"دنیا میں لاکھوں کتابیں ہر زبان میں لکھی گئی ہوں گی لیکن اگر یہ شرط لگادی جائے کہ ان میں کتاب اسی کو کہا جائے گا جس میں بدیع (اوریجنل) خیالات اور نئی تحقیقات ہوں تو شاید اتنے بڑے ڈھیر میں ہر زبان میں چند ہی کتابیں کتاب کہلانے کی مستحق ہوں گی، ان ہی میں سے عربی زبان کی یہ کتاب مقدمہ ابن خلدون ہے۔

مقدمہ ابن خلدون درحقیقت اس کے زمانہ تصنیف تک کے انسانی علوم اور خیالات پر سب سے پہلا تبصرہ اور تاریخ کے واقعات کو سائنس بنانے کی سب سے پہلی کوشش اور اقتصاد (اکانومی) اور اجتماع (سوشیالوجی) پر ایک فن کی حیثیت سے سب سے پہلی انسانی نگاہ ہے”۔ (علامہ سید سلیمان ندوی)                     

"ابن خلدون اکثر سلطنت کو فرد کے ساتھ تشبیہ دیتا ہے، سلطنت بھی ایک انسان کی طرح پیدا ہوتی ہے، بڑھتی ہے اور مرجاتی ہے  اور اس کی زندگی کے لئے بھی انسان کی زندگی کی طرح حدود معین ہیں، ان کے علاوہ سلطنت کی زندگی کے تغیرات بھی بعینہ وہی ہیں جو شخصی زندگی کے ہیں۔ اس کے بچپن کا زمانہ وہ ہے جب اس میں سادگی پائی جاتی ہے، اس کے اخلاق میں خشونت ہوتی ہے اور اس کی ضروریات کم ہوتی ہیں۔ اس کے شباب کا زمانہ وہ ہوتا ہے، جب اس کی ترقی یافتہ قوتیں اس میں فاتحانہ جذبہ پیدا کرتی ہیں اور جب اس کے تمام حالات میں تدبر کی شان پیدا ہوجاتی ہے، اس کے دل میں نئے نئے حوصلے پیدا ہوتے ہیں تو اس میں پختگی آجاتی ہے، پھر اس کے بعد اس کے زوال کا زمانہ شروع ہوجاتا ہے”۔

تاریخ انسانی کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات روزروشن کی مانند عیاں نظر آتی ہے کہ اس روئے زمین پر بڑے بڑے نامورحکمراں اور تاجدار گزرے ہیں جنہوں نے مشرق و مغرب کو زیر کرکے اپنے رعب و دبدبہ کو قائم کیا  اور اپنی حکومت کی بساط بچھائی ہے۔  ایسی ایسی حکومتیں قائم ہوئی ہیں جہاں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ ان کی شان و شوکت اور کروفر کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ کبھی انہیں بھی زوال آسکتا ہےلیکن جب گردش ایام نے انہیں اپنے شکنجوں میں جکڑا ہے  اور ان کی کایا پلٹ ہوئی ہے تو ماضی میں جگمگانے والے آج تاریکی کے سمندر میں کہیں گم ہوگئے ہیں۔

اگر  زمامِ حکومت کے ساتھ عدل و انصاف، اخوت و بھائی چارگی، فلاح و بہبود اور رخلقِ خدا کی خوشحالی و دلجوئی کو مقدم رکھا جائے تو حکومت کا عہدِ شباب طویل بھی ہوسکتاہے اور ایسی مثالیں تاریخ عالم میں موجود ہے۔ لیکن اگر ظلم و جور، فتنہ و فساد، لوٹ مار، قتل و غارت گری، ظالموں کی حمایت اور مظلوموں سے کنارہ کشی اور خلقِ خدا کے ساتھ ناانصافی کو روا رکھا جائے تو ایسی حکومت کا زوال جلد شروع ہوجاتا ہے، اور ایسے حکمراں بعد والوں کے لئے عبرت بنا دیئے جاتے ہیں۔ 

Related Posts

0 thoughts on “ابن خلدون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے