سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

شیخ المشائخ، شیخ العرب والعجم، منبع الفیوض و الحکم، زبدہ العابدین، مخزن العلوم، مجمع الدقائق و الحقائق، مرشد العلماء، سید العارفین، حجہ اللہ فی زمانہ و آیہ اللہ فی اوانہ، قائم اللیل و صائم النہار، محبوب الاولیاء، رئیس الاصفیاء، سالک عظیم سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا وجود مسعود باشندگان برصغیر ( خصوصاً) عالم اسلام کیلئے ( عموماً) رحمت خداوندی کا بیش بہا تحفہ ہے۔ آپ کے بلند و بالا درجات کا اندازہ آپ کے وسیع ترین حلقہ ادارت سے ظاہر و باہر ہے۔ آپ کے دامنِ ارادت سے وابستہ ہونے والوں میں وقت کے کبار علماء کرام اور جبال علم اشخاص کے نام نمایاں ہیں۔ آپ کے خلیفہ مجاز حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت حاجی صاحب کے مقبول ہونے کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ آپ کے حلقہ ادارت میں محققین و مدبرین علماء اسلام کا گروہ شامل ہے۔ اس مختصر مضمون میں سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ولادت با سعادت

 آپ کی ولادت با سعادت چہار شنبہ، 22 صفر المظفر 1233 ہجری بمطابق 31 دسمبر 1817 عیسوی کو آپ کے ننھیال نانوتہ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد حافظ محمد امین نے آپ کا نام امداد حسین تجویز کیا، جسے بعد میں شاہ اسحاق دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے امداد اللہ سے بدل دیا۔ آپ کا وطن اصلی تھانہ بھون ہے۔ ددھیال کی جانب سے آپ کا سلسلہ نسب امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے جبکہ ننھیال کی جانب سے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ 

تعلیم و تربیت

جب حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی عمر محض تین سال تھی، اس وقت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ اپنے مجاہدانہ کاز کی تبلیغ کیلئے تھانہ بھون تشریف لائے، تین سال کی عمر میں آپ کو حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ کے گود میں دے دیا گیا۔ تین سال کی عمر میں آپ کو بیعت تبرک سے نوازا گیا۔ جن کے اثرات پوری زندگی برقرار رہے اور جن کا ظہور تا عمر وقتاً فوقتاً ہوتا رہا۔ 

عمر کی ساتویں دہلیز پر والدہ محترمہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ آپ والدہ کو جان سے زیادہ عزیز تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ نے وصیت فرمائی کہ میرے اس نونہال کو کسی قسم کی تکلیف نہ دی جائے، کسی چیز کیلئے مجبور نہ کیا جائے اور نہ کسی بات پر ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیا جائے۔ آپ کی والدہ کی وصیت کا اس قدر اہتمام کیا گیا کہ کبھی کسی نے سرزنش تو درکنار سخت لہجے میں بھی گفتگو نہیں کی۔ 

بچپن سے حفظ قرآن کا شوق تھا، از خود آپ نے حفظ کا اہتمام کیا اور قرآن مجید کی تکمیل فرمائی۔ سولہ سال کی عمر میں آپ مولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ دہلی تشریف لے گئے، وہاں شیوخ وقت سے ظاہری علوم کے حصول کاسلسلہ جاری رکھا۔ فارسی و عربی کی بعض کتابیں یہاں آپ نے پڑھیں۔ رسالہ تکمیل الایمان مصنفہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی مولانا رحمت اللہ تھانوی سے پڑھا، حصن و حصین و فقہ اکبر مولانا عبد الرحیم نانوتوی سے پڑھا، مثنوی شریف مولانا عبد الرزاق جھنجھانوی اور مولانا ابوالحسن کاندھلوی سے پڑھی، گلستان سعدی حافظ  احمد علی محدث سہارنپوری سے پڑھا اور مشکوہ شریف کا کچھ حصہ مولانا محمد قلندر محدث جلال آبادی سے پڑھا۔ تقریباً یہی آپ کے ظاہری علوم کا سرمایہ تھا۔ خدا کو جس سے جو کام لینا ہوتا ہے اس کیلئے ویسے ہی اسباب و وسائل مہیا کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ ظاہری علوم کی مکمل تکمیل تو نہیں ہوسکی لیکن اللہ نے آپ کو علم لدنی سے سرفراز فرمایا تھا۔

بیعت و سلوک

 مولانامحمد قاسم نانوتوی جیسے صاحب علم و فضل نے اپنے شیخ حاجی صاحب کے متعلق ارشاد فرمایا کہ لوگ آپ کی ریاضت و عبادت اور کشف و کرامات کی وجہ سے دامنِ ارادت سے وابستہ ہیں لیکن میں آپ کے تبحر علمی کی وجہ سے آپ سے وابستہ ہوں۔ اٹھارہ سال کی عمر میں شاہ نصیر الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے۔ درود و وظائف کا اہتمام پہلے سے تھا۔ شاہ صاحب کی معیت میں چند دن ہی گزرے تھے کہ آپ کو خرقہ خلافت سے سرفراز فرمایا گیا۔ اجازت خلافت کے بعد مثنوی شریف کا مطالعہ روز کا معمول تھا، جس کی وجہ سے شوق و ولولہ زوروں پر تھا، اسی درمیان ایک شب آپ نے خواب دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سجی ہوئی ہے۔ لیکن رعب و جلال کی وجہ سے قدم اٹھائے نہیں اٹھ رہے تھے۔ اسی وقت آپ کے جدِ امجد حافظ بلاقی صاحب تشریف لائے اور آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پیش کردیا۔ اسی مجلس میں میاں جی نور محمد جھنجھانوی بھی موجود تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر ان کے حوالہ کردیا۔ اس وقت تک آپ میاں جی نور محمد جھنجھانوی سے بالکل ناواقف تھے۔ 

یہ بات ذہن میں گھر کر گئی، آپ نے تلاش شروع کی کہ آخر یہ کون ہے جن کی سپردگی میں مجھے پیش کیا گیا ہے۔ جب آپ کا اضطرار بہت زیادہ ہوگیا تو آپ کے استاد مولانا قلندر محدث جلال آبادی نے آپ کو لاہوری جانے کا مشورہ دیا۔ جب آپ لاہوری پہنچے اور میاں جی نور محمد جھنجھانوی کی زیارت ہوئی فوراً دوڑ کر قدموں میں گر گئے۔ آپ کی بیتابی دیکھتے ہوئے میاں جی نور محمد جھنجھانوی نے خواب میں پیش آئے واقعہ کا تذکرہ کیا۔ اس کے بعد تو آپ ایسے گرویدہ ہوئے کہ پھر کبھی کسی اور در کی جانب نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ 1843 عیسوی میں میاں جی نور محمد جھنجھانوی کے انتقال پر آپ کو ایسا صدمہ ہوا کہ آپ کو انسانی آبادی سے وحشت ہونے لگی۔ آپ صحرا نوردی کرتے ہوئے پنجاب کے جنگلات میں چلے گئے۔ آٹھ آٹھ دنوں تک مستقل فاقہ کشی کیا کرتے تھے۔ اضطرار و کشمکش کی یہ حالت مسلسل چھ مہینوں تک رہی۔ ایک شب آپ نے خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ زیارت کیلئے بلا رہے ہیں۔ فوراً رخت سفر باندھا اور زیارت حرمین شریفین کیلئے روانہ ہوگئے۔ 1261 ہجری کو آپ مکہ مکرّمہ پہنچے۔ مناسک حج سے فراغت کے بعد حضرت شاہ اسحاق صاحب مہاجر مکی وغیرہم سے فیض حاصل کیا۔ تقریباً ایک سال تک وہاں کے فیوض وبرکات سے مستفید ہوتے رہیں اور 1262 ہجری میں واپس ہندوستان تشریف لائے۔ 

سلسلہ ارادت و اجازت

 ہندوستان واپسی کے بعد جب لوگوں کا اصرار بہت زیادہ بڑھا تو حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے بیعت کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ عجیب واقعہ پیش آیا۔ آپ نے خواب دیکھا کہ آپ کی بھاوج مہمانوں کیلئے کھانا تیار کررہی ہے۔ اسی وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے فرمایا کہ ہٹو ہم خود کھانا بنائیں گے، امداد اللہ کے مہمان علماء ہے اور علماء کی ضیافت ہم کریں گے۔ اس خواب کے چند دنوں بعد سب سے پہلے آپ کے دامنِ ارادت سے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی وابستہ ہوئے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ حضرت گنگوہی کو حاجی صاحب کے کرامات سے حضرت نانوتوی نے روشناس کرایا لیکن بیعت و خلافت دونوں میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کو تقدم حاصل ہوا۔ 

اس کے بعد علماء کرام کی کثیر تعداد آپ کے ہاتھوں پر بیعت ہوئی، جن میں مولانا یعقوب نانوتوی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور مولانا محمد علی مونگیری  جیسے اشخاص شامل ہیں۔ 

کشف و کرامات اور جنگ آزادی

: 1857 کے غدر میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے تھانہ بھون کے علاقہ میں انگریزوں کے خلاف محاذ قائم کیا۔ شاملی کے میدان میں انگریزوں کو شکست سے دوچار کیا۔ اس شکست کا بدلہ لینے کیلئے انگریزی فوج مکمل تیاری سے تھانہ بھون پر حملہ آور ہوئی، لیکن یہاں بھی فرنگیوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔دوسری جانب کیرانہ کا محاذ مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے سنبھال لیا تھا لیکن علاقائی افراد کی غداری کی وجہ سے یہ محاذ کامیاب نہیں ہوسکا تھا،  لیکن ملکی سطح پر انگریزوں کی مسلسل فتوحات نے حالات کو یکسر تبدیل کردیا اور انگریز دوبارہ مکمل تیاری کے ساتھ تھانہ بھون پر حملہ آور ہوئے اور پورے قصبہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اس وقت تک حاجی صاحب اپنے رفقاء سمیت وہاں سے کوچ کرچکے تھے۔ ڈیڑھ سال کی مدت تک آپ پنجاب وغیرہ میں رہیں اور پھر کراچی کے راستے حجاز مقدس پہنچے۔ 

حجاز میں قیام کے دوران 43 سال کی عمر میں آپ نے سنت کی ادائیگی کے پیش نظر پہلا نکاح فرمایا۔ یہاں آپ عزلت نشینی کو اختیار کئے رہے، حج کے ایام میں جب ہندوستان کے حاجیوں کا قافلہ پہنچتا تو ان کی تعلیم و تربیت کیلئے چند دنوں تک خلوت نشینی کو ترک فرمادیتے۔ 

حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب کشف و کرامات  تھے۔ آپ کا ہر فعل کرامت تھا۔ آپ کے کرامات کیلئے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی کتاب کرامات امدادیہ اور کمالات امدادیہ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ آپ شب بیدار تھے۔ ہندوستان میں رہتے ہوئے آپ کا معمول تھا کہ عشاء کی نماز کے بعد متصلاً بستر استراحت پر دراز ہوجاتے، جب تمام لوگ مسجد سے اپنے گھروں کو چلے جاتے، آپ خاموشی سے اٹھتے اور نوافل، دعا و استغفار میں مشغول ہوجاتے۔ آپ کے خادم حافظ عبد القادر بیان کرتے ہیں کہ کوئی رات ایسی نہیں گزرتی تھی جس میں آپ خدا کے دربار میں آنسو نہیں بہاتے تھے۔ 

آپ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ جو لوگ اصطلاحی عالم نہیں ہوتے ہیں اللہ انہیں لسان عطاء کرتے ہیں۔ جس طرح شمس تبریز کو مولانا رومی بطورِ لسان عطاء کئے گئے تھے، اللہ نے مجھے قاسم نانوتوی بطور لسان عطاء کیا ہے۔ 

سفر آخرت

 آپ فطرتاً نحیف و ناتواں تھے۔ اس پر آپ کا مجاہدہ، ریاضت و عبادت نے اس قدر کمزور کردیا کہ اخیر عمر میں کروٹ بدلنا دشوار ہوگیا تھا۔ اخیر میں آپ کو پیچش کی شکایت ہوئی۔ علاج و معالجہ کے بعد یہ بیماری تو ختم ہوگئی لیکن نقاہت اس درجہ بڑھ گئی کہ آپ حرم تک تشریف لے جانے سے قاصر تھے۔ اس زمانہ میں آپ مدرسہ صولتیہ کی مسجد میں نماز ادا کرنے لگے۔ بالآخر چوراسی سال کی عمر میں بارہ یا تیرہ جمادی الثانی 1317 ہجری بمطابق 1899 بروز چہار شنبہ بوقت صبح محبوب حقیقی کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔ 

آپ نے بقید حیات مثنوی شریف کے حاشیہ پر کام کیا علاوہ ازیں آپ نے تقریباً دس کتابوں کی تصنیف فرمائی ہے۔ تمام کتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہے اور کلیات امدادیہ کے نام سے مشہور ہے۔

تھانہ بھون کے اس عالم ربانی کے فیوض و برکات سے آج تک عالم اسلام مستفید ہورہا ہے۔ قیام دارالعلوم کے سلسلہ میں آپ کے مشورے کا دخل عمل بہت ہے۔ آپ کو دارالعلوم سے والہانہ لگاؤ تھا۔ ہمیشہ اس ادارہ کی ترقی کیلئے متفکر رہا کرتے تھے۔ ایک موقع سے ارشاد فرمایا کہ میاں دارالعلوم کی ترقی کے تئیں تم دوسروں کی محنت و مشقت کو بیان کرتے ہو، یہاں تو رو رو کر آنکھیں سرخ ہے۔

 

 

Related Posts

12 thoughts on “سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے