ماب لنچنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات

ماب لنچنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات

اس وقت پورے ملک میں ایک عجیب کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ ایک عجیب سماں بندھ گیا ہے۔ اب ہمارے ملک ہندوستان میں ہر چیز کو مذہب کے نظریہ سے دیکھنے کا عمل اس قدر پھیل گیا ہے کہ عصمت دری کے مجرم، معصوموں کے قاتل اور چور اچکوں کو بھی مذہبی قسم کے افراد کی حمایت حاصل ہوجاتی ہے۔ایسے افراد کی حمایت میں لوگ سڑک جام کرتے نظر آتے ہیں۔ کھٹوعہ کیس ہو یا راجستھان میں قتل کا معاملہ ہو یا پھر حالیہ اندور میں پیش آئے واقعات نے اس بات کو سوچنے سمجھنے اور سنجیدگی سے غور کرنے کو ضروری قرار دے دیا ہے۔ مذکورہ تمام واقعات اور دیگر واقعات میں مشترکہ پہلو یہ ہے کہ تمام تر شواہد کے باوجود عوام الناس کی بھیڑ ان خونی درندوں اور انسان نما وحشی جانوروں کی حمایت میں کھڑی نظر آتی ہے جنہوں نے اپنے کرتوت سے انسانیت کو شرمسار کیا ہے۔ یہ اب واضح ہے کہ ماب لنچنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پس پشت محض سیاسی کارندے نہیں بلکہ وہ تمام لوگ ہیں جو ان کی حمایت میں سڑکوں پر اتر کر ان کے جرم کی پردہ پوشی یا تائید کرتے ہیں۔

mob lynching ky badhty waqi'at aur mazahib ki bunyadi ta'leemat
ماب لنچنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات


دنیاوی مذاہب کی بنیادی تعلیمات

دنیا میں کوئی بھی مذہب تشدد، عدم رواداری اور ظلم و زیادتی کی تلقین اور تعلیم نہیں دیتا ہے۔ مذہبی تعلیم امن و شانتی اور محبت و بھائی چارگی کی دعوت دیتی ہے۔ جو لوگ حقیقتا مذہبی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں ان کے نزدیک انسانیت اور انسان سب سے اہم تصور کئے جاتے ہیں۔ انسان تو انسان دیگر مخلوقات خدا بھی ان کے سائے میں خود کو محفوظ اور پُر امن سمجھتے ہیں۔ مذہبی تعلیمات میں عبادت و ریاضت کے بعد سب سے زیادہ حقوق العباد کو اہمیت حاصل ہے۔ تمام مذاہب اپنے متبعین کو اس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ دوسروں پر ظلم نہ کرو، ناحق طریقہ سے دوسرے کا مال نہ کھاؤ، ایک دوسرے کے ساتھ بُرائی سے پیش نہ آؤ، دوسروں کی عزت و تکریم کرو، دیگر مذاہب کا احترام کرو، مذہبی افراد (خواہ وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں) ان کی توقیر کرو، مذہبی کتابوں کے تقدس کو پامال نہ کرو، کسی کی عبادت گاہ کو نقصان نہ پہنچاؤ، غرضیکہ مذہبی تعلیمات انسانیت نوازی اور انسان کی بھلائی کے لئے اپنے پیروکاروں کو ہمیشہ تلقین کرتی ہے۔

کیا مذہب ماب لنچنگ کی اجازت دیتا ہے

زنا، چوری، قتل و غارت گری، لوٹ مار اور فتنہ فساد کسی بھی مذہب میں مستحسن یا قابل تعریف عمل نہیں رہے ہیں، بلکہ تمام مذاہب نے ان کی قباحت کو بیان کیا ہے۔ ان کی وجہ سے معاشرہ میں درآنے والے خطرات و خدشات سے عوام کو آگاہ کیا ہے۔ کوئی بھی مذہب ایسی تعلیم کی اجازت نہیں دیتا ہے جو معاشرہ اور سماج میں پھوٹ کا باعث ہو، جس کی وجہ سے دیگر انسان کے حقوق تلف ہوتے ہو، بے جا کسی کو ستانے اور تکلیف دینے کو مذہبی نقطہ نظر سے گناہ عظیم سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں مذہب اسلام نے قرآن مجید میں واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے: "جس نے کسی کو کسی شخص کے قتل یا زمین میں فساد مچانے کے بغیر قتل کردیا ، گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا، اور جس نے ایک جان کی زندگی بچائی، گویا اس نے پوری انسانیت کو بچایا”۔ اس سے یہ بات ظاہر و باہر ہے کہ انسانی جان کی قیمت مذہب اسلام میں کیا ہے۔ ایک جان کو تلف کرنے کے جرم کو ساری انسانیت کو تلف کرنے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔  

ہمارا ملک ہندوستان کئی مذاہب اور مذہبی اشخاص کی جائے پیدائش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کو دیوی دیوتاؤں اور صوفی سنتوں کا دیش بھی کہا جاتا ہے۔دنیا میں پھیلے ہوئے کئی مذاہب ایسے ہیں جن کی بنیاد ہندوستان میں رکھی گئی اور یہاں کے باشندوں نے اولا اس پر عمل کیا اور اس مذہب کی تبلیغ و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک "بودھ” مذہب کی شروعات گوتم بودھ نے ہندوستان میں کی اور آج بھی ان کا سب سے مقدس مقام "گیا” بہار میں واقع ہے۔ بودھ مذہب کی تعلیمات میں اہم تعلیم انسانیت نوازی ہے۔ سکھ مذہب کی شروعات گرونانک جی نے یہیں کی سرزمین سے کیا ہے، اور گرونانک جی نے اپنے ماننے والوں کو انسانیت نوازی کا جو درس دیا تھا وہ آج بھی آپ کی تعلیمات کا روشن حصہ ہیں۔ علاوہ ازیں، ویدک اور نان ویدک مذاہب میں کئی ایک ایسے ہیں جن کی شروعات اس زمین سے ہوئی ہے۔ ان مذاہب کی تعلیمات اور ان کے پیشروؤں کی تعلیمات عدل و انصاف، اخوت و بھائی چارگی، امن و آشتی، پیار و محبت جیسے اہم موضوعات پر مشتمل ہیں۔ ان کی عبادت گاہوں میں آج جو انہیں تعلیم دی جاتی ہے ان کا لب لباب عبادت کے بعد یہی ہوتا ہے۔ لیکن گزشتہ چند سالوں میں جو واقعات رونما ہوئے ہیں وہ کسی بھی طرح کسی مذہب کی تعلیم کا حصہ نہیں ہے۔ اگر ان واقعات کو مذہب کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ مذہب کی توہین کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

ماب لنچنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کو اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ وہ افراد ہیں جنہیں مذہب کے نام پر غلط تعلیمات دی جارہی ہیں۔ جن کے افکار و خیالات کو مذہبی پاکیزگی سے دھونے کے بجائے نفرت و عداوت کی گندگی سے آلودہ کیا جارہا ہے۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان کسی دوسرے انسان کی جان کا دشمن بن جائے اور اسے موت کے گھاٹ اتارنے کی ہر ممکن سعی کرے۔ کوئی بھی مذہب یہ نہیں کہتا ہے کہ دیگر مذاہب کے افراد کو موت کے منھ میں ڈال دیا جائے۔ ان کے وجود سے نفرت کی جائے اور انہیں دیکھنے کےبعد چند اوباشوں کو لے کر انہیں زد و کوب کیا جائے۔ ماب لنچنگ کے جو واقعات اخبارات کی زینت بن رہے ہیں ان میں یہ بات عام ہے کہ ایک مخصوص فرقہ کے افراد کو نفرت و تعصب  کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس جرم میں ملوث وہ  لوگ بھی ہیں جن کی سرشت اور خصلت میں بُرائی اور تشدد ہے لیکن قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ اب اس میں ایسے افراد بھی شامل ہورہے ہیں جو کبھی انسانیت کے علمبردار اور سیکولرازم کے نام لیوا ہوا کرتے تھے۔ جن کو عوام الناس کے حلقہ میں انسانیت نواز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ جو ہمدردی و غمگساری میں اچھا نام رکھا کرتے تھے، لیکن معلوم نہیں کیوں؟ ایسے سنجیدہ قسم کے افراد بھی اب وحشی و درندے کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

پے در پے پیش آنے والے یہ واقعات ہمارے ملک اور ہماری تہذیب و ثقافت پر بدنما داغ ہیں۔ جس ملک کو صوفی سنتوں اور چشتی و گرونانک کی نسبت حاصل ہو، اس ملک میں ایسے واقعات یقینا قابل افسوس ہے۔ ہمارے ملک کے برسراقتدار افراد کو یہ سوچنا اور سمجھنا ہوگا کہ ہمارے ملک کی شناخت تمام عالَم میں امن و آشتی اور پیار و محبت سے ہے، اگر ماب لنچنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قدغن نہیں لگائی گئی تو نہ صرف یہ کہ ملک کی بدنامی ہوگی بلکہ وہ لوگ اور مذہب بھی زد میں آئیں گے جن کے خود ساختہ، نام نہاد نام لیوا یہ کالے کرتوت انجام دے رہے ہیں۔ انسان میں اگر انسانیت کا عنصر ختم ہوجائے تو پھر اس میں اور جانوروں میں تفاوت نہیں ہوتا ہے۔ انسان کی اصل شناخت اس کے کارناموں اور اچھے اخلاق سے ہوتی ہے۔ دنیا ہمیشہ ان لوگوں کو یاد رکھتی  ہے جو دوسروں کا بھلا کرتے ہیں اور انسان دوستی کو اپنا شغل بنائے رہتے ہیں۔ موجودہ دور میں ہم ہندوستان کے جن بہادروں اور سپوتوں کا ذکر خیر کرتے ہیں اور ان کے کارناموں سے اپنے بچوں کو متعارف کراتے ہیں یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نفرت کے خلاف جنگ کی تھی اور کمزوروں کو انصاف دلانے کے لئے ہمیشہ کوشاں رہا کرتے تھے۔ اس کے برعکس جنہوں نے معاشرہ اور سماج میں بُرائی پھیلانے کی کوشش کی اور لوگوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ہے انہیں تاریخ میں کبھی اچھے ناموں سے یاد نہیں کیا جاتا ہے۔ ان کے کالے کرتوتوں سے اپنی نسلوں کو ڈرایا جاتا ہے اور انہیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ جو لوگ ایسے کام کرکے دنیا سے جاتے ہیں وہ کبھی خوش نہیں رہتے ہیں اور ان کی نحوست سے دیگر افراد بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ایک خوشحال معاشرہ کی تشکیل کے لئے عدل و انصاف کا بول بالا ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر کوئی بھی معاشرہ خوشحال اور ترقی یافتہ نہیں ہوسکتا ہے۔  

Related Posts

0 thoughts on “ماب لنچنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے