‎شیخ ‏الہند ‏مولانا ‏محمود ‏حسن ‏دیوبندی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ایک ایسے حسین گلدستہ کا نام ہے، جس میں رنگ برنگے مہکتے پھول ہمہ دم اپنی بھینی بھینی خوشبو سے اذہان و قلوب کو معطر کرتے ہیں۔ علم و عمل کا ایسا دلفریب سنگم جس میں ہر چہار جانب سے مختلف علوم و فنون یکجا ہوکر مدغم ہوجاتے ہیں۔ تحریر و خطابت کا ایسا بے مثال سرچشمہ جس کے سوتوں سے وقت کے خطباء اور محررین نے تشنگی بجھائی ہے۔ درس و تدریس کا ایسا شاہسوار جس کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے بیک وقت محدث، مفسر، مفتی، فلسفی، مولوی، غازی، مجاہد اور صوفی پیدا ہوئے ہیں۔ جنگ آزادی کا ایسا سرفروش جس کے رعب و دبدبے سے فرنگیوں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ فراست ایمانی کا ایسا مظہر جس نے ٹوٹی ہوئی چٹائی پر بیٹھ کر وقت کی سب سے بڑی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے تحریک ریشمی رومال کی بنیاد رکھی۔ ذات میں تو تنہا تھا لیکن اپنے آپ میں ایک ایسا عالم تھا جس سے ہر کوئی مستفید ہورہا تھا۔ اس مضمون میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کی حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو کو اجاگر کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی دارالعلوم دیوبند کے اولین شاگرد اور قافلہ دیوبند کے سالاروں میں سے ہیں۔

ولادت با سعادت

شیخ الہند مولانا محمود حسن  سرزمین دیوبند کے وہ فرزند ہیں جنہوں نے اس دنیا کو دیوبند کی حقیقی معرفت اور علم و فضل کے بہتے ہوئے چشموں سے  روشناس کرایا ہے۔ آپ کی ولادت بریلی شہر میں ہوئی۔ چونکہ آپ کے والد محترم سرکاری ملازم تھے اور انسپکٹر آف اسکولز کے عہدہ پر مامور تھے اور اس زمانہ میں آپ کا قیام بریلی شہر میں تھا۔ آپ کے والد محترم مولانا ذوالفقار علی دیوبند شہر کے معزز افراد میں شمار کئے جاتے تھے، بانی دارالعلوم میں آپ کا نام نامی بھی شمار کرایا جاتا ہے، عربی زبان و ادب کے ماہر اور بے مثال شاعر تھے۔ مولانا ذوالفقار علی استاد الکل مولانا مملوک علی نانوتوی( مولانا مملوک علی نانوتوی کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں)  تربیت یافتہ تھے۔ علمی میدان میں مولانا مملوک علی نانوتوی اکابر دیوبند  حاجی امداداللہ مہاجر مکی ،مولانا قاسم نانوتوی ،مولانا رشید احمد گنگوہی اور حافظ احمد علی محدث سہارنپوری  (ان تمام بزرگوں کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے مذکورہ لنک پر کلک کریں) کے استاذ اور مربی ہیں۔

تعلیم و تربیت کا آغاز

شیخ الہند مولانا محمود حسن  نہایت شریف اور سلیم الطبع تھے، کوچہ گردی اور رذیل کھیلوں سے اجتناب برتتے البتہ شکار کے شوقین تھے اور یہ شوق اخیر عمرتک  برقرار رہا تھا۔ آپ نے قرآن کا اکثر حصہ میاں جی منگلوری سے پڑھا، بقیہ حصہ اور فارسی کی تعلیم میاں جی عبد اللطیف صاحب سے حاصل کی۔ فارسی کی تعلیم کےبعد آپ نے اپنے عم محترم اور علاقہ کے مشہور ترین استاد مولانا مہتاب دیوبندی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور مختصر ترین مدت میں عربی درجات کی بعض کتابوں کی تکمیل فرمائی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دیوبند میں چند بندگانِ خدا نے ایک دینی ادارہ کے قیام کا فیصلہ کیا، حاجی عابد حسین مولانا ذوالفقار احمد ودیگر بزرگان دین نےمولانا قاسم نانوتوی( امام محمد قاسم نانوتوی کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں) کی جد وجہد اور ترغیب کو عملی جامہ پہناتے ہوئے 1866 میں ایک انار کے درخت کے سائے تلے مکتب کا آغاز کیا۔ مکتب کے پہلے استاد ملا محمود منتخب کئے گئے جبکہ شاگردی کا شرف شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کو ملا۔ 

شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی مولانا قاسم نانوتوی کی خدمت میں

شیخ الہند مولانا محمود حسن  نے دارالعلوم میں تعلیم کی تکمیل فرمائی اور صحاح ستہ اپنے استاد محترم مولانا قاسم نانوتوی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرکے مکمل پڑھا۔ اس زمانہ میں امام محمد قاسم نانوتوی میرٹھ میں مقیم تھے اور کبھی کبھار دیوبند اور نانوتہ میں قیام فرماتے، ان ایام میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے آپ کی معیت اختیار کی اور سفر و حضر میں رہ کر آپ سے اکتساب علم کیا ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی کے شاگردوں میں جو مقام و مرتبہ اور شہرت و عظمت شیخ الہند کے حصہ میں آئی وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔

تدریسی خدمات کا آغاز

20 سال کی عمر میں آپ نے علوم متداولہ سے فراغت حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کا آغاز کیا، اسی زمانہ میں بحیثیت معین مدرس دارالعلوم میں آپ کا تقرر ہوگیا۔ دارالعلوم میں رہتے ہوئے آپ نے کیا خدمات انجام دی ہیں اور کیسے کیسے جبال علم کو تیار کیا ہے یہ تاریخ میں سنہرے حروف سے نقش ہے۔ 1875 میں باضابطہ استاد کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہوا اور محض ایک سال بعد 1876 میں ترمذی شریف، مشکوہ شریف نیز ہدایہ وغیرہ کے اسباق آپ سے متعلق ہوگئےاور پھر دو سال بعد فن حدیث کی سب سے اصح کتاب بخاری شریف 1878 میں آپ سے متعلق ہوگئی تھی۔ کم عمری میں جو جواہر پارے ذات باری نے آپ میں ودیعت رکھے تھے اب اس کے فیوض و برکات سے علمی حلقوں کے علاوہ دیگر مسلمان بھی مستفید ہونے لگے تھے۔ 1887 میں آپ دارالعلوم کے مدرس اول منتخب کئے گئے، لیکن ان تمام باتوں سے بے پرواہ آپ اپنی محنت و لگن سے طلبہ کیلئے علم کی تشنگی کے اسباب فراہم کرنے میں مگن تھے۔ توکل علی اللہ اور دنیا بیزاری اس درجہ تھی کہ جب مہنگائی کے پیش نظر اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافے کئے گئے تو شیخ الہند نے اس اضافہ کو لینے سے انکار کردیا۔ آپ تو ابتداء سے ہی بلا تنخواہ خدمت دین کرنا چاہتے تھے لیکن اساتذہ کرام کے اصرار پر مشاہرہ قبول فرمایا تھا، اب جبکہ اس مشاہرہ میں بھی بڑھوتری کی گئی تو آپ راضی نہ ہوئے لیکن قطب عالم مولانا رشید احمد گنگوہی کے اصرار اور ان کے حکم پر اسے قبول فرمایا۔ 

اکابرین دارالعلوم کا سفر حج

1877 میں اکابرین دارالعلوم نے سفر حج کا ارادہ فرمایا، اس مقدس قافلہ میں امام محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا یعقوب نانوتوی، شاہ رفیع الدین وغیرہ شامل تھے، یہ کیسے ممکن تھا کہ اس پر نور قافلہ میں شیخ الہند شامل نہ ہوتے۔ اس سفر کی اطلاع جنگل کے آگ کی مانند پھیل گئی۔ جہاں سے یہ قافلہ گزرتا عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کے پیچھے ہو جاتا۔ بالآخر یہ قافلہ سر زمین مقدس مکہ مکرمہ پہنچا۔ ایام حج کے بعد سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ الہند کو بیعت کرنے کے بعد اجازت و خلافت سے نوازا۔ کچھ دنوں قیام کے بعد یہ قافلہ واپس ہوا۔ 

بیعت و خلافت

سفر حج کے دوران ہی آپ نے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے دامنِ ارادت کو تھام لیا تھا۔ حاجی صاحب نے اس جوہر کو پہچان کر بیعت کے بعد اجازت و خلافت سے سرفراز فرمایا لیکن ہندوستان واپسی کے بعد آپ نے اپنی الگ سے خانقاہ قائم کرنے کے بجائے اپنا اصلاحی تعلق ابتداء میں امام محمد قاسم نانوتوی سے قائم رکھا اور ان کے بعد مولانا رشید احمد گنگوہی سے تعلق استوار کیا۔

شیخ الہند کے علمی کمالات

حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ علیہ کی ذات گرامی کو اگر دیکھا جائے تو آپ ہر میدان میں سالار کی حیثیت سے نظر آتے ہیں۔ سیاست کی گہما گہمی، تصوف کی دلسوزی، دارالعلوم کی مسند نشینی اور علم و عمل سے استواری یہ وہ امور ہیں جو کسی شخصیت کو مصروف رکھنے کیلئے کافی ہے، اس کے باوجود آپ نے تقریباً گیارہ کتابیں تحریر فرمائی ہیں۔ 

آپ کی تحریر کردہ تمام کتابیں اپنے فن میں کمال کا درجہ رکھتی ہے، لیکن ان تمام میں سب سے مقبول اور سب سے اہم آپ کا ترجمہ قرآن مجید ہے۔ آپ نے سلیس اور آسان زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ اس خوش اسلوبی سے پرویا ہے کہ خواص کے علاوہ عوام بھی اس سے براہ راست مستفید ہوتے ہیں۔ آپ کے علمی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ انہیں چند سطروں میں سمیٹا نہیں جاسکتا ہے بلکہ ان کے فیض یافتگان تلامذہ کی طویل فہرست سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 

شیخ الہند کی تحریک اور مالٹا کی اسیری

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سلطنت مغلیہ کے زوال نے ہندوستانی مسلمانوں کو شش وپنج میں مبتلا کردیا تھا۔ مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کا خاتمہ ہوگیا تھا اور اب مسلمانوں کے دین و ایمان پر شب خون مارنے کی تیاری کی جارہی تھی، ایسے وقت میں مولانا قاسم نانوتوی اور دیگر علماء اسلام نے انگریزی حکومت کے خلاف محاذ آرائی کی۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی اسی مولانا قاسم نانوتوی کے شاگرد اور تربیت یافتہ تھے جنہوں نے شاملی کے میدان میں انگریزوں کو شکست سے دو چار کیا تھا۔ شیخ الہند نے تحریک ریشمی رومال کی بنیاد رکھی اور اپنے شاگردوں خصوصاً مولانا عبیداللہ سندھی وغیرہ کے ذریعہ آزادی کی جد وجہد شروع کی، لیکن افسوس کہ آخری لمحات میں یہ راز فاش ہوگیا اور شیخ الہند مولانا محمود حسن گرفتار کر لئے گئے۔ آپ کی گرفتاری کے متعلق مولانا محمد میاں صاحب لکھتے ہیں: "شریف حسین نے انگریزوں سے خفیہ عہد و پیمان کرکے ترکوں سے غداری کی اور حجاز میں جتنے ترک موجود تھے وہ سخت و شدید ظلم و جور کا نشانہ بنے، حضرت شیخ الہند اور ان کے رفیقوں کو اسیر کرکے شریف نے جدہ پہنچا دیا، جہاں سے انگریز پہلے مصر لے گئے اور پھر مالٹا میں نظر بند کردیا۔ تین برس سات مہینے بعد 8 جون 1920 کو انہیں بمبئی پہنچا کر رہا کیا”۔ دوران اسیری انگریزی حکومت نے شیخ الہند مولانا محمود حسن پر جو جبر و تشدد اور ایذا رسانی کا عمل شروع کیا ہے وہ سفاکیت و سنگدلی کی انتہا ہے۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن کو انگریزی افسران برف کی سل پر لٹا کر تکلیفیں دیتے تھے جس کے نتیجہ میں آپ کی کمر کا گوشت ختم ہوگیا تھا، لیکن اس مرد مجاہد اور قلندر نے ہمت نہیں ہاری۔ 

علالت اور سفر آخرت

اگست 1920 کے ایام میں تقریباً پورا دیوبند وبائی مرض کی لپیٹ میں آگیا۔ حضرت شیخ الہند انہیں ایام میں مالٹا سے واپس آئے تھے، نقاہت و کمزوری پہلے سے تھی۔ کچھ دنوں تک آپ اس مرض سے محفوظ رہے لیکن اکتوبر کے مہینہ میں آپ بھی بخار کی زد میں آگئے۔ آپ کے بھائی حکیم مولانا محمد حسن دیوبندی نے دوائیاں تجویز فرمائی لیکن کچھ افاقہ نہیں ہوا۔ چند دنوں بعد ڈاکٹر انصاری صاحب اور حکیم اجمل خان صاحب کے اصرار پر مجبورا دہلی بغرض علاج تشریف لے گئے۔ یہاں انصاری صاحب کے مکان پر قیام رہا، علاج و معالجہ کی تدبیریں مسلسل جاری تھی لیکن خدا کو کچھ اور منظور تھا۔ اب علم و فضل کا یہ چراغ جس نے تقریباً نصف صدی تک دین کی خدمت انجام دی تھی اپنے مالک حقیقی کے رو برو ہونے کو تیار تھا۔ 18 ربیع الاول 1339 بمطابق 30 نومبر 1920 تقریباً شب آٹھ بجے اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو بلکتا چھوڑ کر دار فانی سے دار جاودانی کی طرف کوچ کرگئے۔ 

 

 

Related Posts

5 thoughts on “‎شیخ ‏الہند ‏مولانا ‏محمود ‏حسن ‏دیوبندی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے