فتنہ ارتداد کی لہر اور ایمان کی حقیقت

فتنہ ارتداد کی لہر اور ایمان کی حقیقت

انسان کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار ان انعامات و اعزازات اور نعمتوں کے اظہار تشکر اور صحیح استعمال پر ہے جن سے اسے نوازا گیا ہے۔ اگر وہ ان نعمتوں کی قدر کرتا ہے اور اپنے منعم کا شاکر بھی ہوتا ہے تو وہ دونوں جگہ کامیاب ہے ورنہ ناکامی اس کا مقدر ہے۔ اور سب سے بڑی نعمت اور دولت جس سےانسان کو  نوازا گیا ہے وہ ایمان کی دولت ہے۔ اگر انسان دنیاوی تعیش کی خاطر اپنے آپ کو اس عظیم نعمت سے محروم کرلے، تو اس سے زیادہ  بدقسمت اور بد بخت کوئی نہیں ہے۔ اور بالفرض اگر اسے دنیاوی کامیابی مل بھی جائے تو وہ عارضی ہے۔ اس وقت صورت حال کچھ اسی طرح کی ہے، اور اس کے ذمہ دار مجموعی طور پر ہم سب ہیں۔ فتنہ ارتداد کے زمانے میں حقیقت ایمان سے واقفیت بہت زیادہ ضروری ہے۔ فتنہ ارتداد کی لہر اور ایمان کی حقیقت دونوں کو ایک ساتھ جمع کرکے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کون نافع ہے اور کون مضر ہے۔ کس کو اپنانے میں دین و دنیا کی بھلائی مضمر ہے اور کس راہ پر چلنے میں دنیاوی و اخروی خسارہ کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آنے والا ہے۔

 ملک کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ سمجھنے میں دقت ہی نہیں بلکہ بسا اوقات شک و تذبذ ب اور غیر اطمینانی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے کہ آخر ہم مسلمانان ہند اور ہمارے قائدین کی ترجیحات کیا ہیں۔ کن امور اور کن میدان میں ہم اجتماعی طور پر سنجیدگی سے کام کررہے ہیں اور کن امور کو ہم اخبارات کی بیان بازی تک رکھ کر بھول جاتے ہیں۔  ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں مسائل نے مسلم قوم کو اپنے شکنجوں میں جکڑ رکھا ہے، ایک جانب توجہ دی جاتی ہے تو دوسرا  پھن پھیلائے ڈسنے کو تیار رہتا ہے۔ موجودہ وقت میں مسلم لڑکیوں میں پھیلتا ہوا فتنہ ارتداد  مسلم قوم کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم پھیلتے ہوئے فتنہ ارتداد کے تعلق سے سنجیدہ ہیں؟ کیا ہماری کوششیں بار آور ثابت ہورہی ہے؟ کیا دختران ملت میں پھیلتے ہوئے فتنہ ارتداد ہماری ترجیحات میں شامل ہیں؟ اگر ہاں! تو اب تک ہم نے اس پھیلتے ہوئے فتنہ ارتداد کی روک تھام کے لئے کیا کام کئے ہیں۔ 

irtidad ki lehar aur imaan ki haqiqat
فتنہ ارتداد کی لہر اور ایمان کی حقیقت

ایمان کی حقیقت اور اہمیت

 فتنہ ارتداد کے تعلق سے دو تین باتیں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ سب سے اہم اور ضروری بات کہ ہمارے نزدیک ایمان کی قیمت کیا ہے؟ روئے زمین پر موجود اسباب و وسائل اور متاع تعیش کیا ایمان کی برابری کرسکتے ہیں؟ کیا ایمان ایسی شے ہے کہ دو چار عارضی اور دنیاوی فائدوں کے لئے اس سے بخوشی دستبردار ہوا جائے۔ ایمان کی اہمیت، قیمت اور قدر و منزلت کا اندازہ اُس حدیث سے ہوتا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل سے فرمایا کہ اگر تمہیں زندہ جلادیا جائے یا قتل کردیا جائے تو بھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ ایمان کی قیمت انسانی جان سے کہیں زیادہ ہے جبکہ مذہب اسلام میں انسانی جان کو جو تقدس اور فضیلت حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ اور مخفی نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : "اے کعبہ تو کس قدر پاکیزہ ہے، تیری خوشبو کس قدر عمدہ ہے اور تو کتنا زیادہ قابل احترام ہے؛ لیکن مومن کی عزت و احترام تجھ سے زیادہ ہے، اللہ تعالٰی نے تجھ کو قابل احترام بنایا ہے اور اسی طرح مومن کے مال، خون اور عزت کو بھی قابل احترام بنایا ہے اور اسی احترام کی وجہ سے اس بات کو بھی حرام قرار دیا ہے کہ ہم مومن کے بارے میں ذرا بھی بدگمانی کریں”۔ اس حدیث سے یہ بات صراحت کےساتھ واضح ہوجاتی ہے کہ بندہ مومن کا تقدس خانہ کعبہ سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن وہ شے جس نے مومن کو یہ اعلی مقام عطا فرمایا ہے وہ "ایمان” ہے۔ ایمان کی بدولت اللہ تعالی نے یہ مقام عطا فرمایا ہےلیکن اگر بندہ ایمان کی  حقیقت سے دور ہوجائے اور ایمان کی دولت سے محروم ہوجائے تو وہ اَنعام (جانور) سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا ہے۔ تیزی سے پھیلتے ہوئے فتنہ ارتداد کے نتیجہ میں وہ انسان جو کل تک اللہ تعالی کے نزدیک خانہ کعبہ سے زیادہ مقدس اور محترم تھا، اچانک اس کی حیثیت گمراہی و ناکامی اور نامرادی کی وجہ سے جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتی ہے۔ ایمان وہ شے ہے جو انسان کو ترقی و درجات کے بلند مناصب عطا کرتا ہے، محترم اور مقدس بناتا ہے جبکہ ایمان سے محرومی انسان کو ذلت ونکبت اور پستی کے غار عمیق میں پہنچا دیتی ہے۔ 

ایمان اطاعت رسول کا نام ہے

بحیثیت مسلم قوم ہمیں اس بات کو ماننا پڑے گا اور تمام مسلمانوں تک یہ بات عام کرنے کی ضرورت ہے کہ ایمان کی دولت سے بڑی کوئی دولت نہیں ہے اور ایمان کا تعلق محض زبان سے نہیں بلکہ وہ انسان کے اقوال و افعال کے مجموعہ کا نام ہے۔ ایمان کی حقیقت سے عوام کو متعارف کرانا اور ایمان کی حقیقت کو ان کے قلوب میں جاگزیں کرنا نہایت ضروری ہے۔ آج مسلمانوں میں ایک طبقہ وہ پیدا ہوگیا ہے جو ہر طرح کے شرکیہ عمل کو انجام دینے اور غیروں کے تہوار میں شرکت کرنے کے بعد کہتا ہے کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور ہم دل سے مسلمان ہیں۔ ایمان کی حقیقت کی کیا ہے، ایمان کے تقاضے کیا ہیں ان سب سے پَرے وہ اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی و اتباع کو ایمان کا نام دیتے ہیں۔ اس طرح کی باتیں ڈھکوسلے سے زیادہ اہمیت اور حیثیت نہیں رکھتی ہے۔ مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے اور متبعین کے لئے ایک حد مقرر کی ہے، اگر کوئی اس حد سے تجاوز کرتا ہے تو وہ ظالم ہے۔ مذہب اسلام نے جن باتوں پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے ان پر ایمان لانا ضروری ہے اور جن چیزوں سے رکنے کا حکم دیا ہے ان سے اجتناب ضروری ہے۔ 

ایمان کی حقیقت سے آگاہی ضروری ہے

پھیلتے ہوئے فتنہ ارتداد کی روک تھام کے لئے ہمیں حد سے زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے، بلکہ یہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا نصب العین ہونا چاہئے۔ کیونکہ بندہ مومن کے لئے اس سے زیادہ ذلت و نکبت اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے مذہبی بھائی بہن دیگر افسانوی مذاہب کا دامن تھام لیں۔ یہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کا وقت نہیں ہے بلکہ زمینی سطح پر قریہ قریہ، گاؤں گاؤں اور گھر گھر جاکر مسلمانوں میں ایمان کی حقیقت، اہمیت و فضیلت کو سمجھانے کا وقت ہے۔ مساجد کے خطباء حضرات کو چاہئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ عقائد اور توحید کو اپنی تقریر کا موضوع بنائے۔ شرکیہ عمل کی قباحت، غیر اسلامی تہواروں میں شرکت کی کراہت کو زیادہ سے زیادہ عوام الناس کے دلوں میں بٹھانے کی ضرورت ہے۔مکاتب کے نظام کو مضبوط سے مضبوط تر کیا جائے، اور مکاتب کے نصاب میں بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ بنیادی عقائد کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ دین اسلام کی حقانیت سے معصوم دلوں کو منور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شکوک و شبہات کے تار عنکبوت ان کی ایمانی عمارت کو متزلزل کرنے سے عاجز و قاصر رہے۔ اسکول اور کالج کی تعلیم موجودہ دور میں یقینا ضروری ہوگئی ہے، اور اس میدان میں مسلم قوم کا آگے بڑھنا ناگزیر ہے، لیکن اسکولی تعلیم اور دنیاوی ترقیات سمیت مذہبی تشخصات اور دین اسلام کی پیروی امر لابد ہے۔ کنوینٹ اور غیروں کی تعلیم گاہوں میں پڑھنے والے طلبہ کے لئے بنیادی مذہبی تعلیمات کو ضروری قرار دیا جائے تاکہ وقت کے تھپیڑے ان کی غیرت ایمانی کے سامنے خس و خاشاک ثابت ہوں۔ مکاتب کا ایسا نظام مرتب کیا جائے جس میں پڑھنے اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہر طالب علم دین کے بنیادی عقائد اور ایمان کی حقیقت سے مکمل طور پر آشنا ہوجائے۔

مکاتب کی اہمیت و افادیت اور طریقہ کار کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں

ایمان اللہ تعالی کا عطا کردہ سب سے قیمتی تحفہ ہے۔ ایمان کی دولت کے بغیر انسان کے اعمال رب کریم کی بارگاہ میں کوئی معنویت نہیں رکھتے ہیں۔ کس قدر بد نصیب ہے وہ شخص جو چند دنوں کی خوشی کے لئے ذات صمدیت کی بارگاہ سے روگردانی کرکے شیطانی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوجائے۔ چند روزہ راحت و اطمینان کے حصول کے لئے دائمی ناز و نعمت اور فرحت و مسرت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حماقت و غباوت  کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ انسان پاک، پاکیزہ ، طاہر اور مقدس رشتوں کی ڈور سے الگ ہوکر ناپاک اور نجس تعلق میں منہمک ہوجائے۔ حلال اور پاکیزہ رزق کو چھوڑ کر حرام مال سے ا پنی دنیا بنانے کی فکر میں سرگرداں رہنے والوں سے زیادہ محروم القسمت کون ہوسکتا ہے۔

والدین کی ذمہ داری  

 فتنہ ارتداد کے تعلق سے علما طبقہ کو سب سے زیادہ متفکر ہونا چاہئے اور یہ طبقہ اپنی وسعت کے بقدر روک تھام کی کوشش میں مصروف عمل بھی ہے۔ لیکن کیا یہ ذمہ داری صرف علماطبقہ کی ہے۔ اس سلسلہ میں والدین بھی برابر کے  ذمہ دار ہیں۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمیشہ اور ہر وقت اپنے بچوں کو نگہداشت میں رکھیں۔ جس طرح ان کی تعلیم اور اچھے نمبرات کے لئے متفکر اور کوشاں رہتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ان کے ایمان کے متعلق فکر مند رہنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی نے والدین کو بچوں کا نگراں بنایا ہے اور ان کے متعلق قیامت کے دن سوال پوچھا جائے گا، اگر آج بچوں کی دینی تعلیم و تربیت پر توجہ نہیں دی گئی اور انہیں دینی امور میں ناخواندہ رہنے دیا گیا تو یہ بچوں کی حق تلفی ہوگی اور اس کے بارے میں والدین سے باز پرس ہوگی۔اس لئے وقتا فوقتا ان سے دینی امور اور عقائد پر بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ دین کے مسائل کو بیان کرنے ان کی اہمیت بچوں کے دلوں میں بٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہر بچہ کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوا کرتی ہے، اگر یہاں اسے دین اسلام اور ایمان کی صداقت و حقانیت کی تعلیم مل گئی اور اس کے بنیادی عقائد مضبوط ہوگئے تو بعد کے ادوار میں وہ یقینا باطل خیالات کے سامنے دیوار آہنی بن کر کھڑے ہوں گے۔ عہد طفلی کی تربیت زندگی بھر ساتھ رہے گی اور جو تعلیم ماں کی مہد سے ملی ہے وہ لحد تک ساتھ رہے گی۔

فتنہ ارتداد اور مسلم معاشرہ: اسباب و وجوہات اور ان کا حل مکمل مضمون کے لئے لنک پر کلک کریں

 

Related Posts

6 thoughts on “فتنہ ارتداد کی لہر اور ایمان کی حقیقت

    1. ماشاءاللہ
      آپ نے نہایت ہی اہم اور حساس مسئلہ کی طرف رہنمائی کی ہے، آج کل ارتداد پھیلتا جارہا ہے، اور ہمیں اس کا احساس تک بھی نہیں ہورہا ہے، حالانکہ تمام خبروں اور واقعات سے واقف ہیں، ہمیں اس کے روک تھام کے لیے کیا کرنا چاہیے، آپ نے نہایت ہی عمدہ انداز میں حل پیش کئے ہیں، اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے __آمین

  1. ماشاءاللہ
    آپ نے نہایت ہی اہم اور حساس مسئلہ کی طرف رہنمائی کی ہے، آج کل ارتداد پھیلتا جارہا ہے، اور ہمیں اس کا احساس تک بھی نہیں ہورہا ہے، حالانکہ تمام خبروں اور واقعات سے واقف ہیں، ہمیں اس کے روک تھام کے لیے کیا کرنا چاہیے، آپ نے نہایت ہی عمدہ انداز میں حل پیش کئے ہیں، اللہ ہمیں عمل کی توفیق دے __آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے