غیر مسلم دانشوران کی اسلامی معلومات

غیر مسلم دانشوران کی اسلامی معلومات

(دوسری قسط)

مولانا اسجد عقابی

کچھ مہینہ قبل اس موضوع پر پہلا مضمون لکھنے کا اتفاق ہوا تھا، اس موضوع پر لکھنے کا اصل محرک موجودہ دور میں سوشل میڈیا کے ذریعہ سے خواہی نہ خواہی عمدا یا سہوا اسلامی تعلیمات کے خلاف غلط اور بے بنیاد باتوں کو بیان کرنا ہے۔مذہب اسلام سے متعلق بات کرنے والے کئی طرح کے افراد ہوتے ہیں ایک تو وہ لوگ ہیں جو محض اپنی معلومات سے دوسروں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں یا پھر مذہب اسلام کی غلط تشریح ان کا مقصد ہوتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اساتذہ (ٹیچر، پروفیسرز) کی حیثیت رکھتے ہیں اور اپنے طلبہ کو اسلام سے واقف کرانا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک ہندوستان میں چونکہ کئی مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں اور کئی افراد ایسے پائے جاتے ہیں جو اپنے مذہب کے علاوہ دوسرے مذاہب کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتے ہیں علاوہ ازیں، بعض امتحانات ایسے ہوتے ہیں جن کی تیاری کے لئے ملک میں موجود مذاہب کے متعلق معلومات ضروری ہوتی ہیں، اس لئے مذاہب کی بنیادی باتوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور وہ طلبہ جو ایسے امتحانات میں شرکت کے متمنی ہوتے ہیں وہ کسی طورپر تمام مذاہب کی معلومات حاصل کرنے کےدر پے ہوتے ہیں۔

گزشتہ مضمون میں ہم نے بعض ایسی باتوں کو بیان کیا تھا جن سے واضح ہوتا ہے کہ ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو مذہب اسلام کی بعض باتوں اور چند بنیادی احکام سے واقف ہیں لیکن بزعم خویش وہ سب سے زیادہ جاننے والے ہیں اور اپنے طلبہ اور دیگر افراد کو اس طور پر اسلامی احکامات بتاتے اور سمجھاتے ہیں کہ ان سے بہتر جاننے والا کوئی اور نہیں ہے۔ اس مضمون میں بھی ایسے ہی موضوع کا انتخاب کیا گیا ہے، چونکہ ابھی عید الاضحی (بقر عید) قریب ہے، تو ایسے موقع پر مذہب اسلام کو یا تو بدنام کرنے کے لئے یا پھر اسلام کی غلط تشریح کرتے ہوئے قربانی کے فریضہ کو غیر مناسب ٹھہرانے کی کوشش کی جارہی ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعہ ایسے مواد کو عوام کے درمیان پھیلایا جاتا ہے تاکہ وہ شکوک و شبہات میں مبتلا ہوجائیں۔

قربانی، قربانی کا پس منظر اور حضرت ابراہیم کے متعلق بتاتے ہوئے ہمارے ایک معروف و مشہور آئی اے ایس ٹرینر- واضح رہے کہ موصوف کا شمار ہندوستان کے ان چند اساتذہ میں ہوتا ہے جنہیں علوم و فنون کا ماہر اور تجربہ کار استاذ تصور کیا جاتا ہے۔ موصوف کی علمی قابلیت سے قطع نظر ہم یہاں اپنے مذہب کی بات کو اپنے مذہب کے اعتبار سے ثابت کریں گے- موصوف نے قربانی کا پس منظر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت ابراہیم نے خواب دیکھا کہ مجھے حکم دیا جارہا ہے کہ اپنی سب سے محبوب شئی کو اللہ کے لئے قربان کروں، چنانچہ انہوں نے اندازہ لگایا کہ میرے لئے سب سے محبوب میرا بیٹا ہے اس لئے مجھے چاہئے کہ اپنے بیٹے کی قربانی پیش کروں۔

حالانکہ قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بیان ہے کہ حضرت ابراہیم اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام سے کہتے ہیں " قالَ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ ماذا تَرى(صافات 102) میں نے خواب دیکھأ کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں تو تم سوچ لو کہ تمہاری کیا رائے ہے”۔ قرآن مجید کی مذکورہ آیت میں واضح الفاظ موجود ہیں جو اس بات کی دلالت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں اپنے بیٹے کو ہی قربان کرتے دیکھا تھا۔

آگے چل کر موصوف  قربانی کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ در اصل زمانہ قدیم میں یہ عام تصور تھا کہ اگر اللہ (کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں) کی قربت اور تقرب حاصل کرنا ہے تو اس کے نام پر اپنی سب سے محبوب شے کو قربان (بَلی) کیا جائے، اور اولاد سے زیادہ محبوب دنیا میں کون ہوسکتا ہے۔ اور چونکہ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کی جگہ پر بکرے کی قربانی کی ہے اس لیے اس کے بعد یہ عام دستور بن گیا۔اور موجودہ دور میں مسلمان اس لئے قربانی کرتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم نے قربانی کیا تھا تو اب ہم بھی کریں گے۔ نیز موصوف نے اس بات کو بھی بہت واضح طور پر پیش کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کی ابتدا حضرت اسماعیل کے خاندان سے ہوئی ہے لیکن حضرت ابراہیم کے دور میں مذہب اسلام نہیں تھا۔ ذبح کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کو لٹادیا اور ذبح کرنا چاہا، تو وہ ذبح نہیں ہوئے، انہیں لگا کہ شاید چھری تیز نہیں ہے اس لئے ایسا ہورہا ہے، چنانچہ انہوں نے چھری کو غصہ میں پھینکا، چھری ایک چٹان (پتھر) سے ٹکرائی اور اس پتھر کے دو ٹکڑے ہوگئے اور پھر چھٹک کر دور گئی، جہاں ایک بکرا (جانور) تھا جو اس چھری سے ذبح ہوگیا۔موصوف محترم کے اس بیانیے میں کئی چیزیں قابل غور اور اصلاح طلب ہیں جن کا یہاں پر اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا جاتاہے ۔

مذہب اسلام میں قربانی باضابطہ ایک حکم ہے، جسے قرآن اور حدیث میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا "جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے” مطلب یہ ہے کہ اگر صاحب نصاب ہے اور قربانی کرسکتا ہے پھر بھی قربانی نہ کرے تو اس کے لئے وعید ہے۔قربانی کا تصور مذہب اسلام میں یہ نہیں ہے کہ اپنی سب سے محبوب شے کو اللہ کے راستہ میں قربان کیا جائے بلکہ قربانی کا اصل تصور یہ ہے کہ مخصوص ایام (10/11/12) ذی الحجہ کو اللہ کے نام پر مخصوص جانوروں کو قربان کیا جائے، اگر ان ایام کے علاوہ دیگر ایام میں قربانی کرے تو اسے صدقہ تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن قربانی کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی اور نہ ہی صاحب نصاب کا ذمہ ساقط ہوگا۔ اور جس حدیث میں صحابہ کرام کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ قربانی تمہارے باپ (حضرت ابراہیم) کی سنت ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب اسلام کوئی نیا دین یا نیا مذہب نہیں ہے بلکہ یہ وہی دین اور طریقہ ہے جسے حضرت آدم علیہ السلام لے کر آئے تھے، البتہ اللہ تعالی نے مختلف زمانوں میں مختلف نبیوں اور رسولوں کو بھیجا تاکہ وہ زمین پر بسنے والے انسانوں کو ان کے معبود حقیقی کی جانب بلائے اور انہیں سیدھا راستہ دکھائے، نبیوں کے اس سلسلہ میں نبی کریم ﷺ سب سے آخری پیغمبر اور رسول ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، اللہ تعالی نے انسانوں کی ضرورت کے اعتبار سے احکام کو بدلا ہے لیکن بہت سارے احکام آج بھی سابقہ حالت پر موجود ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مذہب  اسلام کی ابتدا حضرت محمد ﷺ سے ہوئی ہے وہ غلط ہے بلکہ آپ ﷺ مذہب اسلام اور خدائی پیغام کو انسانوں تک پہنچانے والے آخری رسول ہیں۔ نبوت کا جو سلسلہ سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا وہ آپ ﷺ پر ختم ہوا ہے۔

موصوف محترم نے جس انداز میں بکرے (جانور) کے ذبح ہونے اور پتھر کے ٹکڑے ہونے کا تذکرہ کیا ہے، یہ دونوں باتیں صحیح روایات کے خلاف ہیں، روایات میں مذکور ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو لٹا کر چھری چلانا چاہا تو چھری نہیں چلی، قرآن مجید میں مذکور ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خطاب کیا اور خواب کو پورا کرنے کی تصدیق فرمائی، جب حضرت ابراہیم نے اوپر آسمان کی جانب دیکھا، دیکھتے ہیں کہ حضرت جبریل ایک مینڈھا لیے کھڑے ہیں اور پھر اسی مینڈھے کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کیا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ایسے افراد جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں اور اسلامی معلومات اور تعلیمات پر ویڈیوز بناتے ہیں یا لیکچر دیتے ہیں ان کی بیشتر باتوں میں حقیقت سے تضاد ہوتا ہے اور وہ رطب و یابس کو جمع کرکے بیان کرتے ہیں۔

آگے چل کر انہوں نے ایک اختلافی مسئلہ کو یکطرفہ طور پر بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اپنے جس بیٹے کی قربانی دی ہے اس کا نام اسحاق( حضرت اسحاق) ہے۔ اگرچہ کچھ لوگوں کی جانب یہ روایت منسوب کی جاتی ہے، لیکن اس سلسلہ میں جمہور کی رائے یہ ہے کہ قرآن مجید میں موجود الفاظ اور دیگر قرائن اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ذبیح حضرت اسماعیل ہیں۔ صاحب معارف القرآن، حافظ ابن کثیر کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ "لیکن بظاہر یہ سارے اقوال کعب الاحبار سے منقول ہیں، اس لئے کہ جب وہ حضرت عمر کے زمانہ میں اسلام لائے تو حضرت عمر کو اپنی پرانی کتابوں کی باتیں سنانے لگے، بعض اوقات حضرت عمر ان کی باتیں سن لیتے تھے، اس سے اور لوگوں کو بھی گنجائش ملی، اور انہوں نے بھی ان کی روایات سن کر ان کو نقل کرنا شروع کردیا، ان روایات میں ہر طرح کی رطب و یابس جمع تھیں، اور اس امت کو ان باتوں میں سے ایک حروف کی بھی ضرورت نہیں ہے”۔ در اصل یہودیوں نے اپنی کتابوں میں حسب عادت تحریف کرکے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت ابراہیم کے بیٹے حضرت اسحاق کے متعلق حکم دیا گیا تھا کہ انہیں ذبح کیا جائے، جبکہ خود ان کی کتابوں میں کئی اشتباہات پائے جاتے ہیں۔ موجودہ وقت میں عید الاضحی کے متعلق نام نہاد مفکرین قربانی کے متعلق عجیب و غریب قسم کی منطق پیش کرتے ہیں۔ عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لئے نئے اور میٹھے انداز میں یہ بات بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اللہ تعالی کو جانور کی قربانی کی کیا ضرورت ہے، اصل تو یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی کو خوش کرنے کے لئے اس کے بندوں کے کام آئے اور جو پیسہ جانوروں کی خریدو فروخت پر صرف ہوتا ہے اس سے بہتر ہے کہ کسی غریب کی مدد کی جائے اور اس کی پریشانیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ بظاہر یہ بہت اچھا نعرہ اور بہت اچھی بات ہے کہ صدقہ دیا جائے اور غریبوں کی مدد کی جائے ، حقیقت یہ ہے کہ مذہب اسلام نے صدقہ و خیرات اور دیگر نیک کاموں کی جتنی ترغیب دی ہے اس کا عشر عشیر بھی دوسروں کے یہاں نہیں پایا جاتا ہے، لیکن ہر کام کی نوعیت الگ ہے، اگر کسی صاحب نصاب، مالدار انسان نے ایام قربانی (10/11/12) ذی الحجہ کو بلا عذر شرعی کے قربانی نہیں کیا تو وہ گناہ گار ہوگا اور ایک شرعی حکم کو چھوڑنے والا قرار دیا جائے گا۔ ایسے افراد جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں اور خود کو بہت زیادہ رحم دل ظاہر کرتے ہیں اور عید الاضحی کے موقع پر جانوروں سے کے حقوق کی باتیں کرتے ہیں وہ در اصل مسلمانوں کو ورغلانے اور انہیں مذہب اسلام سے دور کرنے کی سازش میں شریک ہیں تاکہ مسلمانوں کی دینی حمیت ختم ہوجائے اور وہ رفتہ رفتہ شرعی احکامات کی ادائیگی سے دور ہوتے چلے جائیں۔

پہلی قسط پڑھنے کے لئے نیچے لنک پر کلک کریں

غیر مسلم دانشوران کی اسلامی معلومات (قسط اول) 

 

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے