"شیخ ثانی” شیخ عبد الحق اعظمی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

 

"شیخ ثانی”  شیخ عبد الحق اعظمی

 حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں۔۔۔بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

خدمت دین اور علوم دینیہ سے وابستگی دربار خداوندی میں مقبول ہونے کی علامت ہے۔ جس طرح حصولِ علم اور علوم و معارف میں درک، فضلِ خداوندی کے بغیر ممکن نہیں ہے، بعینہ اسی طرح ان علوم نبویہ کو پڑھانے اور "بلغوا عنی ولو آیہ” کی توفیق بھی اس رب ذوالجلال کی جانب سے حسین تحفہ اور عطیہ خداوندی ہے جو اس کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ذہن و ذکاوت، فہم و فراست، عقل و تدبر سے آراستہ و پیراستہ طلباء اور طالبان علوم بسا اوقات عارضی عوارض کی بنا پر اس راہ کو طے کرنے سے عاجز و قاصر رہتے ہیں اور درمیان راہ میں ہی ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور کبھی علوم و فنون کے ماہرین، اپنے میدان کے شہسوار، علم کے سمندر میں غوطہ زنی کرنے والے غواص اور تحریر و تقریر کے فن میں دسترس رکھنے والے نامور دانشوران بھی درس و تدریس اور اشاعت علم کی سعادت سے محروم رہ جاتے ہیں۔  تحقیق و تدقیق اور علمی موتیوں کو لڑی میں پرونے کا ہنر جاننے والوں کی پوری زندگی سوچ بچار اور رکھ رکھاؤ کا شکار ہوجاتی ہے لیکن انہیں اپنے فن کے استعمال کا موقع میسر نہیں ہوتا ہے کیونکہ۔

اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں۔

 اور بعض خدا کے چیدہ اور چنندہ بندے ایسے ہوتے ہیں جن کا انتخاب اشاعت دین و اسلام کے لئے عرش بریں سے ہوتا ہے۔ جن کے علم کے سوتے عالَم میں پھیل جاتے ہیں۔ جو اگر کسی ویرانے اور دیہات کے علاقہ میں ہو تو ان کے لئے ایسی راہیں اور ایسی سبیلیں پیدا کی جاتی ہیں، جن سے ان کے علوم ومعارف اور ان کی آہ سحر گاہی سے دنیا متعارف ہوتی ہے اور ان کے پند و نصائح سے بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم جانے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک بافیض، باکمال، بابرکت، باسعادت، شب بیدار، مستجاب الدعوات شخصیت "شیخ ثانی” شیخ عبد الحق اعظمی "شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند” کی تھی۔ آپ کی زندگی مختلف جہات سے علماء کے لئے قابل رشک اور قابل قدر ہے لیکن ایک وصف جس میں پورے ملک کی تاریخ میں شاید کوئی آپ کا ثانی نہیں ہے، وہ ہے”درس بخاری”۔ آپ نے مسلسل تقریبا 64 سال بخاری شریف کا درس دیا ہے۔  ایں سعادت بزور بازو نیست، تانہ بخشد خدائے بخشندہ۔  اس مضمون میں آپ کی حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو کو اجاگر کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ 

ولادت باسعادت

 شیخ عبدالحق بن محمد عمر بن کریم بخش بن محمد علی، آپ خاندانی طور پر شیخ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کی ہجری تاریخ پیدائش میں قدرے اختلاف ہے، لیکن شمسی تاریخ کے اعتبار سے آپ کی تاریخ پیدائش 17 دسمبر 1928 بروز دو شنبہ بمطابق 1347 ہجری ہے۔ آپ کی پیدائش مردم خیز ضلع "اعظم گڑھ” میں ہوئی، آپ کی جائے پیدائش موضع "جگدیش پور”ہے جو اپنے علم و عمل کےاعتبار سے مشہور و معروف بستی ہے۔ اس سرزمین نے عالم اسلام کو بے شمار ایسی اہم علمی شخصیات سے نوازا ہے جن کے فیوض و برکات سے آج بھی دنیا مستفید ہورہی ہے۔ 

ابتدائی تعلیم

آپ کی عمر محض چھ سال تھی جب آپ والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے تھے۔ بچپن میں یتیمی کا بوجھ آپ کے ناتواں کندھوں پر آچکاتھا، لیکن آپ کی نیک دل اور خدا ترس والدہ نے تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھیں۔آپ کی تعلیم و تربیت کے لئے ہمہ وقت بے چین و بے قرار رہا کرتی تھیں  ۔ آپ نے اپنے گاؤں میں موجود مکتب "امداد العلوم” سے تعلیم کا آغاز کیا۔ آپ کے اولیں استاد جناب حافظ محمد حنیف رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ مکتب میں رہتے ہوئے آپ نے ناظرہ قرآن کریم اور ابتدائی اردو کی تعلیم حاصل کی۔   مکتب کی تعلیم سے فراغت کے بعد تعلیمی سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے آپ 1365/66 کے درمیان ربیع الثانی کے مہینہ میں علاقہ کی مشہور و معروف درسگاہ مدرسہ بیت العلوم سرائے میر اعظم گڑھ تشریف لے گئے۔ اس زمانہ میں بیت العلوم سرائے میر کی درسگاہیں عارف باللہ حضرت مولانا سجاد رحمۃ اللہ ، مولانا عبد القیوم ، مولانا محمد سعید اور مولانا فیض الرحمن ندوی جیسے جبال علم کی شخصیات سے منور تھیں۔ ان مشفق اور ماہر فن اساتذہ کرام کی زیر نگرانی آپ نے متوسطات کی کتابیں پڑھیں۔ تقریبا ساڑھے پانچ سالہ مدت میں آپ ایک ممتاز طالب علم کی حیثیت سے نمایاں اور کامیاب رہے تھے۔ آپ کی محنت، جد و جہد، لگن اور شوق کی وجہ سے اساتذہ کرام کی خصوصی توجہ آپ کو حاصل رہا کرتی تھی۔ 

والد صاحب کی وفات کے بعد آپ حضرت مولانا مسلم صاحب (شیخ الحدیث دارالعلوم مئو) کی سرپرستی میں آچکے تھے۔ آپ کے تعلیمی سلسلہ کو مزید آگے بڑھانے اور اس میں جِلا بخشنے کے لئے مولانا مسلم صاحب نے آپ کو دارالعلوم مئو بلا یا۔ 1371/ 1372 ہجری میں آپ دارالعلوم مئو تشریف لے گئے۔ دارالعلوم مئو کی علمی فضا مولانا مسلم صاحب، حضرت مفتی نظام الدین (سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند) اور حضرت مولانا محمد امین صاحب جیسے اصحاب فضل وکمال سے مشام جاں بنی ہوئی تھی۔ یہاں کے ذرے مانند آفتاب و ماہتاب علمی دنیا میں روشنی بکھیر رہے تھے۔ ایسی پروقار اور بافیض درسگاہ نے آپ کی طبیعت کو گل گلزار کردیا۔ علم کی تشنگی کے لئے وہ سارے وسائل فراہم تھے جن کی کسی محنتی اور شوقین طالب علم کو ہوسکتی ہے۔ مختصر اور قلیل مدت میں آپ نے وہاں کے بکھرے موتی کو اپنے دامن میں سمیٹنے کی ہر ممکن سعی کی اور بتوفیق ایزدی اس میں آپ کامیاب بھی رہے تھے۔ 

دارالعلوم دیوبند میں داخلہ

دارالعلوم دیوبند کا یہ وہ زمانہ تھا، جب دارالعلوم کی دارالحدیث شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے علمی و روحانی فیض سے جگمارہی تھی۔ دور دراز کے طلباء کی حصول علم کے سلسلہ میں یہ سب سے بڑی خواہش ہوا کرتی تھی کہ شیخ الاسلام کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کی سعادت نصیب ہوجائے۔ طالبان علوم کے اس قافلہ میں "شیخ ثانی” شیخ عبد الحق اعظمی بھی 1373 ہجری میں کشاں کشاں سرزمین دیوبند کی علمی فضا میں پہنچ گئے۔ دارالعلوم دیوبند اس زمانے میں علم کے ساتھ ساتھ روحانیت کا بھی مرکز تھا۔ دن کی روشنی میں دارالعلوم کی فضا "قال اللہ و قال الرسول ” کی صدا سے گونجتی تھی اور رات کی تاریکی میں "اہل اللہ” کی یہ جماعت اپنے رب کے حضور سر بسجود ہوکر عالَم کے لئے آہ و زاری کیا کرتی تھی۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی، حضرت مولانا اعزاز علی امروہوی،   علامہ ابراہیم اور مولانا ظہور حسن صاحب جیسے اساتذہ کرام کے وجود مسعود سے دارالعلوم کا ہر گوشہ اور ہر چپہ معطر اور مشکبار تھا۔   

ایسے دور میں آپ دارالعلوم دیوبند میں تشریف لائے تھے۔ آپ کا علمی ذوق جس قدر بلند اور اونچا تھا آپ کا اخلاقی معیار بھی اسی طرح ارفع و اعلی تھا۔ دارالعلوم کی طالب علمانہ زندگی کو آپ نے غنیمت شمار کرتے ہوئے، ایک ایک پل اور ایک ایک لمحہ سے استفادہ کیا تھا۔ وقت ان کی قدر کرتا ہے جو وقت کی قدر سمجھتے ہیں، آپ نے اپنے اوقات کو اس طور پر مرتب کیا اور اسے اس طرح استعمال میں لایا تھا کہ بعد کی پوری زندگی پر، اُن اصول و ضوابط کے گہرے نقوش پائے جاتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے علمی استفادہ کے علاوہ روحانی فیض کا بھی بھر پور موقع نصیب ہوا تھا۔  دارالعلوم کے مکمل زمانہ طالب علمی میں آپ محنت و لگن سے حصول علم میں مشغول رہے تھے اور یہی وجہ تھی کہ آپ ہمیشہ امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوا کرتے تھے۔ مولانا نور عالم خلیل امینی (استاد دارالعلوم دیوبند) نے دورہ حدیث کی جملہ کتابوں کے نمبرات کو اپنے مضمون میں جمع کیا ہے۔ 

عملی زندگی کا آغاز

دارالعلوم سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے اساتذہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دینی فضا میں رہنے کو ترجیح دیا، درس و تدریس  سےاس درجہ عشق تھا کہ آپ نے پوری زندگی اسی نیک کام میں صرف کردی۔ دارالعلوم سے فراغت کے بعد آپ  1375 ہجری کو مدرسہ مطلع العلوم بنارس میں بحیثیت "شیخ الحدیث” مقرر کئے گئے۔ یہ آپ کی عملی زندگی کا آغاز تھا، اور آغاز میں ہی آپ کو علم حدیث کی  سب سے اہم  کتاب  "بخاری شریف” پڑھانے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ دیگر اہم کتابیں آپ کے زیر درس تھیں۔ دو سال تک یہاں آپ درس و تدریس میں مشغول رہے لیکن مزید علم کی چاہت انگڑائیاں لینے لگی تھی، لہٰذا، اس تشنگی کی سیرابی کے لئے آپ دارالعلوم ندوۃ العلماء تشریف لے گئے۔ کچھ دنوں تک وہاں قیام رہا، لیکن ماحول کے ساز گار نہ ہونے کی وجہ سے اور پڑھی ہوئی کتابوں کو دوبارہ پڑھنے میں دلچسپی کے برقرار نہ رہنے کی وجہ سے چھ ماہ بعد سلسلہ تعلیم منقطع کرلیا۔ تعلیمی سلسلہ منقطع کرنے کے بعد ارباب "مطلع العلوم بنارس” کے اصرار پر دوبارہ آپ مدرسہ تشریف لے آئے۔ 

مدرسہ حسینیہ جھارکھنڈ

1382 ہجری سے قبل آپ کی طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ آپریشن کے سخت مرحلہ سے گزرنا پڑا تھا۔ بعض احباب کے مشورہ سے آپ "مطلع العلوم بنارس” سے رخصت لے کر "مدرسہ حسینیہ بہار” (جھارکھنڈ) تشریف لے گئے۔ یہاں بھی آپ شیخ الحدیث کے معزز عہدہ پر متمکن رہے۔ لیکن یہاں قیام کی مدت کافی مختصر رہی تھی اور تقریبا ایک سال سے کم عرصہ کے بعد ہی آپ دوبارہ "مطلع العلوم بنارس” لوٹ آئے۔ چونکہ یہ آب و ہوا کی تبدیلی کے پیش نظر منتقلی ہوئی تھی، اسلئے وقفہ بھی کافی مختصر رہا تھا۔ مطلع العلوم بنارس میں رہتے ہوئے آپ نے طلباء کی صرف تعلیمی قابلیت کو اجاگر کرنے کا کام نہیں کیا تھا بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی خصوصی توجہ رہی تھی۔ مطلع العلوم بنارس میں پڑھنے والے بے شمار طلباء آج ملک کے مختلف مدارس میں دینی خدمات میں مصروف ہیں۔ ان میں ایک اہم نام "ابن حجر ثانی مولانا حبیب الرحمان اعظمی استاد حدیث دارالعلوم دیوبند” ہیں۔ 

دارالعلوم مئو سے وابستگی

1388 ہجری میں ارباب "دارالعلوم مئو” کے اصرار پر آپ دارالعلوم مئو میں بحیثیت "شیخ الحدیث” تشریف لائے۔ایک سال بعد آپ صدر المدرسین کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ بخاری شریف کے علاوہ دیگر کتب ترمذی شریف، اور ہدایہ وغیرہ بھی آپ سے متعلق تھیں۔ دارالعلوم مئو میں رہتے ہوئے آپ نے یہاں کے دارالافتاء کا کام بھی انجام دیا تھا۔ دارالافتاء کا کام نہایت انہماک سے انجام دیا کرتے تھے، سائلین کےسوالات کا مفصل اور مدلل جوابات تحریر فرمایا کرتے تھے۔ تقریبا 13 ہزار فتاوی آپ نے لکھے تھے۔ ایک جانب آپ مسند حدیث پر بیٹھ کر علم حدیث کے لعل و گوہر لٹایا کرتے تھے اور دوسری جانب دارالافتاء میں بیٹھ کر عوامی مسائل کو سلجھایا کرتے تھے۔ 

منصب قضاء

علم حدیث کے علاوہ علم فقہ پر آپ کی گہری نظر تھی۔ فتوی نویسی کے کام نے اس فن میں مزید جِلا بخشا تھا۔ دارالافتاء میں عمومی طور پر سوال و جواب کا مرحلہ طے پاتا ہے۔ یہاں باضابطہ مسائل سلجھائے نہیں جاتے ہیں، کیونکہ اس کام کے لئے دارالقضاء کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس اہمیت کے پیش نظر اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لئے آپ کے شیخ طریقت و استاد مولانا سجاد ؒ( بیت العلوم سرائے میر) نے سالانہ جلسہ میں قاضی مجاہد الاسلام ؒ کو دعوت دی اور ان کے سامنے ان مسائل کو رکھا ۔ قاضی مجاہد الاسلام ؒ نے حالات کا جائزہ لے کر عوامی سطح پر مسائل کا اندازہ کرکے اعظم گڑھ میں دارالقضاء کے قیام کا مشورہ دیا۔ قاضی صاحب کی موجودگی میں ہی دارالقضاء کا مکمل خاکہ تیار کیا گیا اور "شیخ ثانی شیخ عبد الحق اعظمی” کو مشورہ سے ضلع اعظم گڑھ کا پہلا قاضی منتخب کیا گیا۔ آپ کو مسند قضاء پر بٹھانے میں آپ کے استاد مولانا سجاد ؒ سب سے پیش پیش تھے۔ یہ ایک کامل استاد کا اپنے شاگرد کے علم،عمل، زہد، تقوٰی، طہارت، پاکیزگی، فقہی بصیرت اور عوامی حالات سے واقفیت کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ اللہ نے آپ کو عجیب ملکہ عطا فرمایا تھا، آپ ہر طرح کے علمی کام کے لئے ہمہ وقت تیار رہا کرتے تھے۔ آپ اپنے شاگردوں کو ہمیشہ خشیت الہی اور زہد و تقوی کی نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ طلباء کو بغرض تربیت اور دینی رجحانات کی جانب مائل کرنے کے لئے تبلیغی اجتماعات میں بھی لے جایا کرتے تھے۔ 

شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند

1402 ہجری میں دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری نے بحیثیت "شیخ الحدیث” آپ کو مدعو  کیا۔ مجلس شوری کے انتخاب کے بعد آپ ذہنی کشمکش میں مبتلا ہوگئے۔ ایک جانب دارالعلوم اور دوسری جانب اپنا علاقہ اور دارالعلوم مئو سے قدیم وابستگی۔ ارباب دارالعلوم مئو کسی طرح بھی آپ کو چھوڑ نے کے لئے تیار نہیں تھے۔ ہر طرح سے کوشش کی گئی، حتی کہ آپ کی والدہ کا سہارا بھی لیا گیا، لیکن بالآخر 9 ذیقعدہ 1402 کو باضابطہ آپ دارالعلوم دیوبند تشریف لے آئے۔ ابتدا میں ہدایہ ثالث، مشکوۃ شریف، نخبۃ الفکر، تفسیر مظہری کے علاوہ بخاری شریف جلد ثانی زیر درس رہی تھی۔ بخاری شریف جلد ثانی آپ سے متعلق ہونے کی وجہ سے آپ "شیخ ثانی” کے لقب سے مشہور ہوئے اور پھر یہ آپ کے نام کا ایسا جز بن گیا کہ آج بھی لوگ آپ کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ 

1403 ہجری کے بعد سے تا دم حیات آپ دارالعلوم دیوبند کے مسند حدیث پر بیٹھ کر علم کے موتی لٹاتے رہے۔ آپ کا انداز درس نہایت ششتہ اور شائستہ ہوا کرتا تھا۔ از اول تا آخر ایک رفتار سے پڑھانے کا معمول تھا۔ حسب ضرورت حدیث پر کلام فرمایا کرتے تھے، بلا ضرورت بحث کو طول دینے سے اجتناب فرمایا کرتے تھے۔ کتاب المغازی میں بعض جگہ از خود عبارت پڑھتے اور اس قدر جھوم کے پڑھا کرتے تھے کہ طلباء پر ایک قسم کی وجدانی کیفیت طاری ہوجایا کرتی تھی۔ طلباء کے سوالات کے تشفی بخش جوابات دیتے اور بسا اوقات طلباء کی دلجوئی کے لئے انہیں سوال کرنے پر ابھارا بھی کرتے تھے۔ دارالعلوم دیوبند کا بام و در آپ کی بزرگی اور آپ کی عظمت کا گواہ ہے۔ درس کی پابندی فرماتے اور ہمیشہ طلباء کو اس بات کی ترغیب دیتے کہ جو کچھ ہے اس کی قدر کرو، اپنی حیثیت اور اہمیت کو پہچانو اور لہو و لعب سے اجتناب کرو۔ آپ نے جو کچھ پڑھایا اور جب تک پڑھایا، اس کا مکمل حق ادا کیا ہے۔ 

تواضع و انکساری

شیخ ثانی شیخ عبد الحق اعظمی کی ذات کا دوسرا نام تواضع و انکساری ہے۔ آپ حد درجہ متواضع اور سادگی پسند تھے۔ ہر قسم کے ٹھاٹ باٹ سے دور رہتے، طلباء کے تئیں نہایت مشفق تھے۔ آپ بلڈ پریشر کے مریض تھے، بسا اوقات دوران درس عبارت خوانی میں غلطی یا کسی اور وجہ سے طلباء سے غصہ ہوتے تو فورا برف کی مانند سرد بھی ہوجاتے تھے۔ ہمیں ختم بخاری کی وہ رات آج بھی یاد ہے جب حضرت "شیخ ثانی” شیخ عبد الحق اعظمی ؒ نے اپنے آخری درس میں طلباء کو نصیحت فرماتے ہوئے اس بات کا تذکرہ کیا اور برملا طلباء سے کہا کہ، چونکہ میں بلڈ پریشر کا مریض ہوں، اسلئے کبھی کبھار غصہ ہوجاتا ہوں، تم تو میرے اپنے بچے ہو، اسلئے غصہ ہوجاتا ہوں، اگر کسی کو تکلیف ہوئی ہو تو میں معافی کا خواستگار ہوں۔ دارالعلوم کی دارالحدیث میں عجیب سماں بندھ گیا تھا۔ طلباء کی ہچکیاں بند نہیں ہورہی تھی۔ ہمارے محبوب، مشفق، مانند والد، مستجاب الدعوات، دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اپنے بچوں سے، جن کو انہوں نے زیور علم سے آراستہ کیا تھا، جن کی زندگی میں علم و عمل کے چراغ جلائے تھے، جن کی ذات کو سنوارا تھا، جن کو اپنی شبانہ روز کی مستجاب دعاؤں میں یاد رکھا تھا، ایسے ہر دلعزیز اور مشفق استاد اپنے ہی بچوں کی اس بات کی معافی کے خواستگار تھے جو مستقبل میں ان کی زندگی کو بنانے اور سنوارنے میں کام آنے والے تھے۔ 

ہم غریبوں کی یہی ہے کائنات۔۔۔روٹیاں حاضر ہیں شاہوں کے لئے

آپ کے دولت کدہ میں جہاں آپ کی بیٹھک تھی، اس جگہ یہ شعر آویزاں تھا۔ یہ اس شخص کا مسکن تھا، جس کے چاہنے والے ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں تھے۔ جن سے دعائیں لینے کے لئے لوگ میلوں کی مسافت طے کرکے پہنچا کرتے تھے۔ جن کے متوسلین ملک ہی نہیں بلکہ اکناف عالم میں پھیلے ہوئے تھے۔ آنے والے مہمانوں کی خدمت میں بلا تکلف "ماحضر” پیش کردیتے تھے۔ یہ شرف کی بات ہوتی کہ کسی کو آپ کے در پر کچھ وقت گزارنے کی توفیق میسر ہوجائے۔ ہمارے طالب علمی کے زمانے میں جب "اتر پردیش” میں سماجوادی پارٹی کی حکومت تھی۔ حکومت کے بعض وزراء تشریف لائے۔ یہ حضرت کا آخری زمانہ تھا، چلنے پھرنے سے معذور تھے، وہیل چیئر استعمال کیا کرتے تھے۔ جب آپ  درس گاہ تشریف لے جاتے، تو طلباء کا ہجوم آپ کے ساتھ ہوا کرتا تھا، اسی اثناء میں یہ حضرات پہنچ گئے۔ علیک سلیک کے بعد حضرت نے اپنے مخصوص اندازمیں پوچھا: کون ہو، کیوں آئے ہو؟ آنے والے عملے نے اپنا تعارف کرایا، اور فرمایا کہ حضرت دعا لینے آئے ہیں۔ آپ نے برجستہ فرمایا: عوام کےساتھ انصاف کرو اور ان کی دعائیں حاصل کرو، ظلم و زیادتی کو ختم کرو، کمزوروں کو ان کے حقوق دو، اگر یہ سب نہیں ہے تو جتنا فساد برپا ہے، ان سب کے ذمہ دار تم لوگ ہی ہو۔ یہ حضرت کی بے باکی اور جرات تھی کہ وقت کے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بلا خوف و خطر حق بات کہہ جاتے تھے۔ یہ اللہ کے وہ بندے ہیں جن پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ ہوتے ہیں۔

ختم بخاری شریف کا منظر

شیخ ثانی شیخ عبد الحق اعظمی "ختم بخاری” کے لئے باضابطہ اعلان نہیں فرمایا کرتے تھے، اس کے باوجود عوام اور خواص کا مجمع ہوتا تھا۔ خصوصا طلباء مدارس  اہتمام کے ساتھ شرکت فرمایا کرتے تھے۔ دورہ حدیث کے طلباء کے لئے کھجور اور پانی کا انتظام حضرت شیخ کی جانب سے ہوا کرتا تھا۔ مسلسلات شریف مکمل پڑھنے کا اہتمام کیا جاتا تھا، اس لئے اس دن سبق عشاء کے بعد سے عموما تہجد کے وقت تک ہوتا تھا۔ اتنے طویل وقفہ میں بھی طلباء کرام پوری دلجمعی سے درس گاہ میں بیٹھے رہا کرتے تھے۔ آپ کے متعلق یہ بات زبان زد عام تھی کہ آپ مستجاب الدعوات ہیں، اس لئے دعا کا خاص اہتمام ہوتا تھا۔ ختم بخاری شریف کے بعد "دارالحدیث” کی مکمل روشنی گُل کردی جاتی اور پھر آپ دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے تھے۔ دعا کے اس منظر اور طلباء کرام کی سسکیوں اور ہچکیوں کو الفاظ کے پیرائے میں نہیں ڈھالا جاسکتا ہے۔ آہ و فغاں اور درد و کرب کا ایک سماں ہوتا تھا جس میں شرکت کرنے والے ہی اس لذت کو سمجھ سکتے ہیں۔ ختم بخاری کے بعد آپ "مزار قاسمی” تشریف لے جاتے اور عمومی طور تمام اکابرین کے لئے دعا فرماتے، خصوصی طور پر اپنے استاد حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی قبر کے پاس وقت گزارتے تھے۔ 

وعظ و نصیحت

شیخ ثانی شیخ عبد الحق اعظمی  کی شخصیت اور ذات لوگوں کے درمیان مسلم تھی۔ لوگ آپ کو دعا کے لئے اور وعظ و نصیحت کے لئے بلایا کرتے تھے۔ یہ آپ کی سادگی اور آپ کا اخلاص تھا کہ آپ کسی کو منع نہیں فرماتے، بلکہ ہر کسی کی دعوت قبول فرمالیا کرتے تھے۔ سفر و حضر میں کوئی ٹھاٹ باٹ نہیں ہوتا کہ ضیافت کرنے والوں کو دقت ہوتی۔ یہ تو مجذوب اور درویش صفت انسان تھے۔ عالمی اور ملکی سطح کے پروگرام میں شرکت فرماتے اور ہمیشہ تقوی اور پرہیزگاری کی نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ آپ دھواں دھار یا شعلہ بار مقرر نہیں تھے، بلکہ ناصح تھے جو وقت کی نزاکت کے اعتبار سے اور عوامی حالات کے پیش نظر قرآن و حدیث کی روشنی میں لوگوں کو نصیحت کیا کرتے تھے۔ 

بیعت و سلوک

علم اور عمل کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ علم بغیر عمل کے معلوماتی بوجھ کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور عمل بغیر علم کے، کب کہاں لے جائے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکابرین اسلام کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جہاں ایک طرف وہ علوم اسلام کی جانب رغبت دلاتے ہیں وہیں دوسری جانب کسی شیخ کامل کی تربیت میں رہنے کو بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ شیخ ثانی شیخ عبد الحق اعظمیؒ نے زمانہ طالب علمی میں ہی اپنے وقت کے عظیم محدث اور مصلح شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کا دامن تھام لیا تھا۔ ظاہری علوم کے ساتھ باطنی علوم کی پرداخت اور نشو و نما حضرت مدنی کے زیر سایہ ہوئی تھی۔ حضرت مدنی ؒ کی وفات کے بعد آپ شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی کے دامن ارادت سے وابستہ ہوگئے۔ آپ زندگی کے آخری ایام تک بزرگان دین سے وابستہ رہے ہیں۔ اخیر عمر میں جب آپ کی شخصیت عالم اسلام کے لئے مرجع کی حیثیت رکھتی تھی، اس وقت آپ کو حکیم کلیم اللہ (رکن شوری دارالعلوم دیوبند) نے اعزازی خلافت سے نوازا تھا، ان کے علاوہ پیر طلحہ ؒ، حضرت مولانا محمود ؒ نے بھی خلافت سے سرفراز فرمایا تھا۔ یہ آپ کی سادگی اور تواضع تھی کہ آپ دوسروں کو بہت کم بیعت کیا کرتے تھے۔ اگر کوئی اصلاح نفس کی غرض سے حاضر ہوتا تو اسے دوسرے بزرگان دین کی خدمت میں بھیج دیا کرتے تھے۔ 

سفر آخرت

زندگی کا سفر خواہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہوجائے، اسے بہر حال اختتام کو پہنچنا ہے۔ موت برحق ہے۔ لیکن موت کے بعد کی زندگی ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اللہ کے دین پر عمل کرتے ہوئے اور پوری زندگی "قال اللہ وقال الرسول” کی صدائے باز گشت میں گزاری ہو ایک نعمت ہے، ایک لازوال نعمت ہے۔ محبوب حقیقی سے ملاقات کا ذریعہ ہے اور ابدی سکون و اطمینان کا باعث ہے۔ بروز جمعہ بعد نماز عصر طبیعت بگڑ گئی۔ ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا، ابتدائی جانچ پڑتال کے بعد ڈاکٹر نے اطمینان کا اظہار کیا، لیکن وقت موعود آ پہنچا تھا، ایسی صورت میں طبی علاج و معالجہ کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔ اسپتال میں ہی قرآن کی سماعت فرماتے ہوئے نہایت خاموشی کے ساتھ اپنے محبوب حقیقی کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔ 30 ربیع الاول 1438 ہجری بمطابق 30 دسمبر 2016 کی یہ شام تمام امت مسلمہ کے لئے سوگوار ثابت ہوئی ۔ آس پاس موجود افراد بے خبر تھے کہ حضرت اب ہمیشہ کے لئے ہمیں چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کےساتھ ایسا ہی معاملہ فرماتے ہیں۔  آپ کا جسد خاکی دارالعلوم دیوبند لایا گیا اور دوسرے دن بعد نماز ظہر تین بج کر پچاس منٹ پر حضرت الاستاد حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ العالی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ طلباء اور عوام کے اژدہام کے پیش نظر حفاظتی تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے علماء دیوبند کی آخری آرام گاہ "قاسمی قبرستان” جنازہ لایا گیا، جو  شیخ ثانی شیخ عبد الحق اعظمی کی آخری آرام گاہ ثابت ہوئی ۔ 

جان کر من جملہ خاصان میخانہ مجھے۔۔۔مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
 

Related Posts

3 thoughts on “"شیخ ثانی” شیخ عبد الحق اعظمی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے