راحت اندوری: ‏نئی ‏روایتوں ‏کے ‏امین


راحت اندوری: نئی روایتوں کے امین

ایک بیباک، بے خوف، نڈر، باہمت، حوصلہ مند شاعر جس کی شاعری میں عشق و محبت، درد و الم، کرب و بلا، مسکراہٹ و قہقہے، سنجیدگی و متانت، عزم و استقلال سب کچھ موجود تھا۔ جو حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہوئے اپنے اشعار کے ذریعے ان حساس مسائل کو بیان کرجاتا جن پر لب کشائی کرنے سے دیگر افراد پہلو تہی کیا کرتے تھے۔ شاعری کی زبان میں اس حقیقت کو عوام کے سامنے پیش کرتا جس پر لب کشائی کرنے سے لوگ خوف محسوس کیا کرتے تھے۔

سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟
کچھ پتا تو کرو چناؤ ہے کیا؟
خوف بکھرا ہے دونوں سمتوں میں
  تیسری سمت کا دباؤ ہے کیا؟

راحت اندوری صاحب ایک نئی روایت کے امین تھے، نئے طرز کے موجد تھے، نئے لب و لہجہ کے خالق تھے، نئے انداز فکر کے مالک تھے، وہ آزاد ہندوستان کے ایک عظیم انقلابی شاعر تھے۔
راحت اندوری وہ شاعر تھے جن کی شاعری میں ہندوستان بستا تھا، وہ اپنے ملک ہندوستان کے دعویدار تھے، کسی کی اجارہ داری اور کسی کے دعویٰ کے بر خلاف اپنی بات پوری مضبوطی سے بیان کرتے اور اپنی حصہ داری کو ایسے انداز میں بیان کرتے کہ سننے والوں پر جذباتی کیفیت طاری ہوجاتی۔ 

آج جو صاحب مسند ہے کل نہیں ہوں گے
کرایے دار ہے ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے۔

خس و خاشاک کی مانند پانی کی روانی میں بہنے کے بجائے، عام رجحانات کے برخلاف راحت اندوری صاحب اپنا راستہ خود تلاش کیا کرتے تھے۔ ان کی شاعری میں وہ ولولہ انگیزی ہوا کرتی تھی کہ سامعین پر سحر طاری ہو جاتا اور اس سحر انگیزی میں وہ ان خیالات کا برملا اظہار کرجاتے جو ان کے دل میں پنہاں ہوتا۔ جچے تلے الفاظ میں ایسی انقلابی باتیں کہہ دیا کرتے تھے جو واقعتاً ان ہی کی شاعری کے لئے موزوں تھا۔

ہوں لاکھ ظلم مگر بددعا نہیں دیں گے
زمین ماں ہے زمین کو دغا نہیں دیں گے
روایتوں کی صفیں توڑ کر بڑھو ورنہ
جو تم سے آگے ہے وہ راستہ نہیں دیں گے۔


انہوں نے ظلم ، زیادتی ، بے انصافی اور عدم مساوات کے حوالے سے جو کچھ کہا وہ زبان زدِ عام ہو گیا۔ وہ عدالت کے دوہرے معیار پر اس انداز سے لب کشائی کرتے  کہ مجرم کی بے گناہی بھی ثابت ہوجاتی یا اس کے جرم کی صفائی ہوجاتی اور عدالت کا وقار بھی برقرار رہتا ہے۔ لیکن ان کی شاعری ہمارے عدالتی نظام اور اس میں پیش آنے والی دقتوں سے نالاں نظر آتی ہے۔

جو جرم کرتے ہیں اتنے برے نہیں ہوتے
سزا نہ دے کر عدالت بگاڑ دیتی ہے

راحت اندوری صاحب نے اپنے فن کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی موضوع پر اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، اور پھر زندگی بھر اس موضوع سے اس طرح تعلق قائم رہا کہ اخیر دم تک اس سے جدائی نہیں ہوئی۔ راحت اندوری صاحب میں صرف ایک شاعر نہیں بلکہ ایک بہترین مصور بھی بسا ہوا تھا۔ راحت صاحب نے اپنے دونوں فنون کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے۔ اپنے تخیلات کو جس طرح انہوں نے الفاظ کے سانچوں میں ڈھال کر اپنا مافی الضمیر ادا کیا ہے بعینہ انہوں نے نقش و نگاری سے اپنے خیالات سے دنیا کو متعارف کرایا ہے۔ 
راحت اندوری صاحب اپنے سامعین کے اعتبار سے اپنے اشعار کا انتخاب کیا کرتے تھے۔ نوجوانوں کی مجلس اور محفلوں میں رومانوی شاعری ضرور ہوتی لیکن ان کی شاعری پاکیزہ تخیلات کی پیداوار ہوا کرتی تھی۔ درد دل کو بیان کرنے، حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنے، سیاسی اتھل پتھل کو بیان کرنے، ظلم و ستم کو منظر عام پر لانے کیلئے وہ برملا اپنے اشعار کا سہارا لیا کرتے تھے۔


ملانا چاہا ہے جب بھی انساں کو انساں سے
تو سارے کام سیاست بگاڑ دیتی ہے

                       ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    

ٹوٹ رہی ہے ہر دن مجھ میں اک مسجد
اس بستی میں روز دسمبر آتا ہے

ایسے دور میں جب شعر و شاعری سے منسلک افراد بے پر کی تک بندیاں کرنے کو اپنے اشعار کی معراج تصور کرتے ہیں، راحت اندوری صاحب الفاظ کے پیرائے میں اپنے بلند تخیلات کو اس قدر حسین انداز میں بیان کرتے یوں محسوس ہوتا گویا کہ چاند ستاروں کو ہتھیلی پر سجا کر پیش کررہے ہیں

میرے حجرے میں نہیں اور کہیں پر رکھ دو
آسماں لائے ہو، لے آؤ زمیں پر رکھ دو
اب کہاں ڈھونڈنے جاؤگے ہمارے قاتل
اب تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو
اس نے جس طاق پہ کچھ ٹوٹے دیئے رکھے ہیں
چاند تاروں کو بھی لے جاکے وہیں پر رکھ دو

راحت اندوری صاحب نے عشقِ مصطفیٰ میں ڈوبی ہوئی وہ نعتیں ترتیب دی ہیں جو ان کے سوز دروں اور عشقِ نبی کی آئینہ دار ہیں۔ ہر ہر لفظ اور ہر ہر مصرعہ سے محبت و عقیدت کے چشمے بہتے ہوئے نظر آتے ہیں اور صاف طور پر محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو ان اشعار کی تخلیق میں استعمال کیا ہے، اور اشعار کے الفاظ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ شیفتگی اور حقیقی محبت کی صاف اور واضح تصویر نظر آتی ہے

زم زم و کوثر و تسنیم نہیں لکھ سکتا
اے نبی! آپ کی تعظیم نہیں لکھ سکتا
میں اگر سات سمندر بھی نچوڑوں راحت
آپ کے نام کی ایک میم نہیں لکھ سکتا

راحت اندوری صاحب جنہوں نے تقریباً نصف صدی تک اردو دنیا پر راج کیا ہے اور جن کے چاہنے والے سرحدوں کی حدود و قیود سے آزاد تھے، آپ مدھیہ پردیش میں رفعت اللہ قریشی صاحب کے گھر 1950 میں پیدا ہوئے۔ اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے اردو ادب میں برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھوج یونیورسٹی مدھیہ پردیش سے حاصل کیا۔ 
آپ اردو ادب میں شعر و شاعری کے علاوہ بالی وُوڈ کے مشہور و معروف نغمہ نگار کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے۔ لیکن افسوس کہ جس شخص نے پوری زندگی مجلسوں اور محفلوں کو گلزار بنا یا، جس کے دم خم پر مشاعرے کامیاب ہوا کرتے تھے وہ اپنی زندگی کی بازی ایک وائرس کے لپیٹ میں آکر ہار گیا۔ راحت اندوری صاحب صرف ایک شاعر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک انقلابی شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھیں جائیں گے۔ 

یہ سانحہ تو کسی روز گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو مرنے والا تھا

ہمارے دیگر مضامین سے استفادہ کیلئے کلک کریں

Related Posts

0 thoughts on “راحت اندوری: ‏نئی ‏روایتوں ‏کے ‏امین

  1. ماشاءاللہ الله آپ کے علم وعمل میں مزید ترقی عطا فرمائےاور آپ کے قلم میں مزید روانی عطا فرمائے اور تا دم حیات ایمان پر قائم رکھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے