آخر ہنگامہ ہے کیوں برپا

پانچ اگست کا دن آیا اور ہر دن کی طرح یہ بھی چوبیس گھنٹوں میں اختتام کو پہنچ گیا۔ لیکن اس چوبیس گھنٹے کے درمیان جو کچھ ہمارے ملک میں پیش آیا وہ ایک اعتبار سے حیرت انگیز تھا اور دوسرے اعتبار سے بالکل توقع کے عین مطابق تھا۔ 

2019 پانچ اگست کو کشمیر سے دفعہ 370 کو ختم کیا گیا تھا، اس وقت میڈیا نے کشمیریوں کیلئے بے شمار فوائد اور سرکاری مراعات کے نئے سوغات کی تشہیر کی تھی، ایسے موقع پر ہونا یہ چاہیے تھا کہ گزشتہ ایک سال کی کارکردگی کو دیکھا جاتا، عوامی خیالات سے دنیا کو واقف کرایا جاتا اور ان کے لئے کئے گئے ترقیاتی کاموں کو بیان کیا جاتا، میڈیا ان کاموں کیلئے ماہرین کی جماعت کے ساتھ ڈیبیٹ کرتا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، بلکہ پورے ملک میں ایسی فضا بنائی گئی کہ لوگ بھول گئے، کیونکہ ہم لوگوں کو بھولنے کی عادت ہے۔ 

اس کرونا وائرس کی مہا ماری کے دوران اچانک مندر کی بنیاد رکھی گئی اور بنیاد جمہوری ملک کے وزیراعظم نے ایسی زمین پر رکھا جسے سپریم کورٹ نے بھی تسلیم کیا کہ یہاں مسجد تھی، یہ اور بات ہے کہ اس کے باوجود فیصلہ مسجد کے حق میں نہیں آیا، کیوں نہیں آیا اس سے سب لوگ واقف ہیں۔ 

بابری مسجد کیلئے مسلمانوں نے آخری دم تک عدالتی نظام کے تحت قانونی کارروائی کی ہے۔ لیکن جب انصاف کے مندر میں منصف ناانصافی کر بیٹھے تو مظلومین کو انصاف کی توقع رکھنا فضول ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے منصوبوں پر از سر نو غور کریں، ان وجوہات کو تلاش کریں جن کی بنیاد پر ہم میں کمی رہ گئی ہے۔ تاکہ مستقبل میں ہم اپنی شناخت بحیثیت مسلم قوم اپنے ملک میں بحال رکھ سکیں، نیز اپنے شعائر اور اپنی عبادت گاہوں کا تحفظ کرسکیں۔ کامیابی ماضی کی ناکامیوں پر آنسو بہانے یا کامیابی پر شادیانے بجانے سے نہیں ملتی ہے بلکہ حال میں مستقبل کیلئے ٹھوس اور مضبوط لائحہ عمل بنانے اور اس پر عمل کرنے سے نصیب ہوتی ہے۔ 

گردش دوراں اور زمانے کی رفتار نے قوموں کی ترقی اور خوشحالی کے اسباب و عوامل کو بدل دیا ہے۔ اب قبائلی یا مذہبی رشتے اپنا تقدس کھو چکے ہیں اب سرحدی بندش نے سرحد کی حدود میں رہنے والے افراد کو ایک دوسرے کا بھائی اور ہم وطن بنا دیا ہے۔ لہذا اب ترقی کا پیمانہ اور معیار تعلیم میں پنہاں ہے۔ جس قوم کے افراد تعلیم یافتہ اور بہترین تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہیں وہ قوم اتنی ہی زیادہ ترقی یافتہ اور مہذب تصور کی جاتی ہے۔ تعلیمی منظر نامے پر اگر غور کیا جائے تو ہندوستانی مسلمانوں کا کوئی خاص شمار نہیں ہے۔ کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جس میں آبادی اور تناسب کے لحاظ سے مسلمانوں کی نمائندگی ہو۔ سماجی طور پر ملک میں کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جس میں مسلم قوم کی مجموعی کارکردگی قابلِ ذکر ہو۔ انفرادی طور پر کچھ نام ضرور ہے لیکن ان کے سہارے پوری قوم کو ترقی یافتہ یا تعلیم یافتہ تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 

اب ہمیں سوچنا ہوگا، سمجھنا ہوگا اور مستقبل کیلئے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا تاکہ ہم مجموعی طور پر بحیثیت قوم ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ بن سکیں۔ نئے قابلِ ذکر تعلیمی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں قوم کے نونہالوں کو تعلیم سمیت اسلامی تربیت سے آراستہ کیا جاسکے۔ تمام شعبوں میں آبادی کے تناسب کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی شمولیت کیلئے جد وجہد اور سعی کی جائے۔ سرکاری سطح پر نوکری کے حصول کی کوشش کی جائے۔ 

اب محض الزام تراشی اور اپنی ناکامی چھپانے کیلئے دوسروں کو کوسنے کا وقت ختم ہوگیا ہے۔ اب ہمیں اپنے منصوبوں کیلئے اپنے لوگوں پر اعتماد کرنا ہوگا۔ ایک دوسرے کی کمی کوتاہی کو برداشت کرتے ہوئے قوم کے مستقبل کیلئے باہمی میل جول اور اتحاد و اتفاق کو فروغ دینا ہوگا تاکہ پھر سے ہم پر ظلم کی یہ داستان اور ناانصافی کا یہ قصہ ہمارے ساتھ دوہرایا نہ جاسکے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے