حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں :

 

موجودہ دور میں جبکہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ نے عوام الناس کے اذہان پر اپنا سکہ جما لیا ہے اور ان کے ذریعہ فراہم کردہ معلومات کو بلا تحقیق و جستجو مبنی بر حق تصور کر تے ہیں ۔ دین کے نام پر ہر قسم کے رطب و یابس کو پھیلانے اور ان کو پڑھنے کو باعث ِ اجر گردانتے ہیں۔ غیر مصدقہ اور بے بنیاد باتوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب بلا کسی تردد کے منسوب کرنے کی جرات بیجا کر بیٹھتے ہیں۔ ادبیات اور لٹریچر کے نام پر اسلام مخالف اور اخلاق سوز مضامین کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے لئے حضرت تھانوی کی یہ حکیمانہ بات ان کے ذہن کے دریچوں کو کھولنے میں معاون و مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں: "آج کل (لوگ) کثرت سے یہ غلطی کرتے ہیں کہ جو کتاب دین کے نام سے دیکھی یا سنی، خواہ اس کا مضمون حق ہو یا باطل ، خواہ اس کا مصنف ہندو ہو یا عیسائی یا دہری ہو یا مسلمان،  پھر مسلمان بھی گو صاحب بدعت ہی ہو، غرض کچھ تفتیش نہیں کرتے اور اس کا مطالعہ شروع کردیتے ہیں، اس میں وہ مضامین بھی آگئے جو کسی مسئلے سے متعلق اخبارات (رسائل) میں چھپتے رہتے ہیں، اس میں چند مضرتیں ہیں:

1)کسی غلط بات کو صحیح سمجھ کر عقیدے یا عمل میں خرابی کر بیٹھتے ہیں۔

2) بعض اوقات پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ امر غلط ہے مگر بعض مصنفین کا طرزِبیان ایسا تلبیس آمیز یا دلآویز ہوتا ہے کہ دیکھنے والا فی الفور اس سے متاثر ہوجاتا ہے، اور اس کے مقابلہ میں اپنے پہلے اعتقاد کو ٖضعیف اور بے وقعت خیال کرکے اس کو ٖغلط اور اِس کو صحیح سمجھنے لگتا ہے۔

3) بعض دفعہ گو اس کو قبول نہیں کرتا مگر مذبذب ہوکر شک میں پڑ کر دل میں رکھتا ہے اور پریشان ہوتا ہے۔

4) کبھی دوسروں سے تحقیق کرنا چاہتا ہے مگر چوں کہ اس میں کچھ غموض ہوتا ہے جس کے ادراک (اور سمجھنے) کے لئے اس کا علم اور ذہن کافی نہیں ہوتا، اس لئے سمجھ میں نہیں آتا اور لایعنی سوال کرکے دوسروں کو پریشان کرتا ہے اور جواب دینے والوں کو عاجز سمجھ کر ان کے علم یا اخلاق میں تنگی کا حکم لگاکر ان سے بد گمان ہوجاتا ہے”۔

ماخوذ از: یاد گارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ

0 thoughts on “حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں :

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے