سخت کافر جرم بھی اب مذہبی ہونے لگے

سخت کافر جرم بھی اب مذہبی ہونے لگے

زندگی میں بسا اوقات ایسے حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے کہ بحالت مجبوری نہ چاہتے ہوئے بھی یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ انسان انسانیت کا دشمن ہے۔ روئے زمین پر پیش آنے والے واقعات اس بات پر عادل و شاہد ہیں کہ جب انسان قوت کے نشہ میں چور ہو کر معصوم اور غریبوں کو اپنی انا اور تسکین کی خاطر تختہ مشق بناتا ہے اور انہیں ظلم و جور اور جبر و تشدد کی بھٹی میں جھونکنے کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتا ہےتو انصاف ختم ہوجاتا ہے اور مظلوموں کی فہرست طویل ہوتی جاتی ہے۔ ماضی میں بھی مال و دولت اور حکومتی رعب و دبدبہ والے موجود تھے جن کے سامنے کوئی عدالت اور کوئی گواہ قابل قبول نہیں تھا اور آج بھی ایسے افراد موجود ہیں جن کے جرائم کی پشت پناہی حکومتی عہدوں پر براجمان افراد کرتے ہیں۔ جن کو قانون کی پاسداری کے لئے منتخب کیا جاتا ہے وہ قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور جنہیں قانون سازی کے لئے چنا جاتا ہے وہ قانون کی کتاب کو اپنے لئے سامان تفریح سمجھتے ہیں۔ جنہیں منصف بناکر غریب اور مظلوموں کی دادرسی کے لئے بٹھایا جاتا ہے وہ اہل حشم و خدم کی ناز برداری اور کاسہ گدائی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔

گجرات فساد، تاریخ ہند کا ایسا سیاہ اور تاریک باب ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے ایسے واقعات کو فراموش کرنا بھی نہیں چاہئے، کیونکہ وقت کا پہیہ اگر مرہم بن کر پرانے زخموں کو مندمل کردے تو بہت سارے مجرمین کی راہیں آسان ہوجاتی ہے اور بے شمار مظلومین کیلئے انصاف کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں 2002 میں پیش آئے اس واقعہ نے بہت سے افراد کو ایک مخصوص طبقہ کے لئے ہیرو اور قابل تقلید بنا دیا اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان افراد نے اپنی تمام تر توانائیوں کو مسلم سماج کو اکھاڑنے، انہیں زد و کوب کرنے، ان کی معیشت کو تباہ و برباد کرنے، اور ان پر غیر انسانی جرائم کرنے کے تمام حربے بروئے کار لائے تھے۔ یہ وہ افراد تھے جو اس نسل کشی میں براہ راست شریک تھے، جن کے نزدیک انسانی جان کی قیمت نہیں بلکہ اپنی عصبیت اور نفرت کی اہمیت تھی۔  جنہوں نے اپنی تسکین کی خاطر انسانی جانوں سے کھلواڑ کیا تھا اور معصوم و مظلوم کو نیزوں کی نوک پر اچھال کر اپنی شیطنیت کا کھلا اظہار کیا تھا۔

نفرت و تعصب کی داستانیں گجرات سانحہ کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ہے، کیونکہ یہ ایک منظم اور منصوبہ بند سازش تھی جس نے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں انسان کی زندگی داؤ پر لگادی تھی۔ بغض و حسد اور ظلم و ستم کے اس کھیل میں یقینا وہ لوگ جیت گئے جن کے پاس اسباب و وسائل تھے، جن کے پاس افرادی قوت تھی اور جن کے ہاتھوں میں حکومت کی باگ ڈور تھی، تباہ و برباد وہ کئے گئے جن کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، گھر بار ان کے لوٹے گئے جن کا کوئی ہمدرد و غمگسار نہیں تھا، جائیدادیں اور املاک ان کی جلائی گئی جن کا کوئی رکھوالا نہیں تھا۔ آزاد ہندوستان اور جمہوریت کے نام پر یہ ایسا داغ ہے جسے صدیوں میں نہیں بھلایا جاسکتا ہے، لیکن افسوس کہ جب انسانی لباس میں درندے دندتاتے پھرے اور انسانیت شیطانیت کا ننگا ناچ کرنے لگے تو تمام جرائم اور تمام گناہ باعث ننگ اور ندامت نہیں بلکہ فخر و مباہات اور امتیازی شان کی علامت تصور کئے جانے لگتے ہیں۔

تاریخ انسانی میں دو گناہ ایسے ہیں جن کو ہمیشہ اور ہر قوم میں ناقابل معافی جرم تصور کیا گیا ہے، دنیا میں کوئی ایسا قانون اور کوئی ایسی حکومت نہیں ہے جن کے نزدیک ان دو گناہوں کے مرتکب افراد کسی طور ہمدردی اور رحم کے لائق سمجھیں جائیں۔ قتل اور صنف نازک کی عصمت دری۔ ماضی میں بھی ایسے مجرموں کو سخت ترین سزائیں دی جاتی تھی اور موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی ان جرائم کے مرتکب افراد کو سخت ترین سزائیں دی جاتی ہیں۔ ہمارے ملک ہندوستان میں 2012 میں دہلی میں پیش آئے اجتماعی عصمت دری کے مجرموں کو پھانسی دی گئی کیونکہ انہوں نے ایک معصوم بچی کو اپنی درندگی کا شکار بنایا تھا۔ ایسا ہی معاملہ بلکہ اس سے ہزار درجہ سنگین جرم گجرات سانحہ کے دوران پیش آیا تھا جب پانچ ماہ کی حاملہ شیطانوں کی شیطنت کا شکار بنی تھی اور اس کی تین سالہ معصوم بیٹی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ علاوہ ازیں ان مجرموں پر مزید درندگی کے کیس درج تھے جن کی پاداش میں انہیں، ذیلی کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سب نے سی بی آئی کی رپورٹ کے مطابق عمرقید کی سزا سنائی تھی، لیکن پندرہ اگست کو جب ملک کے موجودہ وزیر اعظم لال قلعہ کی دیوار سے عورتوں کے سمان اور ترقی کی باتیں کررہے تھے، انہیں حصہ داری دینے کی باتیں ہورہی تھی، ان کےساتھ حسن سلوک اور بہترین برتاؤ کا سبق پڑھانے کی کوشش کی جارہی تھی، اسی وقت گجرات میں انسانوں کے قاتل اور عورتوں کی عصمت سے کھیلنے والوں کا پھول مالا سے استقبال کیا جارہا تھا اور انہیں جیل سے رہائی دی گئی تھی۔ سیاسی پارٹی سے جڑے ایک فرد نے کہا کہ یہ برہمن لوگ ہیں اور یہ سنسکاری ہیں۔ کسی نے درست کہا ہے: ” عدل سے منھ موڑ کر جب منصفی ہونے لگے: سخت کافر جرم بھی اب مذہبی ہونے لگے۔

اس پورے معاملہ کو اس اعتبار سے بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ دہلی میں پیش آئے واقعہ میں متاثرہ اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، اس کی حمایت اور اس کے مجرموں کو سزا دلانے کے لئے پورا ہندوستان کھڑا ہوگیا، جگہ جگہ دھرنے دیئے گئے، حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا جس کے نتیجہ میں تمام مجرمین کو سزائیں دی گئی۔ چار کو پھانسی ہوئی، ایک جیل میں دم توڑ گیا جبکہ ایک مجرم کی عمر کم ہونے کی وجہ سے اسے تین سال بعد رہا کردیا گیا  لیکن اس کے برعکس گجرات سانحہ کے جن مجرموں کو سزا  سنائی گئی تھی وہ اکثریتی طبقہ کے برہمن تھے، اور جن کے ساتھ زیادتی کی گئی وہ اقلیتی طبقہ کے لوگ ہیں۔ انصاف کا پیمانہ ہمارے ملک میں صرف مذہب دیکھ کر نہیں بلکہ ذات پات دیکھ کر بھی کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد جو قتل اور عصمت دری کے ثابت شدہ مجرم ہیں ان کا استقبال کیا جارہا ہے اور انہیں سنسکاری قرار دیا جارہا ہے۔  ہمارے ملک میں ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں قتل اور عصمت دری کے مجرمین کی حمایت میں مخصوص ذہنیت کے لوگ سڑکوں پر اترتے ہیں اور ان کے غیر انسانی عمل کو سراہتے ہوئے انہیں اپنا ہیرو بناکر پیش کرتے ہیں۔ جس معاشرہ اور سماج میں مجرمین کی اس قدر حوصلہ افزائی اور پذیرائی کی جائے گی وہاں عدل و انصاف تو درکنار غریبوں کے لئے نالہ فریاد بھی جرم بن جائے گا اور اب یہ سب کچھ کھلی آنکھوں سے دیکھا جارہا ہے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے