اللہ کون ہے

مذہب اسلام میں خدا کا تصور بہت واضح اور عیاں ہے، کیونکہ مذہب اسلام  وحدانیت پر مبنی ہےاور توحید کے بغیر اس کا تصور ممکن نہیں ہے۔ مذہب اسلام میں خدا وہ ہے جس نے پوری کائنات کو پیدا کیا ہے، جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اس کے جیسا کوئی نہیں ہے۔ وہی زندگی عطا کرتا ہے اور موت دیتا ہے، اسی ذات کا نام اللہ ہے۔

اللہ تعالی کون ہے؟ کس ذات پر اللہ ہونے کا یقین کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں مذہب اسلام نے ایک اصول بیان کیا ہے، جو ان معیار پر مکمل اترے اور تمام صفات اس میں پائی جائے صرف اسی ذات کو اللہ کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ معبود تو وہی ذات ہوسکتی ہے جو سب سے الگ اور سب سے اعلی و ارفع ہو، وہ اپنی صفات میں سب سے جدا اور ممتاز ہو۔ عبادت کے لائق وہی ذات ہوسکتی ہے جو یکتا اور مالک دوجہاں ہو۔ اللہ تعالی کی ذات کے تعارف اور اس کو پہچان کے لئے چار آیات پر مشتمل قرآن میں ایک سورہ کا نزول فرمایا  گیاہے۔اس مختصر لیکن جامع ترین سورۃ میں اسی بات کو بتایا گیا ہے کہ خدا کی ذات وہ ہے جو ان معیار مکمل اتر جائے۔

چار آیت پر مشتمل قرآن مجید کی سورہ  "اخلاص "میں جو معیار بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے: "اے نبی کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے”۔ ایک سے مراد یہ ہے کہ کوئی دوسرا معبود یا خدا اس جہاں میں نہیں ہے۔ وہ تن تنہا پوری کائنات کا مالک و خالق اور رازق ہے۔ دنیاوی قاعدہ بھی یہی ہے کہ کسی بھی ملک یا ادارہ میں ایک ہی شخص سربراہ ہوتا ہے، اگر کئی افراد کو سربراہ بنادیا جائے تو پورا نظام معطل ہوجائے اور وہ سب باہم دست و گریباں ہوجائیں گے۔

دوسری آیت ہے: "اللہ بے نیاز ہے”۔ بے نیاز کا مطلب ہے کہ وہ اپنے امور کو انجام دینے میں کسی کا محتاج اور ضرورت مند نہیں ہے، وہ جب چاہتا ہے اور جو چاہتا ہے ایک کلمہ "کن” کے ذریعہ انجام دیتا ہے، لیکن پوری کائنات میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کا محتاج نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنے کام کو کرنے اور اپنی مراد کو پانے میں اس کا محتاج ہے۔ آسمان و زمین، چاند ستارے، انسان و جنات، صحرا و بیابان، بڑے بڑے فرشتے اور جاندار سب اپنے وجود کو باقی رکھنے اور اپنی زندگی جینے میں اللہ تعالی کے محتاج ہیں۔

تیسری آیت ہے: "نہ کسی کا باپ ہےنہ کسی کا بیٹا”۔ اللہ تعالی کی ذات تن تنہا ہے، بے نیاز ہے، نہ وہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹاہے۔ وہ نسل انسانی اور دیگر مخلوقات کی مانند توالد و تناسل کے سلسلہ سے پاک ہے۔ جب دنیا میں کچھ نہیں تھا تب بھی اس کی ذات تنہا موجود تھی اور جب دنیا سے سب کچھ فنا ہوجائے گا تب بھی اس کی ذات تنہا باقی رہے گی۔

چوتھی آیت ہے: "اور نہ کوئی اس کے برابر ہے”۔ مطلب یہ ہے کہ مخلوق میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کے کسی کام میں شریک ہو ، اس کا ہمسر یا اس کا ساجھی ہو۔وہ تن تنہا اس پوری کائنات کے نظام کو چلا رہا ہے اور اس کے چلانے میں وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔

 ان آیات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ تعالی کون ہے۔ اب دیکھئے اللہ تعالی خود اپنی صفات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "اللہ جو زندہ جاوید ہے، جو کائنات کے نظم کو تھامے ہوئے ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، نہ اس کو اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، زمین  اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اسی کا ہے، کون ہے جو اس کے سامنے اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرے، وہ اسے بھی جانتا ہے جو مخلوقات کے سامنے ہے اور اسے بھی جو ان سے اوجھل ہے، بندے اس کے علم کا ذرہ بھی احاطہ نہیں کرسکتے، سوائے ان باتوں کے علم کے جو خود اللہ دینا چاہے، اس (کے اقتدار) کی کرسی آسمانوں کو اور زمین کو گھیرے ہوئے ہے، زمین و آسمان کی حفاظت اس پر دشوار نہیں ہے اور وہ بلند و عظیم ذات ہے”۔

یہ اللہ تعالی کی وہ صفات ہیں جن کو پڑھنے اور سمجھنے کے بعد یقین ہوجاتا ہے کہ بے شک عبادت کے لائق وہی ہے۔ وہی ذات ہے جس کی عبادت کرنی چاہئے اور اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ اور مذہب اسلام میں خدا کی ذات کے  لئے وحدانیت بنیادی شرط ہے اس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی ہے۔

البتہ دنیا میں ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو اللہ تعالی کی جانب ایسی باتوں کو منسوب کرتے ہیں جو اس کی شان کے خلاف ہے، اور دیگر مخلوقات الہیہ میں سے بعض کو اللہ کا بیٹا یا اس کا شریک تصور کرتے ہیں، ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: "اور جب اللہ فرمائیں، اے مریم کے بیٹے عیسی! کیا تم نے لوگون سے کہا تھا کہ اللہ کے علاوہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا تسلیم کرو؟ تو عیسی جواب دیں گے: ‘آپ کی ذات پاک ہے، مجھ سے کیسے ہوسکتا ہے کہ میں ایسی بات کہوں جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں؟ اگر میں نے ایسا کہا ہوتا تو آپ کو معلوم ہوتا، آپ تو اس بات کو بھی جانتے ہیں ، جو میرے دل میں اور جو آپ کے دل میں ہے میں اسے نہیں جانتا، بے شک چھپی ہوئی باتوں کو بھی آپ خوب جانتے ہیں۔ میں نے ان کو اس کے سوا کچھ نہیں کہا، جس کا آپ نے حکم دیا تھا، کہ اللہ کی عبادت کرو، جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی، جب تک میں ان کے درمیان رہا، ان کی نگرانی کرتا رہا، پھر جب آپ نے مجھے اٹھالیا، تو پھر آپ ہی ان کے نگراں رہے اور آپ تو ہر چیز سے باخبر ہیں”۔ (سورہ مائدہ، 116-117)

دنیا میں ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو انسانوں کو معبود بنا لیتے ہیں، حتی کہ دنیا میں بسنے والے جاندار اور درخت وغیرہ میں بھی اپنے لئے معبود تلاش کرتے ہیں، فطرت سے متاثر یہ افراد بھول جاتے ہیں کہ یہ پوری کائنات اپنی تمام تر رعنائیوں سمیت کسی کی محتاج ہے۔ چاند، ستارے، سورج، آسمان و زمین اور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر مختار نہیں بلکہ مخلوق اور محکوم ہیں، یہ اپنے امور کی انجام دہی میں ذات واحد کے محتاج ہیں۔ انسان کو اللہ تعالی نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے، بحیثیت انسان کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ جو چیز اپنے وجود کو باقی رکھنے میں دوسروں کی محتاج ہو وہ معبود بن جائے، جن لوگوں کے متعلق معبود ہونے کا تصور دیا جاتا ہے ان کی زندگی بتاتی ہے کہ وہ کھانے، پینے، اٹھنے، بیٹھنے، چلنے پھرنے ہر چیز کے وہ محتاج رہے ہیں، جس نے خود محتاجی کی زندگی بسر کی ہو وہ دوسروں کے احتیاج کو کیسے پورا کرسکتا ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بہت انوکھے اور واضح مثال کے ساتھ اس بات کو بیان کیا ہے: "اے لوگو! (تمہارے لئے) مثال بیان کی جاتی ہے، اس کو غور کو سنو، اللہ کے سوا تم جن کی عبادت کرتے ہو، وہ اگر سارے کے سارے مل جائیں، تب بھی وہ ایک مکھی تک پیدا نہیں کرسکتے اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین لے تو وہ اس سے چھُڑا بھی نہیں سکتے، کتنا عاجز ہے طالب اور کتنا عاجز ہے مطلوب”۔ (سورہ حج، 73)۔ اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک ٹھرانا ایسا گناہ ہے جس کی کوئی معافی نہیں ہے۔ 

اگر آپ انگریزی پڑھنا اور جاننا چاہتے ہیں تو ہماری ویب سائٹ پر موجود انگریزی گرامر سے استفادہ کے لئے درج ذیل لنک پر کلک کریں:

انگریزی زبان کے تمام اسباق

Related Posts

One thought on “اللہ کون ہے

  1. ماشاءاللہ بہت خوب اللہ پاک آپ کی کاوشوں کو بارگاہِ الٰہی میں قبولیت سے نوازے اور مزید ارتقاء کے مراحل ومنازل طے کراۓ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے