اسلام میں عفت و عصمت کا مقام
موجودہ دور کی چند ایک بڑی بیماریاں جنہوں نے معاشرہ کی اصطلاح کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ ان اصطلاحات کی تبدیلی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اچھائی بُرائی بن گئی اور جسے صدیوں سے بُرائی سمجھاتا جاتا تھا اس کا شمار اچھائی میں ہونے لگا ہے۔ جدت پسندی ، آزادی ، مساوات اور نت نئی اصطلاحات کو بنیاد بنا کر موجودہ نوجوان نسل ایسے امور میں مشغول ہوجاتی ہے جن کا تصور مہذب سماج میں نہیں کیا جاسکتا تھا، لیکن اب وہ معاشرہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان امور پر انگشت نمائی کرنا اور ان کے خلاف بولنا دقیانوسیت اور قدامت پسندی کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔ اس نئی تہذیب اور جدت پسندی کی تیز و تند آندھی نے جہاں بہت کچھ برباد کیا ہے وہیں اس نے صنف نازک کی سب سے قیمتی متاع حیات "عفت و عصمت” کو سر عام نیلام کردیا ہے۔ عفت و عصمت جو عورت کا سب سے قیمتی زیور تھا اب وہ فطری تقاضوں کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ عفت و عصمت جو عورت کے لئے نشان امتیاز تھا اب وہ اپنی حیثیت عورت کی ہی نظر میں کھو چکا ہے۔
![]() |
| عفت و عصمت |
ایک زمانہ تھا جب ناچنے اور گانے والیوں اور والوں کو معاشرہ کا ناسور سمجھا جاتا تھا۔ ان کی کوٹھیاں ضرور آباد ہوا کرتی تھی، ان کی طرز زندگی ضرور شاہانہ اور لباس فاخرانہ ہوا کرتے تھے، ان کوٹھیوں کے ارد گرد بھٹکنے والوں میں صاحب حیثیت اور مال و دولت والے بھی ہوتے تھے، لیکن معاشرہ اور سماج میں ان کی حیثیت کا یہ عالم تھا کہ کوئی بھی ان کے گھروں میں شادی بیاہ اور رشتہ داری کرنے کو تیار نہیں ہوا کرتا تھا۔ ایسا صرف اس لئے تھا، کیونکہ وہ جس پیشہ سے وابستہ تھے وہ پیشہ ہی مہذب سماج کی ظاہری دنیا میں نا قابل قبول تھا۔ اس پیشہ کی بُرائی کس و ناکس پر عیاں تھی اور اس پیشہ سے وابستہ افراد اس بات کا برملا اعتراف کرتے تھے کہ ہمارا پیشہ معاشرہ کی تہذیب و ثقافت پر ایک بد نما داغ ہے۔عفت و عصمت نام کی کسی شے کا ان کوٹھیوں میں کوئی تصور نہیں تھا، لیکن زمانہ نے کروٹ لی، حالات نے اپنا رخ موڑا ، گردش ایام نے پلٹا کھایا اور پھر سماج کا تانا بانا مکمل طور پر بدل گیا۔ سماج اور معاشرہ میں اصطلاحات بدل گئیں۔ لوگوں کے سوچنے اور سمجھنے کا زاویہ بدل گیا۔ اور معاشرہ کی گندگی معاشرہ کی تہذیب بن گئی۔ عیب کو فن اور تعلیم کا درجہ ملا، اس کے لئے باضابطہ ادارے قائم ہوئے، ماہرین کی خدمات لی گئیں اور پھر شریف گھرانوں کی بیٹیوں کے لئے اس فن میں درک حاصل کرنا باعث افتخار بن گیا۔
جب معاشرہ کی بہو بیٹیوں کے قدم گھروں کی دہلیز سے باہر جانے لگے، فیشن او ر فن کے نام پر غیروں سے بے محابا اختلاط عام ہوا، جسمانی حرکات و سکنات کے مختلف زاویے غیروں کے اشاروں پر بدلنے لگے تو سب سے پہلے شرم وحیا کا "بُت” مسمار ہوا، ہنسی مذاق اور دل لگی کی محفلیں جمنے لگی، اپنے پرائے اور پرایوں سے آشنائی پیدا ہوگئی تو وہ ساری خصلتیں اور عادتیں جو قمار خانے اور قحبہ خانوں کی عورتوں میں پائے جاتے تھے، ان شریف زادیوں میں سماگئے۔ ان کے درمیان جو ایک دوری اور کھائی تھی، اسے اس فن کے نام پر پاٹ دیا گیا۔ عفت و عصمت کی دو شالہ اتار کر پھینک دی گئی ۔کل تک جنہیں معاشرہ کا ناسور سمجھا جاتا تھا اب وہ معاشرہ کی شان اور معاشرہ کی پہچان بن گئے تھے۔
اس نئی تہذیب و ثقافت کی تبدیلی سے دنیا میں موجود قدیم تہذیب و ثقافت ہی نہیں بلکہ مذاہب بھی اثر انداز ہوئے ہیں۔ ان مذاہب کی تعریف بدل دی گئی اور ان مذاہب کے ماننے والوں نے حالات کے دھارے پر اپنی مذہبی شناخت کو از سر نو ترتیب دے دیا۔ عفت و عصمت نامی زیور جو ہمیشہ سے ہر تہذیب اور مذہب کی خواتین کے لئے طرہ امتیاز تھا، اسے جدت پسندی کے نام پر اتار پھینکا گیا ایسے میں یہ ممکن نہیں تھا کہ کثیر مذاہب والے اس سماج میں مذہب اسلام کے ماننے والے محفوظ رہ جاتے۔ اس بیماری نے بے شمار مسلم گھرانوں کو اپنی زد میں لے لیا۔ لیکن جہاں تک بات مذہب کی ہے تو مذہب اسلام چند افسانوی اور اساطیری کہانیوں کے مجموعے کا نام نہیں ہے، جو وقت اور حالات کے بدلنے سے بدل جائے ۔ یہ ایک مکمل دستور حیات ہے جو اپنے ماننے والوں کو ہر زمانہ میں اور ہر حال میں سیدھے راہ کی جانب راہنمائی کرتا ہے۔ یہ انسانوں کا وضع کردہ قانون نہیں ہے بلکہ یہ اس رب ذو الجلال کا عطا کردہ ہے جس نے انسان کی تخلیق کی ہے۔ اسلام نے تمام شعبہ ہائے حیات کے لئے اصول متعین کئے ہیں، اگر کوئی کام یا کوئی تحریک ان اصول و ضوابط کے دائرہ میں آتی ہے تو قابل قبول ہے لیکن اگر وہ تحریک ان اصول و ضوابط کے دائرہ سے باہر ہے تو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ اب اگر ہم موجودہ دور میں رائج فن رقص و سرود کو مذہب اسلام کے اصول پر پرکھ کر دیکھیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ رقص وسرود ہر حالت میں فعل قبیح اور ناجانائر و حرام ہے، چاہے اسے سر عام انجام دیا جائے یا پھر اس کا نام بدل کر اسے فن بنا دیا جائے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: "و من الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم، و یتخذھا ھزوا، اُو لئک لھم عذاب الیم”۔ اور بعض لوگ (اللہ سے) غافل کردینے والی باتیں خریدتے ہیں، تاکہ بغیر سمجھے بوجھے اللہ کے راستہ سے ہٹادیں اور اس کا مذاق اڑآئیں، ایسے ہی لوگوں کےلئے رسوا کن عذاب ہے۔ مذکورہ آیت میں "لھو الحدیث” کے ضمن میں” وہ تمام طریقے جو انسان کو غفلت میں ڈال دینے والے اور خواہش پرستی کی طرف لے جانے والے ہوں، سب اس میں شامل ہیں، خواہ یہ گانے بجانے کی شکل میں ہو، جھوٹی کہانیوں، فرضی افسانوں اور ناولوں کی شکل میں ہو، یا ڈراموں اور نفسانی جذبات کو اکسانے والی فلموں، عشقیہ اشعار یا فحش لطائف کی شکل میں یہ تمام باتیں اور ان کے لئے منعقد کی جانے والی مجلسیں اور ان کے لئے مختص درس گاہیں سب اس آیت کے ضمن میں شامل ہیں۔ اسی طرح جو حکم گانے بجانے کا ہے وہی حکم ان آلات کا ہے جو گانے بجانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں”۔(آسان تفسیر، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)۔
اسلام میں عفت و عصمت کی اہمیت
غیر محرم سے اختلاط اور میل جول خواہ وہ کسی وجہ سے ہو اس کی اجازت نہیں ہے، اس باب میں ایک مثل مشہور ہے: اگر تعلیم دینے والا بایزید بسطامی ہو، جس کو تعلیم دی جائے وہ رابعہ بصریہ ہو، مقام بیت اللہ ہو اور کتاب کلام اللہ ہو تو بھی اس بات کی اجازت نہیں ہے۔ مذہب اسلام نے عفت و عصمت کی پاکیزگی اور اس کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لئے ایسے اصول وضع کردیئے ہیں کہ ان کی پاسداری میں بے حیائی کا تقریبا سد باب ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: "ولا تقربو الزنی انہ کان فاحشۃ، وساء سبیلا”۔ اور زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو، یقینا یہ بڑی بے حیائی کی بات ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔ اس آیت میں زنا کی شناعت بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ ایسے امور کے قریب بھی نہ جاؤ جو زنا کی جانب لے جانے والے ہیں، عریانیت، مرد وعورت کا اختلاط، غیر مرد کے ساتھ تنہائی، پارٹی یا فیشن کے نام پر غیروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ، فطری تقاضوں کے نام پر عفت و عصمت کا سودا غرضیکہ ہر وہ کام جو زنا کے لئے راہ ہموار کرے وہ اس آیت کے ضمن میں شامل ہیں۔ زنا کے بے شمار مفاسد میں سے ایک یہ ہے کہ عورت اپنا تقدس کھو دیتی ہے، ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کی حیثیت سے جو اسے احترام اور عزت ملی ہوئی ہے وہ سب خاک میں مل جاتی ہے، بسا اوقات یہ مرض ایسے فتنہ و فساد کا موجب بن جاتا ہے جو قتل و خون پر جاکر اختتام کو پہنچتا ہے۔ آئے دن اس طرح کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں لیکن جدت پسندی کے دلدادہ افراد اس سے اس قدر لذت آشنائی حاصل کر چکے ہیں کہ تمام تر خرابیوں کے باوجود اس کھائی میں گرے ہوئے ہیں۔ زنا کا آخرت میں جو عذاب ہوگا وہ تو الگ ہے جسے حدیث معراج میں آپ ﷺ نے بیان کیا ہے۔
اسلام کا نظام عفت و عصمت
ایک طویل روایت میں ہے کہ ایک نوجوان آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ ﷺ سے زنا کی اجازت مانگی، آپ ﷺ نے اس نوجوان کو سمجھایا کہ دنیا میں کوئی عورت ایسی نہیں ہے جو کسی کی ماں، بہن، بیٹی، بیوی، پھوپھی وغیرہ نہ ہو۔ کیا تم اپنی رشتہ دار عورتوں کے لئے زنا کو برداشت کرسکوگے۔ اس نوجوان نے کہا نہیں ۔ پھر آپ ﷺ نے اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ دعا کی : "اللھم اغفر ذنبہ و طھر قلبہ و حصن فرجہ”۔ اے اللہ اس کے گناہ بخش دے، اس کے قلب کو پاک صاف کردے اور اس کے شرم گاہ کی حفاظت فرما۔ آپ ﷺ جب عورتوں سے بیعت لیا کرتے تھے تو ان سے اس بات کا عہد لیا کرتے تھے”ولا یزنین ولا یقتلن اولادھن ولا یاتین ببھتان”۔ وہ بدکاری نہیں کریں گی، اپنی اولادوں کو قتل نہیں کریں گی اور افترا نہیں باندھیں گی۔ مذہب اسلام میں عفت و عصمت کی حیثیت یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ جب عورتوں سے بیعت لے رہے ہیں تو ان سے عفت و عصمت کی حفاظت پر بھی بیعت لے رہے ہیں۔ "اسلام کا نظام عفت و عصمت ” اس نام سے مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحی (سابق مفتی دارالعلوم دیوبند) کی معرکۃ الاراء تصنیف ہے، اس کتاب کا مطالعہ نہایت مفید اور بار آور ثابت ہوگا۔
نگاہوں کی حفاظت
مذہب اسلام نے عصمت و عفت کی حفاظت کی خاطر مرد و عورت دونوں کو بارہا مختلف طریقوں سے متنبہ کیا ہے۔اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: "قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم و یحفظوا فروجھم، ذلک ازکی لھم”۔ آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی آنکھوں کو نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے صاف ستھرا طریقہ ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالٰی نے مردوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچے رکھے، کیونکہ جب آنکھ خطا کرتی ہے تو اس کے اثرات دل پر مرتب ہوتے ہیں اور پھر انسان ایسے گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے ، جس کی وجہ سے اس کی عزت و شرافت ہی نہیں بلکہ بسا اوقات اس کا ایمان بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: "و قل للمؤمنت یغضضن من ابصارھن و یحفظن فروجھن ولا یبدین زینتھن "۔ اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نظریں نیچی رکھیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کریں۔
صرف یہ دو آیتیں نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث میں عفت و عصمت کے تحفظ کو باقی رکھنے کے لئے اور ان کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لئے مختلف طرح سے احکامات بیان کئے گئے ہیں۔ مذہب اسلام میں پردہ کو جو حیثیت حاصل ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ انسان اپنی عفت و عصمت کو بحال رکھیں(پردہ کی شرعی حیثیت کو جاننے کے لئے لنک پر کلک کریں)۔ عفت و عصمت انسان کا وہ زیور ہے جس کی بقا پر انسان کی شرافت کا دار و مدار ہے۔ اگر انسان کی فطرت عفت و عصمت سے عاری ہوجائے تو ان میں بے حیائی اس درجہ سما جاتی ہے کہ پھر ان میں اور جانوروں میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا ہے۔ جس طرح جانوروں میں عفت و عصمت کا کوئی تصور نہیں ہے اسی طرح یہ لوگ بھی عفت و عصمت کے تصور سے کوسوں دور ہوجاتے ہیں۔
بد نظری کے نقصانات
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "النظرۃ سہم من سہام ابلیس، من ترکھا من مخافتی ابدلتہ ایمانا یجد حلاوتہ فی قلبہ”۔ نظر شیطان کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جو اسے میرے خوف سے چھوڑ دے، تو میں اس کے عوض اسے ایسا ایمان عطا کروں گا جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ بد نظری کا حاصل یہ ہے کہ آدمی غیر محرم کی جانب غلط نظروں سے دیکھے۔ بد نظری کے بے شمار نقصانات ہیں، بد نظری انسان کے قلوب کو پراگندہ کردیتی ہے اور پھر انسان عبادتوں کی لذت سے محروم ہوجاتا ہے۔ بد نظری کی وجہ سے انسان کے دل میں مختلف قسم کے وساوس پیدا ہوتے ہیں، بسا اوقات یہ خیالی تصورات انسان کو حقیقی زندگی میں غلاظت کے ڈھیر میں دھکیل دیتے ہیں۔ بد نظری میں ملوث افراد کے دلوں سے عفت و عصمت کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ دل کی پاکیزگی اور عبادات کی لذت کے لئے ضروری ہے کہ بد نظری سے مکمل اجتناب کیا جائے، اور اللہ رب العزت سے ہمیشہ خیر کی دعا مانگی جائے۔

Masha Allah bahut behtrin mzmun h
Thanks
Masha Allah Hazrat bahut jaroori thha aise mazameen ki kun ki aisa hi chal raha hai
بہت بہترین مضمون ہے
ماشاءاللہ
آپ نے عفت و پاکدامنی اور عصمت کی حقیقت واضح طور بیان کیا ہے۔
جزاکم اللہ خیرا کثیرا کثیرا
شکریہ مفتی صاحب