یوپی الیکشن اور سیاسی پارٹیاں
یوپی سمیت پانچ ریاستوں کے الیکشن کے لئے بگل بجادیا گیا ہے، تمام پارٹیاں اپنے اپنے اعتبار سےالیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں، ہر کوئی عوام کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے داؤ پیچ کھیل رہا ہے، سیاسی بازیگروں کی بازیگری بھی شروع ہوچکی ہے، کہا نہیں جاسکتا ہے کہ کون کب کس پارٹی سے رشتہ توڑ کر نئی راہ کو اپنا لے۔ کیونکہ یہ ہمیشہ سے دیکھنے میں آیا ہے کہ عین الیکشن کے موقع پر سیاسی لیڈران اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے اپنی سیاسی پارٹیاں بدلتے ہیں۔ یوپی میں یہ کھیل شروع ہوچکا ہے اور بی جے پی کے کئی نامور لیڈران سپا کا دامن تھام ہوچکے ہیں اور کئی انتظار میں لگے ہوئے ہیں۔ پانچوں ریاستوں میں یوپی الیکشن کی اہمیت کئی معنی کر بڑھ جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ میڈیا سمیت عوام کی مکمل توجہ بھی اسی کی جانب ہے۔
یوپی الیکشن میں ایک بات تو طے ہے کہ جیسے جیسے انتخابات کے دن قریب آئیں گے، ماحول میں گرمی اور شدت پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ اب ہندوستان کی سیاست میں کم از کم اخلاقیات جیسی کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے، اب کھلے عام اسٹیج سجاکر حزب مخالف کو گالیاں دی جاتی ہیں، ان کی ذات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، حتی کہ اب تو خواتین پر بھی تیکھے اور نازیبا تبصرے کئے جاتے ہیں۔ اس لئے اخلاقی اقدار کی توقعات فضول اور بے وقت کی راگنی کے مترادف سمجھا جائے گا، اور رہی سہی کسر مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے پوری کردیتے ہیں۔ اب تو صورتحال اس حدتک خراب ہوچکی ہے کہ قومی سطح کے لیڈران اپنے بیانات میں نفرت بھری باتیں کرنے لگے ہیں، میڈیا اور عوام کے لئے یہ معمول کی بات ہوگئی ہے۔ لوگوں کو اب یقین ہوچلا ہے کہ سیاسی میدان میں رہنے والے افراد سے اچھائی اور بہتری کی امید باندھنا فضول ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں بیشتر الیکشن روزگار، ملازمت، ترقی اور خوشحالی پر نہیں لڑے جاتے ہیں بلکہ نفرت و عداوت اور مذہب کی سیاست کو بڑھاوا دے کر لڑا جاتا ہے۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ مذہب کی سیاست میں کامیابی اسی وقت مل سکتی ہے جب دوسرے مذہب کے افراد کو نشانہ بنایا جائے اور انہیں تختہ مشق بنایا جائے۔ ایسی صورت میں اقلیت کے افراد کے لئے مصائب کھڑے ہوتے ہیں اور ان کی راہیں مسدود ہوتی نظر آتی ہیں یا پھر وہ حاشیہ پر کھڑا کردیئے جاتے ہیں۔
یوپی الیکشن اور مسلمان
یوپی میں سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہے، بلکہ مسلمانوں کی تعداد مجموعی طور پر یوپی میں تقریبا بیس فیصد ہے اور بعض علاقوں میں مسلم آبادی کافی زیادہ ہے۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کو کیا لائحہ عمل اپنانا چاہئے اور کس طرح الیکشن میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے۔ اس وقت یوپی الیکشن میں سیاسی پارٹیاں کئی حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ لیکن اصل مقابلہ بی جے پی اور سپا کے درمیان تصور کیا جارہا ہے اور میدان میں انہیں دونوں الائنس کی برتری بھی نظر آرہی ہے۔ البتہ چند دیگر پارٹیاں بھی اپنے وجود کا احساس دلانے پر کمر بستہ ہے، اور بعض پارٹیاں علاقی سطح پر یا ضلعی سطح پر نمایاں بھی نظر آرہی ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان پارٹیوں سے بڑی پارٹیوں کا کھیل بھی بگڑ سکتا ہے کیونکہ الیکشن میں ایک ووٹ کی بھی اہمیت ہوتی ہے اور ہار جیت کا فیصلہ ایک ووٹ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
یوپی الیکشن اور مسلم قیادت
مسلم قیادت کے نام پر بھی کئی پارٹیاں میدان عمل میں سرگرم ہیں، اور انہوں نے اس الیکشن میں اپنی موجودگی کا احساس بھی دلایا ہے۔ مسلمانوں کا بڑا طبقہ ملک کی نام نہاد پارٹیوں کی دورخی سے پریشان ہے، ہمیشہ مسلمانوں نے کسی ایک پارٹی کو متحد ہوکر ووٹ دیا ہے اور اسے حکومت میں بٹھایا ہے لیکن بدلہ میں مسلمانوں کو فتنہ و فساد اور نوجوانوں کی گرفتاری کے سوا کچھ نہیں ملا ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے پاس کئے گئے متنازع قانون پر خاموشی بھی کئی پارٹیوں کی جانب سے مسلمانوں کے لئے دھوکہ سے کم نہیں ہے، لیکن ملک ہندوستان میں جہاں الیکشن میں تعداد دیکھی جاتی ہے، سر گنے جاتے ہیں اور اسی اعتبار سے فیصلے کئے جاتے ہیں، مسلمانوں کے پاس اور کوئی بظاہر متبادل بھی نظر نہیں آتا ہے۔ یوپی میں بھی مسلمان تقریبا اسی صورتحال سے دوچار ہے، اگر تنہا اپنے بل بوتے الیکشن لڑنےکی کوشش کی جائے تو ممکن ہے کہ چند سیٹوں پر فتح نصیب ہوجائے لیکن ریاستی سطح پر مسلمانوں کا نقصان نظر آرہا ہے۔ اور اگر سابقہ روش کو برقرار رکھا جائے تو پھر بات وہی ہے کہ مسلمانوں کی حیثیت ووٹ بینک سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کے لئے سب سے اہم اور ضروری مخلص اور قوم کا درد رکھنے والے سیاسی لیڈران کا وجود ہے، جو ہر حال میں سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ مسلمانوں کی پسماندگی اور ان کی ترقی کے لئے خاموشی کے ساتھ لائحہ عمل تیار کرے اور اس کو زمینی سطح پر اتارنے کی کوشش کرے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے ہمیشہ مسلم قوم کا استحصال کیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے پاس اپنے وسائل و ذرائع نہیں ہے، اور اپنی قیادت کو قائم کرنا اور انہیں ایوان حکومت تک پہنچانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اس لئے بحیثیت قوم ہمیں اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہماری قوم کے لیڈران اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد زمینی سطح پر مسلمانوں کی پسماندگی اور تعلیمی انحطاط کو ختم کرنے کے لئے کیا کچھ اقدامات کررہے ہیں اور کن چیزوں کی جانب توجہ دے رہے ہیں۔ اگر زمینی سطح پر اور تعلیمی میدان میں مسلمان کامیابی حاصل کرتے ہیں اور ان کی نمائندگی زندگی کے دیگر شعبے جات میں معتد بہ تعداد کو پہنچ جاتی ہے تو پھر سیاسی میدان میں سیاسی سوجھ بوجھ کے ساتھ کامیابی کا حصول ممکن اور آسان ہوجائے گا، ورنہ جذباتی نعروں اور ماضی کی تلخ داستانوں پر مستقبل کی عمارت تعمیر نہیں ہوسکتی ہے۔ اپنی قیادت اور سیاست دونوں ضروری ہے لیکن اس سے قبل قیادت کی صلاحیت اور ملکی اعتبار سے سیاست کی سمجھ بھی ضروری ہے۔