قاری صدیق صاحب باندویؒ: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

قاری صدیق صاحب باندویؒ: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

مذہب اسلام کی بقا اور تحفظ کے لئے اللہ تعالٰی نے ہر دور اور ہر زمانے میں ایسے اشخاص کا انتخاب فرمایا ہے جنہوں نے اشاعت دین اور صیانت اسلام کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا تھا، اور جن کے ہاتھوں پر بے شمار خلق خدا نے اسلام قبول کیا ہے یا پھر تائب ہوکر دین حنیف پر چلنے والے بنے ہیں۔ خدا کے یہ نیک بندے نام و نمود اور شہرت و بلندی سے کوسوں دور، جنگل و بیابان میں کوٹھری میں بیٹھ کر تعلیمات نبوی سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست پر لانے کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے۔ انہیں پاکباز اور پارسا لوگوں میں ایک نام ماضی قریب کی عہد ساز شخصیت قاری سید صدیق احمد باندویؒ کی ہے جنہوں نے اپنے علاقہ میں جو تقسیم وطن کے بعد فتنہ ارتداد کی لپیٹ میں آگیا تھا تاریخی کارنامہ انجام دیا تھا۔

پیدائش

قاری صدیق صاحبؒ کی پیدائش ضلع باندہ کے ہتھورا نامی گاؤں میں سید احمد صاحب کے گھر 1923 میں ہوئی۔ چھ سال کی عمر میں والد کے سایہ سے محروم ہوگئے، ڈیڑھ دو سال بعد دادا محترم کی شفقت سے بھی محروم ہوگئے۔ آپ سادات گھرانے کے چشم و چراغ تھے، آپ کے دادا علمی ذوق رکھنے والے تھے اور عربی و فارسی میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔علاوہ ازیں، فن قرات میں مشہور بزرگ قاری عبد الرحمان پانی پتی کے فیض یافتہ تھے۔ گاؤں میں رہنے کی وجہ سے کاشتکاری کو بطور پیشہ اپنا لیا تھا لیکن باوجود اس کے نماز، روزہ اور تلاوت کلام اللہ کا حد درجہ اہتمام فرمایا کرتے تھے۔

تعلیمی سفر

 قاری صدیق صاحب  نے تعلیمی سلسلہ اپنے والد محترم سے شروع کیا تھا، بعد میں دادا محترم کی خدمت میں کچھ وقت رہے۔ سات سال کی عمر میں ناظرہ قرآن سے فارغ ہوگئے لیکن حالات نے کروٹ بدلا اور آپ کے مشفق و مربی دادا محترم کا انتقال ہوگیا۔ والد محترم اور دادا کے انتقال کے بعد گھریلو حالات دگر گوں ہوگئے۔ گھر کی کفالت کرنے والا کوئی نہیں تھا اور ستم بالائے ستم کے علاقہ میں کوئی ایسا فرد موجود نہیں تھا جس کے سامنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھا جاسکتا تھا۔ حصول تعلیم کی لگن اور ذوق و شوق میں کسی طرح کوئی کمی نہیں ہوئی تھی، اپنے طور پر قرآن یاد کرنے کی کوشش کرتے اور دہراتے رہتے لیکن پھر  مولانا امین الدین صاحب جو آپ کے رشتہ کے ماموں تھے، تشریف لائے اور آپ ان کی خدمت میں رہنے لگے۔ مولانا امین الدین صاحب نیک طبیعت اور خدا ترس انسان تھے، گاؤں اور علاقے کے بچوں کو پڑھایا کرتے تھے لیکن خود باضابطہ عالم نہیں تھے بلکہ عربی سوم وغیرہ تک کی تعلیم حاصل کی تھی۔ قاری صدیق صاحب کو انہوں نے جہاں تک ممکن تھا پڑھایا اور پھر خود انہیں لے کر کانپور روانہ ہوگئے تاکہ کسی مدرسہ میں باضابطہ داخلہ لیا جاسکے۔درمیان سال کی وجہ سے داخلہ میں پریشانیاں ہوئی بالآخر مدرسہ ‘تکمیل العلوم’ میں داخلہ ہوگیا لیکن کھانے کا نظام نہیں بن سکا۔ ایک استاذ نے بحیثیت خادم رہنے کی شرط پر چوبیس گھنٹے میں ایک وقت کھانا دینے کا وعدہ کیا۔ آپ گھر کا کام کاج کرتے، پانی بھر کر ان کے گھر پہنچاتے، ساتھ مدرسہ آتے جاتے جس کے عوض ایک وقت کھانا میسر ہوتا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسی ایک وقت کے کھانے میں جو ایک طالب علم کے لئے بھی کافی نہیں تھا تین ساتھی شریک ہوگئے اور چوبیس گھنٹے کے دورانیہ میں صرف ایک چپاتی میسر آتی تھی۔ نوبت یہاں تک آئی کہ بازار سے مولی کے پتے بھی دھوکر کھانے پڑے ہیں۔ بعد ازاں کچھ دن مدرسہ جامع العلوم کانپور میں پڑھنے کا اتفاق ہوا، پھر وہاں سے آپ پانی پت تشریف لائیں جہاں عربی درجات کے علاوہ آپ نے فن قرات میں سبعہ عشرہ کی تعلیم حاصل کی۔

مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں

16 سال کی عمر میں 1358 ہجری کو آپ مظاہر علوم تشریف لائے، یہاں داخلہ لے کر آپ نے تعلیمی سفر کو جاری رکھا۔ مظاہر علوم میں رہتے ہوئے آپ نے پورا وقت تعلیمی مصروفیت میں لگایا، اور ہمہ وقت کتابوں کے مطالعہ میں مصروف رہا کرتے تھے، اللہ تعالی نے آپ کو ایسی قابلیت سے نوازا جو نادر و نایاب ہوا کرتی ہے۔ مفتی زید مظاہری ندوی اپنی کتاب ‘حیات صدیق’ میں لکھتے ہیں: "امتحان کے بعض پرچے حضرت نے اتنے عمدہ حل کئے تھے کہ مدرسہ کے ریکارڈ میں ان کو اہتمام سے محفوظ کرلیا گیا”۔ آگے لکھتے ہیں: "حضرت فرمایا کرتے تھے کہ جلالین شریف کے لئے اس وقت میں صرف بیان القرآن دیکھا کرتا تھا، خود جلالین بھی کم دیکھتا تھا، اور حضرت تھانوی کے علم کا معتقد میں اسی وقت سے ہوں، بزرگی کا معتقد تو بعد میں ہوا ہوں، بیان القرآن دیکھنے ہی کی برکت سے ہر امتحان میں اعلی نمبرات سے پاس ہوتا رہا، واقعی بیان القرآن ایسی تفسیر ہے کہ اس کو نصاب میں داخل کیا جائے، اور سبقا سبقا اس کو پڑھایا جائے”۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: "جب جمعہ کا دن آتا تو جمعہ کی شب کو ہم اور ہمارے بعض ساتھی ایک مسجد میں جمع ہوتے اور سب مل کر رات بھر پڑھتے، ہفتہ بھر میں جتنے اسباق پڑھے ہیں سب کا تکرار رات بھر میں کر لیتے، صبح ہوتی تو چائے بنتی اور سوکھی روٹی کے ٹکڑے اس میں بھگودیئے جاتے اور اس کا ناشتہ کرتے، اور جمعہ کا دن بھی ہم لوگوں کا پڑھنے اور اساتذہ کی خدمت میں گرزتا”۔  1361 ہجری میں بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر آپ نے چند دنوں تک مدرسہ قاسمیہ شاہی مرادآباد میں بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ اور پھر دوبارہ 1362 میں مظاہر علوم تشریف لائے اور یہاں دورہ حدیث شریف میں داخلہ لے لیا۔دوران تعلیم ایک مرتبہ آپ چند دنوں کے لئے ‘مدرسہ امینیہ دہلی’ بھی تشریف لے گئے تھے لیکن پھر جلد ہی واپسی ہوگئی۔ ‘حیات صدیق’ کے مطابق یہ بات تحقیق طلب ہے کہ حضرت قاری صدیق صاحب نے فراغت حاصل کہاں سے کی ہے، کیونکہ حضرت کچھ دنوں کے لئے ‘مدرسہ عالیہ فتحپوری’ بھی تشریف لے گئے تھے۔غالب گمان ہے کہ حضرت نے دورہ حدیث کی تکمیل مظاہر علوم سے کی ہے۔دورہ حدیث سے فراغت کے بعد آپ نے معقولات میں مہارت تامہ حاصل کرنے کے لئے پہلے الہ آباد، لکھنو، مظفر پوربہار، دہلی اور پھر شاہی مرادآباد کے اسفار کئے اور ان ایام میں آپ نے معقولات کی وہ کتابیں بھی پڑھی ہیں جو اب تقریبا ناپید ہوگئی ہیں۔

عملی زندگی کا آغاز

تعلیمی سلسلہ کے بعد آپ مدرسہ فرقانیہ گونڈہ سے منسلک ہوئے اور یہاں تقریبا چھ مہینوں تک درس و تدریس کے سلسلہ کو جاری رکھا۔ بعد ازاں 1946 میں مدرسہ اسلامیہ فتحپور سے وابستہ ہوگئے۔ اس وقت یہ اپنے علاقہ کا سب سے مشہور و معروف ادارہ تھا، اور یہاں کے اساتذہ  فن کے امام اور مصلح تصور کئے جاتے تھے۔ ان کہنہ مشق اور تجربہ کار اساتذہ کی معیت میں قاری صدیق صاحب نے اپنے تدریسی سفر کو بہت خوشگوار انداز میں جاری رکھا۔ تعلیم و تعلم اور درس و تدریس کے علاوہ یہاں دیگر سہولتیں میسر نہ تھی۔ تنخواہ بہت قلیل تھی، علاوہ ازیں، کتابیں بہت زیادہ آپ سے متعلق ہوگئی تھی۔ پھربھی دینی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوکرآپ مصروف تدریس رہے۔ حالانکہ کے مظاہر علوم کے ناظم حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب نے آپ کو مظاہر علوم میں پڑھانے کی پیش کش کی، مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی نے ‘ندوۃ العلماء’ میں پڑھانے کی پیش کش کی لیکن آپ اپنے علاقہ میں رہ کر دینی کام انجام دینا چاہتے تھے۔ ایک سال بعد 1947 میں جب ملک تقسیم ہوا، اور ملک کے مختلف حصوں میں ارتداد کی لہر نے پیر پسارنے شروع کئے تو اترپردیش کا ضلع باندہ بھی اس فتنہ کی زد میں آگیا۔ 1949 میں قاری صدیق صاحب کو یہ خبر موصول ہوئی کہ باندہ کے بعض علاقوں میں لوگوں نے مذہب اسلام کو چھوڑ کر دوسرے دین کو اختیار کرلیا ہے۔ اس خبر نے آپ کو بے چین و بے قرار کردیا، مدرسہ سے چھٹی لے کر فورا مذکورہ گاؤں پہنچے اور ان افراد سے ملاقات کی جنہوں نے دین اسلام کے دامن سے رشتہ توڑا تھا۔ انہیں مذہب اسلام کی حقانیت اور دین و دنیا کی حقیقت کے متعلق سمجھایا۔ آپ کے وعظ و نصیحت میں اللہ نے بلا کی تاثیر رکھی تھی، جو لوگ چند دنوں قبل راہ مستقیم سے بھٹکے تھے، وہ پھر راہ مستقیم کے راہی بن گئے۔

اس واقعہ کے بعد قاری صدیق صاحبؒ نے مدرسہ اسلامیہ فتحپور سے استعفی دے دیا اور اپنے علاقہ میں دین اسلام کی تبلیغ اور ترویج و اشاعت میں مصروف ہوگئے۔ ضلع باندہ دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے پسماندہ تھا، اور یہاں کے مسلمان نہایت پسماندہ تھے۔ مسلمانوں میں جہل اور بدعات و خرافات کا عام چلن تھا، فتنہ ارتداد نے ان کی رہی سہی اسلامی شناخت کو بھی ملیا میٹ کردیا تھا۔ ایسے پرآشوب اور جہل سے مرکب انسانوں کے درمیان آپ نے کام کا آغاز کیا۔ دس دس میل کا سفر پیادہ پا طے کرکے آپ کسی مسلمان بستی میں پہنچتے اور انہیں دین کی باتیں سکھلانے کی کوشش کرتے۔ کسی گاؤں میں کوئی سن لیتا اور کسی گاؤں میں کوئی بھی آپ کے ساتھ وقت لگانے کو تیار نہیں ہوتا ۔ حیات صدیق’ میں مذکور ہے: "ایک مرتبہ حضرت نے خود بیان فرمایا کہ مجھ پر ایک وقت باندا میں ایسا بھی گزرا ہے کہ راستہ چلتے لوگ مجھ کو گالی دیا کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ یہ کافر، بددین وہابی جارہا ہے، بعض مرتبہ پتھر بھی پھینک کر مارے گئے ہیں۔ لیکن میں کچھ نہ کہتا تھا، کسی سے تذکرہ بھی نہ کرتا تھا”۔صبر و آزمائش اور جہد مسلسل کا یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا، اور بالآخر آپ نے طے کیا کہ محض اصلاحی بیانات کافی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں میں دینی تعلیم کی بیداری ضروری ہے۔

مدرسہ عربیہ ہتھورا باندہ کی بنیاد

1952 میں آپ نے اپنے دور افتادہ، سہولیات سے خالی ہتورا نامی گاؤں میں مدرسہ عربیہ کی بنیاد رکھی۔ آپ نے ایک نئے عزم اور نئے حوصلہ کےساتھ دین کی اشاعت کے لئے اس مدرسہ کو قائم فرمایا تھا، ظاہری اسباب سے بے پرواہ آپ اس مدرسہ کی ترقی میں لگ گئے۔ علاقہ کے مسلم بچوں کو تعلیم کے لئے ابھارتے، ان کے والدین کو تعلیم کی فضیلت سے آگاہ کرتے اور انہیں راضی کرکے بچوں کو مدرسہ میں لایا کرتے تھے۔گاؤں دیہات سے آنے والے بچوں کی ہیئت کیا ہوتی تھی، صاحب ‘حیات صدیق’ لکھتے ہیں: "حالت یہ تھی کہ جب علاقائی بچے آتے تو ان کے بدن پر کپڑا بھی نہیں، دیہاتیوں چرواہوں کی طرح ناقص لباس ستر کھلا ہوا، کپڑے گندے، ناک بہتی ہوئی نہ کھانے کا سلیقہ نہ اوڑھنے پہننے کا، حد درجہ تہذیب سے دور نہ معلوم کہاں کے حوش پکڑ کر لائے گئے ہیں جن کو آب دست لینے اور منھ ہاتھ دھونے کا بھی سلیقہ نہیں، ایسوں پر محنت کرکے حضرت نے ان کو کسی قابل، حافظ قاری عالم بنایا، کپڑے ان کے حضرت خود دھوتے، اور وہ بچے گھر میں سوتے، حضرت اقدس کی والدہ ماجدہ اور اہلیہ مرحومہ ان بچوں کا منھ دھلاتیں، کوئی بیمار ہوتا تو اس کی تیمار داری کی جاتی، بستروں پر پیشاب کردیتے اس کو بھی سب بچوں کی ماں اور دادی جان ہی دھوکر پاک و صاف کرتیں، اور کھانا پکاکر سب کو کھلاتیں، یہ ہے مدرسہ کا ابتدائی حال”۔لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بنجر زمین میں لگایا گیا یہ پودا شجر سایہ دار بن کر اپنی چھاؤں میں صرف علاقہ ہی نہیں بلکہ ملک کے مختلف خطوں کے تشنگان علوم کو سیرابی فراہم کرنے لگا تھا۔ قاری صدیق صاحبؒ اپنے مشن میں لگے رہے اور ہر ممکن طریقے سے مسلم بچوں کی تعلیم کے لئے کوشش کرتے رہے۔ آج الحمد للہ جامعہ عربیہ ہتھورا کا شمار ہندوستان کے ان بڑے مدارس میں ہوتا ہے جن کے فضلاء ملک کے مختلف گوشوں میں رہ کر مذہب اسلام کی خدمت میں مصروف ہیں۔ جامعہ عربیہ ہتھورا کے قیام سے صرف دینی فائدہ نہیں ہوا بلکہ علاقائی سطح پر حضرت کی کوششوں نے بہت جلد اس بنجر اور ویران علاقہ کو جہاں تک پیدل پہنچنا، بجلی، سڑک، پانی اور دیگر ضروریات زندگی کا تصور محال تھا، آسان اور ممکن بنا دیا تھا۔

بیعت و سلوک

مدرسہ مظاہر علوم میں رہتے ہوئے آپ نے بارہا تھانہ بھون کا سفر کیا تھا۔ حضرت تھانوی کی مجلس میں شرکت کرنے کا موقع نصیب ہوا تھا۔ لیکن یہ حضرت تھانوی کا آخری زمانہ تھا اور نقاہت کی وجہ سے آپ نے بیعت کرنے کا سلسلہ موقوف کردیا تھا۔حضرت قاری صدیق صاحب نے اپنا اصلاحی تعلق سب سے پہلے حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب نے قائم فرمایا۔ انہی کے مشورہ سے ذکر و اذکار اور دیگر تسبیحات میں مصروف رہا کرتے تھے۔ آپ عموما سال میں ایک دو مرتبہ اپنے وطن سے شیخ کی خدمت میں ضرور تشریف لاتے، اور کچھ دن رہ کر واپس ہوا کرتے تھے۔ عموما جب آپ آتے تو علاقہ کے دیگر افراد بھی آپ کے ہمراہ ہوجاتے تاکہ حضرت کے شیخ سے براہ راست استفادہ کا موقع میسر ہوجائے۔ حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب آپ کی عبادت و ریاضت، صلاحیت و صالحیت، تقوی و طہارت سےاس قدر خوش تھے کہ ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر قیامت کے دن اللہ پوچھے گا کہ دنیا سے کیا لائے تو میں کہوں گا کہ ‘صدیق’ کو لایا ہوں۔

 حضرت قاری صدیق صاحب باندہ سے سہارنپور تشریف لایا کرتے تھے، یہ ایک طویل سفر ہوتا تھا جس کی بنا پر حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب نے آپ کو الہ آباد میں حضرت مسیح الامت شاہ وصی اللہ کی خانقاہ میں جانے کا مشورہ دیا۔ جس کے بعد آپ عموما ہر ہفتہ الہ آباد تشریف لے جایا کرتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب سے بھی آپ کو گہری وابستگی پیدا ہوگئی تھی، چنانچہ ایک مرتبہ جب شاہ صاحب کی طبیعت خراب ہوئی اور بغرض علاج لکھنو تشریف لے گئے تو قاری صاحب ملاقات کے لئے لکھنو پہنچ گئے۔ ملاقات کے دوران مزاج پرسی کی تو حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ اب تم آگئے ہو تو طبیعت بالکل ٹھیک ہوگئی ہے۔ قاری صدیق صاحب کو مولانا اسعد اللہ صاحب اور حضرت شاہ وصی اللہ الہ آبادی دونوں حضرات سے اجازت حاصل تھی۔

تجارت سے وابستگی

قاری صدیق صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے میرے شیخ حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب نے کہا کہ اگر ممکن ہوسکے تو مدرسہ میں بلا عوض خدمت انجام دینا۔ ‘حیات صدیق’ میں مذکور ہے کہ باندہ آنے کے بعد آپ نے تجارت کرنا شروع کیا، ابتدا میں دقتیں پیش آئیں ، شرم کی وجہ سے ہمت ٹوٹ جاتی تھی، ان تمام احوال کو لکھ کر اپنے شیخ مولانا اسعد اللہ صاحب سے مشورہ طلب فرمایا۔ شیخ صاحب نے مفید مشورہ سے نوازا اور تجارت کی اہمیت و افادیت پر دو چار جملے لکھ دیئے جو کافی ثابت ہوئے۔ آپ نے مستقل کوئی پیشہ اختیار نہیں کیا، البتہ جہاں جاتے، جو چیز میسر ہوتی، خرید کر لاتے اور باندہ میں بیچا کرتے تھے۔ابتدائی دنوں میں آپ نے گاؤں گاؤں گھوم کر بھی سامان فروخت کئے ہیں۔ کبھی کبھار سبزیاں خرید کر لاتے اور بیچا کرتے تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ تجارت کی اتنی فضیلت وارد ہوئی ہے کہ اگر ضرورت نہ ہو تو بھی ان فضیلتوں کو حاصل کرنے کے لئے تجارت کرنا چاہئے۔     

قاری صدیق صاحب کی تصانیف

قاری صدیق صاحب نے تصنیف و تالیف کو اپنا میدان نہیں بنایا تھا، بلکہ دعوت و تبلیغ اور پند و نصائح آپ کا اصل میدان بن گیا تھا، شروع زمانے سے ہی آپ عوام کے درمیان جاکر، ان میں بیٹھ کر، ان کے ساتھ وقت لگاکر انہیں دین اسلام کی صداقت و حقانیت سے روشناس کرایا کرتے تھے۔ آپ کی زبان میں اللہ تعالی نے بلا کی تاثیر رکھی تھی جس نے ہزاروں لاکھوں مردہ دلوں میں دین و ایمان شمع کو روشن کر دیا تھا۔

سفر آخرت

قاری صدیق صاحب کو اللہ تعالی نے بے پناہ خوبیوں سے نوازا تھا اور ایسے علاقہ میں پیدا فرمایا تھا جہاں چہار جانب جہالت نے پیر پسار رکھے تھے۔ آزادی وطن کے بعد علاقہ میں فتنہ ارتداد کی لہر نے آپ کو بے چین و بے قرار کردیا تھا۔ چنانچہ آپ نے دینی کام کرنا شروع کیا اور اتنا کیا کہ آج آپ کا علاقہ پورے ملک میں آپ کی نسبت سے متعارف ہے۔ آپ کی طبیعت عموما خراب رہا کرتی تھی لیکن کبھی بھی آپ نے طبیعت کو اپنے معمولات پر حاوی نہیں ہونے دیا، البتہ 1409 ہجری میں پہلی مرتبہ آپ کو قلب میں تکلیف کا احساس ہوا، یہ تکلیف اس قدر سخت تھی کہ آپ کو بغرض علاج کانپور اور پھر لکھنو لے جایا گیا۔ علاج و معالجہ کے بعد طبیعت میں افاقہ ہوا تو آپ دوبارہ مدرسہ تشریف لائے اور طلبہ کو پڑھانا شروع کردیا۔ شعبان کے مہینہ میں آپ کو بغرض علاج دوبارہ ممبئی لے جایا گیا، ممبئی میں آپ کا علاج کیا گیا، کئی آپریشن کئے گئے اور پھر رمضان میں آپ نے دوبارہ باندا کا سفر کیا۔ گھر آنے کے بعد طبیعت میں افاقہ ہوا اور پھر درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ آپ آخری مرتبہ بخاری شریف پڑھانے کی تیاری میں مصروف تھے، طلبہ آپ کے پاس پہنچ گئے، آپ نے وضو کرنا شروع کیا لیکن اچانک سردی کا احساس ہوا، اور اتنا زیادہ ہوا کہ آپ لیٹ گئے، آپ کو لٹا دیا گیا، طبیعت میں افاقہ نہ ہوا تو پہلے باندا لے جایا گیا، پھر کانپور لیکن وہاں سے لکھنو لے جایا گیا۔ لیکن آخری وقت آچکا تھااور بالآخر آپ اپنے رب حقیقی کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔ حیات صدیق میں مذکور ہے: "جنازہ لکھنو سے منتقل کرکے کانپور کے راستہ ہتورا لایا جارہا تھا، ساتھ میں ایک دو نہیں گاڑیوں کی ان گنت تعداد اور لمبی قطار تھی، جیسے جیسے لوگوں کو علم ہوتا جاتا جو جس حال میں ہوتا اسی حال میں چل دیتا، ہتورا پہنچتے پہنچتے اس قدر ازدحام ہوچکا تھا کہ گاڑیوں کے کھڑے ہونے کی جگہ باقی نہیں رہی تھی ہتورا سے دو تین کلو میٹر کے فاصلہ تک گاڑیوں کی قطار تھی، مدرسہ سے ایک کلو میٹر فاصلہ تک لوگ صٖف بستہ منتظر کھڑے تھے جن کے قلوب دھڑکتے ہوئے آنکھیں پرنم سکتہ کا عالم طاری تھا”۔نو بجے شب کا اعلان کیا گیا اور لاکھوں عقیدتمندوں کی موجودگی میں نماز جنازہ ادا کرکے آپ کو ہمیشہ کے لئے رخصت کردیا گیا۔

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را                                                                      

 

 

 

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے