یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
اسجد عقابی
موجودہ وقت میں عالم اسلام میں جن چیزوں کا فقدان ہے ان میں ایک کتابوں سے عشق بھی ہے۔ حالانکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ علم کو خواص سے نکال کر عوام کے درمیان متعارف کرانے کا کام مسلمانوں نے کیا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں مغربی مفکرین اور مصلحین نے تحریکات کے ذریعے ان بنیادی حقوق کو حاصل کئے ہیں جو ساتویں صدی عیسوی میں مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو عنایت فرمایا تھا۔ بغداد، مصر، اندلس (موجودہ اسپین)، بخارا، سمرقند، نیشاپور اور دیگر اسلامی مقامات صدیوں بعد بھی مسلمانوں کی عظمت رفتہ اور علمی کارناموں سے جگمگا رہے ہیں۔ مسلمانوں کا یہ دور تھا جب گھروں میں درہم و دینار سے زیادہ کتابیں باعث فخر ہوا کرتی تھی۔ کثرتِ مطالعہ اور حصول علم کا ایسا ذوق و شوق پایا جاتا تھا کہ مسلمانوں کی بستیاں تشنگانِ علوم سے آراستہ رہا کرتی تھی۔ مسلمانوں کی ایجادات و اختراعات اور نئے علوم کی جستجو و تلاش نے ابن خلدون، ابن رشد، ابن نفیس، ابن سینا، جابر بن حیان اور خیام جیسے بے شمار افراد دنیا کو دیئے ہیں جن کے احسانات سے علمی دنیا کبھی منھ نہیں موڑ سکتی ہے۔
لیکن آج اسی مسلم قوم اور مسلمانوں کو کم علمی اور جہالت کا طعنہ دیا جارہا ہے، حقیقت کا مظاہرہ کیا جائے تو یہ بات درست ہے کہ مسلم قوم میں علمی تشنگی کا فقدان ہے۔ صرف ملک ہندوستان نہیں بلکہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی جانب سے ایسے اقدامات سننے میں نہیں آتے ہیں یا شاذ و نادر ایسے امور صادر ہوتے ہیں جنہیں علمی میدان میں تاریخی کارنامے سے تعبیر کیا جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کے پاس وسائل نہیں ہے یا ان کے پاس قابل اور باصلاحیت افراد کی کمی ہے بلکہ مسلم ممالک یا مسلمانوں میں ایسے کام کے مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ قدرتی خزانوں سے مالامال خلیجی ممالک جہاں دنیا کی بلند ترین عمارت اور دنیا کے مہنگے ترین افراد بستے ہیں، جن کے طریق زندگی اور متاع تعیش کو دیکھ کر مغربی مفکرین انگشت بدنداں ہیں، جن کے رہائشی مکانات اور سیر و سیاحت کی سواریاں کسی ملک کی معیشت کو سہارا دینے کی استطاعت رکھتی ہے، جن کے بازار حسن میں فروخت ہونے والے آرائشی اشیاء کی لاگت کا اندازہ دوسرے ملک کی معیشت سے ہوتا ہے، ایسے ممالک علمی اعتبار سے قلاش اور فقیر نظر آتے ہیں۔ عصری جامعات اور کتاب گھروں کے نام پر چند نمائشی نام اور مکانات دیکھے جاسکتے ہیں لیکن کتب خانوں میں کتابوں کی ورق گردانی والے اور جامعات میں تحقیق و تدقیق کا کام انجام دینے والے نظر نہیں آتے ہیں۔ جب ہمارے بڑے اور خوشحال افراد علمی کام سے کوسوں دور ہوں گے اور ان میں علم اور کتابوں سے عشق کی کمی ہوگی، تحقیق و تدقیق کے لیے مناسب ادارے قائم نہیں کریں گے تو قوم کا مالی وسائل سے محروم طبقہ اپنے ذوق و شوق کی تکمیل کے لیے کہاں جائے گا اور کیا کارنامہ انجام دے گا۔ جس کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلم قوم پوری دنیا میں علم کے میدان میں کہیں نظر نہیں آرہی ہے اور نہ مسلم ادارے دنیا کی بہترین تعلیم گاہوں میں شمار کیے جانے کے قابل ہیں۔
دوسری جانب مغربی ممالک میں موجود جامعات کے علمی، تحقیقی اور اختراعی ایجادات کی جانب دیکھتے ہیں تو آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں اور ذہن و فکر ان کے کارناموں پر عش عش کرنے لگتا ہے۔ مغربی قوموں نے کتابوں سے عشق پیدا کرنے اور جامعات میں تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے ایسے ماحول بنائے ہیں اور ایسے مواقع پیدا کئے ہیں کہ ان ممالک میں رہنے والے افراد بآسانی اور بسہولت اپنے مقاصد کی تکمیل کر لیتے ہیں۔ مغربی ممالک کے تعلیمی ادارے اور حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سہولتوں کی بدولت ان ممالک کی شرح خواندگی قابل تعریف ہے۔
شاعر کا یہ شعر: کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے: یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی۔ اس شعر کا مصداق مسلم قوم کو گردانا جاسکتا ہے کیونکہ یہ ایسی قوم ہے جس نے کتابوں سے عشق کرنا چھوڑ دیا ہے اور اپنے آرائشی اشیاء اور اونچے اونچے محلات بنانے میں تفاخر کرنے لگی ہے۔ جس قوم کے خلفاء راشدین، سلاطین اور شہنشاہوں نے سلطنت کی باگ ڈور سمیت علمی دنیا میں اپنا مقام بنایا اور اپنی عوام کو کتابوں سے عشق پیدا کرنے کے لیے کتابوں کے برابر سونا دینے اور خطیر انعامات سے نوازنے کا سلسلہ فرمایا تھا آج اس قوم کے متمول افراد اپنے ملبوسات اور سواریوں کو سجانے سنوارنے میں وقت گزاری کر رہے ہیں۔ خدارا! ایسے اسباب و عوامل پیدا کرنے کی کوشش کریں جس کے نتیجہ میں ہماری قوم اور مسلمان پھر سے کتابوں سے عشق کرنا سیکھ جائیں۔ کیوں کہ علم ایسی دولت ہے جو انسان کو کبھی رسوا نہیں ہونے دیتی ہے۔

Related Posts

3 thoughts on “یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

  1. ماشاءاللہ بہت ہی فکر رسا اور معلومات افزا مضمون ہے،
    یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی،

    اللہ ہمیں مطالعہ کا ذوقِ عنایت کرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے