حصولِ علم کے لئے "صرفِ ہمت” ضروری ہے

 

ماخوذ از: یادگار زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ

ہماری تاریخ میں اس طرح کی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ کسی کی غیرت یا خودی کو چیلنج کیا گیا تو بجائے مایوسی کے حوصلہ بڑھتا گیا اور پھر مختلف علوم و فنون میں عبقریت اور ابتکار کے عجیب عجیب نمونے سامنے آئے۔ کہا جاتا ہے کہ امام طحاوی کو ان کے ماموں امام مزنی کے ایک جملہ نے کہ: "تم کچھ نہیں کر پاؤ گے” یا”تم سے کچھ نہیں ہو پائے گا” امامت کے مقام پر فائز کردیا اور حدیث و فقہ میں انہوں نے وہ مقام حاصل کیا  جو خود ان کے عظیم ماموں کو بھی حاصل نہیں تھا۔

اسی طرح یہ قصہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ امام اوزاعی نے”السیر الصغیر” دیکھ کر فرمایا تھا کہ اہل عراق کو غزوات کا کیا علم، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معرکوں کا رخ شام کی طرف تھا۔ امام محمد بن الحسن الشیبانی کو معلوم ہوا تو انہوں نے”السیر الکبیر” لکھ ڈالی جسے دیکھ کر امام اوزاعی کو بھی آپ کی امامت اور تفوق کا اعتراف کرنا پڑا اور فرمایا کہ اگر اس کتاب میں آیات و احادیث کے حوالے نہ ہوتے تو میں کہتا کہ اس شخص کو علوم ایجاد کرنے کی قدرت اللہ نے دے رکھی ہے۔ اسی طرح ابن سماعہ کے فقیہ بننے اور سیبویہ کے امام نحو بننے سے متعلق بھی حکایتوں سے بھی تاریخ و تراجم کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ 

مطالعہ کا ذوق ہو یا تحصیل علم کا شوق یہ تو فطری ہوتا ہے کسی کو زیادہ کسی کو کم اور "کل میسر لما خلق لہ” کے عام ضابطہ کے تحت اس میں تفاوت کا ہونا بھی طبعی ہے۔ بعض لوگ شروع میں علم کی طرف راغب نہیں ہوتے لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ ان کی یا ان کے اولیاء کی طلب یا خود ان کی شب و روز کی محنت کی وجہ سے راستہ کھول دیتا ہے، چنانچہ بعض بظاہر کند ذہن افراد بھی فضل و کمال کے حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

حضرت امام بخاری کے خرق عادت حافظہ کا ذکر تو عام طور پر کیا جاتا ہے لیکن ترجمہ نگار خود ان کے اپنے اس بیان کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے کہ مجھے جو کچھ ملا ہے، وہ اپنی توجہ مکمل طور پر علم حدیث کی طرف پھیر دینے کی وجہ سے ہے، حقیقت یہ ہے کہ "صرف ہمت” کو انسان کے فضل و کمال حاصل کرنے میں بڑا دخل ہے۔ 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے