لباس کے انتخاب میں شرعی حدود کی پاسداری

لباس کے انتخاب میں شرعی حدود کی پاسداری

موجودہ وقت میں بعض چیزوں کے انتخاب میں ہم ایسی وجوہات اور حیلے تلاش کرنے کی بے جا سعی کرتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے اور شریعت کی نظر میں وہ چیزیں صرف معیوب نہیں بلکہ بسا اوقات باعث گناہ بھی ہوتی ہے۔ کھانے، پینے، رہنے سہنے اور حتی کہ ضروریات زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں مذہب اسلام کی جانب سے راہنمائی اور رہبری نہیں کی گئی ہے۔ مذہب اسلام میں بیان کردہ احکامات اور اصول و ضوابط صرف مکلف اور بڑی عمر کے حضرات کے لئے نہیں ہے بلکہ نوزائیدہ اور شیر خوار بچہ سے لے کر ارذل عمر کو پہنچنے والے بوڑھے تمام کے لئے واضح اور صاف ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ نوجوان اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کے لباس کے انتخاب میں شرعی حدود کی پاسداری نہیں برتی جاتی ہے بلکہ ایسے لباس کا انتخاب کیا جاتا ہے جو کسی بھی طرح شرعی حدود اربعہ میں شامل نہیں ہوتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کی ضد اور پیار محبت میں لباس کے انتخاب میں شرعی حدود کی پاسداری نہیں کرتے ہیں۔ بچے بچیوں کو باریک اور تنگ لباس پہنانے کو ترجیح دیتے ہیں اور جدید طرز کے عجیب و غریب کپڑے، جن پر لباس کی تعریف تو مناسب نہیں لگتی ہے البتہ انہیں چیتھڑوں سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، ایسے پوشاک سے بچوں کو آراستہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چھوٹی عمر کے بچے اور بچیاں یقینا شریعت مطہرہ کی نظر میں غیر مکلف ہیں لیکن والدین غیر مکلف نہیں ہے۔ لیکن ان عمر کی بھی تحدید کی گئی ہے کہ سات سال کی بچی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنا سر کھلا رکھے اسی طرح سات سال کے بچہ کے لئے حکم دیا گیا ہے کہ اسے نماز کا پابند بنایا جائے۔

لباس کے انتخاب میں شرعی حدود کی پاسداری کیا ہے

اللہ تعالی نے نسل انسانی کو بے شمار فضائل و مناقب سے نوازا ہے اور انہیں اشرف المخلوقات بناکر دنیا میں مبعوث فرمایا ہے۔ انسان اللہ تعالی کی وہ مخلوق ہے جسے رب ذو الجلال نے اپنا خلیفہ بناکر روئے زمین پر اتارا ہے تاکہ وہ مالک دو جہاں کی حمد و ثناء بیان کرے اور اس کے بتائے ہوئے راستے کو منتخب کرکے دین و دنیا کی سعادت و کامرانی حاصل کرے۔ لباس بھی ان چند امتیازی اوصاف میں سے ہے؛ کیونکہ نسل انسانی کے سوا اور کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جسے لباس جیسی عظیم نعمت حاصل ہو۔ لباس کے متعلق اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: "اے اولاد آدم: ہم نے تمہارے لئے لباس فراہم کیا ہے، جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتا ہے اور زینت کا ذریعہ ہے”۔ اس آیت کی تفسیر میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں: "گویا لباس کا بنیادی طور پر دو مقصد ہے، اولین مقصد جسم کے قابل ستر حصہ کو چھپانا ہے، اگر کوئی لباس اس مقصد کو پورا نہ کرے، اتنا باریک ہو کہ جسم نظر آجائے، اتنا چست ہو کہ جسم کی بناوٹ نمایاں ہوجائے، ایسا ادھورا ہوکہ جسم کے بہت سے حصے نظر آتے رہیں، تو یہ لباس حقیقت میں لباس نہیں ہے، لباس کا دوسرا مقصد زینت و آرائش بھی ہے، البتہ اس سلسلہ میں شریعت میں مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق کیا گیا ہے، عورتیں ریشم اور زعفرانی رنگ کے کپڑے استعمال کرسکتی ہیں، مردوں کے لئے ان کی ممانعت ہے”۔ قرآن مجید میں جہاں یہ آیت مذکور ہے اس سے قبل اللہ تعالی نے حضرت آدم اور حضرت حوا کے واقعہ کو بیان فرمایا ہے کہ کس طرح شیطان نے ان کو جنت میں بہکایا اور انہیں آزمائش میں مبتلا کردیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے تو انہیں جنت سے نکالا گیا اور اس حال میں کہ ان کے بدن سے  لباس کو اتار لیا گیا تھا، شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے اور اس نے سب سے پہلے انسانوں کو ایسے کام میں مبتلا کیا جس کی وجہ سے انسان میں موجود شرافت و کرامت اور حیا و پاکدامنی کا مادہ زخمی ہوا۔ اور رفتہ رفتہ جب شیطان کی گرفت مضبوط ہوگئی تو اس نے ہر دور اور ہر زمانے میں لوگوں کے اندر ایسے وساوس اور توہمات پیدا کئے ہیں جن کی وجہ سے وہ لباس سے باہر آجاتے ہیں۔ اگر ہم موجودہ دور کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آج شیطان جدت پسندی اور ماڈرن ازم کے نام پر انسانوں میں یہ بُرائی پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ کپڑا جسے اللہ تعالی نے ستر چھپانے اور زینت کے لئے بنایا تھا آج کے نام نہاد مہذ ب افراد انہی کپڑوں کو اپنے اجسام کی نمائش کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ ایسے باریک اور تنگ لباس پہنے جاتے ہیں جسے کسی طور مناسب اور درست قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "سیکون فی امتی نساء کاسیات عاریات علی رؤسہن کاسنمۃ البخت، العنوھن فاِنہن ملعونات” عنقریب میری امت میں ایسی عورتیں ہوں گی جو بہ ظاہر لباس پہنے ہوں گی لیکن اصل میں وہ ننگی ہوں گی اور ان کے سروں پر بختی اونٹ کے کوہان کے مانند (جوڑا) ہوگا، ان پر لعنت بھیجو کیونکہ یہ عورتیں ملعون ہیں۔ ایسا لباس زیب تن کرنا جو ستر پوشی کے بجائے اعضاء و جوارح میں مزید ابھار پیدا کرے یا ان کے ستر کو مزید عیاں کرے شرعی لباس کے زمرہ میں داخل نہیں ہے۔ حضرت عائشہ کی مشہور حدیث ہے کہ ایک مرتبہ حضرت اسماء بنت ابوبکر ملاقات کے لئے تشریف لائیں تو ان کے جسم پر باریک لباس تھا، آپ ﷺ نے دیکھ کر فورا اپنا چہرہ انور پھیر لیا اور ارشاد فرمایا: اے اسماء! جب کوئی لڑکی سن بلوغ کو پہنچ جائے تو یہ درست نہیں ہے کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ دکھائی دے، سوائے اس کے اور اس کے، آپ ﷺ نے ہتھیلیوں اور چہرہ کی جانب اشارہ فرمایا۔ 

لباس کا انتخاب کیسے کریں

موجودہ وقت میں ایک عام بیماری پیدا ہوگئی ہے کہ لباس اور دیگر معمولات زندگی میں صنفی تفاوت جو عورت اور مرد کے درمیان تھی اور جس پر معاشرہ کی بہترین بنیاد قائم تھی، آہستہ آہستہ تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ اس تبدیلی کا نتیجہ ہےکہ بے شمار نقائص و عیوب ہمارے معاشرہ میں پیدا ہوگئے ہیں اور معاشرتی زندگی مسائل سے دوچار ہورہی ہے۔ اگر لباس کے انتخاب کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ مردوں کے بالمقابل عورتوں میں عریانیت اور جنس آخر کی برابری کی دوڑ میں زیادہ بُرائیاں در آئی ہیں۔ عورتیں ایسا لباس پہننے کو ترجیح دیتی ہے جو انہیں مردوں کے مشابہ بنائے، خواہ وہ شرعی اعتبار سے غلط اور ناجائز کیوں نہ ہو۔ حالانکہ یہ بات ظاہر ہے کہ ایسے لباس سے نہ تو کوئی دنیاوی فائدہ ہے اور نہ اخروی فائدہ ہے البتہ دینی اعتبار سے گناہ بے لذت کا ارتکاب ضرور ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے: "ان النبی ﷺ لعن الرجل یلبس لِبسۃ المراءۃ، والمراۃ تلبس لبسۃ الرجل” آپ ﷺ نے ایسے مردوں پر لعنت بھیجی ہے جو عورتوں کا لباس پہنتے ہیں اور ایسی عورتوں پر جو مردوں کا لباس پہنتی ہے۔ ایک مسلمان کے لئے اس سے زیادہ افسوس کی اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ ان کا شمار ان افراد میں کیا جائے جن پر نبی کریم ﷺنے لعنت بھیجی ہے۔ اس لئے لباس کے انتخاب میں ہمیشہ دو باتوں کو مدنظر رکھنا چاہئے، پہلے کہ لباس کا مقصد اصلی ستر ہے۔ ایسے لباس کا انتخاب کیا جائے جو مکمل طور پر ساتر ہو اور جس میں شرعی حدود کی مکمل پاسداری پائی جاتی ہو، دوسرے لباس زیب و زینت کے لئے ہے۔ انسان جب اچھا کپڑا پہنتا ہے تو اس کی عظمت و شرافت میں اضافہ ہوتا ہے اور معاشرہ میں اسے اچھی اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس کے برعکس وہ لوگ جو فساق و فجار کا لباس زیب تن کرتے ہیں، انہیں نہ تو سماج میں اچھا تصور کیا جاتا ہے اور نہ تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے وہ قابل ستائش ہوتے ہیں۔ 

بچوں کا لباس کیسے منتخب کریں

مذہب اسلام میں بچے اور بچیوں کے لئے جب تک وہ بلوغ کو نہ پہنچ جائے  احکام ان پر نافذ نہیں ہوتے ہیں۔ البتہ ان کی تربیت کے لئے بچپن سے ہی  دینی امور پر عمل کرانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ نماز چھوٹے بچوں پر فرض نہیں ہے لیکن سات سال کے بچوں کو نماز کی ترغیب دینے کا حکم دیا گیا ہے اور دس سال کی عمر میں نماز کے ترک پر سرزنش کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ کیونکہ جب بچپن سے نماز، روزہ اور دیگر عبادات کی اہمیت دل میں جاگزیں ہوگی تو مکلف ہونے کے بعد ان پر عمل کرنا آسان ہوگا اور سب سے اہم بات کہ ان کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھ کر ادا کرے گا۔ لباس کے سلسلہ میں بھی یہ قاعدہ ہے کہ ایسے لباس پہنائے جائیں جو نیک لوگوں کا لباس ہے۔ بچوں کی فرمائش اور ان ضد کی وجہ سے ایسے لباس سے گریز کریں جو فساق و فجار کا ہے اور جو شرعا ممنوع ہے۔ کیونکہ آج یہ بچے ہیں، اگر بچپن میں انہیں غیر شرعی لباس کی عادت پڑجائے اور باریک، تنگ نیز مختصر لباس پہننے لگ جائیں تو مکلف ہونے کے بعد ان سے یہ عادت ختم ہونا مشکل ہے۔ آج بہت سے دین دار والدین اپنے بچوں کو غیر شرعی لباس پہناتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کے لئے معاف ہے لیکن مستقبل میں یہ بچے ان لباس کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ انسان کی زندگی پر بچپن کی عادت کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے، بچپن کا ماحول نوجوانی کی دہلیز پر اپنا اثر دکھاتا ہے، اگر اچھی صحبت اور اچھا ماحول میسر ہوا تو سبحان اللہ، ورنہ ہمیں ہمیشہ اللہ تعالی سے خیر کی دعا مانگنا چاہئے۔ اسلام یہ نہیں ہے کہ ہم شریعت کو اپنے مزاج کے مطابق ڈھالیں بلکہ اسلام تو یہ ہے کہ بندہ مومن مکمل طور پر خود کو اللہ کے سپرد کردے۔

Related Posts

2 thoughts on “لباس کے انتخاب میں شرعی حدود کی پاسداری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے