مذہب اسلام دین فطرت ہے

مذہب اسلام دین فطرت ہے

اس دنیا میں بسنے والے تمام انسان کسی نہ کسی طور ایک دوسرے کی شناخت اور تعارف کے لئے کچھ الگ امتیاز اور خصوصیت رکھتے ہیں۔ یہ امتیازی وصف کبھی فرد کے طور پر ہوتی ہے اور کبھی علاقہ کے طور پر ہوتی ہے، بسا اوقات یہ خصوصیت ملکی سطح کی بھی ہوتی ہے اور کبھی یہ امتیازی اوصاف مذہب کی بنا پر ہوتے ہیں۔ اور اسی امتیازی اوصاف و خصائل کی بنا پر ایک تہذیب کو دوسری تہذیب سے، ایک ملک کو دوسرے ملک سے الگ کیا جاتا ہے اور اسی طرح ایک مذہب کو دوسرے مذہب سے الگ کیا جاتا ہے۔ دنیا میں پائے جانے والے بیشتر مذاہب کے رسم و رواج ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور اسی بنیاد پر اس مذہب کے فرد کو پہچانا جاتا ہے۔ ہندوازم، جین ازم، سکھ ازم، عیسائیت، یہودیت اور دیگر مذاہب میں جو بنیادی فرق ہے اسے ہم دن و رات اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ تمام مذاہب کے ماننے والے اپنے اعتبار سے اپنی عبادت، مذہبی تقریبات، شادی بیاہ اور دیگر رسومات اداکرتے ہیں اور حتی کہ لباس کے انتخاب میں بھی مذہبی رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔لیکن ان تمام مذاہب میں ایک بات مشترک ہے کہ مرور ایام کے ساتھ ان میں لچک اور حتی کہ تبدیلی تک پیدا ہوگئی ہے۔ یہودیت اور نصرانیت تو اپنے مذہبی راہنماؤں کی بے راہ روی اور مذہب میں خرد برد کے شکار ہوگئے اور دیگر مذاہب جن کے پاس مکمل دستور حیات نہیں تھا وہ حالات کی تیز دھارا میں بہتے چلے گئے۔ لیکن مذہب اسلام جسے اللہ تعالی نے کامل اور مکمل بناکر بھیجا تھا، وہ چودہ سو سال بعد بھی انسانیت کے لئے اتنا ہی نافع اور ہادی ہے جتنا کہ اول زمانہ میں تھا۔ گردش زمانہ اور حادثات  و مصائب مذہب اسلام کی حقیقی تصویر اور اس کے جاودانی پیغام کو بدلنا تو درکنار تحریف سے بھی عاجز و قاصر رہے ہیں۔ روئے زمین پر مذہب اسلام کی سب سے اہم اور بنیادی کتاب "قرآن مجید” وہ واحد کتاب ہے جو ہر قسم کی کتربیونت اور حذف و اضافہ سے محفوظ ہے۔

مذہب اسلام ہی اصل دین ہے

مذہب اسلام جس کے متعلق خود خالق کائنات نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: "بے شک اللہ کے نزدیک (مقبول) دین تو "اسلام” ہی ہے”۔اور فرمایا جو اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہو تو اس سے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔ مذہب اسلام کی آمد نے ماقبل کے تمام مذاہب کو کالعدم قرار دے دیا ہے،اب انسان کی فلاح و نجات کا تعلق صرف اور صرف شریعت محمدیہ سے ہے۔  چنانچہ ایک طویل حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر ابھی موسی (علیہ السلام) بھی باحیات ہوتے تو ان کے لئے مذہب اسلام کی اتباع ضروری ہوتی۔  وَلَوْ كَانَ مُوسَى حَيًّا مَا وَسِعَهُ إِلَّا اتِّبَاعِي. (رَوَاهُ أَحْمد وَالْبَيْهَقِيّ ) قرب قیامت میں حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا۔ حضرت عیسی علیہ السلام بذات خود نبی اور رسول ہیں ان کے پاس اپنی شریعت تھی لیکن جب وہ آئیں گے تو شریعت محمدیہ ﷺ پر عمل کریں گے۔ ان کے علاوہ بے شمار آیات و احادیث ہیں جو دلالت کرتے ہیں کہ بحیثیت مذہب اسلام کے علاوہ اور کوئی دوسرا مذہب اللہ تعالی کے نزدیک مقبول یا قابل قبول نہیں ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس مذہب کو ایسی صفات و خصوصیات سے نوازا ہے کہ قیامت تک آنے والے انسانوں کی راہنمائی کے لئے کافی و شافی ہے۔ اور انسان کو ان تمام چیزوں کی تعلیم دی ہے جس کی اسے ضرورت ہے اور جس پر عمل کرکے وہ اپنی انسانی شرافت کو باقی رکھتے ہوئے اپنے مذہبی تشخص کو بر قرار رکھ سکتا ہے۔

مذہب اسلام پاکی کو پسند کرتا ہے

حضرت سلمان فارسی سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے نبی ﷺ ہمیں ہر چیز کی تعلیم دیتے ہیں حتی کہ دوران استنجاء کیسے بیٹھنا ہے یہ بھی بتاتے ہیں۔ جس مذہب نے ایسی بنیادی چیزوں پر مکمل توجہ دیا ہے تاکہ صاف صفائی اور پاکیزگی میں کمی نہ رہ جائے کیونکہ اسلام کا مکمل نظام عبادت طہارت و پاکی کا متقاضی ہے اور حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالی پاک ہے اور پاکی کو پسند کرتا ہے۔ تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ مذہب انسان کی ظاہری ہیئت کے متعلق خاموش رہتا اور اپنے متبعین کو اس سلسلہ میں کوئی راہنمائی نہیں کرتا۔مذہب اسلام نے ہر دنیاوی چیز میں بہتر سے بہتر کا انتخاب کیا ہے۔ رہنے سہنے، کھانے پینے اور حتی کہ لباس وغیرہ میں بھی ان پوشاک کو استعمال کرنے کی ترغیب دی ہے جو بظاہر شرفاء اور معزز افراد کا لباس ہو۔ کھانے پینے میں ایسی تمام چیزوں سے منع فرمادیا ہے جو کسی طور انسانی صحت یا مذاق انسانی کے خلاف ہو۔ رہنے سہنے کے لئے ایسے مقامات سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے جو قابل ملامت ہو۔ علاوہ ازیں، نسل انسانی کی ہر دو جنس کے لئے  امور اور حدود متعین کردیئے ہیں جن کی بنا پر ان دونوں کی اپنی شناخت، حیثیت، رتبہ اور درجہ برقرار رہے۔

پردہ اور حجاب انسانی فطرت کا حصہ ہے

دیگر مذاہب کے بالمقابل مذہب اسلام نے اوامر و نواہی میں فطرت انسانی کا بھرپور خیال رکھا ہے۔ انسان کو ایسے امور میں منہمک ہونے اور ایسے کام کو کرنے سے منع کیا گیا ہے جو اس کی تکریم اور حرمت کے خلاف ہو، اور ان چیزوں کو کرنے کا حکم دیا گیا جو اس کی فطرت کے موافق ہو۔ حیا ایمان کا ایک اہم شعبہ ہے اور فطرت بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان کے اندر حیا کی صفت موجود ہو؛ ورنہ وہ انسان کے دائرہ سے نکل جائے گا۔ اسلام نے مرد و عورت دونوں جنس کو غض بصر کا حکم دیا ہے تاکہ فتنہ کا اندیشہ باقی نہ رہے اورعورتوں کا پردہ کا حکم دیا اور زیب و زینت کو ظاہر کرنے سے منع کیا؛ تاکہ وہ محفوظ رہ سکے اور انسانی فطرت بھی اس کا تقاضا کرتی ہے کہ صنف نازک کو پردہ میں ہی رکھا جائے۔ انسانی شرافت و نجابت اس بات کی متقاضی ہے کہ اس کی ماں، بہن، شریک حیات، بیٹی اور دیگر محرم رشتہ دار عفت و عصمت کے ساتھ زندگی گزارے، اور ایسے امور سے دامن بچائے رکھے جو باعث ذلت ہو۔ روز اول سے ہی شرفاء کا طریقہ رہا ہے کہ ان کے گھروں کی صنف نازک  ہمیشہ باپردہ اور حجاب میں رہا کرتی تھیں۔

انسان کو اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات بناکر پیدا کیا ہے اس لئے اس کے ذمہ جو کام دیا گیا ہے وہ بھی اہم ہے۔ اللہ تعالی نے خود فرمایا: "ہم نے انسان اور جنات کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے”۔ انسان کے لئے اس سے زیادہ عز و شرف کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ تعالی نے اسے اپنی بندگی کے لئے منتخب فرمالیا ہے۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ جو مخلوق اللہ تعالی کے نزدیک اتنی مکرم اور مقدس ہے تو اس کے لئے دستور حیات بھی ایسا عطا کیا گیا ہے جو اس کی شرافت و کرامت کے لائق اور مناسب ہو۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے: "دس چیزیں فطرت سے ہیں مونچھ کترنا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ناخن کاٹنا، انگلیوں کا خلال کرنا، بغل کے بال صاف کرنا، زیر ناف صاف کرنا، پانی سے استنجاء کرنا، اور کلی کرنا” ( مسلم)۔ فطرت سلیمہ سے مراد وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالٰی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جس سے انحراف انسانی کرامت کے خلاف ہے۔ مذکورہ بالا صفات وہ ہیں جن پر انبیاء سابقین اور ان کے متبعین کا عمل بھی مسلسل رہا ہے۔ یعنی یہ وہ چیزیں ہیں جو فطرت انسانی کے عین مطابق بھی ہے اور انسان کی مذہبی شناخت کا حصہ بھی ہے۔

مذکورہ حدیث میں بیان کئے گئے وہ خصائل ہیں جو سابقہ تمام انبیاء کی سنت رہے ہیں، اب اگر موجودہ دور میں کوئی انسان، انسانی فطرت کے خلاف جائے اور ایسے امور میں مبتلا ہونے کو باعث فخر سمجھے تو اسے ذہنی دیوالیہ پن کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ جو لوگ مذہب اسلام کے احکامات کو دقیانوسیت یا حالات حاضرہ سے ہم آہنگ نہیں سمجھتے ہیں، در اصل وہ لوگ انسانی فطرت کے خلاف ہیں۔ یہ لوگ اپنے پیشرو اور مذہبی راہنماؤں کی تعلیمات سے منحرف ہیں اور ان کی زندگی شش و پنج کی شکار ہیں۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے