عالمی یوم خواتین: حقیقت اور فسانہ

 

عالمی یوم خواتین: حقیقت اور فسانہ

ہم آج تک اس فلسفہ کو سمجھنے سے عاجز و قاصر ہیں کہ وقفہ وقفہ سے عالمی طور پر "دن” کیوں منائے جاتے ہیں۔ ان کے پس پشت کیا مقاصد کار فرما ہوتے ہیں۔ جن مقاصد کے لئے یہ”دن”  منائے جاتے ہیں آیا ان میں کامیابی ملتی ہے یا پھر یوں ہی ایک رسم کی مانند منائے جاتے ہیں۔ جن طبقات کی جانب "دن” کو منسوب کیا جاتا ہے آیا ان کے دکھ درد اور ان کی مانگ کو پورا کیا جاتا ہے، یا پھر اس دن اس طبقہ کے لئے مخصوص رعایت ہوتی ہے جن کا انہیں فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ بادی النظر میں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے۔ "یوم مزدور” کے موقع پر بڑے بڑے نام نہاد قائدین کے لئے اسٹیج سجاتے ہم نے "مزدوروں” کو ہی دیکھا ہے۔ "یوم اطفال” کے موقع پر  بھوک سے نڈھال معصوموں کو راستوں پر دست سوال دراز کرتے دیکھا ہے،  "یوم اساتذہ” کے موقع پر اساتذہ کو اپنی تنخواہوں کے لئے دھرنا دیتے بھی دیکھا ہے۔”عالمی یوم خواتین” کے موقع پر خواتین کا استحصال ہوتے دیکھا ہے۔ یہ چند خوشنما الفاظ اور بہترین تعبیرات کسی طبقہ کے مسائل کا مداوا نہیں کرسکتے ہیں۔ عالمی یوم خواتین ایک خوش کن اور دلفریب نعرہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 

aalmi-yaum-e-khawateen-haqeeqat-aur-fasana
عالمی یوم خواتین

عالمی یوم خواتین کی ابتدا

عالمی یوم خواتین کی ابتدا 1911 میں جرمنی کی رہنے والی "کلارا زیٹکن”(Clara Zetkin نامی عورت سے شروع ہوئی، اس  نے 1910 میں ایک کانفرنس کے دوران، جس میں 17 ممالک کی تقریبا 100 خواتین شامل تھیں ان کے سامنے یہ پیشکش رکھی۔ کانفرنس میں یہ قرار داد منظور ہوئی اور 28 فروری کا دن "عالمی یوم خواتین” کے لئے مختص کیا گیا ۔ لیکن پھر دو سال بعد ہی 1913 میں 28 فروری سے بدل کر 8 مارچ کردیا گیا اور آج تک عالمی طور پر اسے "عالمی یوم خواتین” کے طور پر منایا جارہا ہے۔اس کانفرنس کا مقصد دنیا کے ان ممالک میں جہاں عورتوں کو بنیادی حقوق حاصل نہیں تھے ان کے  لئے کام کرنا اور ان کو حقوق دلانے کے لئے سعی کرنا تھا۔ 

عالمی یوم خواتین کے مقاصد

عالمی یوم خواتین کے مقاصد کے تحت جو باتیں بیان کی جاتی ہیں ان میں ، عورت کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے، ان کے خلاف جنسی امتیاز کو ختم کرنا ہے، گھریلو تشدد سے انہیں آزاد کرانا ہے اور سماج میں ایک باعزت مقام عطا کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان عورتوں کی اہمیت کو کس نے گھٹایا ، ان کے خلاف جنسی امتیاز کس نے قائم کیا اور کس نے انہیں سماج میں وہ مقام و مرتبہ نہیں دیا ہے جن کی یہ مستحق ہیں۔ یقینا انہیں وہ تمام حقوق ملنے چاہئے جو ان کے لئے مالک حقیقی اللہ تعالٰی نے مختص کئے ہیں، اگر خلوص نیت کے ساتھ اس عمل کو انجام دیا جارہا ہے تو یقینا یہ قابل ستائش قدم ہے لیکن حقائق کی نظر سے دیکھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کے پس پشت فسادِ نیت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سال کے ہر دن عورت کے حقوق کے لئے یکساں آواز بلند کی جاتی اور عورت کے خلاف ظلم روا رکھنے والوں کے لئے شدید ترین سزاؤں کا بروقت استعمال کیا جاتا، ایسے لوگوں کو نشان عبرت بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا تاکہ دوسرے لوگ اس کے انجام سے عبرت حاصل کریں لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے۔ عورت کے لئے آواز اٹھانے والے اور ان کے حقوق کی بات کرنے والے ، ان کے استحصال میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔

کیا عالمی یوم خواتین کے انعقاد سے خواتین کو حقوق مل گئے؟

انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل تک دنیا بھر کے بیشتر ممالک اور مذاہب میں عورت کی حیثیت دوسرے درجہ کی تھی۔ تعلیمی ادارے انہیں سرٹیفکٹ دینے سے احتراز کرتے تھے۔ بڑے اور اہم مناصب سے انہیں دور رکھا جاتا تھا، اہم امور  انہیں تفویض کرنے سے گریز کیا جاتا تھا، لیکن پھر جب کچھ نئی تحریکات نے جنم لیا اور دنیا میں جدت پسندی آئی تو اس سلسلہ میں عورتوں کو بعض وہ حقوق عطا کئے گئے جن کی وہ حقدار تھیں اور جو ان کی زندگی کے لئے ضروری تھا۔ لیکن افسوس کہ یہ مسئلہ افراط و تفریط کا شکار ہوگیا۔ پہلے عورتوں کو حقوق نہیں دیئے جاتے تھے اور اب آزادی اور آزادی نسواں کے نام پر انہیں وہ حقوق عطا کئے گئے جو ان کے لئے مناسب نہیں تھے، آزادی کے اس خوشنما نعرہ نے انہیں بے حیائی کے  اس مقام پر لاکر کھڑا کردیا   جو عورت کی نسائیت کے سراسر منافی ہے اور جو عورت کے تقدس کو پامال کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کررہا ہے۔ تعلیم، آزادی، بنیادی حقوق اور سماج میں عزت یہ تو ہر عورت کا حق ہے لیکن عورت کو سامان نمائش بناکر بازار میں پیش کرنا اور ان کے ذریعہ اپنی تجارت اور مفاد کو حاصل کرنا مناسب نہیں تھا۔ آزادی کے نام پر عورت کو کیا ملا، گھر کے کام کاج کو چھوڑ کر وہ فائیو اسٹار ہوٹل اور کیفے میں کام کرنے لگی۔ اپنے ماں باپ، بھائی بہن اور شوہر کے حقوق اور خدمت کو چھوڑ کر اجنبیوں کی خدمت اور ان کے سامنے چائے پیش کرنے کو آزادی کا نام دے دیا گیا ۔ ماڈلنگ کے نام پر نوخیز دوشیزاؤں کا استعمال کیا جاتا ہے اور پھر ڈھلتی عمر کے ساتھ انہیں گمنامی کے سمندر میں چھوڑ دیا جاتا ہے، جہاں وہ کسمپرسی میں اپنی بقیہ زندگی گزارتی ہے۔بسا اوقات ایسی عورتوں کا انجام بڑا عبرتناک ہوتا ہے۔ ان کی جوانی تو عیش و عشرت میں بہت  پُرتکلف گزرتی ہے لیکن ان کا بڑھاپا جان لیوا ثابت ہوتا ہے جو انہیں خود کشی جیسے جرائم پر بھی آمادہ کردیتا ہے۔آئے دن ایسی خبریں نشر ہوتی ہے کہ فلاں ملک کی مشہور اداکارہ یا ماڈلنگ کی دنیا میں نام پیدا کرنے والی خاتون نے خودکشی کرکے اپنی جان لے لی ہے۔ اگر عالمی یوم خواتین کا مقصد یہ تھا کہ عورتیں کیفے، بیئر بار، ریسٹورنٹ اور دیگر عوامی مقامات پر نوکری کرے، ایئر ہوسٹس بن کر اجنبی مردوں کی خدمت کرے، ریسپشن پر بیٹھ کر آنے والے مہمانوں کا استقبال کرے مختلف قسم کی مجالس و محافل کو اپنی خوبصورتی اور حسن سے دلفریب بنائے تو یقینا عالمی یوم خواتین کے انعقاد کا مقصد حاصل ہوگیا ہے، لیکن اگر خواتین کو حقوق دلانے اور انہیں معاشرہ میں عزت دلانے کے لئے قائم کیا گیا تھا تو یہ مقصد کہیں کھو گیا ہے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ اس سماج میں عورت  کل بھی مظلوم تھی اور آج بھی مظلوم ہے۔ بس طریقہ کار بدل گیا ہے۔ کل تک بزور قوت ان کے حقوق سلب کئے جاتے تھے اور آج حقوق کے نام پر ان کا استحصال کیا جارہا ہے۔ کل تک انہیں قید و بند کرکے ان کی زندگی اجیرن بنائی جاتی تھی اور آج  آزادی کے نام پر ان کی زندگی سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ کل تک انہیں سامان آرائش سمجھ کر بازار میں فروخت کیا جاتا تھا اور آج انہیں آزادی کے نام پر سامان زیبائش بنایا جارہا ہے۔کل تک عورتوں کو سامان تجارت بناکر فروخت کیا جارہا تھا آج عورتیں سامان تجارت فروخت کررہی ہیں۔ عالمی یوم خواتین کے نام پر بعض ممالک میں ایسے بھونڈے اور بیہودہ قسم کے احتجاجات اور پریڈ نکالے جاتے ہیں جو کسی طور مہذب سماج اور معاشرہ کا حصہ نہیں ہوسکتے ہیں۔ اگر عالمی یوم خواتین کا مقصد یہی ہے کہ شرم و حیا، غیرت و حمیت اور نسائیت کی چادر کو تار تار کردیا جائے تو یہ عالمی یوم خواتین انہیں مبارک ہو جن کے نزدیک عورت سامان آرائش و زیبائش سے زیادہ کچھ معنویت نہیں رکھتی ہے۔

عالمی یوم خواتین اور روشن خیال طبقہ

عالمی یوم خواتین کے موقع پر بعض خواتین کو پروگرام وغیرہ کا انعقاد کرکے انعامات سے نوازا جاتا ہے اور ان کی قربانیوں کو سراہا جاتا ہے۔ لیکن ہر آنے والے سال میں عورتوں کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں، یہ بات قابل غور و فکر ہے کہ ایک صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی حقوق نسواں کے نام نہاد علمبردار عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کو بنیادی حقوق دلانے سے عاجز و قاصر ہیں، البتہ ان لوگوں نے عورتوں کے ایک طبقہ کو بے راہ روی اور روشن خیالی کا اس قدر دلدادہ بنا دیا ہے کہ اب ان کے نزدیک شرم و حیا اور عفت و عصمت اپنی معنویت کھو چکے ہیں۔ گزشتہ دو چار سالوں میں عالمی یوم خواتین کے موقع پر بعض ممالک میں "عورت مارچ” کا اہتمام کیا گیا، جس میں میرا جسم میری مرضی کے نعرے بلند کئے گئے اور اس بات کا پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ ہم جنسی بے راہ روی کے شکار ہوچکے ہیں اب ہمیں عزت نفس اور گھریلوں پیار و محبت کی ضرورت نہیں ہے۔ آزادی نسواں کے نام پر عورتوں کا جو استحصال مغرب میں شروع ہوا تھا اب مشرق میں بھی وہ مکمل طور پر اپنا سکہ جما چکا ہے۔ مغربی افکار و خیالات کے حاملین عورتوں کو بے حیائی و بے غیرتی کے جس مقام پر لانا چاہتے تھے آج کی عورت اس مقام پر پہنچ چکی ہے۔ آزادی نسواں اور حقوق نسواں جیسے دلفریب نعروں کی چکاچوند میں عورتوں تک رسائی ممکن ہوچکی ہے۔عالمی یوم خواتین کے موقع پر پروگرام اور کانفریس منعقد کرنے والے وہ افراد ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان کا بچھایا ہوا دام فریب کس حد تک کارگر اور مفید ہے تاکہ مستقبل کے لائحہ عمل کو طے کرنے میں آسانی پیدا ہو۔کیا یہ قا بل افسوس پہلو نہیں ہے کہ عورت اگر گھر میں کام کرے تو اسے قید و بند سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن ہوٹل اور ریسٹورنٹ میں چند پیسوں کے عوض اجنبی مردوں کی ہوس کا نشانہ اور ان کے لئے دسترخوان سجائے تو یہ آزادی ہے۔ والدین، شوہر اور بھائی بہن کے ساتھ وقت گزارے اور ان کی آرائش و سہولت کا خیال رکھے تو قید و بند ہے لیکن اگر طیاروں میں ایئر ہوسٹس بن کر کام کرے اور ان کی ضیافت کرے تو یہ آزادی نسواں ہے ۔

عالمی یوم خواتین اور مذہب اسلام

ایک مخصوص ذہنیت کے افراد عالمی یوم خواتین کے موقع پر مذہب اسلام کو اپنی جارحانہ اور مفسدانہ سوچ کا نشانہ بناتے ہیں۔ در اصل یہ وہ لوگ ہیں جو ہر معاملہ میں مذہب اسلام کو بدنام کرنے اور اور شعائر اسلام کی توہین کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ عالمی یوم خواتین کے موقع سے یہ لوگ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اس ترقی یافتہ اور ماڈرن زمانہ میں مذہب اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے اب تک عورتوں کو قید و بند میں رکھا ہے اور عورتوں کو ان کے بنیادی حقوق ادا نہیں کئے ہیں۔ حالانکہ ہر عاقل و بالغ شخص اس بات کا معترف ہے کہ جو حقوق آج سے چودہ سو سال قبل مذہب اسلام نے خواتین کو عطا کئے ہیں وہ کسی اور مذہب اور طبقہ کا حصہ نہیں ہے۔ عالمی یوم خواتین کے نام لیوا ان آزاد خیال افراد کو خواتین اسلام کی پردہ داری، عفت و عصمت، حیا و پاکدامنی اور اطاعت خداوندی کا جذبہ نہیں بھاتا ہے۔ جس طرح یہ غلاظت و گندگی اور خباثت و رذالت کو اپنے لئے باعث تکریم تصور کئے بیٹھے ہیں، چاہتے ہیں کہ دنیا میں بسنے والے تمام افراد انہیں کی مانند گندی ذہنیت والے اور غلاظت پسند بن جائے۔ 

عالمی یوم خواتین اور خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی

صرف ملک ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور جبر و اکراہ کا معاملہ پیش آتا رہتا ہے۔ زنا بالجبر اور عصمت دری کے واقعات ہر آئے دن نام نہاد مہذب سماج کی حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔ گھریلو تشدد اور کام کاج کی جگہوں پر عورتوں کا استحصال معمول کی بات ہے۔ آزادی نسواں، حقوق نسواں اور تعلیم نسواں کے نام پر تحریکیں ضرور چلائی جاتی ہے لیکن ان کے خاطر خواہ اثرات دیکھنے کو نہیں ملتے ہیں۔ عورتوں کے خلاف ظلم و زیادتی میں سر فہرست وہ ممالک اور اقوام ہیں جو سب سے زیادہ عورتوں کے حقوق کی دُہائی دیتے ہیں۔ خواتین کے حقوق کی بات کرنے والے افراد وہ ہوتے ہیں جو خواتین کے خلاف جرم کرنے میں مشہور و متعارف ہوتے ہیں۔ خواتین کو بنیادی حقوق اور تحفظ فراہم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مہذب اور انسانیت نواز معاشرہ کی تشکیل کی جائے۔ فطرت اور قانون فطرت سے بغاوت کرنے والے خواتین کو کیسے تحفظ فراہم کرسکتے ہیں؟

عالمی یوم خواتین اور قانون فطرت

حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے مطابق جب تک اصول وضوابط وضع نہیں کئے جائیں گے، ان میں توازن قائم نہیں رہ سکتا ہے۔ عورتوں کے لئے وضع کردہ قوانین کس حدتک فطرت کے مطابق ہیں اور کس درجہ  خلاف فطرت ہے، اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ بنی نوع انسانی کے ہر دو جنس کی تخلیق الگ الگ مقصد کے پیش نظر کی گئی ہے۔ ہر دو جنس کی جسمانی ساخت اور ذہنی قوت میں بھی تفاوت پایا جاتا ہے۔ جب تک دونوں اپنے ذمہ عائد فرائض کو مکمل انصاف کے ساتھ انجام دیتے رہیں گے کسی قسم کی کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوسکتی ہے، لیکن جب ایک کا بوجھ دوسرے کے سپرد کردیا جائے تو یقینا کام میں خلل پیدا ہوگا اور پھر ناقابل بیان مفاسد وجود میں آئیں گے۔اللہ تعالٰی انسان کا خالق و مالک ہے اور وہ اس کی ضرورتوں کو بخوبی جانتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے ہر دو جنس مرد و عورت کی ضرورتوں کو مکمل تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ ہم ان احکامات پر عمل کریں اور ان حقوق کو مکمل طور پر ادا کریں ۔ ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی معاشرہ اور سماج میں محبت اور امن کے لئے ضروری ہے جبکہ حقوق تلفی بے چینی اور عداوت کو جنم دیتی ہے۔  اس دنیا میں حقیقی کامیابی کا صرف یہی ایک راستہ ہے کہ ہم مالک حقیقی کو پہچانیں اور اس کے بیان کردہ احکامات کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنائیں۔   

 

Related Posts

2 thoughts on “عالمی یوم خواتین: حقیقت اور فسانہ

  1. ماشاء اللہ عمدہ تحریر 👌👌اللہ ہم سبھی خواتین کو نیک راہ پر چلائے اور ایسی آزادی کو در کنار کرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے