آج کا پیغام: صدقات و خیرات کا طریقہ
صدقات و خیرات کے متعلق قرآن میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ ثم لا یتبعون ما انفقوا منا ولا اذی لھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔
وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، پھر اس کے بعد نہ احسان جتاتے ہیں نہ ایذاء پہنچاتے ہیں، ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے، نہ ان کو خوف ہوگا اور نہ وہ غم سے دو چار ہوں گے۔
رمضان المبارک کا مہینہ خیر و برکت کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں انفاق فی سبیل اللہ اور اطاعت خداوندی کی جانب میلان دیگر مہینوں کی بہ نسبت آسان اور سہل ہوتا ہے۔ ہر مسلمان اس مہینہ میں نیکی اور بھلائی کا متمنی ہوتا ہے۔ عبادات کا ایک عام ماحول ہوتا ہے۔ ہر کوئی حسب توفیق تلاوت قرآن اور نوافل میں مشغول ہوتا ہے۔ مسلمان اس مہینہ میں کثرت سے راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں تاکہ اللہ کے پاس ان کے نامہ اعمال میں زیادہ نیکی لکھی جائے۔ عام مہینوں میں ایک نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھ جاتاہے تو پھر ماہ رمضان جس میں نوافل فرائض کے برابر اور فرائض ستر گنا بڑھ جاتے ہیں، ایسے بابرکت اور مقدس مہینہ کے برکت کے حصول کی کامیاب کوشش ضروری ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس ماہ مبارک میں نیکیوں کا ذخیرہ جمع کیا جاسکے۔
اللہ کی راہ میں صدقات و خیرات کرنے کیلئے کئی باتوں کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے۔ جن میں تین باتیں بنیادی ہیں:
(1) حلال اور طیب مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے، کیونکہ صدقات و خیرات میں اللہ تعالیٰ صرف مال طیب کو قبول فرماتے ہیں۔
(2) خلوص نیت سے خرچ کیا جائے، نام و نمود اور دنیاوی مفاخر سے اجتناب کیا جائے، خاموشی سے صدقات و خیرات کئے جائے۔ جو لوگ دنیاوی غرض سے خرچ کرتے ہیں وہ خسارے میں ہوتے ہیں۔
(3) مستحق افراد تک مال طیب کو پہنچایا جائے۔ اس سلسلہ میں تحقیق ضروری ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ غیر مستحق کے ہاتھ لگ جائے ایسی صورت میں صدقات و خیرات کرنے والا خسارے میں ہوگا۔
صدقات و خیرات کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ خرچ کرنے کے بعد احسان نہ جتایا جائے، اور جسے صدقہ دیا گیا ہے اسے بات کے ذریعے تکلیف نہ پہنچایا جائے ایسی صورت میں صدقہ کرنے والے کو نہ مستقبل میں کوئی خطرہ ہوگا اور نہ گزشتہ پر رنج و غم ہوگا۔
صدقات و خیرات میں ایک اہم بات یہ بھی ذہن نشین رہے کہ احسان جتلانے اور ایذا رسانی کے بعد صدقہ کالعدم اور باطل ہو جاتا ہے، اس کا کوئی اجر نہیں ملتا ہے۔ لہذا اپنے نیک اعمال کو احسان جتلاکر اور ایذا رسانی سے باطل نہ کرو۔ اس کی بہترین مثال قرآن میں مذکور ہے کہ کسی شخص کے پاس کھجور اور انگور کے باغات ہوں، ان کے نیچے نہریں بہتی ہو تاکہ سیرابی بر وقت ہو سکے، پورا باغ مختلف قسم کے میوے جات سے بھرا ہوا ہو مگر یہ کہ صاحب باغ بوڑھا ہو چکا ہے اور اس کے اہل و عیال میں قدرت نہیں ہے کہ وہ اپنے باغات کی دیکھ بھال کرسکے، ان حالات میں آگ اس کے باغات کو جلاکر خاکستر کردے۔
یہ مثال خلاف شرائط صدقہ کرنے والے کی ہے جو اپنے زعم میں آخرت کے لئے بہت کچھ جمع کررہا ہے لیکن درحقیقت وہ سب ضائع ہو جاتا ہے۔ اسی لئے اصحاب علم سے رجوع اور صورت حال کی تحقیق ضروری ہے تاکہ صدقات و خیرات کا آخرت میں بھرپور بدلہ ملے۔