صاحبِ "سلم العلوم” ملا محب اللہ بہاری: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو
صوبہ بہار ہندوستان کا وہ مردم خیز علاقہ ہے جس نے بڑے بڑے مفسرین ، محدثین، صوفیاء کرام، مشائخ عظام، علماء کرام، حکماء، دانشوران، فلاسفہ، مناطقہ ، ادباء، شعراء اور اہلِ فضل و کمال کو پیدا کیا ہے۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جو گمنامی اور تاریکی کے غارِ عمیق میں مدفون ہوگئے اور بعد کی نسل ان کے کارنامے، مجاہدے، تصنیفات اور دینی خدمات کی آگاہی سے محروم ہوگئی،ایسا بھی ہوا کہ ان اہلِ فضل و کمال کو ایسے اشخاص میسر نہیں ہوسکے جو ان کی علمی وراثت کو سنبھالتے اور انہیں زندہ رکھتے۔ لیکن ان ہستیوں میں بعض وہ بھی گزرے ہیں جو اپنے آفرینش سے اب تک ماہ و نجوم کی مانند علم و کمال کے آسمان پر جگمگا رہے ہیں۔ جن کے علوم و معارف کے دریا آج بھی اسی روانی سے جاری ہے جیسا کہ ان کی زندگی میں تھا۔ ان باصفا اور قافلہ علم و عمل کے شہسواروں میں ایک تاباں اور درخشاں نام قاضی ملا محب اللہ بہاری کا بھی ہے۔ صدیوں بعد آج بھی ان کی تصانیف اہل علم کی تشنگی بجھانے اور انہیں سیراب کرنے میں اپنی مثال آپ ہے ۔
تاریخ پیدائش
صاحب سلم العلوم ملا محب اللہ بہاری کی پیدائش بہار کے مردم خیز علاقہ نالندہ میں ہوئی۔ نالندہ عہد قدیم سے علمی مرکز رہا ہے اور طویل زمانہ تک (پانچویں صدی عیسوی سے تیرھویں صدی عیسوی تک) نالندہ یونیورسٹی پورے عالم میں تشنگانِ علوم و معارف کا سر چشمہ رہی ہے۔ ضلع نالندہ کے مشہور گاؤں (کڑاہ) میں آپ کی ولادت ہوئی ہے۔ آج کل یہ علاقہ حیدر گنج کڑاہ کے نام سے متعارف ہے۔آپ کا تعلق بہار کے مشہور خانوادہ "ملک” سے ہے۔ آپ کے والد محترم کا نام عبد الشکور ہے۔ آپ کے آباء و اجداد نے باہر سے آکر یہاں بودو باش اختیار کی تھی لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کب اور کون ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے تھے۔ تاریخ پیدائش کے متعلق کوئی حتمی رائے مذکور نہیں ہے البتہ بعض قرائن کے پیش نظر مورخین اور بعد کے مصنفین نے 1056 ہجری بمطابق 1646 عیسوی کو قرار دیا ہے۔
آغازِ تعلیم
ابتداء میں آپ نے چند علماء کرام کے درس میں شرکت فرمائی لیکن ابتدائی اور متوسطات کا بیشتر حصہ شیخ قطب الدین بن عبد الحلیم سہالوی کی درس گاہ میں حاصل کیا ہے۔ آپ ابو الواعظ قاضی صدر الدین کی درس گاہ میں حاضری دینا چاہتے تھے لیکن وقت اور حالات نے اس بات کی اجازت نہیں دی، چنانچہ بقیہ علوم کی تکمیل کے لئے شیخ قطب الدین حسینی شمس آبادی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہاں رہ کر آپ نے تمام علومِ متداولہ کو حاصل کیا تھا۔ یہ ہندوستان کا وہ زمانہ تھا جب منطق و فلسفہ کا غلغلہ تھا۔ چہار جانب ان فنون کا شور و غوغا تھا۔ چنانچہ قاضی محب اللہ نے بھی وقت کی نزاکت اور ماحول سے متاثر ہوکر ان فنون میں درک پیدا کیا اور ایسا عبور حاصل کیا جس کی نظیر نظر نہیں ملتی ہے۔
زمانہ تدریس
مروجہ علوم سے فراغت کے بعد آپ اپنے وطن مالوف واپس ہوگئے اور یہیں ایک مدرسہ قائم کرکے تعلیم و تعلم کا سلسلہ شروع کیا۔ آپ کی قابلیت اور انداز درس کی بنا پر قلیل مدت میں آپ تشنگان علوم کے لئے مرجع کی حیثیت اختیار کرگئے۔ لیکن وطن میں آپ کے قیام کی مدت محض تین سالوں تک رہی اس کے بعد آپ دکن کے لئے روانہ ہوگئے۔ قاضی محب اللہ بہاری کا قائم کردہ مدرسہ تقریبا تین پشتوں تک علوم دینیہ کی خدمت میں مصروف رہا تھا لیکن بعد میں نہ معلوم کن وجوہات کی بنا پر یہ تناور درخت خشک ہوگیا۔
قاضی ملا محب اللہ بہاری بحیثیت قاضی
قاضی ملا محب اللہ صاحب اپنے وطن سے دکن ان ایام میں پہنچے تھے جب مغلیہ سلطنت کے فرمانرواں اورنگزیب دکن میں موجود تھے۔ اورنگزیب کا شمار ہندوستان کے علم دوست اور صاحب ِ فضل و کمال شہنشاہوں میں ہوتا ہے۔ علماء کرام کی قدر دانی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا اعلیٰ نمونہ آپ کا وطیرہ تھا۔ ملامحب اللہ کی علمی و فقہی بصارت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہیں لکھنؤ شہر کا قاضی نامزد کردیا۔ عہدہ قضاء کو سنبھالنے اور فرائض کی انجام دہی کے لئے آپ لکھنؤ پہنچے۔ ان دنوں لکھنؤ کے صدر الصدور حافظ امان اللہ تھے۔ چونکہ آپ دونوں ایک ہی استاد شیخ قطب الدین شمس آبادی کے فیض یافتہ تھے، اسلئے دونوں کے درمیان علمی مناقشہ بھی ہوا کرتے تھے۔ کچھ دنوں تک آپ لکھنؤ میں مقیم رہے لیکن یہاں آپ کے حاسدین کی جماعت پیدا ہوگئی ، حالات کے پیش نظر آپ کو معزول کردیا گیا ۔ لکھنؤ سے آپ دوبارہ دکن تشریف لے گئے ۔ بادشاہ وقت اورنگزیب آپ کی صلاحیتوں سے واقف تھا، چنانچہ اس نے بلا تاخیر آپ کو حیدرآباد کے لئے قاضی نامزد کردیا۔ لیکن افسوس کہ یہاں بھی آپ زیادہ دنوں تک اس عہدہ جلیلہ پر فائز نہیں رہ سکے اور کچھ بد اندیشوں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں آپ کو ایک بار پھر معزول کردیا گیا۔
شاہی اتالیق
جہاں چند بدخواہ ہوتے ہیں وہاں خیر خواہ بھی ہوتے ہیں۔ ملا محب اللہ کی قابلیت، صلاحیت اور علمی گیرائی وگہرائی کا ہر کوئی معترف تھا۔ منطق و فلسفہ کے علاوہ ان کی فقیہانہ بصیرت کا ہر کوئی معترف تھا ۔ چنانچہ چند نیک صفت اور شہنشاہ وقت کے مقربین کی آراء سے آپ کو شاہی اتالیق مقرر کیا گیا اور آپ اورنگزیب کے پوتے رفیع القدر بن شاہ عالم کی استادی پر مقرر ہوئے۔اس کے بعد تادم حیات شاہی خاندان سے وابستہ رہے تھے۔ جب شاہ عالم کو کابل کا گورنر بنا کر بھیجا گیا تو وہ اپنے بیٹے کے تعلیمی سلسہ کو جاری رکھنے کے لئے قاضی محب اللہ کو بھی اپنے ساتھ کابل لے گیا۔ شہنشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد جب شاہ عالم کے سر پر ہندوستان کا تاج سجایا گیا اور وہ ملک کے شہنشاہ بنے تو انہوں نے قاضی محب اللہ کو پورے ملک ہندوستان کا قاضی القضاۃ منتخب فرمایا اور نیز نعامات و اکرامات کے ساتھ "فاضل خاں” کے لقب سے ملقب کیا۔
حاسدین کی ریشہ دوانیاں
قاضی محب اللہ کی شہرت ان کی تصانیف "سلم العلوم” اور "مسلم الثبوت” کی وجہ سے کسی اور چیز کی محتاج نہیں رہ گئی تھی ۔ آپ کی حیات میں ہی سلم العلوم کو وہ شہرت مل گئی تھی کہ اس زمانہ کے نصاب اور درس و تدریس میں یہ کتاب شامل ہوگئی تھی۔ علمی شہرت کے علاوہ دنیاوی جاہ و جلال بھی آپ کو میسر تھا۔ آپ قضاء کے اس منصب جلیلہ پر فائز رہے تھے جو دنیاوی اعتبار سے کسی عالم فاضل کے لئے سب سے اہم اور بڑا عہدہ تصور کیا جاتاہے۔ آپ کی اس مقبولیت نے حاسدین کی جماعت کو غیر اخلاقی اقدامات تک اٹھانے پر مجبور کردیا۔ کسی صاحب نے منطق میں ایک رسالہ ترتیب دیا اور اس کی عبارتیں ، مسائل اور حتی کہ خطبہ بھی "سلم العلوم” کے طرز پر پیش کرنے کی کوشش کی، اور اس کتاب کو مشہور مصنف مرزا جان کی جانب منسوب کردیا۔ مقصد یہ تھا کہ قاضی محب اللہ کی کتاب کو سرقہ ثابت کیا جائے۔ لیکن "سلم العلوم” کا طرز، عبارت کی شستگی اور مسائل بیان کرنے کا انداز اس قدر جدا ا ور نرالا تھا کہ وہ جعلی کتاب ان کے اس عظیم کارنامے کو ڈھانپنے سے عاجز و قاصر رہی تھی۔
تصانیف
قاضی محب اللہ کی مشہور تصانیف یہ ہیں: سلم العلوم، مسلم الثبوت، الجوہر الفرد (فی الجزء الذی لا یتجزی)،رسالہ المغالطہ العامہ الورود۔ ان کتابوں کے علاوہ بھی آپ کی تصانیف موجود ہیں۔ قاضی محب اللہ کا تعلق جس دور سے ہے اس دور میں پورے ملک پر معقولات کی چھاپ تھی۔ علمی کمال اور بصیرت کی معراج معقولات کو ہی سمجھاجاتا تھا۔ چنانچہ قاضی محب اللہ نے اس جانب خاص توجہ فرمائی تھی ۔ منطق کا فن گرچہ ہزاروں برس پہلے سے موجود تھا لیکن قاضی محب اللہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے منطق میں فلسفہ بھی شامل کردیا۔ ان کی شہرہ آفاق کتاب "سلم العلوم‘ اور "مسلم الثبوت” اسی کوشش کا نتیجہ ہے۔ علم منطق میں سلم العلوم ایک ایسا شاہکار ہے جس کی حیثیت پوری دنیا میں مسلم ہے۔ سلم العلوم درسیات میں شامل ان چند کتابوں میں سے ایک ہے جس پر ہر زمانے کے علماء اور اہل قلم نے طبع آزمائی کی ہے۔ پندرہ سے زائد شروحات لکھی گئی ہیں، بعض شروحات تو وہ ہیں جو خود بھی شامل نصاب ہے۔ "مسلم الثبوت” یہ کتاب اصولِ فقہ میں ہے۔ برصغیر میں جو کتابیں اس فن میں لکھی گئی ہیں ان میں اس کتاب کا مقام و مرتبہ بہت بلند، اعلی و ارفع ہے، علاوہ ازیں، یہ کتاب بہت سی شروحات کی بنیاد بھی بنی ہے۔ اس کتاب کی بعض شروحات نصاب کا حصہ بھی رہی ہیں۔ آج تک یہ کتاب اہلِ علم کے لئے مرجع کی حیثیت رکھتی ہے اور برصغیر کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی یہ قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔
میر غلام علی آزاد بلگرامی قاضی محب اللہ کی کی علمی شان بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
"بحرے است از علوم و بدر است بین النجوم”
(اگر علوم کے دریا جاری ہوں تو قاضی محب اللہ کی حیثیت علم کے تیز دریا اور ستاروں کے درمیان بدر کامل کی تھی)
وفات : جب اورنگزیب نے شاہ عالم کو کابل کا گورنر بناکر روانہ کیا تو قاضی محب اللہ بھی ان کی معیت میں کابل تشریف لے گئے ۔1118 ہجری میں اورنگزیب کی وفات کا حادثہ پیش آیا اور شاہ عالم ہندوستان کے شہنشاہ نامزر کئے گئے تو بادشاہ وقت نے قاضی محب اللہ کو مملکت ہندوستان کا قاضی القضاۃ منتخب فرمایا لیکن افسوس کہ عمر نے وفا نہ کی اور محض ایک سال بعد منصب حیات سے معزول ہوگئے۔ آپ کی وفات 1119 ہجری مطابق 1707 عیسوی ہے۔ آپ کی آخری آرام گاہ بہار شریف میں موجود ہے۔ منطق و فلسفہ کے باب میں ایک نئی طرح کا موجد ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنی خالق حقیقی کے دربارمیں پہنچ گیاتھا
ماشاءاللہ
جزاک اللہ خیرا
Very good
Thanks
ماشاءاللہ۔ سلم العلوم میں میرا نمبر بہت اچھا آیا تھا۔ ششماہی 49 سالانہ 48
ماشاء اللہ
ماشاءاللہ بہت عمدہ تحریر ہے
ما شاء اللہ تبارک اللہ حیک اللہ فی الدنیا والآخرۃ خصوصاً للجامعۃ الاسلامیۃ دارالعلوم وقف بدیوبند….
بارک اللہ فی علمک و عملک ،
یقینا اس مضمون کو پڑھ کر کے دل خوشی سے جھوم اٹھا….
یقینا انحضور کے مضمون میں علم کی دریا نظر آئی اللہ پاک آپ کو باقی رکھے….
حفظک اللہ
شکریہ محترم