علامہ یوسف بنوری اور کثرتِ مطالعہ

 

علمی انحطاط کا سبب صرف یہ نہیں ہے کہ جید اور باکمال علماءدار فانی سے رخصت ہوگئے ہیں بلکہ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب ان جیسے مطالعہ کرنے والوں کی تعداد کم سے کم ہوگئی ہے۔  چاند کی چاندنی،  لالٹین کی مدھم روشنی اور موم بتی کی ہلکی لو  میں پوری پوری کتاب مطالعہ کرنے والے اور ایک ایک مسئلہ کی تحقیق کے لئے کئی کئی راتیں جاگ کر گزارنے والے افراد روئے زمین سے ختم ہورہے ہیں۔ کتابوں سے عشق، لگاؤ، الفت اور چاہت رکھنے والے اور نادر و نایاب کتابوں کو تلاش کرکے پڑھنے والے اب کہیں گم ہوتے جارہے ہیں۔ رسائل و جرائد اور مجلات کی حصولیابی کے لئے کوشش کرنے والے اور ان کے بیش قیمتی علمی، تحقیقی، ادبی اور انوکھے مضامین کو پڑھنے والے اور ان کو یکجا کرنے والے اب کہیں عنقاء ہوگئے ہیں۔  کتابوں سے دوری اور نت نئی ایجادات کی قربت کا نتیجہ ہے کہ اب الماری اور میز پر رکھی کتابیں گرد آلود ہوجاتی ہیں اور کچھ وقفہ کے بعد وہ دیمک کی خوراک بن جاتی ہیں۔ بے شمار ادبی اور علمی رسائل قاری کی کمی کا شکوہ کرتے ہوئے دم توڑ گئے اور کچھ حالت سکرات میں سانس لے رہیں، نہ جانے کب وہ بھی ساتھ چھوڑ جائیں۔  

حضرت علامہ یوسف بنوری فرماتے ہیں: معارف السنن کی تصنیف کے سلسلے میں مجھے مختلف کتابوں کے تقریبا دو لاکھ صفحات پڑھنے اور مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ ڈابھیل میں قیام کے دوران ایسا بھی ہوا کہ ایک بات کی تحقیق کے لئے  میں نے پانچ پانچ سو، ہزار ہزار، دو دو ہزار صفحات کا مطالعہ کیا ہے۔

ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ جب میں ہدایہ پڑھتاتھا تو فتح القدیر، البحر الرائق، اور بدائع الصنائع ، ان تینوں کتابوں کا دو سبق کے قریب مطالعہ کیا کرتا تھا اور میرا مطالعہ ہمیشہ استاذ کے سبق سے آگے رہتا تھا۔ پھر مشکوۃ شریف کے سال بدایہ المجتہد اور حجۃ اللہ البالغہ کا مطالعہ کرتا تھا۔ ڈابھیل میں امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیری کی جب خدمت نصیب ہوئی ، اس زمانے میں حضرت کے پاس مذاہب اربعہ کی کتابیں تھیں، چنانچہ میں کتاب الام فقہ شافعی، المغنی فقہ حنبلی، اور المجموع شرح مہذب وغیرہ کا مطالعہ کرتا تھا۔ اس سے مجھے شوق پیدا ہوا اور میں نے مذاہب اربعہ کی اکثر کتب متداولہ کا مطالعہ کیا ۔

 

11 thoughts on “علامہ یوسف بنوری اور کثرتِ مطالعہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے