لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

 

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

1947 پندرہ اگست کو جب ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اس ملک میں سات دہائیوں بعد ایسا وقت بھی آئے گا، جب اس ملک میں صدیوں سے رہنے والوں پر زمین تنگ کردی جائے گی۔ ان کی شہریت اور ان کی محبت کو کٹہرے میں لاکر کھڑا کردیا جائے گا۔ ان کے حقوق کو یکے بعد دیگرے چھیننے کی کوشش کی جائے گی۔ مخصوص طبقے کے مذہبی معاملات میں خرد برد کیا جائے گا، حالانکہ جمہوریت کے زیر سایہ عدل و مساوات اور انصاف و برابری کے تمام پلڑوں کو برابر رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے ایسے دستور کو وضع کیا گیا تھا جس میں ہر فرد، ہر مذہب، ہر قبیلہ اور حتی کہ علاقائی رسم و رواج کو بھی ایک الگ مقام اور شناخت عطا کی گئی تھی۔ دستور کو بنانے والوں نے ڈیڑھ سو سالہ قربانی اور قربانی دینے والوں اور جنگ آزادی میں جام شہادت نوش کرنے والوں کے جذبات کا بھر پور خیال رکھا تھا۔ ایک ایسے ہندوستان اور ملک کی آرزو اور تمنا کی گئی تھی، جس میں انسان کی شناخت مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر ہو۔ ایسا ملک جہاں ہر مذہب کو یکساں آزادی حاصل ہو، جہاں مذہب کی کثرت کو ملک کی خوبصورتی اور چمن کی رنگا رنگی کے روپ میں دیکھا جاتا ہو، جہاں ہر کوئی اپنے مذہب پر عمل کرنے میں مکمل آزاد ہو۔ لیکن آزاد ہندوستان کے نئے حکمراں نے خوابوں کے ان تمام گھروندوں کو مسمار کردیا جن کی خاطر ہندوستان کے سپوتوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔

lambi hai gham ki sham magar sham hi to hai
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے


افسوس کہ شہداء جنگ آزادی کے خوابوں کی تعبیر ادھوری رہ گئی۔ سارے سپنے ٹوٹ کر بکھر گئے۔ آرزؤوں کا خون ہوگیا۔ گنگا جمنی تہذیب کے درمیان ایسا خلا پیدا ہوگیا جس کے ختم ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔ انسان انسان کا دشمن اور جان لیوا بن گیا۔ انسانیت کے تمام حدود و قیودات پامال کردیئے گئے۔ عدل و انصاف کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ سب کچھ ہمارے ملک میں روا اور جائز تصورکیا جانے لگا جو انسانی معاشرہ اور تہذیب و تمدن کے حامل افراد کے لئے باعث شرم اور وجہ ننگ ہو۔ تشدد اور عدم رواداری کو سند جواز فراہم کیا گیا اور باشندگان ملک کو خوف و ہراس کی اس بھٹی میں جھونک دیا گیا جو تاریخ ہندوستان کا سیاہ ترین باب بنتا جارہا ہے۔ ایک نئے ملک اور نئے ہندوستان کو پیدا کیا جارہا ہے، جہاں دستوری نظام نہیں خونی بھیڑ کا نظام نافذ العمل ہوگا۔ ایسا ملک جہاں انسانی جان اپنی تمام تر تقدسات کے باوجود بے کار اور بے وزن ہوجائے گی۔ جہاں فیصلے مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر کئے جائیں گے۔

ترمیم کے نام پر ہمارے ملک ہندوستان کے نئے حکمراں ایسے قوانین وضع کررہے ہیں جس نے ملک میں بسنے والوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہے۔  پہلے (سی اے اے) اور اب کسان بل نے ملک میں عدم استحکام اور سراسیمگی کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ حکومت نے اس وقت بھی عوامی احتجاج کو نظر انداز کردیا تھا، جب ملک بھر میں "سی اے اے” کے خلاف احتجاج ہوا تھا۔ اپوزیشن اور دانشوران کی دانشمندانہ باتیں اکثریت کے زعم  میں ردی کے ٹوکرے میں ڈال دی گئی تھی۔ اب بھی یہی صورتحال ہے، دہلی کے اطراف میں کسان مہینوں سے دھرنے پر بیٹھے ہیں، لیکن ان کی مانگ تو درکنار ان کی سننے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ طلبہ یونین کے احتجاجات اپنی معنویت کھو چکے ہیں۔کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ پر سنگین الزامات لگا کر ان کے کیریئر کو تباہ و برباد کرنے کی سعی جاری ہے۔  اور سب سے زیادہ قابل افسوس اور رنج کی بات یہ ہے کہ احتجاج کرنے والوں کو مختلف قسم کے الزامات کے تحت مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ بدنام کیا جارہا  ہے۔ ان کے احتجاج کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کی ذاتیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ صنف نازک پر نازیبا اور بھونڈے تبصرے کئے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ وہ لوگ کررہے ہیں جو ایک مخصوص سیاسی ذہنیت کے حامل اور نفرت کے پجاری ہیں۔

جمہوریت کے اس چمن کو داغدار کرنے میں وہ تمام شعبے جات شامل ہیں جو کبھی جمہوریت کی بقا کے ضامن سمجھے جاتے تھے۔ سابق چیف جسٹس نے یہ کہہ کر عدالت میں جانے سے انکار کردیا کہ وہاں انصاف نہیں ملتا ہے۔ موجودہ چیف جسٹس نے پولس کسٹڈی میں ہورہے انسانیت سوز مظالم کو سب سے زیادہ مہلک اور خطرناک گردانا ہے۔ ہائی کورٹ کے جج کا صرف اس لئے راتوں رات تبادلہ ہوجاتا ہے کہ انہوں نے اشتعال انگیزی کرنے والے لوگوں پر ایف آئی آردرج  کرنے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ کا وکیل ایک مخصوص فرقہ کو سر عام گولی مارنے اور عوام کو ان کے خلاف اکسانے کا کام کرتا ہے۔ حکومت میں بنے وزیر اپنے حامیوں کے ذریعہ گولی مارنے کی بات کرتے ہیں، لیکن کوئی ان سے سوال کرنے کی جسارت نہیں کرتا ہے۔ میڈیا غیر ضروری باتوں کو مدعا بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہے اور دوسری جانب عوام کا خون سڑکوں پر بکھرا پڑا ہے لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ایسے افراد کو ہیرو بناکر پیش کرنے کی کوشش جاری ہے جن کی سرشت میں نفرت، عداوت، تعصب اور انارکی کے سوا  کچھ بھی نہیں ہے۔زہریلی بولیاں بولنے والوں کو مختلف طریقوں سے بڑھاوا دیا جاتا ہے تاکہ ملک کے ماحول میں کدورت کا سماں بندھا رہے۔   

ملک کی موجودہ صورتحال نے باشندگان ملک کو خوف و ہراس میں قید کردیا ہے۔ ایک جانب وہ لوگ ہیں جو تمام طرح کی بندشوں سے آزاد ہے، جن کے لئے دستور کوئی معنی نہیں رکھتا ہے۔ جو ملک کے دستور کو اپنے پاؤں تلے روندنے پر تُلے ہیں، لیکن ان بے لگام اور نفرت کے پجاریوں پر لگام کسنے والا کوئی نہیں ہے۔ جو دستور کے محافظ تھے وہ ان کے در پر حاضری دینے لگے ہیں۔ جنہوں نے دستور کے حفاظت کی قسمیں کھائی تھی، وہ دستور شکن بنے دندناتے پھر رہے ہیں۔ اور دوسری جانب وہ لوگ ہیں جن میں انصاف کی رمق باقی ہے۔ جو عدم تشدد اور امن و شانتی کے خوگر ہیں۔ جو دستور ہند کو اپنی زندگی کا دستور العمل گردانتے ہیں، اور جو دستور کے تحفظ اور اس کی بقا کے لئے سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرتے ہیں، لیکن یہ طبقہ اس قدر کمزور کردیا گیا ہے کہ ان کی صدا کوئی سننے والا نہیں ہے۔

نہرو و آزاد کےا س دیش میں امن کے گیت گانے والوں کو پابند سلاسل کیا جارہا ہے۔ پھولوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں پر غداری کا مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ دستور کی حفاظت کے لئے احتجاج کرنے والوں کو قید و بند کی صعوبتیں اٹھانی پڑرہی ہیں۔ اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کو ناجائز مقدمات میں پھنساکر ان کی زندگیوں کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔ جمہوریت کے اس چمن میں احتجاج کرنے والوں کی جائیدادیں ضبط کی جارہی ہے۔یونیورسٹی کے اندر گھس کر طلبہ کو مارا پیٹا جارہا ہے۔ غنڈوں کی ٹولیاں یونیورسٹی کے طلبہ کو تشدد کا نشانہ بناکر بآسانی نکل جاتی ہے لیکن ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی ہے۔ علمی اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔  

ان تمام حادثات و واقعات کے باوجود ہمیں جشن آزادی منانا ہے۔ ان نامساعد حالات میں بھی ہمیں آزادی کے گیت گنگنانے ہیں۔مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے۔ ان کی قربانیوں کو یاد کرکے انہیں تاریخ ہند کا ہیرو اور مجاہد قرار دینا ہے۔ نوجوان نسل کو یہ باور کرانا ہے کہ ان کے آباء و اجداد نے اس چمن کی آبیاری کے لئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا تھا۔پھانسی کے پھندوں کو ہنستے کھیلتے چوم کر اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی تھی۔ یہ وہ تاریخی حقائق ہیں جو گردش ایام کے بدلنے اور چند ناعاقبت اندیش افراد کی متعصبانہ روش سے مٹائے نہیں جاسکتے ہیں۔ تاریخ لکھی نہیں جاتی ہے بلکہ تاریخ بنائی جاتی ہے، ان وقتی تھپیڑوں اور پانی کے بلبلوں سے تاریخ مٹائی نہیں جاسکتی ہے۔  

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہےغم کی شام مگر شام ہی تو ہے

یہ وقت بھی گزر جائے گا، اور آج جو مسند نشیں ہیں ان کی کرسیاں بھی چھن جائے گی، ظلم و ستم اور عدم رواداری کا یہ بادل ضرور چھٹے گا اور وہ وقت یقینًا آئے گا، جس کی تمنا آزادی ہند کے متوالوں نے کیا تھا۔ جس کی آرزو میں بالاکوٹ کی پہاڑی، شاملی کا میدان، صادق پور کی لڑائی اور لال قلعہ کی سرخ دیواریں انسانی سروں سے سجائی گئی تھی۔ خدا کی اس زمین پر وہ لوگ زیادہ دنوں تک کامیاب نہیں ہوتے ہیں جو دوسروں کا حق چھین کر اپنی "انا” کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ جشن آزادی کے اس موقع پر ہم اپنے بچوں کو اور اپنی نوجوان نسل کو اپنے آباء و اجداد کی قربانیوں سے واقف کرائیں، اور انہیں بتائیں کہ آزادی کی لڑائی 1757 میں ہم نے شروع کی تھی اور اخیر تک ہم اس قافلہ کے سپہ سالار اور قائد رہے تھے۔  

Related Posts

0 thoughts on “لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے