تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی حصہ داری
ملک ہندوستان میں بحیثیت مسلم قوم ہمیں بہت سے میدان میں کام کرنے اور ان میں اپنی نمائندگی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں کوئی قابل ذکر شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں ہماری نمائندگی فیصد کے مطابق ہو۔ بحیثیت قوم ہم ہر میدان میں بچھڑے ہوئے ہیں، تعلیمی میدان میں ہماری حصہ داری نہ ہونے کے برابر ہے، ڈیفنس فورس میں ہم بمشکل پائے جاتے ہیں، میڈیا اور اخبارات میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہے، عدلیہ اور مقننہ میں ہم انگلیوں پر شمار کئے جاسکتے ہیں، سیاست میں ہماری حصہ داری جگ ظاہر ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ہم اپنی ناکامی و نامرادی کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن اس کی بھر پائی اور اس خلا کو پُر کرنے کے تئیں سنجیدہ نظر نہیں آرہے ہیں۔ حالانکہ ہمیں معلوم ہے جب تک ہم ان شعبے جات میں مستقل مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے کوشش نہیں کریں گے ہمیں کامیابی نہیں مل سکتی ہے۔
| تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی حصہ داری |
مقابلہ جاتی امتحانات میں مسلم طلبہ کی کارکردگی
گزشتہ ہفتہ یو پی ایس سی میں کامیاب ہونے والے طلبہ کا اعلان کیا گیاجس میں مجموعی طور پر مسلمانوں کی نمائدگی بمشکل چار فیصد ہے۔بعض لوگوں کی جانب سے کامیاب ہونے والے مسلم طلبہ کو مبارک بادیں پیش کی گئی ہیں اور یقینا وہ طلبہ قابل مبارکباد ہیں۔ عزم و حوصلہ اور ذوق و شوق کو بلند رکھتے ہوئے ان طلبہ کرام نے جو محنتیں اور مشقتیں اٹھائی ہیں ان کے عوض قوم کی جانب سے ان کی پذیرائی خوش آئند قدم ہے۔ قوم کے سرکردہ افراد جب ایسے لوگوں کی حمایت اور ان کے لئے تعریفی کلمات کہتے ہیں تو بعد والوں کو حوصلہ ملتا ہے اور انہیں ایک راہ نظر آتی ہے کہ ہم بھی کوشش کرکے وہ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں جو ہمارے لئے اور ہماری قوم کے لئے باعث فخر ہو۔ یہ سلسلہ جاری رہے اور کامیابی حاصل کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے تو اس کے اچھے اور دور رس نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہمیں اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ان کی کامیابی میں ہمارا کیا کردار ہے۔
یو پی ایس سی اور اس جیسے مقابلہ جاتی امتحانات میں مسلم طلبہ کی نا مناسب کارکردگی کی وجوہات کیا ہیں؟ کن وجوہات کی بناپر مسلم طلبہ اتنی قلیل تعداد میں کامیاب ہوتے ہیں؟ ان اسباب و وجوہات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی حصہ داری آزادی کے بعد سے ہی کم سے کم ہوتی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے اس کے اعداد و شمار بارہا منظر عام پر لائے گئے ہیں لیکن ان میں بہتری کی کوئی تجویز یا اس کمی کو پورا کرنے کے لئے کوئی مستقل لائحہ عمل نہیں بنایا گیا ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ جن نام نہاد انسانیت کے علمبرداروں پر مسلم قوم نے بھروسہ کیا اور ان کو حکومت تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، انہوں نےمسلم قوم کے اعتماد کا خون کیا ہے۔ حکومتی سطح پر جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں وہ بحیثیت مسلم قوم سب کے لئے باعث شرمندگی ہے۔ کیونکہ جس قوم کی ابتدا "اقراء” سے ہوئی ہے اور جس کی مذہبی تعلیمات میں علم کی فضیلت و اہمیتپر ان گنت فرمان موجود ہوں اور جن کے اسلاف و اکابرین نے علمی میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہوں، اس قوم کے لئے یہ افسوسناک صورتحال باعث غور و فکر ہی نہیں بکہ باعث شرم بھی ہونا چاہئے۔
تعلیمی میدان میں ترقی کے لئے ہمارے منصوبے
من حیث القوم ہم نے اپنی تعلیمی حصہ داری کو بڑھانے اور اس میدان میں آگے بڑھنے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں؟ اگر اس سوال پر سنجیدگی سے غور و فکر کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم نے وہ جوش و جذبہ نہیں دکھایا ہے جس کی ہم سے توقع تھی۔ ہم اس جنون سے عاری ہیں جو اس میدان میں حصہ داری کو بڑھانے اور مسلم قوم کو ترقی دلانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ہم اپنی ناکامی کو دوسرے کے سر پھوڑنے کے عادی ہوگئے ہیں، ہم ہر بات میں منفی سوچ کو ہوا دینے والے بن گئے ہیں، ہماری بیشتر کوششیں ناکام و بے نتیجہ اس لئے ہوتی ہیں؛ کیونکہ ہم میں منصوبہ بندی کرنے کی عادت نہیں رہی ہے۔ بحیثیت قوم ہم اپنے مسائل کو سلجھانے کے لئے اس حد تک سنجیدہ نہیں ہیں جس کی ہماری قوم کو ضرورت ہے۔ تعلیمی میدان میں حصہ داری کی بات کی جائے تو سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم نے تعلیمی میدان میں بہتری کے لئے کتنے معیاری ادارے قائم کئے ہیں۔ کس شہر اور کس صوبہ میں ہمارے ایسے معیاری ادارے قائم ہیں جہاں قوم کے اصحاب ثروت کے بچے اور غریب ماں باپ کی اولاد تعلیم حاصل کرسکیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاس اپنے معیاری ادارے نہیں ہیں اور جو چند ہیں ان میں تعلیم کا معیار بہتر نہیں ہے۔ البتہ کچھ ایسے ہیں جن میں تعلیم و تربیت دونوں نظام قابل تعریف ہیں، یہ ادارے ایسے ہیں جو اپنے علاقوں کے بچوں کے لئے بھی ناکافی ہیں، اور اتنی کم تعداد میں ایسے ادارے پائے جاتے ہیں جنہیں انگلیوں پر شمار کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر مسلم قوم کے بچے غیروں کے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ آج فتنہ ارتداد کی لہر نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔مسلمان لڑکیوں میں بڑھتے ہوئے فتنہ ارتداد کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی تعلیم ایسے مخلوط نظام میں ہوتی ہے جہاں حیا و پاکدامنی کو انسانی آزادی کے منافی تصور کیا جاتا ہے اور باضابطہ جنسی تعلیم کے نام پر ان میں بے حیائی و بے شرمی کو فروغ دیا جاتا ہے۔
تعلیمی میدان میں حصہ داری اسی وقت مناسب تعداد میں ہوسکتی ہے جب ہمارے پاس اپنے ادارے موجود ہوں جہاں معیاری اور اعلی تعلیم کا نظم ہو۔ کئی گھرانے ایسے ہیں جو غیروں کے ماحول کی وجہ سے اپنی بچیوں کو عصری تعلیم دلانے سے کتراتے ہیں کیونکہ بہر حال عصری تعلیم ایمان سے زیادہ اہم اور ضروری نہیں ہے۔کیا یہ قابل افسوس پہلو نہیں ہے کہ ہمارے پاس مسلم لڑکیوں کی تعلیم کا نظم نہیں ہے؟ اگر قابل ذکر تعداد میں ہمارے پاس اپنے ادارے ہوں اور ان میں تعلیم سمیت اسلامی تربیت کا عمدہ نظام قائم ہو تو یقینا ہمارے بچوں میں تعلیم کا رجحان بڑھے گا اور اسکول و غیرہ کی مناسب تعداد ہونے کی وجہ سے مواقع بھی زیادہ فراہم ہوں گے جس کی وجہ سے ہر کسی کے لئے داخلہ ممکن ہوسکے گا۔حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ایسی بنیادی ضرورت بن گئی ہے کہ اب اسے انجام دیئے بغیر ہمارے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اس جانب بھر پور توجہ نہیں کی تو ہماری آنے والی نسل ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ گزشتہ ستر سالوں کی غفلت کا نتیجہ ہے کہ ہماری بچیاں غیروں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے، اگر اب بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہیں لئے تو اللہ ہی جانتا ہے کہ مستقبل کیا ہوگا۔ ہماری قوم کے سرآوردہ افراد کو چاہئے کہ وہ اپنے علاقوں میں ایسے اداروں کے قیام پر توجہ مبذول کریں اور وقت کا تقاضا سمجھتے ہوئے دیگر امور پر اس عمل کو ترجیح دیں۔
مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کے ادارے
مقابلہ جاتی امتحانات کے لئے عموما کوچنگ سینٹرز کا سہارا لیا جاتا ہے، کیونکہ بیشتر مقابلہ جاتی امتحانات اس نوعیت کے ہیں کہ ان کی مکمل تیاری کے بغیر ان میں کامیابی کا تصور محال ہے۔ یہاں بھی ہماری قوم کے لئے مسائل پیدا ہوتے ہیں کیونکہ مقابلہ جاتی امتحانات کے لئے قائم کوچنگ سینٹرز اکثر و بیشتر غیروں کے ہیں۔ شہروں اور قصبات میں یہ بات زیادہ بہتر طور پر سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وہاں کوچنگ سینٹرز کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ لیکن اپنی مناسب نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے مسلم طلبہ کو اس جانب توجہ دلانے والے بھی کم ہوتے ہیں، جب اپنے لوگ نہیں ہوں گے تو مواقع یقینی طور پر کم سے کم ہوتے جائیں گے۔ ابتدا میں ہی اتنی کم تعداد میں مسلم طلبہ مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں کہ آخری مقام تک بمشکل دو چار فیصد رہ جاتے ہیں۔ اصل کمی یہ نہیں ہے کہ ہمارے دو چار فیصد طلبہ کامیاب ہوتے ہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے دو چار فیصد طلبہ ہی ان مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں۔ اگر شروع ہی میں ان کی تعداد معتدبہ ہوجائے تو نتیجہ کے اعتبار سے یقینا قابل تعریف تعداد ہمارے سامنے ہوں گی۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم بنیادی طور پر اپنے بچوں کے لئے تعلیم کا نظم کریں، دوسروں پر تکیہ کرنے کے بجائے اپنے ادارے قائم کریں۔ ابتدائی مراحل کی تیاری کےلئے کوچنگ سینٹرز قائم کریں اور طلبہ میں ذوق و شوق پیدا کریں۔ کسی بھی میدان میں معنی خیز کامیابی حاصل کرنے کے لئے نتیجہ خیز منصوبہ بندی اور انتھک کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ منفی پروپیگنڈوں کو پس پشت ڈال کر مثبت خیالات کو اپنی زندگی کا جز بنائے اور اس مقصد کے تحت کہ ہم تعلیمی میدان میں مناسب حصہ داری حاصل کریں گے عازم سفر ہوں تو ان شاء اللہ کامیابی ضرور ملے گی۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا: لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کے چند مسلم ادارے
2008 میں حضرت مولانا سیدولی رحمانی ؒ نے بہار کے سابق ڈی جی پی جناب ابھیانند کے تعاون سے رحمانی 30 قائم کیا تھا۔ رحمانی 30 کا یہ پروگرام نہایت کامیاب رہا اور اب بفضلہ تعالیٰ مستفید ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب آئی آئی ٹی، جے ای ای کے علاوہ میڈیکل، لاء ، سی ایس اور سی اے وغیرہ کی تیاری بھی کرائی جارہی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ رحمانی 30 کا ریزلٹ اول دن سے نہایت کامیاب رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رحمانی 30 کا شمار ملک کے بہترین کوچنگ سینٹر میں ہوتا ہے جہاں ماہر فن اساتذہ اور باصلاحیت افراد کی زیر نگرانی مکمل دینی و اسلامی ماحول میں طلبہ کی تعلیم و تربیت کا ایک خوبصورت نظام ہے۔ مولانا بدرالدین اجمل نے اس سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے اجمل سوپر 40 کے قیام کا اعلان کیا اور یہ بھی ایک کامیاب کوچنگ سینٹر ہے۔ کچھ دنوں قبل مولانا ارشد مدنی نے دی ہند گرو اکیڈمی کے اشتراک سے مدنی 100 کے قیام کا اعلان کیا ہے، اللہ اسے کامیاب کرے۔ اور کچھ ادارے ہیں جو اس سمت میں بہتر کام کررہے ہیں لیکن حقیت یہ ہے کہ یہ مثالیں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ دنیا دارالاسباب ہے، یہاں کامیابی حاصل کرنے کے لئے محنت ضروری ہے، جو جس قدر محنت کرتا ہے، اللہ تعالٰی اسی قدر نوازتے ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے اور دوسروں پر تکیہ کرنے سے تبدیلی نہیں آنے والی ہے۔ اگر ہم تبدیلی کے خواہاں ہیں تو ہمیں خود اٹھنا ہوگا اور بنیادی کمزوریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی بھرپائی کے لئے محنت کرنا ہوگا ۔ اگر ہم تعلیم کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس کے انتہائی مراحل بآسانی حل ہوجائیں گےکیونکہ عمارت کی اصل مضبوطی بنیاد میں ہوتی ہے۔
ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ اور قابل فکر ہے۔
شکریہ محترم
ماشاءاللہ
قابل غور وفکر اور قابل عمل اور نہایت موزوں باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسکو امت کے لیے نفع بخش بنائے اور صاحب قلم کو قبول فرمائے آمین
آمین ثم آمین