میں ایک ہنستی کھیلتی، اور مسکراتی معصوم سی پری تھی۔ اپنے اردگرد کے انسان نما درندوں سے بے خبر اپنی زندگی میں مگن اور خوش تھی۔ گھر کے کام کاج میں ماں کا ساتھ دینے والی ایک ذمہ دار اور فرمانبردار بیٹی تھی۔ اس بات سے لاعلم اور بے خبر کہ کچھ درندے میرا شکار کرنا چاہتے ہیں، میرے شب و روز گزرتے رہے اور یوں میری زندگی کے انیس سال گزر بیت گئے۔
سماجی اور معاشرتی اعتبار سے میرا تعلق ایک پسماندہ طبقہ سے تھا۔ اعلی طبقات سے تعلق رکھنے والے، اپنے آپ کو مہذب سمجھنے والے ہمیں انسان ہی تصور نہیں کرتے تھے، یہ کیسے لوگ تھے جنہیں انسان انسان نظر نہیں آتے تھے۔ حقیقت میں یہ انسانیت سے عاری لوگ تھے، ان کے اندر ہمدردی، رحمدلی نہیں تھی، اگر یہ انسان ہوتے تو دوسروں کی بیٹی کو اپنی بیٹی، دوسروں کی بہن کو اپنی بہن اور دوسروں کی ماں کو اپنی ماں سمجھتے، لیکن نہیں! مذہب پر ان کی اجارہ داری تھی لیکن مذہبیت نہیں تھی۔ وہ باتیں تو پوجا پاٹ اور تقدس کی کرتے تھے لیکن ان کے دلوں میں مقدس مقامات کا تقدس نہیں تھا۔ کرسی پر ان کا قبضہ تھا لیکن یہ کرسی بنی آدم کے خون سے رنگین تھی، ان کے چہرے سے سفاکیت جھلکتی تھی، وہ قانون کے رکھوالے تھے لیکن قانون بھی ان سے پناہ مانگتا تھا۔ وہ کہتے تھے بیٹی بچاؤ، لیکن حقیقت میں یہ نعرہ تھا کہ ہم جیسے درندوں سے ہم جیسے شکاریوں سے اپنی بیٹی بچاؤ، وہ کہتے تھے بیٹی پڑھاؤ تاکہ ہمارے لیے راستہ آسان ہو جائے۔ لیکن کیا کہا جائے، جب دل سیاہ ہو جائے اور ضمیر مردہ ہو جائے تو انسان کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوجاتا ہے۔
انہیں جیسے بھوکے درندوں نے میرا شکار کیا، میری عصمت کو تار تار کیا، میری عفت کے چادر کو چاک کیا، میرے نازک بدن کو نوچا، میری زبان کو کاٹ ڈالا تاکہ کچھ بول نہ سکوں، میں روتی رہی چلاتی رہی، درد و وحشت سے میرا جسم کانپتا رہا، زندگی سے موت کی بھیک مانگتی رہی؛ لیکن ان بھیڑیوں نے نہیں چھوڑا۔ مجھے خواب دیکھنے کا بہت شوق تھا؛ لیکن میرے خوابوں کا بندھن ٹوٹ چکا تھا، بہت کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن سب ختم ہو چکا تھا۔
میری ماں نے دیکھا، ہاں وہ ماں جس نے نو مہینے اپنے پیٹ میں رکھا، مصائب و آلام کو برداشت کیا، اور پیدائش کے بعد سے اب تک مجھے گڑیوں کی طرح پالا پوسا، جو ایک کانٹا چبھنے پر پریشان ہو جاتی تھی آج اس کلی کو ہی مسل دیا گیا تھا۔ اس ماں کی مسکراہٹیں غائب ہوگئی، اس کی آرزوئیں اور تمنائیں ختم ہوگئی، اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، اس کی تکلیف کو اس کے درد کو کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ میں بیہوش ہوگئی تھی لیکن ان درندوں کو پہچان لیا تھا، اس لیے کہ مجھے معلوم تھا کہ ان کو بچانے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی، میڈیا کا سہارا لےکر عوام کو بیوقوف بنایا جائے گا، مجھے انصاف دلانے کے لیے جو آوازیں اٹھیں گی انہیں لاٹھی کے زور پر دبایا جائے گا۔ مجھے اسپتال لے جایا گیا، میں بیہوش تھی، ہوش آیا تو سب سے پہلے ان وحشی درندوں کی نشاندھی کی، لیکن میرا آخری وقت آچکا تھا، اور میں اس دنیا سے چل بسی۔ لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ مرنے کے بعد میری لاش کے ساتھ بھی کھلواڑ کیا جائے گا، میرے انتم سسکار کا مذاق اڑایا جائے گا، میرے آخری دیدار کے لیے میری ماں کو تڑپا یا جائے گا، کیوں میری نعش کو میرے گھر والے کے سپرد نہیں کیا گیا؟ یہ کیسا قانون اور کیسا سسٹم تھا، یہاں تو قانون کے محافظ ہی قانون شکن تھے، وہ رات ہی میں میری ارتھی لے گیے ایک انجان جگہ پر، جہاں کوئی نہیں تھا میرے اپنوں میں سے، اور مجھے جلادیا گیا۔ یہ کیسا بھارت ہے، یہ وہ بھارت نہیں ہے جو کتابوں کے صفحات میں ہے، یہاں ہر آئے دن کوئی نہ کوئی دوشیزہ وحشی درندوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ یہاں اب کسی پر بھروسہ نہ کریں، یہاں سب کو سیاسی آقاؤں کی پشت پناہی حاصل ہے۔
انصاف کرنے والوں کے ہاتھوں میں ناانصافی کا تمغہ دیا جاچکا ہے۔ قانون کی حفاظت کرنے والے قانون شکن بن چکے ہیں۔ دستور کی قسمیں کھانے والے دستور کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے گدی حاصل کرنے والے، عوام کو روند رہے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے، جسے صوفی سنتوں کا دیش کہا جاتا ہے۔ جہاں گاندھی جی کو امن و آشتی کا دوسرا روپ سمجھا جاتا ہے۔ جہاں امبیڈکر کا بنایا قانون نافذ ہے۔ جہاں آزاد اور نہرو کو گنگا جمنی تہذیب کی میراث سمجھا جاتا ہے۔
ہمیں بیدار ہونا پڑے گا، اپنے لئے، اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے، غریبوں کیلئے، پسماندہ طبقات کیلئے، معصوموں کیلئے۔ ہمیں سینہ سپر ہونا ہوگا ان درندوں کے خلاف، جو قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں، جو قانون شکنی کرتے ہیں، جو خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ تاکہ ہم اس بھارت کو پھر سے دیکھ سکیں، جس کا خواب ہمارے اسلاف و اکابر نے دیکھا تھا۔ جس کا دستور بابا صاحب امبیڈکر نے بنایا تھا۔