آزادئ اظہار رائے کے پسِ پردہ فرانس کی دریدہ دہنی

آزادئ اظہار رائے کی حقیقت

لفظ‘‘  آزادی’’ ایک حسین اور خوبصورت تعبیر ہے ، ایک دل کش اور پر کشش نعرہ ہے ، دلوں کو اپنی جانب کھینچنے والی جادوئی چھڑی ہے ۔ آزادی ہر کسی کو پیاری ہے ۔ ہر کوئی آزادی کا خواہش مند ہے۔ ہر کوئی اپنی آزادی کے لئے کوشاں اور سرگرداں ہے۔ اس پْر فریب نعرہ نے کتنوں کو برباد کیا ہے اور کتنوں کو اپنے دام فریب میں پھنساکر ذلیل و خوار کیا  ہے اس کا شمار ممکن نہیں ہے۔ کتنی عفت مآب بیٹیوں کی چادر عصمت کو تار تار کیا ہے۔ کتنی صنف نازک اور پاکیزہ دوشیزاؤں کو رنگ محفل بنا کر متاع تعیش بنا دیا ہے۔ اس کی جانب دوڑنے والے ، اسے اپنا کر زندگی گزارنے والے، اس کی ترویج و اشاعت میں قربانی دینے والے ، اس کے حصول کی خاطر تحریکیں چلانے والے، اس کی بقا کے لئے تنظیمیں قائم کرنے والے اور اس میدان میں خود کو کامیاب و کامران تصور کرنے والے خود اس حقیقت سے نابلد ہے کہ آزادی کسے کہتے ہیں ۔ ہم جسے آزادی سمجھ رہے ہیں وہ ہماری اپنی پسند کی آزادی ہے یا دوسروں کی جانب سے ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ ہم اپنے خوابوں کی تکمیل کررہے ہیں یا پھر دوسروں کے سپنوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔

کسی قسم کی آزادی کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ آپ اپنے تسکین کی خاطر دوسروں کے جذبات کو مجروح کریں۔ آزادی کا یہ تصور  قطعا غلط ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزاری جائے۔ اگر فرد واحد کی آزادی سے دوسروں کو تکلیف ہونے لگے تو اسے شخصی آزادی کیسے کہا جاسکتا ہے۔ آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ آپ راہ چلتے مسافر کو پتھر اٹھا کر ماردیں اور اسے شخصی آزادی سے تعبیر کیا جائے۔ کسی باعزت اور باوقار شخصیت کے ساتھ بلا کسی عذر کے دشنام طرازی کے ساتھ پیش آیا جائے۔   

دنیا کے بیشتر جمہوری ممالک میں مختلف اقسام کی آزادی  شہریوں کو حاصل ہے۔ لیکن یہ آزادی مختلف قسم کے حدود و قیود کے ساتھ متصف ہے۔ جو آزادی مغربی ممالک میں پائی جاتی ہیں ان کا تصور مشرقی ممالک میں اب تک نہیں ہے۔ بعض مغربی ممالک بظاہر مکمل آزادئ اظہار رائے کی اجازت دیتے ہیں لیکن وہاں بھی بعض چیزوں کے متعلق سوال کرنے اور ان پر رائے زنی کرنے کو ناقابل معافی جرم گردانا جاتا ہے۔  امریکہ کے موجودہ صدر نے ایک صحافی کو وہائٹ ہاؤس سے صرف اس لئے باہر نکلوادیا کہ اس نے کچھ چبھتے ہوئے سوالات پوچھ لئے تھے۔ ایک ملک کا سربراہ جس کی مدت محض چار سال ہے وہ اپنے خلاف کوئی سوال جواب کے لئے تیار نہیں ہے۔ پھر ایسی آزادی کو مکمل آزادی کیسے کہا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ کسی کی کردار کشی کرے اور ان کے طریقہ زندگی پر زبان دراز کرے تو اسے آزادی اظہار رائے سے تعبیر کیا جائے گا۔  

ایک طاقت ور اور اعلی عہدو پر براجمان شخص اپنے سے کمزور اور دبے کچلے لوگوں کی بے عزتی کرے، ان کی تذلیل کرے، ان کی عزت نفس کو مجروح کرے، انہیں اپنی تسکین کی خاطر ذلیل و خوار کرے تو یہ اس کی آزادی ہے، کیونکہ اسے آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہے۔  لیکن وہ غریب اگر  حق بات بھی کہنے کی جرات کر جائے تو وہ ہتک عزت کی فہرست میں شمار کیا جائے گا۔ اکثریت اگر اقلیت کی کردار کشی کرے، ان کے مذہبی رسم و رواج کو تنقید کا نشانہ بنائے، ان کے طریقہ عبادت پر بھپتیاں کسے تو یہ آزادی ہے ، کیونکہ اسے آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہے۔ لیکن اقلیت اپنے دفاع میں اپنے دلائل پیش کرے تو وہ مخالف اور باغی ہیں۔ مغربی ممالک اگر دیگر ممالک کی فضاؤں پر اور وہاں کی معیشت پر تبصرہ کرے، ان کے شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک کرے، انہیں سر عام رسوا کرے تو یہ ان کی آزادی ہے، کیونکہ انہیں آزادی اظہار رائے کا حق ہے۔لیکن اگر کوئی مغرب پر تنقید کرے، ان کی تہذیب کو نشانہ بنائے تووہ غیر مہذب اور بد اخلاق ہے۔  مخصوص مذہب کے پیشوا کو، ان کے اصول و ضوابط کو، ان کے قواعد و قانون کو نشانہ بنایا جائے اور ان پر فقرے کسے تو یہ آزادی اظہار رائے ہے لیکن اگر ان بیہودگی کا ردعمل سامنے آئے اور ان خصائص رذیلہ کے خلاف احتجاجات درج کرائے جائیں تو یہ دقیانوسیت اور شدت پسندی ہے۔  اگرعورت ذات اپنی پسند کے نام پر بے حجابانہ زینت مجلس بنے تو یہ آزادی ہے، اگر عورت اپنی پسند کے نام پر اخلاق سوز لباس زیب تن کرےتو یہ آزادی ہے لیکن دوسرے معاشرہ میں عورت اگر اپنی پسند اور مرضی سے حجاب استعمال کرے، شرعی پردہ کا اہتمام کرے تو یہ عورت کی آزادی کے خلاف ہے؟ یہ دقیانوسیت اور حقوق تلفی ہے؟ آزادی اظہار رائے کا یہ معیار ہے ۔ یہ اصول و ضوابط اور آزادی کا یہ نعرہ وہ بلند کرتے ہیں جنہیں انسانی فطرت اور غیرت کا پاس و لحاظ نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بظاہر مہذب اور شائستہ نظر آتے ہیں لیکن ان کے قلوب اور ان کی ذہنیت غلاظت اور نفرت کا مسکن بنی ہوئی ہے۔ جو دیگر مذاہب اور کسی کی عزت نفس اور ان کے جذبات کو سمجھنے سے عاری ہو، ان کے اور صحرا و بیابان میں چرنے والے چرند و پرند اور جنگلات میں شب و روز گزارنے والے جانوروں میں کیسے تفریق کی جاسکتی ہے۔  ایسے شقی القلب اور نفرت میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے بنائے گئے خود ساختہ قانون کمزوروں اور غریبوں کیلئے کیسے بارآور ثابت ہوسکتے ہیں۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کےلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

فرانس میں جو کچھ پیش ٓیا اور جو وہاں سرکاری سطح پرجو کچھ  کیا جارہا ہے، کیا یہ آزادی اظہار رائے کے زمرہ میں شامل کیا جاسکتا ہے۔  کوئی بھی فرد واحد کس طرح کسی مذہبی راہنما کی تضحیک کرسکتا ہے۔ اور آزادئ اظہار رائے کے نام پر کسی کو کسی عظیم شخصیت کے خلاف زبان درازی اور نازیبا کلمات کے استعمال کی  کیسے اجازت دی جاسکتی ہے۔  ایک عام اور ادنی درجہ کا فرد بھی اپنے خلاف قابل تضحیک اور تمسخر آمیز تبصرے اور جملوں کو برداشت نہیں کرتا ہے، پھر مسلمانوں کے رسول و پیغمبر محمد ﷺ کی شان اقدس میں کس طرح گستاخی کو برداشت کیا جاسکتا ہے۔   ہر مذہب کے پیروکار اپنے مذہبی راہنما سے والہانہ تعلق رکھتے ہیں، یہ ایسا تعلق ہوتا ہے جس کیلئے تاویل اور شش و پنج کی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ اس مذہب کا بنیادی عقیدہ یہی ہوتا ہے کہ اس راہنما کے تشخص کو برقرار رکھا جائے۔ انسان کو اپنی جان سے زیادہ عزیز روئے زمین پر اور کوئی شے نہیں ہے لیکن روئے زمین کا ہر ہر مسلمان اپنی جان سے ہزاروں لاکھوں درجہ زیادہ  اپنے پیارے نبی محمد ﷺ کو عزیز رکھتا ہے۔  کیا دنیا میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا اور انہیں ذہنی اذیت میں مبتلا کرنا آزادی اظہار رائے کے زمرہ شامل کیا جاسکتا ہے۔ یہ کیسی آزادی ہے جس سے روئے زمین کا دوسرا سب سے بڑا مذہب اور اس کے متبعین کرب و بلا میں مبتلا ہوجائیں  اور ان کے قلبی کیفیت سے قطع نظر چند سر پھرے اوباش کی اوچھی اور ذلت آمیز حرکت کو آزادی کا نام دے دیا جائے۔  اگر آزادی اسی کا نام ہے اور آزادی اظہار رائے کا مطلب یہی ہے تو یہ یکطرفہ آزادی ہے اور اس سے چند لوگوں کو بظاہر سکون مل سکتا ہے لیکن  یہ دنیا کے دیگر افراد کی دل شکنی کا باعث بنے گا، اور جو چیز باعث تکلیف و اذیت ہو تو اسے آزادی نہیں بلکہ آزاری کہا جاتا ہے۔ موجودہ زمانہ کی آزادی  اظہار رائے کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ خوشنما لفظ‘‘  آزادی’’نہیں بلکہ در حقیقت ‘‘آزاری ’’ ہے۔

Related Posts

0 thoughts on “آزادئ اظہار رائے کے پسِ پردہ فرانس کی دریدہ دہنی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے