قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

 

قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی

مذہب اسلام میں فقہ و فتاوٰی کو بہت زیادہ اہمیت حامل ہے، کیونکہ اسی علم کے ذریعہ انسان حلال و حرام کی تمیز کرتا ہے اور اسی کے ذریعہ اوامر و نواہی میں فرق پیدا کرکے اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی سعی کرتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین”اللہ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ اربابِ فقہ و فتاوی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام الناس کو روز مرہ کے مسائل سے شریعت کی روشنی میں روشناس کرائے، یہ اتنا اہم کام ہے کہ ہر کس و ناکس کو اس کار خیر کے انجام دینے کی اجازت نہیں ہے۔ فقہ و فتاوی کا ایک اہم حصہ قضاء ہے۔ ارباب فتاوی شریعت کی روشنی میں مسائل بتانے کے مکلف ہوتے ہیں لیکن منصب قضاء پر متمکن شخص کی ذمہ داری دو چند ہوجاتی ہے۔ منصب قضاء پر متمکن شخص، محض شرعی مسائل کی گرہ کھولنے کا مکلف نہیں ہے بلکہ عوامی سطح پر پیش آئے مسائل اور عوام الناس کے پیچیدہ معاملوں  کو باہم گفت و شنید کے بعد شریعت کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے ان کے حل کرنے کا ذمہ دار بھی ہے۔ یہ منصب اور عہدہ جس قدر علم میں گہرائی و گیرائی کا تقاضا کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ تقوی و طہارت، حالات حاضرہ، عوامی رجحانات، ملکی مسائل اور انفرادی طبیعت سے واقفیت اور ان پر گہری نظر کا متقاضی ہے۔ روز مرہ کے پیش آمدہ مسائل کی گتھی کو سلجھانے اور شریعت کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا یہ عمل شریعت میں جس قدر مستحسن اور قابل قدر ہے اسی قدر یہ عمل مسائل کی تہہ تک پہنچ کر اسے شریعت کی روشنی میں حل کرنے کے تئیں حساس بھی ہے۔ قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی ؒ (امارت شرعیہ پٹنہ)کی ذات گرامی ملک کی ان چند نامور شخصیتوں میں سے تھیں، جنہوں نے تقریبا پانچ دہائیوں تک اس عظیم اور باوقار عہدہ کو رونق بخشا ہے۔ قضاء کے اس طویل سفر میں آپ کی ذات ہمیشہ نمایاں اور دوسروں کے لئے قابل تقلید رہی ہے۔ اس مختصر مضمون میں قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی کی حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ولادت باسعادت

آپ کی پیدائش 1942 کومغربی چمپارن  (بتیا) کے "دھوبنی” نامی گاؤں میں حافظ سعید صاحب کے گھر ہوئی۔ آپ علمی گھرانے کے فرزند تھے، آپ کے والد ماجد حافظ قرآن تھے اور آپ کے عم محترم مولانا محمد یعقوب دارالعلوم کے قدیم فضلاء میں سے تھے۔آپ کی  تعلیم کے لئے ابتدا میں سرکاری اسکول کا انتخاب کیا گیا۔ پرائمری وغیرہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، دل اس جانب مائل ہونے کو تیار نہیں تھا۔ قلبی رجحان کو دیکھتے ہوئے آپ کے عم محترم مولانا یعقوب صاحب نے بذات خود انہیں دینی تعلیم دینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے فارسی و عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھائیں اور جب اندازہ ہوگیا کہ اب باضابطہ مدارس  کی چہار دیواری میں رہ کر علوم اسلامیہ کے حصول کے قابل ہوگئے ہیں  تو پھر علاقہ کے مشہور مدرسہ "ریاض العلوم ساٹھی” میں داخل کرادیا۔

تعلیم کا آغاز

مدرسہ ریاض العلوم ساٹھی کی بنیاد شیخ التفسیر مولانا ریاض احمد ؒ (سابق استاد تفسیر دارالعلوم دیوبند) نے رکھی تھی، اس زمانے میں یہ مدرسہ اپنے بانی کی علمی وجاہت کا آئینہ دار تھا۔ منصب صدارت پر شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے شاگرد رشید حضرت مولانا نظام الدینؒ (امیر شریعت سادس بہار، اڈیسہ و جھار کھنڈ، رکن شوری دارالعلوم دیوبند و جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ) تھے۔ طبعی شرافت اور خاندانی نجابت قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی ؒ کی ذات میں فطری تھی۔ آپ جس قدر محنتی، باذوق، وقت کے پابند تھے اسی قدر مہذب، اطاعت گذار، سلیقہ مند، فرمانبردار اور سلیم الطبع تھے۔ شبانہ روز کی محنت و جانفشانی نے آپ کو اساتذہ کرام کا محبوب بنا دیا تھا۔ خصوصا حضرت امیر شریعت ؒ کی خاص توجہ رہا کرتی تھی اور یہ تعلق تادم حیات باقی رہا تھا۔ تقریبا تین سالوں تک آپ مدرسہ ریاض العلوم کی چہار دیواری میں مشفق اساتذہ کرام کی زیر نگرانی علم  کے لعل و گوہر سمیٹتے رہے، بعد ازاں،  1959 میں ازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے۔ دارالعلوم دیوبند علم و عمل کا وہ گہوارہ ہے، جہاں شب و روز علم و معرفت کے بیش بہا موتی لٹائے جاتے ہیں۔ جس کی آغوش تربیت نے یکتائے زمانہ محدثین، مفسرین، متکلمین، مقررین، محررین، مبلغین، مؤرخین کی کثیر جماعت کو پروان چڑھایا ہے۔ جس کے سپوتوں نے مذہب اسلام کی وہ عظیم خدمات انجام دی ہیں جس کی نظیر ماضی قریب میں نظر نہیں آتی ہے۔ ایسے بافیض ادارہ کی درس گاہ نے قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل کی طبیعت میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ آپ نے پابندی وقت کے ساتھ علمی سفر کو جاری رکھا، ایک ایک لمحہ کو غنیمت شمار کرتے ہوئے ہمہ وقت حصول علم میں کوشاں رہا کرتے تھے۔ درس گاہ کی پابندی کے علاوہ اساتذہ کرام کی خصوصی مجالس سے بھی فیض اٹھانے کا سلسلہ جاری رہا تھا۔ 1963 میں دورہ حدیث سے امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے، اور پھر مزید علم کے لئے ایک سال علم ہیئت اور علمِ ادب کے لئے مختص کیا۔ آپ نے اپنے تعلیمی ایام کو جس طرح استعمال کیا، اور جس دقت نظری سے علوم میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی اس کا اثر آپ کی پوری زندگی پر نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔

عملی زندگی کا آغاز

1964 میں دارالعلوم دیوبند سے تکمیل علوم کے بعد آپ وطن مالوف تشریف لے آئیں۔ یہاں آنے کے بعد اسی سال آپ کا تقرر "مدرسہ اسلامیہ آداپور مشرقی چمپارن” میں بحیثیت صدر مدرس ہوا۔ انتظام و انصرام کی صلاحیت آپ کی ذات کا جزء لاینفک تھا، ابتدا سے ہی اس کے آثار نظر آنے لگے تھے، چنانچہ جب آپ نے عملی زندگی کا آغاز کیا ہے تو ایک ذمہ دار کی حیثیت سے میدان عمل میں آئے ہیں۔ تقریبا ڈیڑھ سال تک مدرسہ سے وابستہ رہے، پھر چند ذاتی مشاغل کی بنا پر درس و تدریس سے علیحدہ ہوگئے اور تجارت کی جانب متوجہ ہوگئے۔ تجارت میں آپ نے بہت حد تک کامیابی حاصل کرلی تھی، لیکن محض دوسال بعد جب "مدرسہ اسلامیہ بتیا، مغربی چمپارن” میں لائق و فائق استاد کی ضرورت پیش آئی تو امیر شریعت سادس حضرت مولانا نظام الدین ؒ جو اُن دنوں امارت شرعیہ پٹنہ کے ناظم تھے، انہوں نے آپ کا انتخاب فرمایا۔ گرچہ آپ اپنی تجارت میں کامیاب تھے اور اس راہ میں اپنا مستقبل تلاش کرنے کی کوشش کررہے تھے لیکن مشیت خداوندی کچھ اور ہی تھی۔ استاد کے حکم کے مطابق آپ 1968 کو مدرسہ اسلامیہ بتیا مغربی چمپارن تشریف لے آئیں۔ مدرسہ اسلامیہ بتیا اس علاقہ کا قدیم ترین ادارہ ہے، جس کی بنیاد خلیفہ حضرت شیخ فضل رحماں گنج مرادآبادی، حضرت مولانا نیک محمد صاحب ؒ نے 1894 میں رکھی تھی۔ علاقہ کے فتنہ ارتداد اور بدعات و خرافات کی بیخ کنی میں ادارہ کا بہت نمایاں کردار رہا ہے۔ حضرت مولانا ریاض احمد صاحب ؒ (سابق شیخ التفسیر دارالعلوم دیوبند) جیسے اشخاص نے یہاں سے کسب فیض کیا ہے اور اپنی علمی تشنگی بجھائی ہے۔ الحمد للہ، آج بھی یہ ادارہ دینی و ملی خدمات میں مصروف ہے۔

منصب قضاء

آپ فقہی ذوق کے حامل تھے، مدرسہ اسلامیہ قلب شہر میں واقع ہے، اسلئے واردین کی کثرت رہتی ہے۔ مسائل پوچھنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اس زمانہ میں باضابطہ دارالقضاء کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا لیکن پھر بھی مسئلے مسائل کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ہی تھی اور اہل شہر کا رجوع عام آپ کی جانب تھا۔ شہر کی ضرورت اور آپ کی شخصیت کو دیکھتے ہوئے امارت شرعیہ نے 25 مارچ 1975 کو مدرسہ اسلامیہ میں دارالقضاء کے قیام کا فیصلہ کیا۔ دارالقضاء کے قیام کے بعد اس منصب جلیلہ کے لئے باضابطہ طور پر قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب کا انتخاب عمل میں آیا۔ 1983 میں بعض وجوہات کی بنا پر آپ مدرسہ اسلامیہ کی تدریسی خدمات سے علیحدہ ہوگئے۔ جب اللہ کو اپنے بندے سے بڑا اور عظیم الشان کام لینا مقصود ہوتا ہے تو اس کے وسائل خود بخود پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ اہل شہر کی بہت بڑی محرومی تھی کہ قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی جیسی شخصیت ان سے الگ ہوگئی تھی۔ البتہ دارالقضاء کی ذمہ داری آپ بحسن و خوبی انجام دیتے رہے تھے۔اس کے علاوہ، اہل شہر کے تقاضے کے پیش نظر عیدین کی نماز کے لئے تشریف لایا کرتے تھے۔ 1983 میں آپ مدرسہ قرآنیہ سمرا مغربی چمپارن سے وابستہ ہوگئے۔ حفظ قرآن کے معاملہ میں یہ مدرسہ ملک ہندوستان میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس مدرسہ کی بنیاد مولانا احسان اللہ صاحب  اور مولانا جعفر بستوی صاحب ؒ نے تقریبا دو سو سال قبل رکھی تھی ، اس مدرسہ کے تعلیمی ڈھانچے کو مضبوط بنانے میں حافظ بادشاہ صاحب ؒ کا بہت اہم کردار ہے۔ قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی ؒ 1983 سے 1994 تک اس مدرسہ میں خدمت انجام دیتے رہے تھے۔ اس عرصہ میں مدرسہ اسلامیہ بتیا کے دارالقضاء کی باگ ڈور بھی آپ نے سنبھالے رکھا تھا۔ علاوہ ازیں مشرقی چمپارن ڈھاکہ میں بھی آپ نے چھ ماہ تک قضاء کی خدمت انجام دی ہے۔

امارت شرعیہ پٹنہ سے وابستگی

1994 میں قاضی القضاۃ قاضی مجاہد الاسلام رحمۃ اللہ نے آپ کو "امارت شرعیہ پٹنہ” بلا لیا۔ حضرت قاضی صاحب ؒ مردم سازی اور مردم شناسی ہر دو فن سے بخوبی واقف تھے۔ آپ نے قضاء اور فقہ کے باب میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ اسلامک فقہ اکیڈمی ک شکل میں آپ نے ایسا ادارہ اس امت کو دیا ہے جس کے بار احسان سے یہ امت کبھی بھی باہر نہیں آسکتی ہے۔ قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی کو حضرت قاضی صاحب اور امیر شریعت سادس حضرت مولانا نظام الدین صاحب ؒ کی زیر نگرانی کام کرنے کا موقع ملا۔ ان دونوں بزرگ ہستیوں کی معیت نے آپ کے علمی و فقہی ارتقاء میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسلامک فقہ اکیڈمی کے اساسی اراکین میں آپ بھی شامل ہیں۔ امارت شرعیہ پٹنہ میں رہتے ہوئے آپ نے حالات حاضرہ کے بے شمار مشکل ترین مسائل کو بآسانی حل کیا تھا۔ اکابرین امارت شرعیہ کو آپ پر اس قدر اعتماد تھا کہ پیچیدہ مسائل آپ کے حوالے کردیا کرتے تھے۔ علمی و فقہی ادراک کے علاوہ حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھا کرتے تھے۔ قضاء کے باب میں حالات اور عوامی مسائل سے واقفیت بہت ضروری ہے، اس کے بغیر اس عہدہ کے ساتھ انصاف ممکن نہیں ہے اور آپ نے، بفضلہ تعالی تقریبا پانچ دہائیوں تک اس عہدہ کو سنبھالے رکھا تھا۔ آپ کا فیصلہ حرف آخر سمجھا جاتا تھا، آپ ہمیشہ مکمل غور و خوض اور مسائل کی تہہ تک پہنچنے کے بعد ہی فیصلہ لکھا کرتے تھے۔

فارغین مدارس کی تربیت

حضرت قاضی مجاہد الاسلام صاحب ؒ نے جب امارت کے زیر انتطام فارغین مدارس کو افتاء و قضاء کی تربیت کے لیے دو سالہ نصاب تیار کیا اور باضابطہ ایک کورس تشکیل دیا تو طلباء کی تربیت کے لئے جن مخصوص لوگوں کو شامل کیا گیا تھا ان میں قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی ؒ کی ذات گرامی بھی شامل تھی۔ آپ آنے والے فارغین مدارس کے تئیں حد درجہ مشفق اور مخلص  تھے۔ انہیں مختلف طریقوں سے علمی کام میں مشغول رکھا کرتے تھے۔ متعینہ وقت کے علاوہ بھی آپ طلباء کی سہولت کے پیش نظر وقت دیتے تھے۔ پیچیدہ اور اہم بنیادی مسائل کو سلجھانے کے لئے طلباء کرام کی ذہن سازی اور ان میں شعور و آگہی کی تخم ریزی کیا کرتے تھے۔ ان کے درمیان عوامی مسائل کو پیش کرکے انہیں سلجھانے کی مشق کرایا کرتے تھے۔ منصب قضاء کی اہمیت اور افادیت ان کے قلوب میں جاگزیں کرتے اور اس عہدہ کے لئے ضروری ہدایات سے انہیں روشناس کرایا کرتے تھے۔ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، جس کے فیض یافتگان ملک کے کئی حصوں میں بیش بہا علمی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ کے کئی ہونہار تربیت یافتہ حضرات آج امارت شرعیہ پٹنہ میں بھی کئی اہم عہدوں پر فائز ہیں اور دینی و ملی امور میں مشغول ہیں۔

تہجد کا اہتمام

کسی عظیم مصلح کا قول ہے کہ جب دن کی روشنی میں گناہ سرزد ہوتے ہیں تو اللہ تعالٰی رات کی عبادت کی توفیق چھین لیتا ہے۔ رات کی عظیم ترین عبادتوں میں اہم عبادت نماز تہجد ہے۔ تہجد کی توفیق اور اس پر استقامت، اللہ تعالٰی کی جانب سے بہت بڑا انعام ہے۔ ہمارے رفیق خاص مفتی قمر الہدی صاحب (استاد مدرسہ اسلامیہ بتیا مغربی چمپارن) کئی سالوں تک قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی ؒ کی خدمت میں رہے ہیں اور ان ایام میں کئی اسفار میں خدمت کا موقع بھی انہیں میسر ہوا ہے۔ مفتی قمر الہدی صاحب نے حضرت کے   تہجد کے اہتمام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بارہا مجھے ان کے ساتھ ٹرینوں کا سفر کرنے کا موقع ملا ہے۔ دوران سفر کچھ چیزوں کا بہت زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے۔ سفر سے قبل وضو کے لئے گھر سے ایک برتن (لوٹا) ضرور لیتے، تاکہ وضو میں پریشانی لاحق نہ ہو، کثرت تلاوت کلام اللہ اور سب سے حیرت ناک اور ہم خوردوں کے لئے بہترین نمونہ، کبھی تہجد کی نماز بھی قضاء نہیں ہوتی تھی۔ ٹرین کے سفر میں فرض نمازوں کی ادائیگی بمشکل ہوپاتی ہے لیکن وہ تہجد کا بھی مکمل اہتمام کرتے تھے۔

یہ بھی شاید زندگی کی اک ادا ہے دوستو۔۔۔جس کو ساتھی مل گیا وہ اور تنہا ہوگیا

یہ حقیقت ہے کہ جب دل لذت عبادت سے آشنا ہوجائے اور قرب الہٰی سے معمور ہوجائے تو پھر  محبوب خدا کے حضور سر بسجود ہوئے بغیر نہ دل کو سکون ملتا ہے اور نہ آنکھوں کو قرار نصیب ہوتا ہے۔ تہجد کے علاوہ اشراق کا بھی اہتمام تھا۔ یہ حال تو نوافل نمازوں کا تھا اور فرض نمازوں میں ہمیشہ تکبیر تحریمہ کا اہتمام کیا کرتے تھے۔ ہمیشہ وقت سے پہلے مسجد پہنچنے کا معمول تھا۔ فجر کی نماز کے بعد بلا ناغہ ایک گھنٹہ تلاوت کلام اللہ کا معمول تھا۔

تواضع و انکساری

علم کا فائدہ اس وقت دوچند ہوجاتا ہے جب یہ تواضع و انکساری، خشوع خضوع کے ساتھ جسم انسانی میں سرایت کرجائے۔ تواضع و انکساری وہ عظیم نعمت ہے جس سے انسان کے اخلاق حمیدہ اور اوصاف جمیلہ کا پتہ چلتا ہے۔ آپ نہایت بردبار، سلیم الطبع، کم گو، خوش مزاج، ظریف النفس اور  ملنسار تھے۔ جو ایک مرتبہ آپ سے ملتا، زندگی بھر اس ملاقات کی لذت اور اپنائیت کو محسوس کرتا۔ امارت شرعیہ کے تحت چلنے والے افتاء و قضاء کے ادارہ  (المعہد العالی للتدریب فی الافتاء و القضاء) میں آپ سے تدریسی خدمات بھی متعلق تھیں۔ پڑھنے والے تمام طلباء،فارغین مدارس ہوا کرتے تھے۔ اپنے طلباء کا اس قدر احترام فرمایا کرتے تھے کہ حاضری اور دیگر چیزوں میں کبھی نام لے کر نہیں پکارا کرتے تھے، بلکہ اگر حافظ ہے تو ہمیشہ حافظ صاحب یا حافظ کا لاحقہ لگا کر پکارا کرتے تھے۔ حفظ قرآن ایک عظیم نعمت ہے،  اور حافظ جو کہ حامل قرآن ہے وہ  کسی نعمت عظمی سے کم نہیں ہے۔ قرآن مجید کے احترام کا یہ صلہ ملا کہ آپ دوران تعلیم تو قرآن مجیدحفظ نہیں کرسکے تھے، البتہ دوران تدریس جب آپ مدرسہ اسلامیہ بتیا میں خدمت انجام دے رہے تھے تو اس زمانے میں آپ نے مکمل قرآن مجید حفظ کیا تھا۔

سفر حج کا واقعہ

اسلام کے اہم اور بنیادی ستونوں میں حج ایک اہم فریضہ ہے۔ حج بیت اللہ کی سعادت ہر مرد مومن کی تمنا اور آرزو ہوا کرتی ہے۔ اللہ کے گھر اور روضہ اقدس پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کرنا ہر مسلمان کے لئے زندگی کا اہم ترین لمحہ ہوتا ہے، لیکن مہنگائی اور حالات ہر کسی کے لئے یکساں ہو یہ ضروری نہیں ہے۔ قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی ؒ نے اس فریضہ کو اپنی مالی تنگی کے باوجود دوبار انجام دیا ہے۔ جب بندہ مومن دل میں ارادہ کرلے تو اللہ اس کے لئے سبیل بھی پیدا کردیتا ہے۔ مفتی قمر الہدی صاحب نے بتایا کہ ہر جمعہ اور منگل قاضی صاحب بازار تشریف لے جاتے اور سودا سلف لینے میں حد درجہ احتیاط برتا کرتے تھے۔ سامان کی قیمت وغیرہ طے کرنے میں احتیاط کیا کرتے تھے۔ قیمتی سامان کے بجائے قابل استعمال سامان کی جانب زیادہ توجہ دیا کرتے تھے، جس کے نتیجہ میں اکثر و بیشتر وقت لگ جایا کرتا تھا بازار میں عموما مفتی قمر الہدی صاحب  ساتھ ہوتے تھے۔ قاضی شریعت قاضی عبدالجلیل صاحب قاسمی ؒ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ مولوی قمر الہدی: میں  اسی طرح سے پیسے بچا بچا کر حج بیت اللہ کی سعادت سے بہرہ مند ہوا ہوں۔ قاضی صاحب کا یہ عمل ہمارے لئے اسوہ ہے کیونکہ ہم محض دنیاوی ٹھاٹ باٹ اور آرائش و زیبائش میں اپنے مال کا بیشتر حصہ ضائع کردیتے ہیں۔

ماضی کی چند باتیں

قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی ؒ کی شخصیت سے متعارف ہونے کا موقع بہت بعد میں نصیب ہوا۔ زمانہ طالب علمی سے فراغت کے بعد جب بحیثیت استاد (مدرسہ اسلامیہ بتیا مغربی چمپارن) حاضری ہوئی تو وہاں کے اساتذہ کرام اور مدرسہ میں موجود دارالقضاء کے احوال و کوائف سے قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی کو جاننے کا موقع ملا۔ قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی ؒ کی شخصیت سے صحیح تعارف ہمارے رفیق خاص مفتی قمر الہدٰی صاحب کے ذریعہ ہوئی، چونکہ مفتی صاحب کئی سالوں تک قاضی صاحب کی خدمت میں رہ چکے تھے، اسلئے ان کے اوصاف و کمالات کو جتنا بہتر وہ جانتے تھے شاید دوسرے لوگ اس سے واقف نہ ہوں۔ تاریخ وغیرہ تو یاد نہیں ہے البتہ 2015/16 کے دورانیہ میں کئی بار ملاقات کا شرف ملا ہے۔ قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی ؒ جب بھی مدرسہ اسلامیہ بتیا تشریف لاتے تو مفتی قمر الہدٰی صاحب کا بیشتر وقت ان کی خدمت میں گزرتا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہمہ وقت ان کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔ ان کی معیت میں ہمیں بھی کچھ وقت بیٹھنے کا موقع نصیب ہوجایا کرتا تھا۔ دو واقعہ جو اب بھی ذہن میں تازہ ہیں اور یہ ہمیشہ قاضی صاحب کی یاد دلاتے رہیں گے۔

ایک نشست میں قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی نے اپنا واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ ایک کانفرس میں شرکت کا موقع ملا۔ کانفرنس منعقد کرنے والوں میں ڈاکٹر اور اطباء حضرات پیش پیش تھے۔ بیان کرنے والوں نے  طبی موضوعات پر بات چیت کی تھی، جس کے ضمن میں چند ایسی بیماریوں کا تذکرہ بھی آیا جسے سائنس یا موجودہ میڈیکل سائنس نے لاعلاج بتایا ہے۔ ڈاکٹرس اور میڈیکل سے وابستہ افراد کے اس کانفرنس میں مجھ جیسے مولوی کا کیا کام تھا ۔ بہر حال مجھے بھی اسٹیج پر بلایا گیا اور خصوصی خطاب کے لئے کہا گیا۔ قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی نے فرمایا کہ ہم نے نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث پڑھی "لکل داء دواء” ہر بیماری کا علاج ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں اس بات کو ثابت کیا کہ یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ بعض بیماریاں لاعلاج ہیں، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ میڈیکل سائنس اب تک ان بیماریوں کے علاج کو دریافت نہیں کرسکا ہے۔ کانفرنس کے اختتام پر کئی ڈاکٹرس نے کہا کہ حضرت آپ نے میڈیکل سائنس کے متعلق اتنی اہم بات کہہ دی ہے جسے بسا اوقات اس میدان کے نامور دانشوران بھی سمجھنے سے عاجز و قاصر رہتے ہیں۔

قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی ؒ "شوگر” کے مریض تھے۔ مرض کے تقاضوں کے پیش نظر کچھ احتیاطی تدابیر بھی اپنایا کرتے تھے۔ عام نمک جو مارکیٹ میں دستیاب ہے اس سے کلی اجتناب کیا کرتے تھے۔ بلکہ ایک خاص نمک جو خال خال دکانوں پر ملتا ہے اسے استعمال کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر نے احتیاطی تدابیر کے پیش نظر چاول کے استعمال سے منع کردیا تھا۔ پریشانی یہ لاحق ہوئی کہ چاول حد درجہ آپ کو مرغوب تھا۔ کوششوں کے باوجود احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹ ہی جاتا تھا۔ انہیں ایام میں آپ کے علاقہ کے بڑے ڈاکٹر جو فی الحال "جرمنی” میں اسی پیشہ سے منسلک ہیں ملاقات کے لئے تشریف لائے۔ دوران گفتگو شوگر کا ذکر آیا تو تدابیر کے تذکرے میں چاول بھی شامل تھا۔ قاضی صاحب نے ان سے بتایا کہ ڈاکٹر چاول سے پرہیز بتاتے ہیں، اور حال یہ ہے کہ اس کے بغیر کھانا مکمل نہیں ہوتا ہے۔ قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی ؒ نے بتایا کہ اس ڈاکٹر نے کہا کہ "جرمنی” کے میڈیکل ریسرچ کے مطابق "شوگر” میں چاول سے زیادہ نقصان دہ گیہوں ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ گیہوں کو چاول کی مانند کوٹ کر اسے چاول کی شکل میں پکا کر استعمال کرکے دیکھیں، اندازہ ہوجائے گا کہ میٹھا پن چاول میں زیادہ ہے یا گیہوں میں۔ قاضی صاحب نے فرمایا کہ میں نے  بارہا اس کا عملی تجربہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ چاول سے زیادہ میٹھا پن گیہوں میں پایا جاتا ہے۔

سفر آخرت

انسان کی زندگی خواہ کتنی ہی طویل کیوں نہ ہوجائے لیکن ایک دن اسے اس دار فانی سے دار جاودانی کی جانب کوچ کرنا ہی ہے۔ خوش نصیب وہ ہوتے ہیں جو اپنی زندگی رضائے الہٰی کی تلاش میں گزار دیتے ہیں۔ زندگی کے تمام مراحل میں احکامات اسلامیہ کی پاسداری کرتے ہیں۔ قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمیؒ کی ذات گرامی بھی ان اہل وفا میں سے تھی جنہوں نے پوری زندگی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق گزاری ہے۔ 18 فروری بروز جمعرات آپ ہمیشہ کی مانند دفتر امارت شرعیہ تشریف لائے، یہاں کے کام کاج کو دیکھا، ضروری مسائل کو حل کیا اور کچھ دنوں کے لئے وطن عزیز آنے کی تیاری میں مصروف تھے۔ عصر کی نماز امارت شرعیہ میں ادا کرکے، پٹنہ میں اپنے گھر گئے۔ مغرب کی نماز سے قبل جب نماز کے لئے مسجد جارہے تھے راستہ میں ہی غشی طاری ہوگئی۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آسمان فقہ و فتاوٰی کا یہ چراغ ہمیشہ کے لئے بجھ گیا۔ آپ چلتے پھرتے، ہنستے مسکراتے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ آپ کا جنازہ آپ کے گاؤں "دھوبنی” لایا گیا، دوسرے دن بروز جمعہ لاکھوں چاہنے والوں کی موجودگی میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی ؒ جو چمپارن کے افق سے طلوع ہوئے تھے، اپنی فقہی بصیرت سے ایک عالم کو روشنی فراہم کرگئے۔

نوٹ: مضمون میں بیان کی گئی تاریخ "باتیں میر کارواں کی” سے ماخوذ ہے۔

Related Posts

0 thoughts on “قاضی شریعت قاضی عبد الجلیل صاحب قاسمی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے