علامہ شبیر احمد عثمانی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

علامہ شبیر احمد عثمانی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

برصغیر میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے علمی کارناموں اور خدمات کی طویل داستان ہے، انہوں نے برصغیر میں رائج نصاب تعلیم اور احادیث نبویہ کے باب میں قابل قدر اضافہ فرمایا اور صحاح ستہ کی تعلیم و تدریس کے ذریعہ علم حدیث کے وسیع ترین ذخائر سے برصغیر کے عام مسلمانوں کو متعارف کرایا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے علوم و افکار کومولانا قاسم نانوتوی( مولانا محمد قاسم نانوتوی  کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں) نے دارالعلوم کی شکل میں محفوظ کیا، سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد اسلامی آثار و نقوش تو مٹائے گئے لیکن دارالعلوم نے اسلامی تعلیمات کو آنے والی نسلوں کیلئے بعینہ محفوظ رکھا۔ دارالعلوم دیوبند نے ابتدا سے ہی ایسے جبال علم متبحر علماء کرام کو سینچا اور پروان چڑھایا جنہوں نے ہر ممکنہ طور پر دین اسلام کی خدمت انجام دی ہے، انہی نابغہ روزگار ہستیوں میں علوم نانوتوی کے امین شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی کی ذات گرامی ہے۔علامہ شبیر احمد عثمانی نے علوم و فنون اور میدان خطابت  میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جن کے نقوش آج بھی مردہ دلوں کو تازگی بخشنے کے لئے کافی ہے۔ 

سن ولادت

علامہ شبیر احمد عثمانی کی پیدائش 10 محرم الحرام 1305 ہجری بمطابق 1887 بجنور میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم مولانا فضل الرحمان عثمانی ان دنوں بغرض ملازمت بجنور میں مقیم تھے۔مولانا فضل الرحمان عثمانی کا شمار بانیان دارالعلوم میں ہوتا ہے اور آپ نے دارالعلوم کی ترقی کے لئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ علامہ شبیر احمد عثمانی کا خانوادہ علم و عمل کا مسکن اور گہوارہ تھا، جہاں سے کبار علماء و مشائخ نے چہار دانگ عالم کو تعلیمات نبویہ سے فیضیاب کیا ہے۔ آپ کے بھائیوں میں مفتی اعظم مفتی عزیز الرحمن عثمانی اور مولانا حبیب الرحمن عثمانی ہیں۔ ایک فقہ و فتاوی کے امام ہیں تو دوسرے رجال سازی و شناسی اور انتظام و انصرام کے شہسوار ہیں۔ ایسے گھرانے میں آنکھیں کھولنے والے شبیر احمد عثمانی کیلئے ذات باری نے وہ تمام وسائل قبل از وقت فراہم کردیئے تھے جن کے توسط سے انہیں علم و فضل کا امام بننا مقدر تھا۔ 

آغاز تعلیم

سات سال کی عمر میں علامہ شبیر احمد عثمانی نے باضابطہ تعلیم کا آغاز کیا، قلیل عرصہ میں ابتدائی کتابوں کے علاوہ قرآن شریف کی تکمیل فرمائی۔ ذکاوت و ذہانت ورثہ میں ملا تھا، بچپن سے لہو لعب سے خدا واسطے کا بیر تھا۔ وقت کی پابندی نے چند سالوں میں تعلیم کے اس معیار تک پہنچا دیا جس نے  علامہ شبیر احمد عثمانی کو شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، مفتی اعظم مفتی عزیز الرحمن عثمانی جیسے کبار علماء کا منظور نظر بنا دیا تھا۔ آپ 1902 میں دارالعلوم میں داخل ہوئے اور تقریباً پانچ سال بعد 1907 میں آپ نے دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کیا۔ زمانہ طالب علمی کو آپ نے مکمل طور پر حصول علم اور کتب بینی کے لئے وقف کردیا تھا۔ کھیل کود سیر و تفریح کا آپ کے ذہن و دماغ میں گزر بھی نہیں تھا ۔ 

علامہ شبیر احمد عثمانی کی تدریسی خدمات

فراغت کے بعد علامہ شبیر احمد عثمانی بحیثیت صدر المدرسین مدرسہ فتح پوری دہلی تشریف لے گئے۔ جوانی کا جوش اور صلاح و تقویٰ کے امتزاج نے مولانا کی ذات گرامی کو دہلی والوں کا محبوب بنا دیا، آپ کی محنت شاقہ اور جہد مسلسل کے نتیجہ میں مدرسہ فتح پوری دہلی کا معیار عروج کو پہنچ گیا تھا۔ طالبان علوم نبوت جوق در جوق دہلی پہنچ رہے تھے۔ لیکن مدرسہ میں قیام کی مدت کافی مختصر رہی اور 1910 میں آپ کو بحیثیت مدرس ام المدارس دارالعلوم دیوبند کیلئے منتخب کرلیا گیا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی کا انتخاب دارالعلوم کے لئے نیک فال ثابت ہوا، آپ نے طلباء کیلئے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کردیا۔ ہمہ وقت علمی اشتغال اور طلباء کے علمی استعداد کی فکر دامن گیر رہا کرتی تھی۔ 

دارالعلوم دیوبند کا یہ وہ زمانہ تھا جب عالم اسلام کے مایہ ناز محدث علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ (علامہ انور شاہ کشمیری کی حیات و خدمات کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں)مسند صدارت پر متمکن تھے اور آپ کے علوم و معارف سے عالم اسلام مستفید ہورہا تھا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی کو دارالعلوم میں مسلم شریف پڑھانے کیلئے معمور کیا گیا اور آپ نے اس ذمہ داری کو بحسن وخوبی انجام دیا۔علامہ انور شاہ کشمیری اور علامہ شبیر احمد عثمانی کی موجودگی طالبان علوم نبویہ کے لئے نعمت مترقبہ تھی، جس سے ہر کوئی مستفید ہونے کا خواہشمند اور متمنی رہا کرتا تھا۔ 

1928 میں بعض ناگزیر حالات کی بنا پر علامہ انور شاہ کشمیری، علامہ شبیر احمد عثمانی، مفتی عزیز الرحمن عثمانی جیسے اکابرین نے دارالعلوم سے استعفیٰ دے دیا۔

ڈابھیل کی درسگاہ میں

 دارالعلوم دیوبند سے علیحدگی کے بعد آپ علامہ انور شاہ کشمیری کے ہمراہ ڈابھیل تشریف لے گئے۔ یہاں بھی مسلم شریف آپ سے متعلق رہی اور یہیں رہتے ہوئے آپ نے اپنی مایہ ناز تصنیف فتح الملہم پر کام شروع کیا۔ علم حدیث کے باب میں علامہ شبیر احمد عثمانی کا یہ قابل قدر کارنامہ ہے جس سے آج تک علوم حدیث کے متوالے مستفید ہورہے ہیں۔ 1933 میں علامہ انور شاہ کشمیری کی وفات کے بعد آپ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے صدر المدرسین مقرر کئے گئے اور تقریباً دو سال تک اس باوقار عہدہ کو بارونق بنائے رکھا۔ اسی زمانہ میں جب جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تو علامہ شبیر احمد عثمانی کوFounding Committee کا ممبر نامزد کیا گیا۔ 

علامہ شبیر احمد عثمانی کی سیاسی مشغولیت

 آپ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کے شاگرد رشید تھے۔ چنانچہ سیاسی بصیرت آپ کو آپ کے استاد محترم سے ورثہ میں ملی تھی۔ شروع سے ہی علامہ شبیر احمد عثمانی سیاست سے منسلک رہے ہیں، جمعیت علمائے ہند کے اجلاس اور میٹنگ میں ضرور شرکت کیا کرتے تھے اور مستقل اہم رکن کی حیثیت سے شامل ہوا کرتے تھے۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کی دیگر تحریکات میں شانہ بشانہ ساتھ رہے ہیں۔علامہ شبیر احمد عثمانی کی ذات گرامی درس و تدریس تک محدود نہیں تھی۔ آپ ایک دور رس اور فراست ایمانی کے حامل فرد تھے، آپ نے ملک میں مسلمانوں کے تشخص اور ایمان کی بقا کے لئے سیاسی گلیاروں میں اور جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے، جہاں جب ضرورت پڑی ، آپ نے اپنی قوم کے لئے آواز بلند کی تھی۔علامہ شبیر احمد عثمانی ایک بے باک قائد اور بے لوث خادم تھے۔ 

مسند اہتمام

 1935 کے وسط میں حضرت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر اکابرین دارالعلوم کی درخواست پر بحیثیت صدر مہتمم دارالعلوم دیوبند میں علامہ شبیر احمد عثمانی کی واپسی ہوئی۔ دارالعلوم دیوبند واپسی کے بعد آپ ہمہ وقت دینی مشاغل کے ساتھ اپنے ذوق کے مطابق سیاسی مشغولیت بھی رکھتے تھے۔ 1935 سے 1944 تک آپ اس باوقار عہدہ پر فائز رہے ہیں۔اللہ نے آپ کے وقت میں بہت برکت رکھی تھی، درس و تدریس کے علاوہ سیاسی مشغولیت اپنی جگہ تھی اس کے باوجود آپ نے کئی کتابوں کی تصنیف کی ہے۔ 

تقریر و تحریر

سید محبوب رضوی صاحب، علام شبیر احمد عثمانی کے متعلق تاریخ دارالعلوم میں لکھتے ہیں”آپ زبان و قلم دونوں کے یکساں شہ سوار تھے، اردو کے بلند پایہ ادیب اور بڑی سحر انگیز خطابت کے مالک تھے، فصاحت و بلاغت، عام فہم دلائل، پر اثر تشبیہات و انداز بیان اور نکتہ آفرینی کے لحاظ سے ان کی تحریر و تقریر دونوں منفرد تھیں۔ وہ حالات حاضرہ پر بڑی گہری نفسیاتی نظر رکھتے تھے، اس لئے ان کی تحریر و تقریر عوام و خواص دونوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی۔ عظیم الشان جلسوں میں ان کی فصیح و بلیغ عالمانہ تقریروں کی یاد آج بھی اہل ذوق کے دلوں میں موجود ہے، حضرت شیخ الہند نے اپنی حیات کے آخری دنوں میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تاسیس کے وقت جو خطبہ دیا تھا اس کے لکھنے اور پڑھنے کا شرف مولانا عثمانی کو ہی حاصل تھا۔

تحریک قیام پاکستان

 1944 میں علامہ شبیر احمد عثمانی   جمعیت علمائے ہند سے الگ ہوگئے، کیونکہ آپ قیام پاکستان کے حامی تھے جبکہ جمعیت اس تحریک کے خلاف تھی۔ اسی سال آپ نے جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد رکھی اور اس کے اسٹیج سے اپنے مقاصد کی تکمیل میں مشغول ہوگئے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے آپ کے گہرے مراسم تھے، بلکہ آپ کو ان کا دست راست تصور کیا جاتا تھا۔ 1945 میں آپ نے باضابطہ مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔

موتمر عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت

سعودی عرب میں خلافت کے خاتمہ کے بعد، باقیات و مزارات کا معاملہ نئی حکومت کے سامنے در پیش تھا۔ بیشتر نشانیوں کو زمین بوس کردیا گیا تھا نوبت گنبد خضریٰ تک پہنچ گئی تھی۔ جس کیلئے عالم اسلام کے مؤقر اداروں سے نمائندگان بلائے گئے، تاکہ شریعت کی روشنی میں اس کام کو پرکھا جائے۔ حکومت کی دلیل یہ تھی کہ لوگ یہاں بدعات و خرافات میں ملوث ہورہے ہیں اس لئے ان نشانیوں کو مٹانا ضروری ہے۔ 

اس اجلاس کے آخری دور میں علامہ شبیر احمد عثمانی نے قرآن و حدیث کی روشنی میں مکمل اور مدلل بحث کی ہے۔آپ کی یہ تقریریں باضابطہ محفوظ ہیں، اس اجلاس میں عالم اسلام کے نامور علماء کرام شریک تھے۔ ہر کوئی شش و پنج میں مبتلا تھا۔ مسلسل اس پر بحث ہوتی رہی لیکن کوئی حتمی رائے قائم نہیں ہوسکی تھی۔ علامہ شبیر احمد عثمانی اور علامہ سید سلیمان ندوی کی مدلل تقاریر نے عالم اسلام کے نامور علماء کرام کو اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کردیا تھا۔  

علامہ شبیر احمد عثمانی کی تصانیف

حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ قرآن پر علامہ شبیر احمد عثمانی  کا حاشیہ، باضابطہ تفسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ نے مختصراً مگر نہایت جامع اسلوب میں قرآنی احکامات و ہدایات کو بیان فرمایا ہے۔ 

مسلم شریف سے آپ کا کافی گہرا ربط رہا تھا، چنانچہ آپ عرصہ دراز سے اس کتاب کی مفصل شرح لکھنے کے خواہشمند تھے، آپ کی یہ خواہش بشکل فتح الملہم منظر عام پر آئی۔ علاوہ ازیں، علم الکلام، العقل والنقل، اعجاز القرآن وغیرہ آپ کی معرکۃ الآرا تصانیف ہیں۔

وفات

قیام پاکستان کے بعد ریاست بہاولپور کی وزارت تعلیم نے علامہ شبیر احمد عثمانی  سے جامعہ عباسیہ کے نظم و نسق کو سنبھالنے کی درخواست پیش کی۔ 8 دسمبر 1949 کو آپ بہاولپور تشریف لے گئے، 12 تاریخ تک آپ بالکل صحتیاب تھے 13 دسمبر کی شب اچانک بخار ہوا اور ساتھ ساتھ سینے میں تکلیف کی شدت تیز تر ہوتی چلی گئی۔ جب تک علاج و معالجہ کے اثرات ظاہر ہوتے ایک انقلابی شخصیت روئے زمین سے ہمیشہ ہمیش کیلئے مالک حقیقی کے پاس جا پہنچی تھی۔ علم و فضل کے اس بحر بیکراں کے آخری دیدار کیلئے انسانوں کا سمندر امڈ آیا تھا۔علم و عمل کا یہ چراغ جو دیوبند کی سر زمین سے اٹھا تھا ایک عالم کو منور کرکے ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا تھا۔ علامہ شبیر احمد عثمانی کی وفات ایک عہد کا خاتمہ تھا۔ 

علامہ شبیر احمد عثمانی کراچی شہر میں مدفون ہیں اور آپ کی نماز جنازہ مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ نے پڑھائی تھی۔ 

 

Related Posts

10 thoughts on “علامہ شبیر احمد عثمانی: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے