداد نے مسلم معاشرہ کی جڑوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ فتنہ ارتداد مسلم لڑکیوں میں پھیل رہا ہے یہ مقام فکر و تدبر ہے۔ فتنہ ارتداد کی روک تھام اور ایمانی تحفظ و بقا کے سلسلہ میں مستقل لائحہ عمل بنانے اور زمینی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔اور ان اسباب و وجوہات کو حل کرنے کی ضرورت ہے جن پر دہائیوں سے باتیں ہورہی ہیں لیکن ان کو حل کرنے کی خاطر خواہ کامیاب کوشش بظاہر نظر نہیں آرہی ہے۔ جو حضرات فتنہ ارتداد کے سد باب کے لئے کمر بستہ ہیں یا تو ان کی رسائی بہت محدود ہے یا ان کے وسائل  بڑے پیمانے پر کام کرنے سے مانع ہیں۔جن کو یہ دونوں چیزیں حاصل ہیں ان کی ترجیحات میں اب تک یہ فتنہ ارتداد شامل نہیں ہوسکا ہے۔ حالانکہ فتنہ ارتداد ایسا زہر ہلاہل ہے جو نہ صرف مسلم معاشرہ کو ذلت و نکبت کی جانب دھکیل رہا ہے بلکہ اس کی وجہ سے آنے والی نسل بھی مذہب اسلام سے دور اور بیزار ہوسکتی ہے۔  

musalman larkiyun main barhta hua fitna irtidad, asbab w wojohat
مسلمان لڑکیوں میں بڑھتا ہوا فتنہ ارتداد

 

مسلمان لڑکیوں میں فتنہ ارتداد کے اسباب و وجوہات

مسلمان لڑکیوں میں بڑھتے ہوئے فتنہ ارتداد کے اسباب و وجوہات میں غیرت ایمانی کی کمی، کفر و شرک سے عدم کراہت، غیر شرعی رسم و رواج کا چلن، دینی تعلیم و تربیت کی کمی،  مخلوط نظام تعلیم و غیرہ سر فہرست ہیں۔ یہ وہ اسباب و وجوہات ہیں جن پر دہائیوں سے مفکرین قوم و ملت اور قائدین بحث و مباحثہ اور ڈیبیٹ کرتے آرہے ہیں، فتنہ ارتداد کی ہولناکیوں سے وقتا فوقتا عوام الناس کو آگاہ کرنے اور ان میں دینی غیرت و حمیت پیدا کرنے کی سعی بھی کی جاتی رہی ہے اور یہ کوشش مختلف طریقوں سے اب بھی جاری ہے۔ لیکن فتنہ ارتداد کے اسباب و وجوہات تقریبا آج بھی اسی طرح برقرار ہیں جیسے دہائیوں قبل اس کے عفریت نے مسلم قوم کو جھنجھوڑ دیا تھا۔فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں اسباب کچھ اور تھے اور آج کے اسباب میں کچھ تبدیلی ہوگئی ہے۔

مخلوط نظام تعلیم

علم کی اہمیت ( علم کی اہمیت  پر مضمون پڑھنے کے لئے مذکورہ لنک پر کلک کریں) ہر دور اور ہر زمانے میں مسلّم رہی ہے۔ تعلیم انسانی زندگی کا زیور ہے۔ مذہب اسلام نے بنیادی دینی تعلیم کو تمام مسلمان مرد و عورت کے لئے فرض قرار دیا ہے۔ مذہب اسلام نے جس قدر حصول تعلیم پر زور دیا ہے، دنیا کے دیگر مذاہب میں ایسے احکامات نہیں پائے جاتے ہیں۔ لیکن مذہب اسلام کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس نے تمام طرح کے احکامات اور اوامر و نواہی کے لئے حدود متعین کئے ہیں۔ اسلام نے اپنے متبعین کی زندگی کے کسی بھی گوشہ کو تشنہ نہیں چھوڑا ہے۔ مذہب اسلام نے جہاں حصول تعلیم کے لئے ابھارا ہےوہیں اس نے طریقہ تعلیم، تعلیم اور حصول تعلیم کے لئے کچھ حدود و قیود بھی بیان کئے ہیں۔ حصول تعلیم کے وہ ذرائع جو کسی بھی طرح شرعی حدود سے ٹکراتے ہیں ناجائز اور ناقابل عمل ہے۔ موجودہ دور میں مخلوط نظام تعلیم ، بے حیائی و بے غیرتی کو فروغ دینے کا سب سے سہل اور آسان طریقہ ہے۔ حصول تعلیم کے ذرائع ضرور وسیع ہوئے ہیں لیکن طریقہ کار میں جو تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں وہ اسلامی روح کے منافی ہے۔  مخلوط نظام تعلیم نے مسلم بچوں اور بچیوں میں غیر شعوری طور پر بے حیائی کو فروغ دیا ہے۔ ان میں غیر محسوس طریقے پر اجنبیوں سے بے محابا اختلاط کا رجحان پیدا ہو رہا ہے۔ علامہ اقبال نے عورتوں کی تعلیم اور ان کے لئے متعین کردہ شرعی حدود کو بہت خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے: "مسلمان عورت کو بدستور اسی حد کے اندر رہنا چاہئے جو اسلام نے اس کے لئے مقرر کردی ہے اور جو حدکہ اس کے لئے مقرر کی گئی ہےاسی کے لحاظ سے اس کی تعلیم ہونی چاہئے”۔مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلہ میں والدین کو ازسر نو سوچنے کی ضرورت ہے۔ قوم کے قائدین اور صاحب ثروت افراد کو اس جانب خاطر خواہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مخلوط نظام تعلیم سے بچنے اور بچیوں کو پاکیزہ ماحول میں تعلیم دلانے کے لئے بندہ کی رائے میں واحد سبیل یہ ہے کہ اپنے ادارے قائم کئے جائیں۔ قوم کے قائدین اور اصحاب خیر افراد کو اپنی ترجیحات بدلنے کی ضرورت ہے، فتنہ ارتداد سے مسلم لڑکیوں کو بچانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ زمینی سطح پر گاؤں گاؤں اور ضلع ضلع میں محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسروں پر تکیہ کرنے کے بجائے اپنے سہارے اپنی بچیوں کو فتنہ ارتداد سے بچانے کے لئے مضبوط اور فوری تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ قوم کے قائدین کو چاہئے کہ وہ ذاتی طور پر یا عوامی طور پر جگہ بجگہ اپنے اسکول، کالج اور تعلیمی اداروں کے قیام پر زور دیں۔ ہمارا کم سے کم منصوبہ ہو کہ ملک کے کسی گوشہ میں بسنے والا کوئی مسلمان ایسے اداروں کا رخ نہ کرے جہاں مذہب بیزاری اور مخلوط نظام تعلیم کے پس پشت بے حیائی کو فروغ دیا جاتا ہو۔(تعلیم نسواں کی ضرورت اور موجودہ دور کے مسائل پر تفصیلی مضمون پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں) تعلیم نسواں کی ضرورت سمیت موجودہ دور کے مسائل پر گہری نظر رکھنا ضروری ہے تاکہ تعلیم رشد و ہدایت کا ذریعہ بنے نہ کہ ضلالت و گمراہی کے اسباب پیدا کرے۔ مذہب اسلام نے عورتوں کی عفت و عصمت کو اتنی اہمیت دی ہے کہ ان کے بعض بنیادی احکامات تک میں تخفیف پیدا کی گئی ہے۔ دوران حج صفا و مروہ کے درمیان سعی (دوڑنا) ارکان میں سے ہے، لیکن یہاں بھی اسلام نے عورتوں کو دوڑنے کے بجائے محض تیز قدموں کے ساتھ چلنے کی اجازت دی ہے۔ ایسے پاکیزہ مذہب کے ماننے والے اگر اپنے مذہب سے رو گردانی کریں، شرعی حدود و قیود کو پھلانگ جائے، اسلام کے نظام عفت و عصمت (اسلام کے نظام عفت و عصمت  پر مکمل مضمون پڑھنے کے لئے مذکورہ لنک پر کلک کریں) سے بغاوت کر جائے تو ان سے بڑا حرماں نصیب اور کون ہوگا۔

موجودہ وقت میں فتنہ ارتداد کے اسباب و وجوہات میں موبائل کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ موبائل ایک ایسا آلہ ہے جو انسان کو دنیا بھر کی غلط اور صحیح معلومات لمحوں میں فراہم کرتا ہے لیکن اس کا بیشتر استعمال ایسے امور کی انجام دہی کے لئے ہوتا ہے جو شرعی طور پر حرام و ناجائز اور اخلاقی طور پر حد درجہ بُرے سمجھے جاتے ہیں۔ موبائل کی وجہ سے ایسے لوگوں سے رابطہ کی راہیں ہموار ہوتی ہیں جن میں شرم و حیا اور دین داری تو کجا غیرت و حمیت نام کی کوئی شے نہیں ہوتی ہے۔ بسا اوقات یہ موبائل غیروں سے رابطہ کا سبب بنتا ہے اور پھر یہ رابطہ فتنہ ارتداد کی سبیلیں پیدا کرتا ہے۔ شرم و حیا کا جنازہ اس حد تک نکل گیا ہے کہ مسلمان لڑکیاں ناچ گانے کی ویڈیوز بناکر دعوت نظارہ پیش کررہی ہیں، اور  ماں باپ کی غیرت کا حال یہ ہے کہ بچیوں کی فحاشی و عریانیت کو تہذیب و ثقافت کا نام دیتے نظر آرہے  ہیں۔  جب  انسان کے دل سے شرم و حیا ختم ہوجائے تو پھر اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل جاتا ہے۔  

غیرت ایمانی اور کفر سے کراہت

ایمانی غیرت اور کفر سے عدم کراہت بھی ایک اہم اور بنیادی سبب ہے۔ حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے دس باتوں کی وصیت فرمائی، پہلی وصیت یہ تھی کہ اگر تمہیں قتل کردیا جائے یا زندہ جلا دیا جائے پھر بھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ صحابہ کرام اور بعد کے ادوار میں مسلمانوں کی ایمانی غیرت نے کبھی اس بات کو پسند نہیں کیا کہ کوئی ان کے ایمان اور مذہب کے متعلق کچھ غلط باتیں کہہ سکیں۔ محمد بن قاسم نے اسی ایمانی غیرت کی للکار پر راجہ داہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔ لیکن موجودہ دور میں سوشل میڈیا، اسکول، کالج، یونیورسٹی اور آفس و غیرہ میں مخلوط نظام کی وجہ سے صرف مرد و زن کا اختلاط نہیں پیدا ہوا ہے بلکہ دیگر مذاہب کے افراد کے ساتھ شب و روز کی ملاقات نے ان کی اس ایمانی غیرت کو کمزور کردیا ہے جو ان کی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ اور سرمایہ ہے۔ غیر اسلامی تہوار وں میں شرکت اور انہیں بغرض تفریح دیکھنا اور ان کی خوبیوں کو بیان کرنے کی کو شش کرنا، یہ وہ اسباب ہیں جو ان کی کراہت کو ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔ غیروں کی جانب سے اسلام پر کئے جانے والے اعتراضات کو سننا اور ان کو مستند عالم اور صاحب دل شخصیت سے حل کرائے بغیر انہیں سوالات میں غلطاں و پیچاں رہنا، اسلامی غیرت میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ ہم مسلمانوں کو یہ طے کرنا ضروری ہے کہ دنیا میں ایمان سے زیادہ قیمتی شے اور کچھ نہیں ہے۔ دنیا اپنی تمام تر ناز و نعمت، راحت و سکون، مال و دولت، جاہ و حشمت کے باوجود ایمانی دولت کے سامنے ہیچ اور ناقابل ذکر شے ہے۔ انسان کی ساٹھ ستر سالہ زندگی بہرحال گزر جائے گی، لیکن اگر ایمانی تقاضوں سے منحرف ہوگئے اور دین اسلام کی پناہ سے نکل گئے تو بعد کی زندگی کا کیا ہوگا؟

فتنہ ارتداد سے بچاؤ کی تدابیر

فتنہ ارتداد سے بچنے اور بچانے کے لئے مضبوط اور مستحکم نظام تربیت کی ضرورت ہے۔ بچے بچیوں کو عہد طفلی سے ہی مذہب کے تئیں حساس اور بیدار بنانے کی ضرورت ہے۔ عصری تعلیم ضروری ہے لیکن ایمان کا تحفظ اس سے زیادہ ضروری ہے۔ اس لئے تعلیم کے سلسلہ میں ان طریقوں کو اپنایا جائے، جہاں ایمان کا تحفظ بھی قائم و دائم رہے۔ لڑکیوں کی تعلیم (لڑکیوں کی تعلیم کا نظم اس عنوان پر مکمل مضمون پڑھنے کے لئےل لنک پر کلک کریں) کے لئے ایسے اداروں کی بنیاد رکھی جائے جہاں دنیا کی کامیابی سمیت دین کی کامیابی بھی پیش نظر ہو۔عصری علوم کے بغیر انسان کی زندگی گزری ہے اور آئندہ بھی گزر سکتی ہے لیکن دولت ایمان کے بغیر انسان کی زندگی اَنعام (جانور) کی طرح ہے۔  چند روزہ خوشی کے لئے اور کاغذ کی چند ڈگریوں کے حصول کی خاطر ایمانی تقاضوں سے روگردانی کرنا دنیا و آخرت دونوں کے لئے نقصاندہ ہے۔ دنیاوی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرنا، مستحسن عمل ہے لیکن دنیاوی لہو و لعب اور دنیا کی حرص میں الجھ کر غیرت ایمانی سے سمجھوتہ کرنا قبیح عمل ہے۔اللہ تعالٰی نے انسان کی فلاح و بہبود کی ضمانت ایمان پر رکھی ہے۔دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی انسان کو اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جب اس کا دل دولت ایمانی سے لبریز ہو اور اس کے اعمال مذہب اسلام کی ترجمانی کرتے ہو۔ ایمان کے تقاضوں اور ان کے تحفظ کے لئے اپنے گھروں میں، گاؤں میں اور علاقوں میں مستقل طور پر محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے اپنی زندگی کا نصب العین بناکر اس میدان مین کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں ایمانی تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بے دینی سے محفوظ رکھے!  

Related Posts

3 thoughts on “مسلمان لڑکیوں میں بڑھتا ہوا فتنہ ارتداد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے