لوگ جیسے بھی ہوں رکھیےحسنِ ظن، حُسنِ سُلُوک
اسلامی تعلیمات میں جن چیزوں کا حکم دیا گیا ہے اور جن چیزوں سے روکا گیا ہے ان میں حسن ظن اور سوء ظن بھی ہے؛ بلکہ اسے بہت شدت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے کہ معاشرہ اور سماج میں، بلکہ پوری امت میں اتحاد و اتفاق کی عمارت کو مضبوط کرنے کے لیے یہ وہ ستون ہے جس کے بغیر یہ عمارت کمزور ہے جو کسی بھی وقت زمین بوس ہوسکتی ہے۔ نیز متحدہ قیادت کے لیے بھی حسن ظن کو اپنانا اور سوء ظن سے بچنا ضروری ہے، اس لیے کہ آپ اپنے قائد و راہنما کی اسی وقت پیروی کرسکتے ہیں یا اس کی قیادت کو تسلیم کرسکتے ہیں جب آپ کو اپنے قائد کے متعلق حسن ظن ہو۔ اور اگر سوء ظن میں مبتلا ہوگئے تو آپ توہمات کے حصار میں گھر جائیں گے۔ آپ کی نگاہ میں ان کی شخصیت مشکوک ہو جائے گی، اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے گا جسے قرآن کریم میں بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ”اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، یقین مانو کہ بعض گمان گناہ ہیں۔اور بھید نہ ٹٹولا کرو، اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔” (الحجرات، آیت نمبر 12 پ 26) کثرت گمان، بدگمانی کا سبب ہے اور بدگمانی تجسّس اور غیبت میں مبتلا کر دیتی ہے۔
وساوس اور خیالات ذہن میں آتے رہتے ہیں اس سے بچنا ناممکن ہے۔ لیکن ان وساوس اور خیالات کے بہاؤ میں بہہ کر اپنی رائے قائم کرنا اور اس بنیاد پر غلط فہمیوں کی عمارت تعمیر کرنا اسلامی روح کے خلاف ہے۔ کسی کے متعلق رائے زنی کرنے یا اپنی رائے بنانے سے پہلے معاملہ کی تہہ تک جانا ضروری ہے تاکہ بلا وجہ گناہ بے لذت کے شکار نہ ہوجائیں۔ سورہ حجرات میں جہاں ظن اور سوء ظن سے بچنے کا حکم دیا گیا ہےوہیں اس بات کا بھی حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئی خبر پہنچے تو پہلےاس کی تصدیق کریں۔
جزاک اللہ خیرا
شکریہ
This comment has been removed by the author.
ماشاءاللہ
مضمون واقعی خوبصورت اور عمدہ ہے،
دلکش پیرایہ بیان،
لفظ لفظ موتی سطر سطر مالا
جزاک اللہ خیرا
سچ ہے تعمیری کام کے لئے بنیادی چیز ہے، جزاک اللہ خیراً
ہمت افزائی کا شکریہ