حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

 

حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی

اس گلشنِ ارضی ہندوستان کو جنت نشاں بنانے اور یہاں کے باشندوں کو امن و آشتی، پیار و محبت، اخوت و بھائی چارگی، اتحاد و اتفاق کا سبق پڑھانے میں خانقاہوں کو آباد کرنے والے اولیاء اللہ کا بڑا حصہ ہے جنہوں نے غمخواری، دل داری، یگانگت، ہم آہنگی، انسانیت نوازی، غریب پروری کے ذریعہ اپنے حلقہ مریدین کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ترغیب دی اور خود تاحیات ان اصولوں پر عمل پیرا رہے ۔ ان اولیاء اللہ کے انہیں فیوض و برکات اور مخلصانہ کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ صدیوں بعد بھی، رنگ و نسل، ذات پات، قوم و ملت، ملکی سرحدیں اور مذہب سے قطع نظر عوام کا جم غفیر ان کے آستانہ عالیہ پر در عقیدت پیش کرنے کو اپنے لئے باعث خیر و برکت سمجھتا ہے۔ انہیں باصفا اور باکمال سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے۔ جن کے علوم و معارف اور سلوک و طریقت کے فیضان کا چشمہ آج تک جاری وساری ہے۔

شیخ عبد القدوس گنگوہی، مکتوبات شیخ عبد القدوس گنگوہی
شیخ عبد القدوس گنگوہی
پیدائش

شیخ عبد القدوس گنگوہی  کی پیدائش کے سلسلہ میں کئی اقوال ہیں لیکن شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "مشائخ چشت” میں 860 ہجری کو ذکر کیا ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے شاہ عبد القدوس بن اسماعیل بن صفی بن نصیر الحنفی ہے۔ بعض مورخین نے آپ کا اصل نام اسماعیل اور لقب عبد القدوس بیان کیا ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب چھبیس واسطوں سے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔

ابتدائی تعلیم

شیخ عبد القدوس گنگوہی  ایسے علمی گھرانے کے چشم وچراغ تھے جہاں ظاہری و باطنی ہر دو علوم کا بول بالا تھا۔ آپ کے والدِ محترم وقت کے کبار علماء میں سے تھے، چنانچہ آپ کی ابتدائی تعلیم کا آغاز والد محترم کے زیر شفقت ہوا۔ والدِ محترم کی تربیت میں آپ نے علوم کی ابتداء فرمائی اور خطوط نویسی وغیرہ کے فن پر مکمل دسترس والد محترم کی محنت کا مرہونِ منت تھی۔ گھر  علوم ِظاہریہ کے علاوہ باطنی علوم کا بھی مرکز تھا اور یہی وجہ ہے کہ بچپن سے ہی آپ کی طبیعت اس جانب مائل ہوگئی تھی۔ بلکہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ آپ پیدائشی ولی تھے اور ابتداء سے ہی اس کے اثرات ظاہر ہونے لگے تھے۔چنانچہ جب شیخ عبد القدوس گنگوہی  عربی علوم کی تعلیم ملا فتح اللہ کے پاس حاصل کررہے تھے انہیں ایام میں غلبہ شوق کی بناء پر شیخ احمد عبد الحق کے مزار پر آکر عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئے۔ یہ سلسلہ کچھ دنوں تک جاری رہا لیکن پھر آپ کو یہ خیال دامن گیر ہوا کہ علومِ ظاہریہ کے بغیر علوم باطنیہ میں کمال ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا، آپ دوبارہ حصولِ علم میں مشغول ہوگئے۔

رسوخ فی العلم کا واقعہ

ایک مرتبہ آپ دہلی تشریف لائے، اسی زمانہ میں شیخ عبد الوہاب بخاری قرآن مجید کی تفسیر لکھ کر فارغ ہوئے تھے۔شیخ عبد القدوس گنگوہی  کی آمد کا علم ہوا تو اپنی تفسیر شیخ کی خدمت میں پیش کی۔ شیخ عبد القدوس گنگوہی نے تفسیر کا مطالعہ کیا اور ایک جگہ جہاں اہل بیت کا ذکر موجود تھا، شیخ عبد الوہاب بخاری نے لکھا تھا کہ نبی کی اولاد خاتمہ کے خوف سے آزاد ہے کیونکہ ان کا خاتمہ خیر پر ہی ہوگا۔ شیخ عبد القدوس گنگوہی نے اس کی نشاندھی فرماتے ہوئے کہا کہ یہ جملہ مسلک علماء اہلسنت والجماعت کے خلاف ہے۔ دہلی جو علوم و معارف کا مسکن تھا اور جہاں  وقت کے جبالِ علم موجود تھے وہاں  علماء کے درمیان اس سلسلہ میں طویل بحث شروع ہوگئی بالآخر شیخ عبد القدوس گنگوہی کی رائے کو راجح قرار دیا گیا۔
ایک مرتبہ مسجد کے امام صاحب وقت پر نہیں پہنچ سکے۔ ان کی جگہ امامت ان کے بھتیجے نے کی جو نو عمر تھے۔ سورہ فاتحہ کی تلاوت میں "الذین "اور "انعمت” کے درمیان وقفہ کردیا۔ شیخ نے دوبارہ نماز ادا کی اور فرمایا کہ کیا لوگ اتنا بھی نہیں جانتے کہ موصول صلہ بمنزلۃ ایک کلمہ ہے۔شیخ عبد القدوس گنگوہی کو اللہ تعالٰی نے باطنی علوم کے علاوہ ظاہری علوم میں بھی مکمل دسترس حاصل کی تھی۔

بیعت و خلافت

شیخ عبد القدوس گنگوہی  زمانہ طالبعلمی میں ہی شیخ احمد عبد الحق کے مزار پر وقت گزار چکے تھے۔ جس کے نتیجہ میں آپ کو ان کے روحانی فیوض وبرکات حاصل تھے۔ آپ نے بظاہر شیخ کے پوتے شیخ محمد بن عارف سے بیعت کی اور ان سے ہی آپ کو خلافت بھی حاصل ہے لیکن شیخ عبد القدوس گنگوہی  فرماتے ہیں کہ شیخ احمد عبد الحق نے اپنی وفات کے پچاس سال بعد میری روحانی  فیوض سے تربیت کی ہے۔ شیخ عبد القدوس گنگوہی ابتدا میں ردولی میں مقیم رہے لیکن جب 1490/91 عیسوی میں وہاں کے حالات خراب ہوئے، آپ کے ذکر و اذکار اور عبادت و ریاضت کیلئے ماحول مناسب نہیں رہا تو آپ وہاں سے ہجرت کرکے شاہ آباد آگئے۔ یہاں آپ نے خلق خدا کی تربیت و راہنمائی کیلئے خانقاہی نظام کو ازسرنو شروع کیا۔ تقریباً 35 سال تک آپ یہاں مقیم رہ کر اپنے فیوض وبرکات سے علاقہ کی دینی خدمات انجام دی ۔ لیکن اس زمانہ میں ہندوستان کی سیاسی حالت غیر مستحکم ہوگئی تھی اور الگ الگ خطوں میں چھوٹے چھوٹے راجاؤں نے اپنی خود ساختہ حکومت قائم کرلی تھی۔ ایسے میں آپ کا شاہ آباد کا قیام بھی زیادہ دیر پا ثابت نہیں ہوسکا اور پھر آپ وہاں سے گنگوہ تشریف لے آئے۔ گنگوہ کے غیر آباد علاقہ میں اپنا بسیرا بنایا اور تادم مرگ وہیں قیام پذیر رہے۔شیخ عبد القدوس گنگوہی کے خلفاء اور مریدین کا وسیع حلقہ تھا اور آپ ہمیشہ ان کو خط و کتابت کے ذریعہ اتباعِ سنت کی تلقین کیا کرتے تھے۔ سلسلہ چشتیہ صابریہ کی نشر و اشاعت اور اس کے پھیلاؤ میں آپ کی محنت کا بڑا دخل ہے۔ اس سلسلہ کے آپ پہلے بزرگ ہیں جن کے حالات اس قدر تفصیل سے مرتب کئے گئے ہیں۔ آپ کے صاحبزادہ اور خلیفہ شیخ رکن الدین نے آپ کی حیات کو زیادہ تفصیل سے مرتب کیا ہے۔

سلاطین وقت  سے تعلقات

سلسلہ چشتیہ کے دیگر اکابرین و صوفیاء کرام کے برعکس حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے شیخ عبد القدوس گنگوہی  نے سلاطین ہند سے خط و کتابت کا سلسلہ قائم فرمایا۔ خلقِ خدا کے تحفظ اور ان کی دینی راہنمائی کیلئے اس امر کی انجام دہی ناگزیر ہوگئی تھی۔ حالات کی بے ثباتی کا عالم یہ تھا کہ کسی بھی حکومت کو قرار نہیں تھا۔ آئے دن حکومتوں کے تختے پلٹ رہے تھے، ایک کی جگہ دوسرا اور ایک خاندان کی جگہ دوسرا خاندان زمام حکومت پر قابض ہورہا تھا۔ایسی صورتحال میں عوام کا شش و پنج میں مبتلا ہونا فطری امر تھا اور ان کے ازالہ کے لئے آپ نے یہ قدم اٹھایا تھا۔ شیخ عبد القدوس گنگوہی نے ایک طویل مکتوب میں سکندر لودھی کو خلقِ خدا کی خدمت اور ان کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے ، خصوصا ائمہ حضرات اور علماء کرام کی جانب توجہ دینے اور ان کے ساتھ بھلائی کی تلقین فرمائی ہے اسی طرح جب دہلی کے تخت پر مغل شہنشاہ بابر متمکن ہوئے تو شیخ عبد القدوس گنگوہی نے انہیں بھی نصائح غالیہ پر مشتمل خطوط روانہ کئے ہیں۔ آپ نے تقریبا پانچ مسلم حکمرانوں کا زمانہ پایا ہے اور ان تمام کو اور ان کے دیگر عاملین کو خطوط کے ذریعہ اتباعِ سنت اور خشیتِ الٰہی کی تلقین کی ہے۔

مکتوباتِ شیخ عبد القدوس گنگوہی

قطبِ عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی فرماتے ہیں کہ مجھے جب بھی تصوف میں کوئی اشکال پیدا ہوا تو وہ حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی کے مکتوبات سے رفع ہوگیا ہے۔ ملک ہندوستان میں جن صوفیاء کرام اور اولیاء اللہ کے خطوط کو بڑی اہمیت حاصل ہے ان میں شیخ مجدد الفِ ثانی، مخدوم الملک شیخ شرف الدین یحیی منیری کے علاوہ شیخ عبد القدوس کے مکتوبات  بھی شامل ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مرورِ زمانہ اور گردشِ ایام نے ان خطوط کو اس طور پر محفوظ نہیں رکھا جیسا کہ ہونا چاہئے تھا۔ یہ خطوط علوم و معارف کے بیش بہا قیمتی اثاثے ہیں ۔ آج کے پُر آشوب حالات میں ان خطوط سے راہنمائی حاصل  کی جاسکتی ہے۔  

شیخ عبد القدوس گنگوہی کی تصنیف و تالیف

شیخ عبد القدوس گنگوہی  کی شخصیت کے دو پہلو بہت نمایاں تھے۔ پہلا، آپ کا علمی کمال اور دوسرے آپ کے روحانی و باطنی  فیوض و برکات۔ جس طرح آپ کے روحانی فیوض سے مستفید ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اور آپ کے اجازت یافتہ دور دراز کے مقامات پر شریعتِ مطہرہ کی نشر و اشاعت میں مصروف تھے، بعینہ اسی طرح آپ کے علمی کمالات سے مستفید ہونے والوں کی تعداد بھی بے شمار تھی اور آج  صدیوں بعد بھی  موجود ہیں۔

آپ کی مشہور تصانیف :

شرح عوارف المعارف

حاشیہ فصول الحکم: مرتبہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی

رسالہ قدسیہ

غرائب الفوائد

رشد نامہ

مظہر العجائب

ان کے علاوہ بھی دیگر تصانیف موجود ہیں۔

سفرآخرت

وفات سے تین سال قبل شیخ عبد القدوس گنگوہی  گوشہ نشینی اختیار کرچکے تھے۔ ہر وقت عالم استغراق میں رہتے۔ بوقت ِنماز خاص خدام حاضر ہوتے اور توجہ دلایا کرتے تھے۔ بعد از نماز دوبارہ اسی حال میں مشغول ہوجایا کرتے تھے۔ جذب و مستی کا عالم یہ تھا کہ کسی چیز کی جانب توجہ نہیں فرماتے تھے ہمہ دم یادِ الہی میں مصروف رہا کرتے تھے۔ 11 جمادی الآخر 945 ہجری کو بعض نے 944 بھی ذکر کیا ہے آپ کو بخار کا اثر ہوا۔ اسی عالم میں بعض ظاہری ادویات اور علاج و معالجہ کی کوشش کی گئی لیکن وقت موعود آپہنچا تھا۔ بالآخر 19 جمادی الاخری بروز سہ شنبہ دار فانی سے دار جاودانی کی طرف کوچ کر گئے۔شیخ عبد القدوس گنگوہی نے پوری زندگی خدمت دین میں گزاری ہے۔

 

Related Posts

0 thoughts on “حضرت شیخ عبد القدوس گنگوہی: حیات وخدمات کے چند درخشاں پہلو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے