سال "2020 ” کچھ یادیں کچھ باتیں

 

2019 کی آخری شب تھی۔ موسمِ سرما اپنے شباب پر تھا۔ دسمبر کی یخ بستہ ہوائیں بدن پر کپکپاہٹ طاری کئے ہوئے تھی۔ دُھند اور کہرے کی وجہ سے اسفار کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ ہر سمت سرد ہواؤں کا راج تھا۔ چرند پرند اور دیگر مخلوقاتِ خدا اپنے مسکنوں میں محو خواب تھے۔ ایسے ماحول میں کچھ ایسے انسان بھی تھے جو عیش و طرب اور موج و مستی کی محفل سجائے موسم سرما کو منھ چڑا رہے تھے۔ بعض محفلوں میں ساغر چلکھائے جارہے تھے۔ ساغر و مینا کے پیالے پیش کئے جارہے  تھے۔ موسیقی اور رقص و سرود سے بزم گل گلزار بنی ہوئی تھی  اور بعض مجالس میں شراب و کباب اور حسن و شباب کا دور دورہ تھا ۔ غرضیکہ ہر کوئی اپنے اپنے اعتبار سے اس آخری رات کو یادگار بنانے اور آنے والی نئی صبح کا استقبال کرنے کو بے تاب تھا۔ اُسی سرد اور جمادینے والی ٹھنڈ رات میں چند جیالے اور سر پھرے وہ بھی تھے جو موسم کی پرواہ کئے بغیر اپنے جنون سے ماحول کو گرمائے ہوئے تھے۔ جن کے عزم و استقلال اور بلند ہمتی کے سامنے کوہ ہمالہ بھی جھک گیا تھا۔ جن کے اندرونی جذبات اور قلبی کیفیات فلک شگاف نعروں اور ملک کے قومی ترانوں کی آواز میں سنائی دے رہے تھے۔ جو نہرو و آزاد کے ہندوستان کی تعبیر تلاش کررہے تھے۔ جو اشفاق اللہ خان اور رام پرساد بسمل کی تاریخ دہرانے کے لئے سڑکوں پر اترے تھے۔ جو بھگت سنگھ کے عزم اور شیخ الہند کے جذبہ سے سرشار تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اُس ہندوستان کی بقا اور سلامتی کے لئے جد و جہد کر رہے تھے جسے گنگاجمنی تہذیب کا علَم بردار کہا جاتا ہے۔ جسے اخوت و بھائی چارگی کی مثال میں پیش کیا جاتا ہے۔ جیسے جیسے گھڑی کی سوئی بارہ کی جانب بڑھ رہی تھی ، ان کے حوصلے بلند ہوتے جارہے تھے۔ ایک نئے عزم اور نئی امنگ کے ساتھ آنے والے سال کا استقبال کرنے کو تیار تھے۔ سرفروشوں کا یہ وہ  طبقہ تھا جو اپنے ملک کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار تھے اور ہیں۔ جس وقت  لوگ متاع تعیش اور اسباب تعیش میں ڈوبے ہوئے تھے تو یہ لوگ اپنے علمی ادارے کی چوکھٹ اور بام و در سے چمٹ کر ملک میں امن و آشتی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ یہ حقیقتا  آزاد ہندوستان کی تاریخ کا ایک سنہرا اور جرات مندانہ باب ہے۔

ماہِ جنوری: سال 2020 کے ابتدائی ایام ملک کے لئے بہت بہتر ثابت نہیں ہوئے تھے۔ ملک کے مختلف علاقوں اور شہروں میں جگہ جگہ عام شہری سڑکوں پر اترے ہوئے تھے۔ کئی ایک تعلیمی اداروں کے طلباء اور اساتذہ اس تحریک کا حصہ تھے۔ یہ ایک شور تھا جو روز بروز بڑھتا ہی جارہا تھا۔ ایک تحریک تھی جو ہر دن کے ساتھ جوان ہوتی جارہی تھی۔ چند سرفروشوں کا یہ قافلہ اب پورے ملک کی تحریک بن چکا تھا۔ ایک جوش تھا، ایک جنون تھا ، ملک کے سلامتی اور شناخت کے بقا کی ایک لڑائی تھی جو جاری تھی ۔ ابھی سال کے پانچ ہی دن گزرے تھے کہ ایک اور آفت ٹوٹ پڑی۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پچاس سے زائد نقاب پوش افراد لوہے کی سلاخیں، لاٹھی، ڈنڈا ، ایسڈ اور دیگر مہلک ہتھیار لے کر داخل ہوتے ہیں اور ایک مخصوص ذہنیت سے وابستہ طلباء اور اساتذہ پر حملہ بول دیتے ہیں۔ قلم ، دوات اور کتابوں سے بات کرنے والوں پر لاٹھی ڈنڈے برسائے جارہے تھے۔ انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر مارا جارہا تھا۔ ان کی آہ و بکا اور چیخ و پکار سننے والا کوئی نہیں تھا۔ ہائے رے قسمت، طلبا ء جو ملک کے بہتر اور تابناک مستقبل کی ضمانت ہوا کرتے ہیں، انہیں سر عام زد وکوب کیا جارہا تھا۔ یہ وہ طلباء اور اساتذہ تھے جو دیگر چیزوں کے علاوہ (Anti-CAA)  تحریک کا بھی حصہ تھے۔ ملک کی معزز اور نامور یونیورسٹی پر حملہ کیا گیا لیکن افسوس کہ حملہ آوروں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوسکی تھی۔  ماہِ جنوری اسی امید و بیم میں گزر گیا کہ آج نہیں تو کل ان اوباشوں کو گرفتار کیا جائے گا۔ انہیں ملک کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ان کی شناخت کی جائے گی اور حملہ کے پسِ پشت افراد اور ان کی ناپاک عزائم کا پردہ فاش کیا جائے گا ۔ لیکن کیا ہوا ؟

ماہِ فروری: جیسے جیسے موسم سرما کی شدت میں کمی آرہی تھی حوصلے مزید بلند ہوتے جارہے تھے۔ ایک طرف امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے استقبال کی تیاری تھی اور دوسری جانب مہینوں سے چلی آرہی تحریک تھی۔ایک جانب حقائق بیان کرنے والے تھے اور دوسری جانب جھوٹ، جعل، دجل اور مکر و فریب کو خوشنما کاغذ میں لپیٹ کر پیش کرنے والے بھی تھے۔ ایک جانب ملک کی بات کرنے والے تھے اور دوسری جانب مذہب کے نام پر تقسیم کرنے والے تھے۔ ایک جانب پھولوں کا گلدستہ پیش کرنے والے تھے اور دوسری جانب گولیوں کی بات کرنے والے تھے۔ ایک جانب آئین و دستور کا حوالہ دینے والے تھے اور دوسری جانب من مرضی کرنے والے تھے۔ نفرت اور محبت کی اس کشمکش میں 23 فروری کا وہ سیاہ دن بھی آگیا جب ہنستے، کھیلتے، مسکراتے بچوں کی زندگی اجاڑ دی گئی۔ معصوموں کے لہو سے دہلی کی سڑکوں کو سرخ کردیا گیا ۔ مساجد و مدارس کو نذرآتش کردیا گیا ۔ انسانی شکل میں بھیڑئیے آزاد گھوم رہے تھے ، نفرت بھرے نعرے لگائے جارہے تھے، مخصوص دکانوں کو نشانہ بنایا جارہا تھا۔ گھروں کو آگ کے حوالے کیا جارہا تھا۔  یہ سب کچھ ملک کی راجدھانی دہلی میں ہورہا تھا۔ بچوں کی کلکاریاں چیخ و پکار میں تبدیل ہوگئی تھی۔ لیکن ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ بے گناہوں کی لاشیں نالیوں میں پڑی ہوئی تھیں لیکن ان کو اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ اور یہ سب کچھ ان کے سامنے انجام دیا گیا جنہیں رکھوالا کہا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ مل کر کیا گیا جو لوگوں کی حفاظت کے لئے مامور کئے گئے تھے۔ دہلی کی تباہی پر شاعر کا یہ شعر بہت مناسب ہے

بڑا گہرا تعلق ہے سیاست کا تباہی سے ۔ کوئی بھی شہر جلتا ہے تو دلی مسکراتی ہے

لیکن اس دفعہ دہلی میں رہنے والوں نے آنکھوں کی تسکین کی خاطر دہلی ہی جلادی تھی۔

ماہِ مارچ: زندگی مکمل طور پر کشمکش کا شکار ہوگئی تھی۔ ہر آئے دن شک و تذبذب کی چھائیاں گہری ہوتی جارہی تھی۔  دہلی کے زخم مندمل بھی نہیں ہوئے تھے کہ کرونا وائرس کی دہشت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ یوں تو اس کا آغاز 2019 کے اواخر سے ہی ہوگیا تھا لیکن ہمارے ملک میں مارچ میں اس کی آمد کا مکمل احساس ہوا۔ لوگوں میں خوف و ہراس کا عالَم تھا۔ باہر سے آنے والے ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا تھا۔ ایسے میں اچانک ایک دن جنتا کرفیو کا مشورہ دیا گیا۔ ایک دن اپنے گھروں میں رہ کر اس بیماری سے نجات کی سبیل پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ عوام الناس نے بخوشی اس پیغام کو قبول کیا اور اپنے اسفار اور دیگر ضروری کام کاج کو دوسرے دن کے لئے ملتوی کردیا ۔ 21 مارچ کی شام کو اچانک  ریلوے خدمات کو بند کردیا گیا۔ جو جہاں تھے وہ اس امید میں رک گئے کہ ایک دن بعد سفر کرلیا جائے گا۔ لیکن 22 کی شام کو اچانک پورا ملک بند کردیا گیا۔ تمام طرح کی خدمات معطل کردی گئیں۔ ضروریاتِ زندگی کے حصول کی سبھی راہیں مسدودہوگئی۔ ملازم پیشہ افراد، راستوں اور گلی کوچوں میں گھوم گھوم کر سامان بیچنے والے، روزانہ پر مزدوری کرنے والے ، ہر دن کنواں کھود کر اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ پالنے والے دانے دانے کو محتاج ہوگئے ۔ ان کا معاش اور ان کی روزی روٹی سب کچھ ختم ہوگیا تھا۔ لیکن غریب کی صدا کون سنتاہے۔

ماہِ اپریل: اس مہینہ کی ابتدا اور مارچ کی انتہا ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بہت زیادہ صبر آزما ثابت ہوا تھا۔ حکومت کی غلط پالیسی اور ناکامی کو چھپانے کے لئے ہمارے قومی پیغام رساں ایجنسیوں نے کرونا وائرس کا مذہب تلاش کرلیا تھا۔ ہمارا ملک دنیا کا پہلا اور انوکھا ملک ثابت ہوا تھا جہاں بیماری اور وبا کو بھی مذہبی رنگ دے دیا گیا تھا۔ ایک مخصوص طبقہ کو اس شد و مد کے ساتھ تختہ مشق بنایا گیا تھا کہ ماضی کی تمام مثالیں اور تمام واقعات پھیکے پڑگئے تھے۔ اس تیزی اور چابکدستی کے جھوٹ پھیلایا گیا اور اس کو سچ ثابت کرنے کے لئے اتنے جھوٹ بولے گئے کہ ان انسانوں کی انسانیت دیکھ کر حیوانیت اور شیطانیت بھی شرمندہ ہوگئی تھی۔  جگہ جگہ مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کے بینر آویزاں کردیئے گئے تھے۔ اپنے ہی ملک اور اپنے ہی وطن میں مسلمان اجنبی اور اچھوت بنا دیئے گئے تھے۔

ماہِ رمضان المبارک جس کا ہر کسی کو بے صبری سے انتظار رہتا ہے۔ ذکر و اذکار کی مجالس، تلاوتِ قرآن کی محافل، سنن و نوافل کی پابندی، صوم و صلوۃ سے دلچسپی، راہِ خدا میں خرچ کرنے کی خوشی ، غرضیکہ تمام خواہشات ، تمنائیں، آرزوئیں اور قلبی جذبات دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔ مساجد ویران ہوگئی تھی۔ عوام الناس تراویح پڑھنے کے لئے بے چین و بے قرار تھے لیکن انہیں کوئی تراویح پڑھانے والا نہیں تھا۔ لوگ جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لئے بے قرار تھے لیکن جمعہ ادا کرنے کی کوئی سبیل پیدا نہیں ہورہی تھی۔ یہ کیسی آفت اور مصیبت تھی جس میں خدا کے گھر بھی سنسان ہوگئے تھے۔ مساجد کے مینارے صدا لگا رہے تھے لیکن ان کی صدا پر لبیک کہنے پر بندش عائد کردی گئی تھی۔ رمضان المبارک تو اس سال بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ رحمت، بخشش اور مغفرت کے تحائف لے کر آیا تھا لیکن اس کے استقبال کرنے والے اپنے گھروں میں مقید تھے۔

ماہِ مئی: مارچ کے مہینہ سے ہی غریبوں نے حالات کے تھپیڑوں سے مجبور ہوکر پیادہ پا سفر کرنا شروع کردیا تھا، لیکن ماہِ مئی میں باقی ماندہ افراد کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ نے ایسا بھیانک اور دردناک منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ لوگ اپنے مسکن اور ٹھکانوں کی جانب رواں دواں تھے۔ نہ کوئی راہبر تھا نہ کوئی توشہ۔ آگ برساتے سورج اور تپتی ہوئی زمین سے بے پرواہ موت و حیات کی کشمکش سے دوچار یہ غریب اپنے گھروں کو پہنچنا چاہ رہے تھے۔ سواریاں بند تھیں۔ لیکن ہائے رے قسمت، ان غریبوں کو کچل کر اپنا راستہ بنانے والی ریل موجود تھی۔ کتنا درد ناک منظر تھا جب روٹی کی تلاش میں پھرنے والے چند روٹیاں چھوڑ کر دنیا سے چلے گئے تھے۔ ان کی ہلاکت اور موت پر نہ کوئی تسلی دینے والا تھا نہ کوئی ان کے اہل خانہ کے آنسو پوچھنے والا تھا۔

کرونا وائرس سے بے پرواہ یہ غریب و لاچار جب راستوں اور سڑکوں پر دم توڑنے لگے۔ ہزار دو ہزار کلو میٹر کا سفر طے کرکے اپنے گھروں کو پہنچنے لگے۔بھوک پیاس کی شدت سے مضبوط قدم بھی ڈگمگانے لگے تو ان غریبوں کے لئے مخصوص ریلوے سروس بحال کی گئی۔ لیکن ان غریبوں کی دادرسی اور ان کے زخموں کی مرہم پٹی ہمارے ملک کی سیاست کا حصہ ہی نہیں ہے۔ مظفر پور کا دردناک حادثہ انسانیت کو جھنجھوڑنے اور اسے بیدار کرنے کے لئے کافی ہوتا لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔

ویسے تو سال 2020 کی ابتدا ہی ہنگامہ خیز تھی۔ دیگر آفات و مصا ئب کے علاوہ اکابرین امت کی رحلت مسلمانان ہند کو یتیمی کا احساس دلارہی تھی۔ ہر آئے دن ایک سایہ ہم سے جدا ہورہا تھا لیکن غموں کا پہاڑ اس وقت ٹوٹ پڑا جب 19 مئی کی صبح محدث وقت، مفسر قرآن، فقیہ النفس، استاد الاساتذہ حضرت مفتی سعید احمد پالن پوری شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند ہمیں چھوڑ کر مالک حقیقی کی بارگاہ میں پہنچ گئے۔ اتنے غم اور حادثات کیا کم تھے جو اس حادثہ فاجعہ سے ہمیں دوچار ہونا پڑا تھا۔ شہر ممبئی میں لاکھوں چاہنے والے موجود تھے بلکہ آپ کی شخصیت تو مسلمانان عالَم کے لئے مسلم تھی۔ دنیا کا کوئی ایسا چپہ اور علاقہ نہیں تھا جہاں آپ کے فیض یافتگان شمعِ ایمانی جلائے نہیں بیٹھے تھے۔ قسمت کی خوبی دیکھئے کہ دیوبند جہاں آپ نے عمر عزیز کا بیشتر حصہ گزاردیا تھا، اس شہر کے مکینوں کو دیدار تک نصیب نہیں ہوسکا تھا۔ شہر ممبئی جو آپ کی آخری آرام گاہ ثابت ہوئی وہاں بھی لوگ آپ کے دیدار کو ترستے رہ گئے لیکن مشیت ِ ایزدی نے انہیں بھی یہ موقع فراہم نہیں کیا تھا۔ گنتی کے چند افراد کی موجودگی میں آپ کو آخری آرام گاہ کے سپرد کردیا گیا۔ اللہ تعالٰی،حضرت کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔

ماہِ جون: ایک طرف تو 2019 کے اخیر سے جاری قانونی اور دستوری تحریک تھی جس نے پورے ملک میں ایک نئی روح پیدا کردی تھی لیکن ملک میں امن و سکون ناپید ہوتا جارہا تھا، جس کی شہادت جنوری اور  فروری میں ہوئے حادثات بھی دیتے ہیں۔ کرونا وائرس کی وجہ سے معاشی حالات اس قدر بگڑ گئے کہ غریبوں کے لئے روزی روٹی کی فراہمی بھی مشکل ہوگئی تھی۔ ان حالات میں، ہمارے ملک کی سرحد پر تناؤ بھی پھیلا ہوا تھا۔ ہر آئے دن کوئی نئی خبر سامنے آرہی تھی لیکن جون کے وسط میں جو کچھ پیش آیا وہ ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے ہم تمام کےلئے  غمناک خبر تھی۔ ہمارے بیس فوجی جوان سرحد کی حفاظت میں شہید ہوگئے تھے۔ ان کی قربانیاں ہمیں یہ سبق  دیتی ہے کہ اپنے ملک اور ملک کی سلامتی کے لئے جان کا نذرانہ پیش کرنا بہادروں کا کام ہے۔

ماہِ جولائی: برہم پترا کی روانی اور تیزی نے اس خطہ کے لوگوں کو دوہرے غم سے دوچار کردیا تھا۔ اب تک تو وہ صرف کھانے کے محتاج تھے لیکن اب  ان کے آشیانے بھی پانی کے تیز بہاؤ بھی بہہ گئے تھے۔ یہی صورتحال صوبہ بہار اور اس سے متصل علاقوں کی تھیں۔ ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوگئے تھے۔ کچے پکے مکانات پانی کے تیز بہاؤ میں بہہ گئے تھے۔ کئی علاقوں میں مکانات مکین سمیت زیر آب ہوگئے تھے۔ جو کچھ پاس تھا وہ سب بھی چھین لیا گیا تھا۔ آسمان پانی برسا رہا تھا، زمین سے چشمے پھوٹ پڑے تھے اور درمیان میں رہنے والے انسان ٹھکانوں کی تلاش میں در بدر بھٹک رہے تھے۔

ماہِ اگست: پے در پے پیش آنے والے حادثات نے غریبوں کی رہی سہی کسر بھی ختم کردی گئی تھی۔ کوئی ان کی بات سننے والا نہیں تھا۔ کوئی ان کی بات اقتدارِ اعلی پر مسلط افراد تک پہنچانے والانہیں تھا۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لوگ غریبوں کو سننا ہی نہیں چاہتے تھے کیونکہ اس پیشہ سے وابستہ افراد کسی اور دنیا میں مگن تھے۔ غریبوں کے جان کی قیمت ان کے نزدیک کیا معنی رکھتی ہے۔ وہ تو بالی ووڈ کی چکا چوند دنیا میں کھوئے ہوئے تھے۔ ہزاروں، لاکھوں لوگوں کے آشیانے برباد ہوگئے لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ سکی تھی لیکن ایک شخص کو بدنام کرنے اور ملک کے حقیقی مسائل کو چھپانے کے لئے جو کھیل کھیلا تھا وہ کم از کم انسانیت کے دائرہ میں تو نہیں آتا ہے۔ البتہ انسانی لباس میں درندگی کا مظاہرہ کرنے والے افراد کی کارکردگی ضرور سمجھ میں آتی ہے جو چند سکوں کے عوض اپنا سب کچھ بیچنے کو تیار رہتے ہیں۔

ماہِ ستمبر: یہ عجیب سال واقع ہوا تھا۔  پورا ملک بے چینی اور اضطراب کی کیفیت میں مبتلا تھا۔ ہر کوئی اپنے اپنے اعتبار سے اپنے مالک کی رضاحاصل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ کرونا وائرس کا زور دن بدن بڑھتا جارہا تھا۔ شرحِ اموات میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا تھا۔ خوف کا سایہ دراز ہوتا جارہا تھا، ایسے عالَم میں بھی چند بھیڑئیے تھے جو نوع  انسانی  پر بدنما داغ تھے۔ جو نسلِ انسانی کے لئے باعثِ عار تھے۔ جو بظاہر انسان لیکن در حقیقت شیطان تھے۔ جنہوں نے اپنی شیطنت کا  اظہار ایک معصوم بچی پر کیا تھا۔ ایک معصوم بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر، اس کا گلا گھونٹ کر اپنے کرتوتوں کو چھپانے کی کوشش کی تھی، لیکن ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔ کتنا المناک اور تکلیف دہ مرحلہ تھا جب گھر کی بیٹی موت و حیات کی جنگ لڑتے ہوئے اس دنیا سے چلی گئی تھی لیکن اہلِ خانہ اس کے دیدار کو ترس کر رہ گئے تھے۔ اس کے آخری رسومات سے محروم کردیئے گئے تھے۔  وہ سب کچھ ہوا تھا جو ایک باضمیر اور انسانیت نواز دل رکھنے والوں کے لئے ناقابل قبول تھا ۔  

ماہِ اکتوبر:کرونا وائرس کی اس مہا ماری میں ہر ممکن طریقے سے سماجی دوری بنانے کی کوشش کی جارہی تھی۔ سرکاری سطح سے لے کر عوامی سطح تک اس کیلئے ہدایات جاری کی گئی تھی۔                                 جب تک دوائی نہیں ، تب ڈھلائی نہیں، کے خوشنما نعرے ایجاد کئے گئے تھے لیکن یہ سب کچھ اس وقت دھرا کا دھرا رہ گیا جب بہار میں الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہوا۔ الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی کرونا وائرس بہار سے کہیں اور ہجرت کرگیا۔ جب بڑی بیماریاں میدان میں اتر گئی تھی تو کرونا وائرس کو مجبورا جانا پڑا تھا۔ لاکھوں کی ریلیاں تھی، انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا ، ہر دن نئی تیاری کے ساتھ میدان سجائے جارہے تھے۔ بہار کی فضا ہیلی کاپٹر کی گھن گرج سے تھرا اٹھی تھی۔ اب بہار میں کوئی روک ٹوک ، کوئی سماجی دوری نہیں تھی کیونکہ یہاں تو اب الیکشن ہونا تھا اور الیکشن سے پہلے اس بیماری کا خوف نکالنا ضروری تھا۔ عوام کی زندگی کو داؤ پر لگائے بغیر ریلیاں نہیں نکل سکتی تھی اس لئے وہ بھی کرلیا گیا تھا۔  مہاجر مزدوروں کو ان کے گھروں تک پہنچانے کے لئے سواریاں دستیاب نہیں تھی لیکن الیکشن کے دوران ریلیوں میں شرکت کرنے کے لئے درجن کے اعتبار سے ہیلی کاپٹر موجود تھے۔

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا

ماہِ نومبر: ملک کے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہرے ہورہے تھے۔ کسان اپنے حقوق کے لئے اپنے اپنے صوبوں میں دھرنے پر بیٹھے ہوئے تھے لیکن کوئی ان کی سننے والا نہیں تھا۔ اور نہ ہی ان کے احتجاج کو میڈیا عوام کے سامنے پیش کرنے میں دلچسپی لے رہی تھی۔ مجبورا ماہ نومبر میں کسانوں نے "دلی چلو” کا نعرہ دیا اور ملک کے مختلف صوبوں سے کسان کوچ کر کے دہلی پہنچنے کی کوشش کرنے لگے تھے۔ جے جوان جے کسان ، یہ ہمارے ملک کا خوشنما نعرہ ہے لیکن اس مرتبہ اربابِ اقتدار نے جوانوں کو کسانوں کے سامنے کھڑا کردیا۔ کسانوں کا راستہ روکنے کے لئے موسم سرما کی پرواہ کئے بغیر،  ان پر پانی برسائے گئے۔آنسو گیس کے گولے داغے گئے۔ لاٹھیوں سے کسانوں کو مارا گیا۔ جن کسانوں کی محنت سے اگائے ہوئے دال چاول اور سبزی پر ملک کا گزارہ ہے انہیں کسانوں کو ملک کے سامنے ذلیل و رسوا کیا گیا۔ منصوبہ بند سازش کے تحت ان کی تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اب تک کئی کسان زندگی کی بازی ہار چکے ہیں لیکن وہ اپنے مطالبوں پر قائم ہیں۔ موسم کی سختی ان کے ارادوں کو مضمحل کرنے سے عاجز و قاصر ہے۔

اسی مہینہ کے آخر میں ہندوستانی سیاست کی مشہور و معروف شخصیت ، انسانیت نواز، خوش اخلاق، ملنسار، رحم دل اور سراپا تواضع جناب احمد پٹیل صاحب بھی داغ مقارقت دے گئے ۔ آپ ہندوستانی سیاست میں ان چند افراد میں سے ایک تھے جو عوام الناس کے لئے ہر ممکنہ طور پر مدد کے لئے  تیار رہتے تھے۔

ماہِ دسمبر: پھر سے دسمبر آگیا ۔ کچھ نہیں بدلا ہے۔ سب کچھ پہلے جیسا ہی ہے۔ پہلے بھی بے چینی اور بے اطمینانی تھی اور آج بھی بے قراری ہے۔ گزشتہ بھی جاتے جاتے یہ غم دے گیا تھا اور یہ سال بھی جاتے جاتے  مدھیہ پردیش کے مندسور میں فساد کا تحفہ دے گیا ہے۔ کل بھی رکھوالوں کی موجودگی میں دنگا ہوا تھا اور آج بھی پولس کی موجودگی میں مساجد پر حملے ہوئے ہیں۔ کل بھی نفرت کے پجاری آزاد گھوم رہے تھے اور آج بھی وہ آزاد گھوم رہے ہیں۔ کل بھی مجرم کی پشت پناہی کرنے والے سفید پوش تھے اور آج بھی ان کی پشت پناہی کرنے والے سفید پوش ہیں۔ سال بدل گیا لیکن حالات نہیں بدلے ہیں۔ وقت بدل گیا لیکن انسان نہیں بدلے ہیں۔ کلینڈر تبدیل ہوگیا لیکن قسمت نہیں تبدیل   ہوئی ہے۔ کل بھی چند متوالے دسمبر کی آخری رات میں اپنے حقوق کے لئے راستوں پر تھے اور آج بھی چند سرفروش اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔ کل بھی ملک کے مستقبل (طلباء) ناانصانی کے خلاف میدان  میں تھے، آج بھی طلباء کسانوں کے ساتھ میدان میں ہے۔

چراغوں کی لو سے ستاروں کی ضو تک۔تمہیں ہم ملیں گے جہاں رات ہوگی

کل بھی دسمبر کی سرد راتوں میں عیش و طرب کی مجلسیں سجائی گئی تھی اور آج بھی رنگ محفل زوروں پر ہے۔ کل بھی غریب اور کسان سڑک پر تھے اور آج بھی سڑک پر ہیں۔ کچھ نہیں بدلا ہے سب کچھ یکساں ہیں۔ اگر بدلا ہے تو صرف عدد تبدیل ہوا ہے ۔ حقیقت کل بھی وہی تھی اور آج بھی وہی ہے۔ غریب کل بھی غریب تھا اور آج بھی غریب ہے۔ کمزور کل بھی مظلوم تھا اور آج بھی مظلوم ہے۔ بس  ہمارے گھروں میں موجود ایک کلینڈر بدل گیا ہے۔

 

 

Related Posts

0 thoughts on “سال "2020 ” کچھ یادیں کچھ باتیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے