حافظ احمد علی محدث سہارنپوری: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

حافظ احمد علی محدث سہارنپوری: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

 برصغیر میں علم ِ حدیث کی خدمت اور اس کی ترویج و اشاعت میں جن اکابرین کو سر فہرست شمار کیا جاتا ہے ان میں شیخ احمد شرف الدین یحیی منیری، شیخ عبد الحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے تلامذہ خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

ان ناموں کے علاوہ ایک اور نام  ہے جن کے تلامذہ نے ہندوستان میں دینی علوم اور اسلامی شناخت کی بقا میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بانی دارالعلوم امام محمد قاسم نانوتوی،  بانی ندوۃ العلما حضرت مولانا محمد علی مونگیری اور علامہ شبلی نعمانی ان تمام باصفا اور ولی کامل کو ان سے شرف تلمذ حاصل ہے۔ یہ ذات والا صفات محدث وقت حافظ احمد علی محدث سہارنپوری کی ہے۔ آپ نے علم ِ حدیث کے باب میں بے شمار کارنامے انجام دیئے ہیں لیکن آپ کا سب سے بڑا اور اہم کارنامہ بخاری شریف کا حاشیہ ہے جو آج تک تشنگان علوم حدیث کی پیاس بجھا رہا ہے۔ 

تاریخ پیدائش

آپ کی پیدائش سہارنپور کے بافیض اور علمی گھرانے میں ہوئی۔  آپ کا گھرانہ تصوف و سلوک اور علم و عمل دونوں باب میں شہرت کا حامل تھا۔ آپ کے اجداد میں شیخ ابو سعید چوہر تھے جو شیخ عبد القدوس گنگوہی کے خلیفہ تھے۔ علاوہ ازیں، یہ خطہ اپنی علمی اور روحانی فراوانی کے لئے ہندوستان کے طول و عرض میں مشہور و معروف تھا۔ استاذ الکل مولانا مملوک علی نانوتوی  ،  حاجی امداداللہ مہاجر مکی،  مولانا رحمت اللہ کیرانوی اور امام محمد قاسم نانوتوی  جیسی عظیم شخصیات کا تعلق اسی خطہ سے ہے۔ آپ کی پیدائش 1225 ہجری بمطابق 1810 عیسوی شیخ لطف اللہ بن شیخ جمیل کے گھر ہوئی تھی۔

ابتدائی تعلیم

 زندگی کے ابتدائی ایام میں آپ حصول علم سے کافی دور رہے ہیں۔ بچپن کا بیشتر حصہ دیگر لوازمات زندگی کی تکمیل میں گزر گیا تھا۔ ان ایام میں بھی آپ نے چند بنیادی اور اہم مروجہ علوم کو حاصل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن باضابطہ ذہن مکمل طور پر اس جانب مائل نہیں ہوسکا تھا۔  لیکن مولانا سعادت علی کی مومنانہ فراست اور پرخلوص دعاؤں کی برکت سے آپ میں حصول ِ علم کا شوق پیدا ہوا۔ آپ سب سے پہلے میرٹھ تشریف لے گئے۔ میرٹھ میں قیام کے دوران آپ نے قرآن مجید حفظ کیا اور فارسی کی چند ابتدائی کتابیں بھی وہیں رہتے ہوئے پڑھی تھیں۔ میرٹھ میں قیام کا زمانہ زیادہ طویل نہیں تھا۔ حفظ قرآن مجید اور فارسی کی چند کتابیں پڑھنے کے بعد آپ دوبارہ سہارنپور تشریف لائےاور یہاں مولانا سعادت علی سے عربی درجات کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ حصولِ علم کا شوق اس قدر دامن گیر تھا کہ کچھ دنوں بعد وہاں سے کاندھلہ میں مقیم مفتی الٰہی بخش کی خدمت میں پہنچ گئے۔ مفتی صاحب کے پاس قیام کا زمانہ کافی مختصر ثابت ہوا، کیونکہ انہیں ایام میں مفتی صاحب کا سانحہ ارتحال پیش آگیا تھا۔

دہلی کا سفر

علمی تشنگی کو سیرابی عطا کرنے کے لئے دہلی روانہ ہوگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی میں علم و عمل کا بول بالا تھا۔ بڑے بڑے صاحب فضل و کمال اپنی مسند سجائے دہلی کی علمی مجالس و محافل کو آباد کئے ہوئے تھے۔ اسی زمانے میں دہلی کے مسند درس و تدریس پر استاد الکل مولانا مملوک علی نانوتوی بھی براجمان تھے۔ آپ ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی طرح آپ کے فیض یافتگان بھی دہلی میں قدر و قیمت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ رجال سازی میں آپ ید طولی رکھتے تھے۔ دو الگ الگ میدان میں  تاریخی کارنامہ انجام دینے والی دو  عظیم شخصیات امام محمد قاسم نانوتوی (بانی دارالعلوم دیوبند) اور سر سید احمد خان (بانی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) دونوں باکمال اور بافیض شخصیات کے علمی سوتے مولانا مملوک علی تک پہنچتے ہیں۔ ایسے باکمال اور بافیض استاد کی خدمت میں آپ حاضر ہوئے۔ دیگر مروجہ علوم عقلیہ اور نقلیہ کی تکمیل فرمائی ۔ یہاں رہتے ہوئے آپ نے ان تمام علوم پر دسترس حاصل کی جنہیں آپ سیکھنا اور پڑھنا چاہتے تھے۔ لیکن علمِ حدیث کے باب میں ابھی تک آپ تشنہ لبی محسوس کررہے تھے۔ مسند حدیث پر جلوہ افروز شخصیت شاہ اسحاق دہلی سے ہجرت فرماکر مکہ مکرمہ تشریف لے جا چکے تھے۔ حافظ احمد علی محدث سہارنپوری کی قلبی خواہش تھی کہ ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا جائے۔ اس شوق نے آپ کو مکہ مکرمہ کے سفر پر آمادہ کردیا تھا۔ دہلی میں قیام کے دوران 1833/35 کے زمانے میں جب حاجی امداداللہ مہاجر مکی حصولِ کےلیے مولانا مملوک علی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مولانا نے حاجی صاحب کے گلستاں کا سبق حافظ احمد علی محدث سہارنپوری کے سپرد کردیا تھا۔ اس اعتبار سے آپ سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے استاد بھی ہیں۔ حاجی صاحب نے بذات ِ خود اس بات کو بیان بھی کیا ہے۔  

سفر حجاز اور علم حدیث

آپ نے علم حدیث میں بخاری شریف کا بیشتر حصہ مولانا  وجیہ الدین صدیقی سے پڑھا تھا لیکن پھر بھی شاہ اسحاق سے فیض پانے کے لئے دل بے قرار تھا۔ چنانچہ آپ اپنے استاد حضرت مولانا مملوک علی نانوتوی کی معیت میں سفر حجاز پر روانہ ہوئے اور حج بیت اللہ کی سعادت کے بعد ایک سال سے زائد عرصہ تک شاہ اسحاق کے درس میں علم حدیث میں مشغول رہے ۔ شاہ اسحاق کی درس گاہ میں آپ نے اپنے علوم کی تکمیل فرمائی اور پھر واپسی کے بعد عملی زندگی میں مشغول ہوگئے۔

مطبع احمدی کا قیام

حجاز سے واپسی کے بعد آپ دہلی میں قیام پذیر ہوگئے۔ یہاں رہتے ہوئے آپ نے احادیث کی کتابیں نیز دیگر درسیات پر تحقیقی کام شروع کیا اور ایک نئے عزم اور حوصلہ کے ساتھ ان کتابوں کی اشاعت شروع کی۔ آپ نے اپنی کتابوں کے علاوہ دیگر معتبر اور سودمند کتابوں کو چھاپنے کا سلسلہ جاری رکھا اور یہ کام اپنے آپ میں بے مثال کام تھا۔ اس کام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ تحقیق کے ساتھ معتبر کتابیں عوام الناس تک پہنچنے لگی تھی۔ جو کتابیں کمیاب یا نادر تھیں ان پر از سر نو کام کرکے ان کو قابل اشاعت بنایا۔ آپ کا یہ مکتبہ سنہ 1844 سے 1857 مسلسل بیش بہا علمی کتابیں منظر عام پر لاتا رہا تھا۔ لیکن 1857 کے بعد جب دہلی اجڑ گئی اور دہلی کے بام و در سے مغلیہ سلطنت کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ یہ مکتبہ اپنی حالت پر باقی رہتا۔ دہلی کے ساتھ ساتھ آپ کا یہ علمی مسکن بھی اجڑ گیا تھا۔

میرٹھ میں ملازمت 

1857 کی جنگ آزادی کے بعد سب کچھ بدل گیا تھا۔ ملک ہندوستان کا شیرازہ پتوں کی مانند بکھر چکا تھا۔ کل تک جو صاحب مسند اور صاحب اقتدار تھے وہ پابند سلاسل تھے یا پھر در در کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے تھے۔ ایسے پرآشوب اور ہنگامہ خیز حالات میں حافظ احمد علی محدث سہارنپوری نے میرٹھ میں مقیم  بڑے  مسلم تاجر  شیخ الہی بخش اور ان کے بھائی حاجی عبد الکریم  کے یہاں ملازمت اختیار کرلی تھی۔ لیکن دل میں علم کے شوق و لگن ، چاہ و محبت کی لَو اب بھی برقرار تھی، چنانچہ آپ نے میرٹھ میں دوبارہ مطبع احمدی کے کام کاج کو شروع کیا۔ اسی مکتبہ میں رہتے ہوئے امام محمد قاسم نانوتوی نے بخاری شریف کے پانچ پاروں پر حاشیہ لگایا ہے۔ ملازمت کی وجہ سے آپ کو میرٹھ سے کولکاتہ منتقل ہونا پڑا، کولکاتہ میں آپ تقریبا دس بارہ  سالوں تک مقیم رہے تھے۔

سفر حج

ملازمت کے زمانہ میں ہی آپ حاجی عبد الکریم کی معیت میں حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب 1857 کے بعد کئی ایک نامور علماء کرام (جن کے خلاف نئی حکومت نے گرفتاری کا وارنٹ جاری کر رکھا تھا ) ہجرت کرکے حجاز پہنچ گئے تھے۔ ان میں سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ، مولانا رحمت اللہ کیرانوی جیسی ہستیاں بھی شامل تھیں۔ حجاز میں بوو باش اختیار کرنے کے باوجود حاجی امداد اللہ صاحب کی ذات علماء ہند کے لئے مرجع کی حیثیت رکھتی تھی۔ خصوصا ایام حج میں آپ کے ارد گرد علماء کا جم غفیر ہوتا اور لوگ ان مختصر ایام میں مکمل طور پر فیض حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔

حافظ احمد علی محدث سہارنپوری اپنے رفیق حج حافظ اکرام کے ساتھ حاجی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حافظ احمد علی صاحب کا تعلق حضرت حاجی صاحب سے استاد و شاگرد کا تعلق تھا لیکن حافظ احمد علی صاحب حاجی صاحب کے مقام و مرتبہ سے بخوبی واقف تھے۔  اس ملاقات کے دوران حاجی صاحب نے ارشاد فرمایا کہ آپ ایک متبحر عالمِ دین ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ آپ کی ماتحتی میں کام کرتے لیکن چونکہ آپ ملازم ہیں اس لئے اس کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ میری رائے یہ ہے آپ ملازمت ترک کر کے علمِ حدیث کی خدمت میں مصروف ہوجائیں۔ حاجی صاحب کی بات اور مشورہ کے بعد مزید ملازمت کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی، چنانچہ حجاز سے واپسی کے بعد آپ نے ملازمت ترک کردی اور سہارنپور میں اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔

مظاہر علوم سے وابستگی

کولکاتہ میں تقریبا آپ دس بارہ سال تک ملازمت کے سلسلہ میں مقیم رہے تھے۔ سفر حجاز سے واپسی کے بعد حاجی صاحب کی نصیحت کے مطابق کولکاتہ کو خیر باد کہہ کر 1874 میں سہارنپور تشریف لے آئے۔ اس وقت مظاہر علوم قائم ہوچکا تھا ۔ سہارنپور آکر ابتدا میں آپ نے  اپنے گھر پر درس حدیث کا سلسلہ شروع کیا۔ آپ کے آمد کی خوشی اربابِ مظاہر علوم کو کتنی تھی، اس کا اندازہ 1874-75 کی روداد سے معلوم ہوتا ہے۔

"طالب علموں اور علوم دینیہ کے شائقین کو مژدہ ہوکہ امسال مولوی احمد علی صاحب مد فیوضہ کلکتہ سے ترک تعلق کرکے سہارنپور میں مقیم ہیں، غرض اصلی یہی ہے کہ جس قدر بن پڑے علوم دینی کے پڑھانے میں اوقات صرف کیجئے۔

ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ۔۔۔جب تلک بس چل سکے ساغر چلے

چنانچہ طالبان علم حدیث مسافت بعیدہ سے یہ مژدہ سن کر فراہم ہوگئے اور کچھ مدرسہ کے طالب علم بھی ان سے پڑھتے ہیں۔ اکثر روز درس و تدریس میں گزرتا ہے۔ بلکہ رات کو بھی بعض طالب علم پڑھتے ہیں اور ان کے سہارنپور کے قیام سے کتابوں کی مدد بھی طالب علموں کو بہت ملتی ہے”۔

ایک سال تک آپ گھر پر ہی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے، اس کے بعد 1292 ہجری میں باضابطہ مظاہر علوم میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع فرمایا۔ مدرسہ کے علاوہ گھر پر بھی اسباق ہوتے تھے۔ فجر کی نماز سے عشاء کے بعد تک اسباق ہوتے تھے۔ حتی کہ مدرسہ اورگھر کے درمیان راستہ میں بھی طلباء ساتھ ہوتے اور سلسلہ درس جاری رہتا تھا۔ بعد نماز عصر تفریح کا معمول تھا، آپ گھوڑے پر تفریح کے لئے جایا کرتے تھے، ان اوقات میں بھی طلباء آپ کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔  1291 ہجری کے جلسہ عام میں اتفاق رائے سے آپ کو مظاہر علوم کا مہتمم منتخب فرمایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ دارالعلوم دیوبند سے بھی آپ کا خاص تعلق تھا۔ امام محمد قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا یعقوب نانوتوی اور دیگر اکابرین دارالعلوم آپ سے شاگردی کا تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ جب دارالعلوم کی عظیم الشان عمارت (نودرہ) کی بنیاد رکھی گئی تو سب سے پہلا اینٹ آپ نے ہی اپنے دست مبارک سے رکھا تھا۔  آپ طلباء کرام سے حد درجہ لگاؤ رکھتے تھے۔ طلباء کی حوصلہ افزائی کے لئے وقتا فوقتا اپنی جانب سے انہیں کتابیں ہدیہ دیا کرتے تھے۔ بعض اوقات طلباء کی محنت سے خوش ہوکر نقد رقوم بھی عنایت فرمایا کرتے تھے۔

علمی کارنامے

آپ نے اپنی زندگی کا نصب العین علم حدیث کی خدمت کو بنالیا تھا۔ اس میدان میں آپ کا اتنا بڑا کارنامہ ہے جس کا احسان مند پورا برصغیر ہی نہیں بلکہ پورا عالَم ہے۔ آپ نے بخاری شریف، ترمذی شریف اور مشکوۃ المصابیح پر حاشیے لکھے اور ان کی تصحیح کی۔ مسلم شریف کو پہلی بار شرح نووی کے ساتھ شائع فرمایا۔ سنن ابوداؤد پر تحقیق و تصحیح کا کام کیا۔ ان تمام کاموں میں سب سے اہم اور بڑا کام، جو آج تک باقی ہے اور مسلک و مذہب سے قطع نظر ہر کوئی اس سے مستفید ہورہا ہے وہ بخاری شریف کا حاشیہ ہے۔ اس کام کے لئے آپ نے تقریبا چودہ سال کا طویل وقفہ صرف کیا ہے۔ اپنے وقت کے دیگر محدثین اور اپنے شاگردوں کی اعانت سے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا۔ آپ کی مخلصانہ کاوش کا نتیجہ ہے کہ اس کتاب کے فیوض و برکات آج تک جاری و ساری ہیں۔ ترمذی شریف کے حاشیہ پر بھی آپ کا کام زندہ ہے، ان تمام کتابوں کے علاوہ مشکوۃ المصابیح پر بھی حاشیہ کا کام کیا ہے، لیکن آپ کو ہمیشہ اس بات کا قلق رہا کہ مشکوۃ کی مکمل خدمت نہیں ہوسکی ، جیسا کہ اس کتاب کا حق ہے۔ ان کتابوں کے علاوہ آپ کے فتاوی بھی موجود ہیں اور حالات کے پیش نظر آپ نے  ایک کتاب "الدلیل القوی علی ترک قراءۃ المقتدی” مرتب فرمائی۔

حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ فرمایا کرتے تھے "صدہا طلبہ کو محدث بنادیا” یہ حقیقت ہے کہ جیسے بلند مرتبہ شاگرد آپ کو میسر ہوئے ہیں، شاید ہی کسی کو میسر ہوئے ہوں۔ آپ کے فیض یافتگان کی طویل فہرست ہے، جن کو جمع کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ نمونے کے طور پر چند نام پیش کئے جاتے ہیں:

سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی

امام محمد قاسم نانوتوی (بانی دارالعلوم دیوبند)

مولانا رشید احمد گنگوہی (سرپرست دارالعلوم دیوبند و مظاہر علوم)

مولانا یعقوب نانوتوی (شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند)

مولانا محمد علی مونگیری (بانی دارالعلوم ندوۃ العلماء)

علامہ شبلی نعمانی (ادیب دوراں و مرتب سیرۃ النبی)

سانحہ ارتحال

1297 ہجری کے اوائل میں آپ پر فالج کا اثر ہوا، اور یہی بیماری آپ کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی۔ چنانچہ 6 جمادی الاولی 1297 مطابق 17 اپریل 1880 بروز شنبہ آپ دار فانی سے دار جاودانی کو کوچ کرگئے۔ آپ نے اپنی حیات مبارکہ میں  خصوصا علم حدیث کی  بے مثال  خدمت کی ہے۔   اللہ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

 

Related Posts

2 thoughts on “حافظ احمد علی محدث سہارنپوری: حیات و خدمات کے چند درخشاں پہلو

  1. السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ، نہایت ادیبانہ طرز و اسلوب میں اکابر علماء کرام کے مختلف گوشوں پر مختصر مگر نہایت اہم مضامین کو کتابی شکل دینا ہم تشنگان علوم نبوت کے لئے بے حد مفید ثابت ہوگا، ان شاءاللہ۔
    عمر فاروق متعلم دارالعلوم دیوبند

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے