لوگ جیسے بھی ہوں رکھیےحسنِ ظن، حُسنِ سُلُوک

 

لوگ جیسے بھی ہوں رکھیےحسنِ ظن، حُسنِ سُلُوک

 انسانی تعلقات کی بناء اور اس کا بگاڑ دو بنیادی چیزوں پر منحصر ہے۔ ایک حسن ظن دوسرا سوء ظن۔ حسن ظن سے تعلقات استوار ہوتے ہیں، باہمی الفت و محبت  پروان چڑھتے ہیں، روابط مستحکم ہوتے ہیں، رشتے مضبوط ہوتے ہیں، زندگی پُرسکون ہوتی اور  معاشرہ پُر امن ہوتا ہے۔ جبکہ سوء ظن سے تعلقات میں دراڑ پیدا ہوتا ہے، انتشار و خلفشار جنم لیتے ہیں، رشتے کمزور ہوتے ہیں، ذہنی الجھاؤ پیدا ہوتا ہے اور معاشرہ بدامنی کا شکار ہو جاتا ہے۔

اسلامی تعلیمات میں جن چیزوں کا حکم دیا گیا ہے اور جن چیزوں سے روکا گیا ہے ان میں حسن ظن اور سوء ظن بھی ہے؛ بلکہ اسے بہت شدت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ معاشرہ اور سماج میں، بلکہ پوری امت میں اتحاد و اتفاق کی عمارت کو مضبوط کرنے کے لیے یہ وہ ستون ہے جس کے بغیر یہ عمارت کمزور ہے جو کسی بھی وقت زمین بوس ہوسکتی ہے۔ نیز متحدہ قیادت کے لیے بھی حسن ظن کو اپنانا اور سوء ظن سے بچنا ضروری ہے، اس لیے کہ آپ اپنے قائد و راہنما کی اسی وقت پیروی کرسکتے ہیں یا اس کی قیادت کو تسلیم کرسکتے ہیں جب آپ کو اپنے قائد کے متعلق حسن ظن ہو۔ اور اگر سوء ظن میں مبتلا ہوگئے تو آپ توہمات کے حصار میں گھر جائیں گے۔ آپ کی نگاہ میں ان کی شخصیت مشکوک ہو جائے گی، اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے گا جسے قرآن کریم میں بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔  ”اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو،  یقین مانو کہ بعض گمان گناہ ہیں۔اور بھید نہ ٹٹولا کرو، اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔”  (الحجرات، آیت نمبر 12 پ 26) کثرت گمان، بدگمانی کا سبب ہے اور بدگمانی تجسّس اور غیبت میں مبتلا کر دیتی ہے۔

 یہ (حسن ظن اور سوء ظن)  انسانی سوچ، فکر، تخیل، تصور اور معلومات کے اعتبار سے انسانی اذہان میں پیدا ہوتے ہیں۔ اگر آپ مثبت سوچ رکھتے ہیں یا آپ کو کسی بھی چیز کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرنے کا جذبہ ہے تو آپ حسن ظن جیسی صفات حمیدہ سے متصف ہیں۔ اور اگر آپ منفی خیال کے حامل ہیں یا آپ ناقص معلومات پر ہی اپنی رائے کا اظہار کرنے لگتے ہیں تو آپ سوء ظن کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ اگر ایسا ہے تو حتی الامکان اسے ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر آپ کا سامنا آپ کے کسی قریبی ساتھی سے ہوگیا لیکن اس نے آپ کی جانب توجہ نہیں دی اور آپ کو نظر انداز کر دیا، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ کو نظر انداز کررہا ہے  یا وہ احسان فراموش بن گیا ہے؛ بلکہ ہوسکتا ہے وہ کسی ذہنی الجھن میں مبتلا ہو یا کسی اہم کام میں مصروف ہو۔یہ انسانی فطرت ہے کہ اگر وہ کسی کام میں یا کسی ذہنی سوچ میں ہو تو گرد و پیش سے بے خبر ہوجاتا ہے اور اپنے آس پاس کی چیزوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی نظر انداز کردیتا ہے۔

 وساوس اور خیالات ذہن میں آتے رہتے ہیں اس سے بچنا ناممکن ہے۔ لیکن ان وساوس اور خیالات کے بہاؤ میں بہہ کر اپنی رائے قائم کرنا اور اس بنیاد پر غلط فہمیوں کی عمارت تعمیر کرنا اسلامی روح کے خلاف ہے۔ کسی کے متعلق رائے زنی کرنے یا اپنی رائے بنانے سے پہلے معاملہ کی تہہ تک جانا ضروری ہے تاکہ بلا وجہ گناہ بے لذت کے شکار نہ ہوجائیں۔ سورہ حجرات میں جہاں ظن اور سوء ظن سے بچنے کا حکم دیا گیا ہےوہیں اس بات کا بھی حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی خبر پہنچے تو پہلےاس کی تصدیق کریں۔  

 زندگانی کا بنا لیجے چلن حُسنِ سُلُوک۔۔۔لوگ جیسے بھی ہوں رکھیے حسنِ ظن، حُسنِ سُلُوک

 

Related Posts

0 thoughts on “لوگ جیسے بھی ہوں رکھیےحسنِ ظن، حُسنِ سُلُوک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے