مدارس اسلامیہ کے طلبہ کو کیا کرنا چاہئے

مدارس اسلامیہ کے طلبہ کو کیا کرنا چاہئے

موجودہ وقت میں اگر ہم ہندوستان کی تعلیمی ترقی کا جائزہ لیں تو ہمیں اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ تعلیم و تعلم کے باب میں ہم مدارس والوں کی شرکت صفر ہے۔ مدارس اسلامیہ میں پڑھنے والے طلبہ کرام عموما پندرہ سال یا اس سے کم و بیش لگانے کے بعد، مختلف علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے کے بعد بھی ہندوستان کی تعلیمی پالیسی کے اعتبار سے جاہل اور ناخواندہ شمار کئے جاتے ہیں۔ اور جو مدارس اسلامیہ بورڈ سے ملحق ہیں یا جنہوں نے دیگر ذرائع کے اعتبار سے ڈگریوں کے حصول کو طلبہ مدارس کے لئے یقینی بنانے کی کوشش کی ہے ان کی ثانوی درجہ کی حیثیت ہوتی ہے۔ کیا ہمارے لئے یہ قابل غور پہلو نہیں ہے کہ زندگی کی ایک دہائی یا اس سے زائد عرصہ تعلیم و تعلم میں لگانے کے بعد بھی طلبہ مدارس ناخواندہ تصور کئے جاتے ہیں اور ان کے سرکاری کاغذات انہیں تعلیم یافتہ تصور کرنے سے عاجز و قاصر ہوتے ہیں۔دن و رات مدارس کی چہار دیواری میں رہنے اور بے شمار فنون کی کئی کتابوں کی غوطہ زنی کرنے والے ہمارے طلبہ ناخواندہ تصور کئے جاتے ہیں کیا یہ ہمارے لئے قابل غور لمحہ نہیں ہے۔

دینی اعتبار سے یقینا ان مدارس کا کردار روز روشن کی مانند عیاں ہے، ان کی قربانیوں کو بھلایا نہیں جاسکتا ہے، ان کے لئے قربانی دینے والے وہ عظیم افراد ہیں جنہوں نے اپنا تن من دھن سب کچھ اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے وقف کردیا ہے۔ مذہب اسلام کی شمع جلانے والے اور ان کو ایندھن پہنچانے والے یہی افراد ہیں جو دن کی روشنی میں قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کرتے ہیں اور رات کی تاریکی میں بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہوکر ملت کے لئے آہ و زاری کرتے ہیں۔  خدا کے ان نیک بندوں نے دین اسلام کی جو خدمات انجام دی ہیں اس کا صلہ ہے کہ آج پورے برصغیر خصوصا اور پورے عالم میں عموما دین کی خدمت کرنے والے  بلا واسطہ یا بالواسطہ فیض اٹھانے والے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ وقت میں جب کہ دنیا کا تعلیمی نظام تیزی سے بدل رہا ہے اور ہمارے ملک کی تعلیمی پالیسی میں خاطر خواہ تبدیلی پیدا کردی گئی ہے، ان حالات سے نمٹنے کے لئے اور خود کو مین اسٹریم کا حصہ بنانے کے لئے ہمارے پاس  لائحہ عمل ہے۔؟

اگر بادی النظر میں دیکھا جائے تو اس سلسلہ میں کئی طبقے پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ ہے جو مدارس سے وابستہ نہیں ہے لیکن مدارس کے نظام پر کلام کرنے سے نہیں چوکتے ہیں، ان کی رائے میں مدارس کا نظام فرسودہ اور وقت سے کافی پیچھے چل رہا ہے اس لئے اس نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو خود مدارس سے وابستہ ہے اور وہ اس بات کو محسوس کرنے لگے ہیں کہ موجودہ وقت میں تعلیم کے ساتھ ڈگری کتنی اہم اور ضروری ہے، ایسے افراد نے اپنی جانب سے کچھ کوشش بھی کی ہے اور اس کے کچھ نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں لیکن ان کی تعداد آج بھی بہت مختصر ہے۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جو مدارس سے وابستہ ہے لیکن آج بھی وہ پرانی روایت پر قائم ہیں، وہ کسی بھی رد و بدل یا ترمیم کے قائل نہیں ہے۔   

یقینا ہمارے اسلاف و اکابرین نے مدارس کا جال بچھاکر امت محمدیہ پر جو احسان کیا ہے اس کا کوئی بدل نہیں ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ زمانہ اور وقت کے ساتھ ساتھ تقاضے بدل جاتے ہیں، اور شریعت محمدیہ کی یہ خاصیت ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے کے افراد کے لئے یکساں طور پر مفید اور نافع رہی ہے۔ کوئی دور ایسا نہیں آیا ہے اور نہ آئے گا جب شریعت پر عمل کرنا مشکل یا دشوار گزار تصور کیا جائے،  اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خدائی قانون ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے، اور اللہ نے اس دین کو قیامت تک کے لئے بھیجا ہے، پھر کیسے ممکن ہے کہ خالق کا بنایا ہوا اصول مخلوق کی فطرت کے مطابق نہ ہو۔ عہد ماضی میں سلاطین اسلام اور علماء اسلام نے قرآن و حدیث کے علاوہ دیگر علوم و فنون کو بھی اپنی توجہ کا مرکز بنایا تھا، اور ان کے چھوڑے ہوئے نقوش اور علوم آج بھی دنیا میں رائج ہیں اور دنیا ان سے مستفید ہورہی ہے،  آج بھی اگر ہم میدان عمل میں آجائیں اور خالق کی عطا کردہ تخلیقی صلاحیتوں کا درست استعمال کرنے لگ جائیں تو بعید نہیں کہ ہمارا ماضی دوبارہ لوٹ کر آجائے۔

مدارس اسلامیہ کے طلبہ کو یہ سمجھنا اور سمجھانا ضروری ہے کہ حصول علم کا مطلب کیا ہے اور دین کی خدمت کا دائرہ کار کیا ہے۔ مسلم معاشرہ میں ایک عام تصور ہے کہ مولانا صاحب مدرسہ میں کتابیں پڑھائیں گے یا پھر مسجد میں نمازیں پڑھائیں گے۔ ان دو کاموں کے علاوہ کوئی تیسرا کام طلبہ مدارس یا اساتذہ مدارس کے لئے معیوب سمجھا جاتا ہے بلکہ معاشرہ کی سوچ اور لوگوں کے طعن و تشنیع سے بچنے کے لئے بسا اوقات لوگ دو چار ہزار روپے ماہانہ پر مکتب پڑھانے کو تیار ہوجاتے ہیں لیکن تجارت یا کوئی دوسری ملازمت کی جانب راغب نہیں ہوتے ہیں۔ تعلیم و تعلم، درس و تدریس اور امامت و خطابت کے فضائل اپنی جگہ پر مسلم ہیں، ان میں کسی قسم کے شکوک وشبہات کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن اگر تمام علماء اور دین سے وابستہ افراد مدارس و مساجد کی چہار دیواری میں منحصر ہوجائیں گے تو مارکیٹ، شاپنگ مالز، سرکاری ادارے، پرائیویٹ کمپنیز یا دیگر این جی اوز سے وابستہ مسلم افراد کی دینی تعلیم کا کیا ہوگا۔ ملازمت پیشہ افراد جب اپنے ارد گرد نماز پڑھنے والے، قرآن کی تلاوت کرنے والے، دین کی باتیں کرنے والے، شرعی احکام کی پابندی کرنے والے افراد کو نہیں پائیں گے تو ان کی دینی زندگی کا کیا بنے گا۔ وقت نے ہمیں حالات کے ایسے کگار پر کھڑا کردیا ہے کہ اب کنویں کو پیاسے کے پاس جائے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔

ایک بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مدارس کے طلبہ کو اگر دیگر علوم کی جانب راغب کریں گے تو دین کی خدمت کون کرے گا؟ اگر مدارس کے طلبہ کالج اور یونیورسٹی کی ڈگریوں کے حامل بن جائیں گے تو پھر وہ مدارس کا رخ نہیں کریں گے۔ یا پھر یہ کہ مدارس سے پڑھ کر جانے والے طلبہ کرام اپنی شناخت اور بسا اوقات اپنی عرفی حیثیت بھی کھو دیتے ہیں۔ اس طرح کے اور کئی سوالات قائم کئے جاتے ہیں اور ایسے خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے جو بظاہر بہت معنی خیز ہوتے ہیں لیکن ان کی گہرائی میں کچھ نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ آج ایسے افراد کی کثرت ہے جو مدارس سے فراغت کے بعد مختلف عصری اداروں میں مکمل دینی شناخت کے ساتھ درس و تدریس سے وابستہ ہیں اور ان کی شباہت دوسروں کے لئے مثال بن کر ابھر رہی ہے۔ قوم کی قیادت و سیادت کے لئے قوم کے احوال و کوائف سے کما حقہ واقفیت ضروری ہے جس کے لئے دنیا کے مروجہ بازار اور دانش کدوں میں جائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے