ماہ ربیع الاول کے تناظر میں

 

ماہ ربیع الاول کے تناظر میں: امت مسلمہ علمی امت ہے جس پر علم و حکمت کا غلبہ ہے

مختلف انبیاء کرام علیھم الصلوۃ و السلام کو مختلف معجزات اور کمالات سے نوازا گیا ہے۔ ہرنبی کی اپنی منفرد شان ہے اور ہر کسی کو زمانے کے لحاظ سے ایسے معجزات عطا کئے گئے جس نے اس دور کے لوگوں کو عاجز کردیا ۔ اسی سلسلہ کو بیان کرتے ہوئے حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قاسمی فرماتے ہیں: اب اس پاک سلسلے کی سب سے آخری کڑی اور قصر نبوت کی سب سے آخری خشت جس نے ابدی طور پر قصر نبوت کو مکمل کردیا ہے، وہ حضرت خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ ﷺ کی پاک زندگی  ہے، اور آپ کے اقوال و اعمال اور مقامات و احوال پر نگاہ ڈالو، تو ذات اقدس کے احوال و آثار اور اعجازی کاروبار خود شہادت دیں گے کہ آپ کی ہر ہر شان میں علم و معرفت، ادراک و بصیرت، کشف و انجلا اور وقوف و  باخبری کی کار فرمائی ہے، جو چیز سامنے لاکر رکھی، علم و حکمت سے لبریز جو اصول پیش کئے وہ دانائیوں کا خزانہ ہر حکم خود ہی مستقل علم اور سینکڑوں علوم تک پہنچادینے کا راستہ جس سے علم کی کتنی ہی منزلیں دکھائی دیں۔  احکام کی جامعیت یہ کہ جہاں ان سے حاکمانہ جلال ٹپکتاہے اور جہاں مربیانہ مشقت ٹپکتی ہے، وہیں مدبرانہ حکمت بھی برس رہی ہے، جس  حکم شرعی کو دیکھو کسی نہ کسی علت و حکمت پر مبنی ہر نقل کے باطن میں عقل پوشیدہ اور ہر باطن کے غیب میں اسرار مکنون (پوشیدہ) ہیں، ہر جزئی میں کلی مستو اور ہر کلی ہزارہا جزئیات کا مخزن، پھر علل احکام میں وہ ہمہ گیری کہ قیامت تک نئے سے نئے پیش آنے والے حوادث ان سے باہر نہ ہوں اور جزئیات میں وہ تشخص کہ اس   کا دقیق سے دقیق پہلو بھی ممتاز اور اس قدر نمایاں کہ بے تکلف عمل کے دائرہ میں لایا جاسکے۔  جزئیات کو اصول سے وہ ارتباط کہ ہر جزئیہ کسی نہ کسی نوع سے منسلک، ہر نوع کسی نہ کسی جنس کے ماتحت اور ہر جنس کسی نہ کسی صفت الہیہ سے وابستہ اور کلیات میں وہ انبساط کہ جزئیات سے لبریز ہوکر نشر جزئیات کے لئے چھلکی پڑتی ہے”۔

حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قاسمی آگے لکھتے ہیں: اس آخری قوم اور خیر الامم امت اسلامیہ کو لیجیے، تو محسوس ہوگا کہ اس کی ذہنیت بھی اپنے مربی اعظم حضرت اعلم الاولین و الآخرین نبی اکرم ﷺ کی مبارک شان کا ایک ظل اور پر تو ہونے کی وجہ سے خالص علمی ذہنیت ہے کہ خود آپ کی غالب شان علم و ادراک اور بصیرت و معرفت تھی، جس قوم کا دستور العمل قرآن جیسا جامع اور "تبیانا لکل شئی” کتا ب ہو کیسے ممکن ہے کہ اس کی ذہنیت علم میں غرق نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ ظہور علم کے آلات دو ہی ہیں، زبان اور قلم سو ان دونوں کے لحاظ سے اس امت نے جن نادر اور غیبی علوم کا اکتشاف اور افشاء کیا ہے ہم مشاہدہ کی بناپر کہہ سکتے ہیں کہ یہ عملی امت علمی کمالاات میں امم سابقہ سے منزلوں آگے بھی ہے اور فائق بھی ہے”۔

علم کے میدان میں مسلمانوں کی کارکردگی

حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب قاسمی اس امت کے علمی کارناموں کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "قلم کو دیکھو تو کثرت تصانیف (بقول زرقانی صاحب مواہب) اس امت کی خصوصیت ہے۔ کتب خانے آباد ہی ان کی تصانیف سے ہیں، کسی علم اور فن کو نہ چھوڑا کہ اس میں بے شمار ذخیرے جمع نہ کئے ہوں، خلافت عباسیہ کے دور میں عراق کے عظیم الشان کتب خانے ، خلافت اندلس میں اسپین کے کتنے ہی مکتبے، حجاز و روم کی لائبریریاں، مصر کے بے شمار ذخیرے، ہندوستان کے ہزارہا کتب خانے اور دوسرے محروسہ ہائے اسلامیہ کے سینکڑوں علمی خزانے باوجودیکہ تباہ بھی ہوئے، دشمنوں کے ہتے بھی چڑھے، جلائے بھی گئے، کروڑہا کتابیں کیڑوں کی نذر بھی ہوئیں، عیسائی حکومتوں نے اپنی پوری طاقتوں سے پچاس برس کی مدت ان کے مٹانے اور نذر آتش کرانے مین صرف بھی کی (جیسا کہ اندلس میں ہوا)، فتنہ تاتار میں بغداد کا علمی ذخیرہ دجلہ میں بھی بہایا گیا، جس سے کئی دن اس کا پانی رکا رہا اور جب چلا تو گاڑھی روشنائی بن گیا اور مہینوں دواتوں میں استعمال کیا گیا ، اس سے دریا کو پاٹ کر سڑک بھی بنائی گئی، جس پر فوجیں اور گاڑیاں گزاری گئیں، یہ سب کچھ ہوا لیکن اس پر بھی جو ذخیرے آج موجود ہیں اور اب بھی علماء اسلام کی جان کاہیوں سے جو ہزارہا تصانیف منصہ شہود پر آتی جارہی ہیں وہ اس مقدار میں ہیں کہ یورپ و ایشیاء کے مطابع چھاپتے چھاپتے تھک گئے، مصر کی سلطنت طبع کرتی کرتی تنگ آگئی ہے مگر ابھی مصنفات کا عشر عشیر بھی پریس کے میدان میں نہیں پہنچ سکا ہے”۔

یہ اُس امت کا ماضی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خیر امت کے لقب سے ملقب فرمایا ہے۔ امت نے علم و عمل کے میدان میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جن کے سامنے یونان کا فلسفہ اور روم کی تہذیب و ثقافت پھینکی پڑگئی تھی۔ لیکن افسوس کہ آج اسی امت کو ناخواندہ امت قرار دیا جارہا ہے۔ جس امت کے علوم و معارف سے دنیا مستفید ہوئی آج وہ امت علم و معرفت کے میدان میں دوسروں کی محتاج بن گئی ہے۔

آج بارہ ربیع الاول ہے اور اس مہینہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ کائنات کے سرور سرکار دو جہاں اسی مہینہ میں روئے زمین پر جلوہ گر ہوئے تھے۔ آپ ﷺ کی ولادت باسعادت اسی مہینہ میں ہے، اگرچہ تاریخ ولادت میں مورخین کے درمیان اختلاف ہے لیکن ماہ مبارک متعین ہے۔ اس مہینہ میں مسلمان عموما سیرت رسول اکرم ﷺ کی مجالس و محافل سجاتے ہیں، سیرت کے موضوع پر جلسے جلوس ہوتے ہیں، مساجد و مدارس میں سیرت کے موضوع پر بیانات کا تسلسل قائم ہوتا ہے۔ سیرت رسول ایسا وسیع موضوع ہے جس کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا ہے، آپ کی زندگی کا ہر گوشہ اور ہر پہلو مکمل ہے۔ آپ ﷺ کی سیرت کا ایک  اہم موضوع "علم” بھی ہے کیونکہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: انما بعثت معلما” میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں۔ موجودہ وقت میں سیرت رسول ﷺ کے اس بنیادی اور اہم موضوع کی جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور جس زور و شور سے اس مہینہ میں مسلمان سیرت رسول ﷺ پر بیانات کرتے اور کراتے ہیں، ضرورت ہے اور نبی ﷺ سے محبت کا تقاضا ہے کہ یہ جوش و ولولہ مستقل باقی رہے۔ سیرت رسول ﷺ کا ایک اہم پہلو جس سے آج مسلمان دور نظر آرہے ہیں اس جانب بھی بھر پور توجہ دیں اور اپنی تقاریر و تحریر میں  اس کی اہمیت و افادیت کو عوام کےسامنے بیان کرے تاکہ مستقبل کے لئے مضبوط لائحہ عمل طے کیا جاسکے۔

 

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے