آخرت کیا ہے

دنیا میں جتنے مذاہب پائے جاتے ہیں سب میں اچھائی اور برائی کا تصور موجود  ہے، ہر مذہب میں اچھائی کرنے والے کو اچھا سمجھا جاتا ہے اور برائی کرنے والے کو برا سمجھا جاتا ہے۔ نیک اور بھلے لوگوں کی دنیا تعریف کرتی ہے جب کہ بُرے اور ظلم کرنے والے دوسروں کی آہ و بکا اور ان کی چیخ و پکار کے درمیان زندگی گزارتے ہیں۔ قلبی سکون جو بھلائی اور انسانیت کا کام کرنے والے کو میسر ہے اس لذت سے دوسرے لوگ ناواقف اور نابلد ہوتے ہیں۔ ان اچھائی اور بُرائی کے درمیان تمام انسانوں میں ایک بات مشترک ہے کہ وہ اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ جو اس دنیا میں کمزوروں پر ظلم کرے گا، دوسروں کا مال غصب کرے گا، یتیموں اور بیواؤں کو تکلیف سے دوچار کرے گا اور خدا کی دی ہوئی نعمت کا غلط استعمال کرے گا تو اس جہاں میں نہ سہی اگلے جہاں میں اس کا حساب ضرور ہوگا، اس کے ظلم و ستم کا ضرور حساب لیا جائے گا، اسی طرح جو لوگ نیک کام کرتے ہیں، دوسروں کی مدد کرتے ہیں، پیاسوں کو پانی پلاتے ہیں، انصاف کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، کسی کا ناحق خون نہیں بہاتے ہیں، دیگر تمام انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں تو اگلے جہاں میں ان کو انعام دیا جائے گا۔ یہ باتیں تقریبا تمام مذاہب میں مشترک ہیں، لیکن اس سلسلہ میں مذہب اسلام کیا کہتا ہے اور اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟

مذہب اسلام کا تصور یہ ہے کہ دنیا دارالعمل ہے، یعنی ایک امتحان گاہ اور آزمائش کی جگہ ہے۔ یہاں جو کچھ بھی انسان کرتا ہے خواہ وہ اچھائی ہو یا برائی سب کچھ محفوظ کیا جاتا ہے۔ (جس طرح موجودہ دور میں سی سی ٹی وی کیمرہ اور دیگر نئی ٹیکنالوجی کے ذریعہ انسانی حرکات و سکنات کو محفوظ کیا جاتا ہے) اللہ تعالی کا اپنا نظام ہے، اس کے فرشتے اس کام کے لئے مقرر ہیں، جو ہر انسان کی ہر بات اور ہر عمل کو ریکارڈ کرتے ہیں۔ دن کی روشنی میں انجام دیا گیا کام ہو یا پھر رات کی تاریکی میں کچھ بھی اللہ تعالی سے پوشیدہ اور مخفی نہیں رہتا ہے۔ نہ کوئی چھوٹا گناہ چھوڑا جائے گا اور نہ کوئی بڑا گناہ ، تمام کو مکمل طور پر بغیر کم و کاست کے انسان کے سامنے پیش کیا جائے گا اور جب وہ اپنے اعمال کو دیکھے گا تو اسے محسوس ہوگا کہ یہاں تو سب کچھ محفوظ ہے کچھ بھی نہیں چھوڑا گیا ہے۔ اس دنیا میں جن باتوں کو وہ مذاق سمجھتا ہے یا خلاف عقل تصور کرتا ہے وہ تمام باتیں اس دن اس کے سامنے ہوں گی تب اسے احساس ہوگا کہ اس سے کتنی بڑی غلطی ہوئی ہے، لیکن افسوس کہ اس وقت کی ندامت اس کے کام نہیں آئے گی۔

اسلام کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن تمام انسانوں اور دیگر مخلوقات کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا، انسان و جنات کے علاوہ دیگر تمام مخلوقات جنہیں اللہ تعالی نے مکلف بناکر پیدا نہیں کیا ہے، ان کا بھی حساب و کتاب ہوگا، اگر کسی سینگ والی بکری نے بغیر سینگ والی بکری کو مارا ہوگا تو اس کا حساب لیا جائے گا ۔ لیکن انسانوں کا معاملہ برعکس ہوگا۔ تمام انسانوں کو اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے، اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ زندگی کس کام میں گزاری، پیسہ کتنے اور کہاں سے کمائے، جوانی کس کام میں لگائی اور اللہ کی نعمتوں کا کیسے استعمال کیا۔ ان سارے سوالوں کا جواب اللہ تعالی کے سامنے ہر انسان کو دینا ہے۔ اگر کسی نے کسی کے ساتھ کوئی ظلم کیا ہے تو اسے اس کے ظلم کا بدلہ دیا جائے گا۔ ہر مظلوم کی دادرسی کی جائے گی، کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی اور ہر کسی کے عمل کو تول کر اور وزن کرکے اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔ جو اچھے اور نیک لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں اللہ تعالی کے احکامات کو مانا ہے، اس کے پیغامات پر عمل کیا ہے، کمزوروں کی دادرسی کی ہے، انسانیت کی فلاح و بہبود اور اخوت و بھائی چارگی کے لئے کام کیا ہے، ان تمام لوگوں کو اللہ کی جانب سے انعام دیا جائے گا۔ انہیں اللہ تعالی نعمتوں سے نوازیں گے اور سب سے بڑا انعام یہ ہوگا کہ انہیں اللہ تعالی کا دیدار حاصل ہوگا۔ لیکن جو بُرے لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالی کے پیغام کو جھٹلایا ہے، زمین میں فتنہ و فساد پھیلایا ہے، دوسروں کا حق چھینا ہے، کمزوروں کو ستایا ہے، ایسے تمام لوگوں سے اللہ ناراض ہوگا، انہیں ان کے بُرے کام اور دوسروں پر ظلم و ستم کرنے کی وجہ سے سزا دی جائے گی۔ جن سے اللہ تعالی خوش ہوں گے اور انہیں اپنی رضا سے سرفراز فرمائیں گے انہیں عمدہ مکانات، باغات اور بہترین سامان زندگی سے نوازیں گے اور اسی کو مذہب اسلام میں جنت کہا جاتا ہے۔ جبکہ وہ لوگ جن سے اللہ ناراض ہوں گے، انہیں سزائیں دی جائیں گی، ان پر طرح طرح کا عذاب مسلط کیا جائے گا  اور اس جگہ اور عذاب کو مذہب اسلام میں جہنم کہتے ہیں۔

 

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے