مسئلہ ارتداد اور مسلم معاشرہ : اسباب و وجوہات اور ان کا حل

مسئلہ ارتداد اور مسلم معاشرہ : اسباب و وجوہات اور ان کا حل

 

آئے دن اس طرح کی خبریں گردش کرتی نظر آتی ہیں کہ فلاں شہر میں یہ حادثہ پیش آیا ہے، یا اس ماہ اتنے بچوں اور بچیوں نے غیر مذاہب کے افراد سے شادی کرلی ہے یا دین مستقیم کو چھوڑ کر دیگر افسانوی یا مسخ شدہ  مذہب کو اختیار کرلیا ہے۔ جب معاملات سرخیوں میں ہوتے ہیں تو کچھ افراد کی جانب سے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ ان کے روک تھام کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اسباب و عوامل پر بحث کی جاتی ہے۔ کچھ لائحہ عمل بنانے کی کوشش ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام منصوبے پانی کے بلبلے کی مانند سطح پر ابھرتے ہیں اور پھر ختم ہوجاتے ہیں اور جب تک دوبارہ پانی میں ہلکور نہ پیدا ہو یہ بلبلے پیدا نہیں ہوتے ہیں۔  ان امور کے محرکات و اساسات کی تہہ تک جانے اور اس کی بیخ کنی کے بجائے فروعاتی اور غیر ضروری مباحث پر پورا زور صرف کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسئلہ ارتداد اور مسلم معاشرہ، اسباب و وجوہات اور ان کا حل ان جیسے موضوعات پر بیانات ہوتے ہیں، مضامین لکھے جاتے ہیں لیکن ان کے وہ نتائج نہیں حاصل ہورہے ہیں جو ہونے چاہئے تھے۔

ہمارا ملک ہندوستان مختلف مذاہب کا گہوارہ ہے۔ مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں۔ الگ الگ بولیاں بولنے والے ایک چھت کے نیچے جمع ہوجاتے ہیں۔ الگ الگ رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت کے پیروکار باہم شیر و شکر رہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک ہی سوسائٹی میں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے اور بستے ہیں۔ شہر اور دیہات تقریبا ہر جگہ یہی صورت حال ہے، استثنائی صورت بہر حال موجود ہے۔ اس اختلاط کی وجہ سے معاشرتی اور سماجی تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ آپسی بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے، ایک دوسرے کے سکھ دکھ کو سمجھنے اور پرکھنے کا موقع ملتا ہے۔ایک دوسرے کی خوشی و غم میں شریک ہونے کا موقع ملتا ہے، لیکن کبھی کبھار یہ تعلقات غلط راہ بھی اپنا لیتے ہیں، اور پھر اس کے اثرات و نتائج تباہ کن ثابت ہوتے ہیں جو ایک گھر، خاندان نہیں بلکہ پوری  قوم کے لئے  باعث ننگ ہوتے ہیں۔

اس کے تدارک کے لئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں اور کیا کرنے چاہئے۔ سطحی اور عارضی اسباب کے بجائے حقیقی اسباب کی نشاندہی اور اس کی روک تھام کے لئے اقدامات دیر پا اور نافع ثابت ہوسکتے ہیں۔ تکثیری سماج میں جہاں آپ اقلیت میں ہیں وہاں اپنی شناخت قائم رکھنا اور اپنے مذہب کی مکمل پیروی کرنا جوکھم بھرا کام نہ سہی تو مشکل ضرور ہے۔ اکثریت کی تہذیب و ثقافت سے وابستگی اور شناسائی یقینی بات ہے، بعض مذاہب کے تہواروں کی  چکاچوند اور ذہنی و فکری آزادی نئے اذہان کو متاثر کرلیتی ہیں اور انہیں یہ دلکشی بھانے لگتی ہے ۔ غیر ضروری رسم و رواج کے نام پر راہ و رسم میں پختگی آتی جاتی ہے ، جدت پسندی،  نت نئے فیشن اور محرم و غیر محرم کا بے محابا اختلاط یہ وہ اسباب ہیں جو یقینا اپنی تہذیب سے دوری کا باعث بنتے ہیں۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ اپنے بچوں اور بچیوں کو اپنے دینی اور اسلامی تہذیب و ثقافت سے مکمل طور پر روشناس کرایا جائے، تاکہ کسی صورت وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔ اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگی سمیت اسلامی اذہان کی پرداخت بھی انتہائی ضروری ہے تاکہ الحاد و بے دینی  کے باد صرصر ان کے شمع ایمانی کو بجھانے سے عاجز و قاصر رہیں۔

چند اہم اسباب میں سے ایک موجودہ دور کا نظام تعلیم ہے۔ تعلیم انسان کا بنیادی حق ہے۔ مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے خواہ وہ مرد ہو یا عورت علم کے حصول کو فرض قرار دیا ہے۔ حالات  کے اعتبار سے علم کے حصول کے ذرائع بھی بدلتے  رہے ہیں اور ان کے طریقوں میں بھی نمایاں تبدیلیاں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ لیکن موجودہ دور میں اسکول اور کالج کے نظام تعلیم نے ماضی کے تمام طریقوں کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ اسکول اور کالج کے قیام سے اور اس نئے طرز اور ایجاد سے جہاں کچھ فائدے ہوئے ہیں، اس سے کہیں زیادہ اس کے نقصانات عیاں ہیں۔ موجودہ نظام تعلیم نے گرچہ علم کے بے شمار گوشوں کو وا کیا ہے، حصول علم کو سہل بنایا ہےلیکن اس نظام نے اخلاقی اقدار کا بیڑا غرق کردیا ہے۔ اس میں جو سب سے زیادہ قابل تشویش پہلو ہے، وہ ہے مخلوط نظام تعلیم۔ اس سے ہر مذہب اور ہر طبقے کے افراد متاثر ہوتے ہیں۔ اسکول یا کالج میں ایک سازگار ماحول فراہم ہوجاتاہے ان اوباشوں کے لئے جو تعلیم کے بجائے لہو و لعب اور دیگر خرافات میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ بلکہ بعض بچوں کو اس کام کے لئے باضابطہ تیار کیا جاتا ہے اور انہیں مختلف قسم کے ہتھکنڈے سکھائے جاتے ہیں۔ بچے بچیوں کی نشست و برخاست اس طور پر مرتب کی جاتی ہے کہ ان کے دلوں سے عزت و عفت اور ناموس کی حیثیت ناپید ہوجاتی ہے۔تعلیم، مساوات، پروفیشن، کیریئراور شخصی آزادی کے نام پر بے حیائی، دروغ گوئی، اخلاق سوزی، بے شرمی، اور مذہب بیزاری کے ناسور ذہن میں پیوست کئے جاتے ہیں۔ ان امور کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس نظام تعلیم سے وابستہ طلباءاپنی ذہنی قوت کو مغرب کی روش کے سپرد کردیتے ہیں اور ہر وہ کام انجام دینے کو اپنے لئے باعث فخر اور ترقی کا زینہ سمجھتے ہیں جن میں اہل مغرب سر تا پا ڈوبے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں اپنے بچوں اور بچیوں کو ایسے خرافات سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسے اداروں کا انتخاب کریں، جہاں نظام تعلیم مخلوط نہ ہو۔ ایسے ماحول میں اپنے بچوں اور بچیوں کو تعلیم دینے کی کوشش کریں، جہاں تعلیم سمیت اخلاقی اقدار بھی قائم ہو اور طلباء کو ان اقدار سے روشناس کرایا جاتا ہو۔

سوال یہ ہے کہ کیا ایسے ادارے موجود ہیں؟ کیا ایسے اداروں میں داخلہ ممکن ہے؟ ہم ایسا نظام کیسے ترتیب دے سکتے ہیں؟ جواب واضح اور صاف ہے کہ اپنا ادارہ قائم کریں۔ اپنے اسکول اور اپنے کالج قائم کریں۔ تنظیم کے تحت، ٹرسٹ کے تحت یا پھر شخصی اعتبار سے ہی سہی لیکن ادارے اپنے ہونے چاہئے۔ اداروں کا نظام اخلاقی طور پر اس قدر بلند ہو کہ غیر بھی اس جانب توجہ دیئے بغیر نہ رہ سکے۔ دوسروں کی تہذیب و ثقافت کو عروج بخشنے کے بجائے اپنے اسلامی ماحول میں دوسروں کو لانے کی کوشش کی جائے، اس طرح تعلیم اور اخلاقی اقدار سمیت دعوت و تبلیغ کا اہم کام بھی بلا چوں چرا انجام پائے گا۔ ایسے ادارے ہو جہاں کاغذ کی ڈگری ہی نہیں بلکہ انسانیت کا سبق پڑھایا جائے، جہاں مذہب بیزاری نہیں بلکہ مذہب بیداری کی تعلیم دی جائے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ یا تو ہمارے پاس ادارے نہیں ہے یا پھر اس معیار کے ادارے نہیں ہے۔ اور ہم نے اب تک اس جانب خاطر خواہ  پیش قدمی بھی نہیں کی ہے۔ شخصی سطح پر کچھ افراد اس جانب متوجہ ہوئے ہیں لیکن ظاہر سی بات ہے کہ اتنے بڑے ملک میں "اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑتا” کے مصداق بنے بیٹھے ہیں۔  تعلیمی اور اخلاقی اعتبار سے معیاری اداروں کا قیام ناگزیر ہے۔ بہت سے ادارے وجود میں آئے ہیں لیکن معیار تعلیم کےدرست نہ ہونے کی وجہ سے ان کی کارکردگی قابل ذکر نہیں رہی ہے۔ جس طرح پیٹ کی آگ بجھانے اور دنیاوی راحت کے لئے ہر ممکن جد و جہد اور سعی کی جاتی ہے، اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ اپنے اور اپنے اہل خانہ اور قوم کے ایمان کو بچانے کی فکر کی جائے۔ یہ حکم خداوندی ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ حبیب خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے ہر کوئی راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ جس طرح ایک باپ اپنے بچوں کے لئے راعی ہے بعینہ اسی طرح قوم کا قائد و راہبر بھی قوم کے لئے راعی ہے۔

شورش کاشمیری کی کتاب سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے ” میاں: دریا میں جو کچھ جال دیکھتا ہے، مچھیرا نہیں دیکھتا۔ میرا خیال ہے کہ ہماری تعلیم کا موجودہ نقشہ ہمیں اخلاقی انحطاط کی طرف لے جارہا ہے۔  ایک دن میری بہن نے مجھ سے کہا- ہم سبق لڑکیاں  ہماری مینڈھیوں (بالوں کی گوندھی ہوئی لٹ) کا مذاق اڑاتی ہیں۔ کہتی ہیں، ابھی تک پرانی قطع کے بال بنارہی ہو، کئی دفعہ سفید برقعوں پر ٹوکا ہے، میں چپ رہا، تیسرے روز دیکھا کہ بہن بالوں کو سلجھا رہی ہے، میں نے یہی مناسب سمجھا کہ بہنوں کو اسکول سے اٹھالوں (تعلیمی سلسلہ منقطع کردوں) کیونکہ بالوں کا سلجھاؤ ہی دلوں کا الجھاؤ بنتا ہے۔  آپ حیران ہوں گے کہ میں گھر میں ریڈیو نہیں رکھا ، اس لئے کہ ریڈیو مشینی استاد جی ہے اور لڑکیاں اس سے تال سُر نکالنا سیکھتی ہیں باور کیجئے ہماری معاشرتی زندگی میں جو نفسانی بے راہ روی ابھر آئی ہے، اس کی ایک وجہ ریڈیو بھی ہے۔”

یہ شورش کاشمیری کا ستر سال قبل کا ذاتی تجربہ ہے جب انہوں نے ایک کتاب کے سلسلہ میں مختلف قسم کے افراد کے انٹرویو لئے تھے۔ ان ستر سالوں کے دوران تعلیمی اداروں میں جدت اور فیشن کے نام پر وہ سب کچھ پیدا ہوچکا ہے  جو کسی بھی مہذب، شریف، باوقار اور مذہبی جذبات رکھنے والوں کے لئے (اگر غیرت نام کی کوئی شے باقی رہ گئی ہے تو ) ناقابل قبول ہے۔تعلیم، جدت پسندی، کیریئر، ڈگری، پروفیشن، سنہرے خواب، خیرہ کردینے والی چمک، فراٹے بھرتی گاڑیاں ، سنہرے اور تابناک مستقبل جیسے سپنوں کی دنیا میں انسان اخلاقی اقدار کو اس قدر پامال کردیتا ہے کہ گوہر عصمت اور غیرت مرداں دونوں کا جنازہ نکل جاتا ہے۔

ایک ریڈیو اس قدر تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے کہ وہ گھر میں موجود پردہ نشیں ماں بہنوں کی نفسانی بے راہ روی کا باعث ہوسکتا ہے، جبکہ موجودہ دور میں ریڈیو میوزیم میں سجانے کی چیز بن چکی ہے  اور ان کی جگہ چلتے پھرتے اور ہر طرح کے مواد سے لبریز،  ہر طرح کی نفسانی بے راہ روی کے وسائل فراہم کرنے والا، اجنبیوں سے تعلقات کی راہ استوار کرنے والا، ذاتی زندگی اور عزت و ناموس کو ترقی اور شہرت کے نام پر سر بازار نیلام کرنے والا،غیرت و حمیت کے بجائے دیدہ دلیری اور بے حیائی کو فروغ دینے والا، پردہ نشین ماں بہنوں کو زینت بازار بنانے والا  موبائل ہر نوجوان کے ہاتھ میں موجود ہے۔ یہ ایسا زہر ہے جس نے دینی غیرت سمیت اخلاقی حمیت کا بھی جنازہ نکال دیا ہے۔ بلا وجہ، بغیر ضرورت موبائل کی خواہش اور فرمائش کا نتیجہ بے راہ روی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ پیر ذو الفقار نقشبندی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ وغیرہ گھر میں ایسی جگہ رکھ کر استعمال کریں جہاں گھر کے دیگر افراد کی نظریں بآسانی پہنچ سکے تاکہ گناہ وغیرہ اور دیگر فحش چیزوں کی جانب توجہ نہ ہوسکے اور کم از کم گھر کے افراد کا خوف ذہن میں باقی رہے۔ لیکن اب تو صورت حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے، ہر کسی کے ہاتھ میں اپنا موبائل ہے جسے گھر کا کوئی دوسرا فرد استعمال کرنا تو درکنار دیکھنے کی بھی جسارت نہیں کرسکتا ہے۔ جب گناہ کرنے، گناہ پر اکسانے، گناہ پر آمادہ کرنے، گناہ کے راستے بتانے والا ہر گھر کے ہر ہاتھ میں موجود ہو، اور اس پر سرپرستوں کی جانب سے کوئی روک ٹوک نہ ہو تو پھر گناہوں کے دلدل سے بچ نکلنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔

موجودہ نظام تعلیم اور موبائل کی وجہ سے ایک بڑی خرابی بیجا خود مختاری کی پیدا ہوگئی ہے۔ اب آزادئ نسواں اور حقوقِ نسواں کے خوشنما نعروں کے پس پشت حدود شرعیہ اور اخلاقی اقدار کو پھلانگنے کی کوشش جاری ہے۔ علامہ اقبال نے فرمایا "آزادئ نسواں کا موجودہ سیلاب معاشرہ کو درہم برہم کرنے کی افسوس ناک کوشش کی ہے۔ جس قوم نے عورتوں کو ضرورت سے زیادہ آزادی دی، وہ کبھی نہ کبھی اپنی غلطی پر ضرور پشیمان ہوئی ہے”۔ مسلم بچیوں اور تعلیم نسواں کے متعلق فرماتے ہیں: "مسلمان عورت کو بدستور اسی حد کے اندر رہنا چاہئے جو اسلام نے اس کے لئے مقرر کردی ہے اور جو حدکہ اس کے لئے مقرر کی گئی ہےاسی کے لحاظ سے اس کی تعلیم ہونی چاہئے”۔ اگر ان باتوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ تعلیمِ نسواں یقینا ضروری ہے، اور یہ شریعت نے فرض قرار دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ شریعت نے جو حدود متعین کئے ہیں، ان حدود کی پاسداری بھی نہایت ضروری ہے۔ موجودہ زمانے میں تعلیم کی ڈگریاں، زندگی کا ایسا بنیادی مقصد بن گئی ہے کہ ان کے حصول کی خاطر تمام احکامات اور تعلیمات کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ڈگریاں تو مل جاتی ہیں لیکن وہ بچی اسلام کے مقرر کردہ حدود سے باہر نکل جاتی ہے، اور پھر آزادی، مساوات، میرا جسم میری مرضی جیسے غلیظ نعروں کی زد میں آکر، وہ خانگی اور مذہبی زندگی جس کی اتباع میں دونوں جہاں کی کامیابی پوشیدہ ہے، اس سے کوسوں دور ہوجاتی ہے اور چند روزہ خوشی اور چکا چوند کے حصول کی تگ و دو میں اپنی نسائیت کو کھو دیتی ہے۔

موجودہ نظام تعلیم،  موبائل اور آزادی نسواں کے علاوہ ایک بنیادی سبب شادی میں تاخیر بھی ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق اس طور پر کی ہے کہ اسے جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے بروقت ایک ایسے ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جو شرعا جائز اور عبادت ہو۔ جس طرح انسان کی جسمانی اور  ذہنی نشو و نما بتدریج ہوتی ہے اسی طرح نفسانی خواہش بھی بتدریج پیدا ہوتی ہے۔ جس طرح ایک عمر کے بعد کھانے پینے اور کھیل کود کی دلچسپی میں نمایاں تبدیلی ہوتی ہے اسی طرح نفسانی خواہشات کی بھی ایک عمر کے بعد خواہش بیدار ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ اس میں شدت پیدا ہوتی جاتی ہے۔ جس طرح حد سے زیادہ حدود و قیود اور بے وجہ موانع نوخیز عمر کے بچوں کو ذہنی ابتلاء اور نافرمانی پر آمادہ کردیتے ہیں اسی طرح نفسانی خواہشات میں حدود و قیود بھی انسان کو راہ بے راہ روی پر لے جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں تعلیم، اعلی تعلیم، ڈگری، کیریئر اور پروفیشن کے نام پر رشتہ ازدواج میں تاخیر بچے بچیوں کو نفسانی بے راہ روی پر آمادہ کردیتے ہیں اور بسا اوقات وہ ان تمام حدود و قیودات کو پھلانگ جاتے ہیں جہاں ان کے والدین، گھر، خاندان، معاشرہ اور سماج کی عزت کی ریکھا ہوتی ہے۔ وہ خود بھی ذلیل و رسوا ہوتے ہیں، ذلت و نکبت ان کا مقدر بن جاتی ہے لیکن ساتھ ساتھ وہ اپنے تمام لواحقین کے لئے باعث ننگ اور باعث شرم ثابت ہوتے ہیں۔ ارشاد خداوندی اور فرمان رسول اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ وقت اور عمر کا خیال رکھتے ہوئے اگر مناسب رشتہ مل جائے تو اپنے بچے اور بچیوں کو رشتہ ازدواج سے منسلک کردو۔ انسانی فطرت کے تقاضوں کا لحاظ جس حکمت و علت کے ساتھ اللہ تعالی نے بیان کیا ہے اور اس کو انجام دینے کا حکم دیا ہے وہ فطرت کے عین مطابق ہے، فطرت کے خلاف جانا تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ چند روزہ خوشی اور دو چار کاغذ کی ڈگریوں کے حصول کے لئے ایسے اسباب و عوامل کی جانب بڑھنا اور انہیں اختیار کرنا جو گناہ کی جانب لے جائے خدائی احکاما ت کی نافرمانی ہے ۔

ایک جانب تو یہ لوگ ہیں جو بہتر معاش، بہتر نوکری، بہتر معیار زندگی کے حصول کی بھاگ دوڑ میں اس فریضہ سے دور بھاگتے ہیں اور گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں، دوسری جانب وہ لوگ بھی ہیں جو مالی تنگدستی کی بنا پر اس فریضہ کی انجام دہی سے عاجز و قاصر ہوتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو عموما معاشرہ اور سماج کی رسم و راہ کے زیر بار ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺنے جس نکاح کو آسان سے آسان تر بنانے کا حکم دیا ہے آج اسی نبی ہادی ﷺ کی امت اس نکاح کو مشکل سے مشکل بنانے پر تُلی ہوئی ہے۔ غریب والدین کی آنکھوں سے رات کی نیندیں حرام ہوجاتی ہے، ان کی نگاہیں اپنی بچی کے رشتہ کے لئے راہیں تکتی ہیں لیکن ہمارے سماج اور معاشرہ کے یہ ظالم و خونخوار بھیڑیئے اپنی جھوٹی شان کے لئے ایسے ایسے مطالبات اور ایسی قیمتی فرمائشیں رکھتے ہیں جن کو پورا کرنے سے یہ غریب عاجز و قاصر ہوتے ہیں، نتیجتا غربت انہیں کفر کے دروازے تک پہنچادیتی ہے۔ ایک غریب اور متوسط گھر کا سرپرست اپنی زندگی بھر کی کمائی  اپنی جوان بیٹی کے ہاتھوں میں مہندی سجانے کی خوشی اور امید میں صرف کردیتا ہے لیکن پھر بھی یہ ظالم معاشرہ اس پھول سی بچی کو جسے ہمارے نبی ﷺ نے رحمت قرار دیا ہے، چین کی نیند تو درکنار دو وقت کی روٹی بھی نہیں نصیب ہونے دیتا ہے اور بعض اس معاشرہ اور سماج کے لالچ کی بھینٹ چڑھادی جاتی ہے۔  شاعر کا شعر ہمارے معاشرہ کی سنگدلی کو صاف طریقہ پر بیان کرتا ہے اور بے غیرت معاشرہ میں غیرت کی چنگاری سلگانے کے لئے کافی ہے:

اب  آیا خیال اے آرام جاں اس نامرادی میں۔۔۔کفن دینا  تمہیں بھولے تھے سامان شادی میں

لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرہ میں یہ وبا اس حد تک پھیل گئی ہے کہ بعض غریب اس راہ و رسم سے بچنے کے لئے کبھی تو اپنی عفت و عصمت کا سودا کرلیتے ہیں اور کبھی سب سے قیمتی متاع حیات "ایمان” کا سودا کرلیتے ہیں۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ برکت کے اعتبار سے سب سے اچھی شادی وہ ہے جس میں اخراجات کم ہو۔ لیکن اب دنیاوی نام و نمود اور ظاہری ٹھاٹ باٹ کے لئے فرمان رسول کو پش پشت ڈال کر غیر اسلامی روایات و خرافات کے دلدل میں اس حد تک دھنس چکے ہیں کہ احساس زیاں بھی ختم ہوگیا ہے۔

یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا ۔۔۔میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا

یہ چند اسباب و وجوہات ہیں جو ہمارے معاشرہ اور ہماری اسلامی تہذیب و ثقافت کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کررہے ہیں۔ اگر اب بھی ان وجوہات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو وہ نقصانات ہمارے سامنے عیاں ہوں گے جو ہمارے نگار خانہ ذہن میں کہیں نہیں ہے۔ ہماری سوچ سے کہیں زیادہ تیزی سے یہ گھن ہمارے معاشرہ کی عمارت کو متزلزل کررہا ہے۔ یہ ذمہ داری فرد کی سطح سے شروع ہوکر قومی سطح تک ہر کسی پر اس کی حیثیت کے مطابق عائد ہوتی ہے۔ اس ذمہ داری سے کوئی راہ مفر نہیں ہے اور اس کے حل کے بغیر تشخص کا تصور کرنا محال ہے۔

اسلام ایک آفاقی مذہب ہے، یہ چند اساطیری افسانوں کا مجموعہ نہیں ہے جو وقت کے بدلنے کے ساتھ بدل جائے۔ انسانی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ اور شعبہ حیات نہیں ہے جسے اسلام نے تشنہ چھوڑا ہو۔ یہ مذہب اسلام کا طرہ امتیاز ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کے لئے ہر حال میں اور ہر حیثیت سے مکمل راہنمائی کرتا ہے۔  سورہ شوری میں اللہ تعالی نے اپنے محبوب ﷺ کو جو حکم دیا ہے وہ یقینا آج بھی تمام امت مسلمہ کے لئے راہنما ہے۔ آیت نمبر 15 میں ارشاد خداوندی ہے: ترجمہ: "تو آپ اسی دین کی طرف بلاتے رہئے اور آپ کو جو حکم دیا گیا ہے، اسی پر قائم رہئے، ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کیجئے اور کہہ دیجئے کہ اللہ نے جو بھی کتاب اتاری ہے، میں اس پر ایمان لایا، اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں، اللہ ہمارے بھی رب ہیں اور تمہارے بھی، ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال کی ذمہ داری تم پر ہے، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی بحث و تکرار نہیں، اللہ ہم سب کو (قیامت کے دن)  اکٹھا کردیں گے اور اسی کی طر ف تو لوٹ کر جانا ہے۔”

اس آیت کی تفسیر میں مفتی شفیع صاحب نے حافظ ابن کثیر کا قول نقل فرمایا کہ یہ آیت دس مستقل جملوں پر مشتمل ہے اور ہر جملہ خاص احکام پر مشتمل ہے۔ گویا اس ایک آیت میں احکام کی دس فصلیں مذکور ہیں۔ اس کی نظیر پورے قرآن میں ایک آیۃ الکرسی کے سوا کوئی نہیں۔ آیۃ الکرسی میں بھی دس احکام کی دس فصلیں ہیں۔ 

پہلا حکم: دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھیں، دعوت و تبلیغ کے کام میں آلام و مصائب کو برداشت کرنا قربت الہٰی کا ذریعہ ہے۔ اگر ہم بنظر غائر اپنے معاشرہ کا جائزہ لیں تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس حکم کی بجاآوری میں کہیں نہ کہیں امت مسلمہ سے چوک ہورہی ہے۔ جس سطح پر اس کار خیر کو انجام دینا چاہئے تھا نہیں دیا جارہا ہے۔

دوسرا حکم: آپ اس دین پر خود مستقیم رہیں۔ جس دین کی دعوت دی جارہی ہے اور جس سچے راستے کی جانب لوگوں کو بلایا جارہا ہے، اس پر خود بھی عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ عقائد، معاملات، معاشرت، اخلاق وعادات غرضیکہ تمام احکام خداوندی کی بجاآوری ضروری ہے۔ اور اس میں افراط و تفریط کے بجائے عدل کا راستہ اختیار کیا جائے۔ استقامت کا تقاضاہے کہ ہر حال میں دین حنیف پر قائم رہا جائے۔ گردش ایام کے بدلنے سے یا حالات کے ناموافق ہونے سے گھبرانے کے بجائے نصرت خداوندی اور اللہ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے اپنے دینی کام کو جاری رکھیں۔

تیسرا حکم: یعنی فریضہ تبلیغ میں کسی مخالف کی مخالفت کی پرواہ نہ کریں۔ یہ ایک خدائی دین ہے جسے اللہ تعالی نے انسانوں کی انسانیت کے تقاضوں کے پیش نظر مکمل و مدلل کرکے اپنے پیارے نبی ﷺ پر نازل فرمایا ہے۔ اس دین کی اشاعت و ترویج باعث فلاح دین و دنیا ہے۔ آخرت میں نجات کے لئے اس مذہب پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔

چوتھا حکم: آپ اعلان فرمادیں کہ اللہ تعالی نے جتنی کتابیں نازل فرمائی ہیں میرا ان سب پر ایمان ہے۔ بلا شبہ تمام آسمانی کتابوں     اور صحائف پر ایمان لانا ضروری ہے۔

پانچواں حکم: یہ حکم دیا گیا ہے کہ اپنے اور تمہارے درمیان عدل و انصاف رکھوں۔ عدل و انصاف مذہب اسلام کا ایک ایسا جز ہے جس پر عمل کئے بغیر کوئی بھی مسلمان کامل مسلمان نہیں ہوسکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ دھوکہ دینے والا عادل و منصف نہیں ہوسکتا ہے۔

چھٹا حکم: اللہ ہمارا اور تمہارا بھی رب ہے۔ تمام کائنات کا پالنہار اور خالق و مالک وہی ایک ذات ہے جس کے قبضہ تصرف میں سارا جہاں ہے۔ وہ ذات بے نیاز ہے۔ وہ اپنے کام میں کسی کا محتاج نہیں ہے لیکن تمام عالَم اس کے محتاج ہیں۔

ساتواں حکم: ہمارے اعمال ہمارے کام آئیں گے اور تمہارے اعمال کی ذمہ داری تم پر ہوگی۔ جس نے دنیا میں جو کیا ہے ، آخرت میں اسے اس کا بدلہ اس کے کام سے اعتبار سے دیا جائے گا۔ اگر دعوت و تبلیغ کے کام میں اتمام حجت کے بعد بھی کوئی بغض و عناد اور کبر و حسد کی وجہ سے دین حنیف سے دور بھاگتا ہے تو اس کی ذمہ داری دعوت دینے والے پر عائد نہیں ہوتی ہے۔

آٹھواں حکم: ہمارے تمہارے درمیان کوئی بحث و حجت نہیں۔ جب دلائل و براہین کی روشنی میں دین اسلام کی صداقت و حقانیت واضح ہوچکی ہے تو اب مزید گفتگو فضول ہے۔

نواں حکم: قیامت کے دن اللہ ہم سب کو اکٹھا کرے گا۔ دنیا میں اگر کوئی اتمام حجت کے باوجود دین مستقیم پر ایمان نہیں لاتا ہے تو کل بروز قیامت سب کا نامہ اعمال بتادے گا کہ کون حق پر تھا اور کس نے اللہ تعالی کے احکامات کی پابندی کی ہے۔

دسواں حکم: اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ بروز محشر روز اول سے قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کو اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ اس سے کوئی مفر نہیں ہے۔ کوئی بھی اللہ کے سامنے حاضر ہونے سے بچ نہیں سکتا ہے۔  

قرآن مجید کی یہ آیت مکی ہے، جب مسلمان کمزور تھے اور ان کی تعداد بھی کم تھی۔ ایسے پُر پیچ حالات میں اللہ نے ان احکامات پر ثابت قدم رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔ موجودہ دور میں ہندوستانی معاشرہ میں مسلمان اقلیت میں ہیں اور اسباب و وسائل بھی مکمل طور پر موافق نہیں ہے لیکن ان حالات میں اللہ تعالی کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے مذکورہ احکامات پر عمل پیرا ہوا جائے تو (ان شاء اللہ) اللہ کی مدد ضرور آئے گی،  ظلمت و تاریکی کے یہ بادل ضرور چھٹیں گے اور شمع ایمانی سے انسانی قلوب کو جگمگانے کا موقع نصیب ہوگا۔

 

 

 

 

Related Posts

5 thoughts on “مسئلہ ارتداد اور مسلم معاشرہ : اسباب و وجوہات اور ان کا حل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے