یوم جمہوریہ تاریخ کے آئینہ میں

آج ہمارا پورا ملک جشن جمہوریت میں ڈوبا ہوا ہے، ہر کوئی اپنے اعتبار سے اس پل کو حسین سے حسین تر اور یادگار بنانے میں مصروف عمل ہے۔ ہر چہرہ کِھلا ہوا اور ہر لب پر مسکان سجی ہوئی ہے۔ ترنگے کی شان میں قومی ترانے گنگنائے جارہے ہیں۔ مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کیا جارہا ہے۔ ان کی قربانیوں کو زندہ و جاوید بنانے کی سعی کی جارہی ہے۔ ملک کی غلامی اور ان ایام میں ہوئے ظلم و ستم کی داستانوں سے موجودہ نسلوں کو روشناس کرایا جارہا ہے۔ آزادی کے فضائل و مناقب اور اس کی حیثیت کے نغمے گنگنائے جارہے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات، آج اس دستور کی بات کی جارہی ہے جس کو ہمارے مجاہدین آزادی اور شہیدان وطن کے خوابوں کی تعبیر سمجھا جاتا ہے۔ جس دستور کو بنانے اور اس کو سنوارنے کے لئے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہندوستانیوں کے جان کا نذرانہ پیش کیا گیا ہے۔ جس دستور کو ایسا دستور حیات بنانے کی کوشش کی گئی تھی جس میں ہر فرد کی آزادی اور ہر طبقہ کے مذہبی رسومات کو پیش نظر رکھا گیا تھا۔ ایسا دستور جو گنگا جمنی تہذیب کا علَم بردار تھا۔ ایسا دستور جو اخوت و بھائی چارگی اور الفت و محبت کا پروانہ تھا۔ ایسا دستور جو ہر کسی لئے خوشیوں کا پیغامبر اور امن کا فرستادہ تھا۔دستور ہند کو کب اور کیسے بنایا گیا اور کن لوگوں کی محنت شاقہ اور جفاکشی کے نتیجہ میں ہمارے ملک ہندوستان کو اتنا عظیم اور شاندار دستور نصیب ہوا تھا؟

دستور ساز کمیٹی اور دستور ہند

اگرچہ ہمارے ملک کو 1947 میں آزادی مل گئی تھی، لیکن ہمارے پاس اپنا کوئی دستور اور لائحہ عمل نہیں تھا بلکہ اس وقت تک ہمارے ملک میں "گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ” نافذ تھا۔  برطانوی حکومت کی جانب سے بنایا گیا یہ قانون ہندوستانی باشندوں کے لئے قابل قبول نہیں تھا، چنانچہ ازسر نو ہندوستانی قانون بنانے کے "دستور ساز کمیٹی” تشکیل دی گئی۔ 6 دسمبر 1946 کو دستور ساز اسمبلی بنائی گئی۔ اور پھر 9 دسمبر 1946 کو پہلا اجلاس کنسٹیٹیوشن ہال (موجودہ سینٹرل ہال آف پارلیمنٹ) میں منعقد ہوا۔ جے بی کریپلانی نے کمیٹی کو خطاب کیا اور اپنے خطاب میں دستور کی اہمیت و افادیت سمیت ہندوستانیوں کے لئے اس کی ضرورت پر سیر حاصل بحث کی۔ اس مجلس میں عارضی طور "سچیدھا نندا سنہا” کو صدر منتخب کیا گیا۔ 11 دسمبر 1946 کو دوسرا اجلاس منعقد ہوا، اور اس اجلاس میں باضابطہ ڈاکٹر راجندر پرساد کو دستور ساز کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔ آغاز میں، 389 ممبر اس کمیٹی میں شامل تھے، لیکن مسلم لیگ کے بائیکاٹ اور ان کے مطالبے کی وجہ سے یہ تعداد گھٹ کر 292 رہ گئی تھی۔ 13 دسمبر 1946 کو پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک "آبجیکٹیو ریسولیوشن” پیش کیا، جسے بعد میں دستور ہند کی "تمہید” بنایا گیا۔ 22 جنوری 1947 کو دستور ساز کمیٹی نے اس "تمہید” کو قبول کرلیا ۔ 22 جولائی 1947 کو ہندوستان کے لئے ترنگا کو قومی علَم کے طور پر قبول کیا گیا۔ 15 اگست کو برسوں کی محنت اور لاکھوں لوگوں کی قربانی کے نتیجہ میں ہندوستان آزاد ہوا۔

29 اگست 1947 میں دستور ساز کمیٹی نے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کو "ڈرافٹنگ کمیٹی” کا چیئرمین منتخب کیا ، اس کمیٹی میں ڈاکٹر امبیڈکر کے علاوہ دیگر چھ افراد تھے جن میں محمد سعد اللہ اور گوپال سوامی اینگر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

16 جولائی 1948 کو ہریندر کومر مکھرجی سمیت وی ٹی کرشنا مچاری کو دستور ساز کمیٹی کا نائب صدر منتخب کیا گیا۔ 26 نومبر 1949 کو دستور ساز کمیٹی نے دستور ہند کو پاس کیا، اور اسے دستور ہند کے طور پر قبول کیا۔ 24 جنوری 1950 کو دستور ساز کمیٹی کی آخری میٹنگ منعقد ہوئی جس میں تمام ممبران نے اپنے دستخط کے ذریعہ اس دستور کو قبول کیا تھا جس میں 395 آرٹیکل، 8 شیڈول اور 22 حصے ہیں۔ دستور ہند کی دو کاپیاں تیار کی گئی تھی ایک ہندی زبان میں اور انگریزی زبان میں۔

26 جنوری 1950 کو ہمارا دستور نافذ العمل ہوا، جس کو مرتب کرنے میں دو سال، گیارہ مہینے اور 18 ایام لگے تھے۔ دستور ساز کمیٹی کے اہم ممبران میں ڈاکٹر امبیڈکر، جوہر لال نہرو، راجندر پرساد، مولانا ابوالکلام آزاد، ولبھ بھائی پٹیل اور شیاما پرساد مکھرجی ہیں۔

دستور ہند کو سب سے پہلے ڈرافٹ "بی این راؤ” نے کیا تھا، جنہیں 1946 میں کمیٹی کا قانونی مشیر مقرر کیا گیا تھا۔بی این راؤ نے 1948 فروری کے مہینہ میں ابتدائی ڈرافٹ تیار کیا تھاجس میں 243 آرٹیکل، 13 شیڈول تھے جسے بعد میں ڈاکٹر امبیڈکر اور ان کی کمیٹی نے ڈرافٹ کیا۔ 25 نومبر 1949 کو ڈاکٹر امبیڈکر نے اپنے اختتامی اجلاس میں کہا تھا: "جس کامیابی کا سہرا میرے سر باندھا جارہا ہے اس میں بی این راؤ صاحب بھی شامل ہیں جنہوں نے دستور کا ابتدائی مسودہ تیار کیا تھا”۔

26 جنوری 1950میں دستور ہند کو نافذ کرنے کے بعد ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بن کر ابھرا، اور اسی سال ملک کے سب سے پہلے جمہوری صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے "راج پتھ” پر پہلی مرتبہ ہندوستان کا قومی ترنگا لہرایا تھا۔ اس دن کے بعد سے اس دن کو ہمارے ملک میں "یوم جمہوریہ” کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اور ہر سال یوم جمہوریہ کے موقع پر دنیا کے مختلف ممالک کے سربراہان میں سے کسی ممتاز اور عالمی لیڈر کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اسی سال "پریزیڈنٹ ہاؤس” کو "راشٹرپتی بھون”کے نام سے تبدیل کیا گیا تھا۔

بہرحال لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کے صدقہ میں ہمیں دستور ملا تھا، ہمارا دستور تھا، اور ہے بھی وہی جس کی ہمیں تلاش تھی۔ جس کی ہمیں آرزو تھی۔ جس کی ہمیں خواہش تھی۔ جو ہمارے آباء و اجداد کی قربانیوں کے طفیل ہمیں نصیب ہوا تھا۔ جس کے لئے ہر ظلم سہا گیا تھا۔ جس کے لئے زنداں کی تاریک کوٹھریوں کو آباد کیا گیا تھا۔ جس کے لئے پھانسی کے پھندوں کو چوما گیا تھا۔ جس کی خاطر تختہ دار پر  عوام کو چڑھایا گیا تھا۔ ان تمام قربانیوں کے صلہ میں ہمیں یہ  دستور ملاتھا۔ ہمیں یہ نصیب ہوا تھا۔ لیکن آخر اب کیا ہوگیا۔کیوں اس دستور میں کمی ہونے لگی ہے۔ کیوں اس دستور کے سہارے کمزوروں  کو تختہ مشق بنایا جارہا ہے۔ کیوں اس دستور میں خرد برد کرکے اقلیت اور دیگر طبقات کی نیندیں حرام کی جارہی ہے۔ کیوں اس دستور کو ناقابل عمل بنانے کی سعی جاری ہے۔ کیوں اس دستور کے سہارے دوسروں کے حقوق پامال کرنے کی تگ و دو جاری ہے۔  یہ تو قابل عمل دستور تھا، پھر کیوں اسے ناقابل عمل بنانے کی کوشش جاری ہے۔ کیوں اس دستور کی قسم کھانے والے اور اس کے حفاظت کی دہائی دینے والے اس کے خلاف کھڑے نظر آرہے ہیں۔

آج  "یوم جمہوریہ”کا جشن منایا جارہا ہے۔ آخر یہ جشن کیوں منایا جائے۔ کیوں اس دستور کے لئے بزم سجائی جائے جس میں ہر آئے دن کتر بیونت کی  جارہی ہے۔ دستور بنایا اُن سورماؤں اور مجاہدین نے تھا، جنہوں نے انگریزوں کے ظلم و ستم کو سہاتھا۔ جنہوں نے آزادی کی لڑائی میں حصہ لیا تھا۔ جنہوں نے ملک کو ایک حسین گلدستہ کی شکل میں سجانے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔ جنہوں نے گنگا جمنی تہذیب کو ملک کی بقا و سلامتی کے لئے سب سے اہم اور ضروری تصور کیا تھا۔ لیکن افسوس! اب دستور وہ لوگ بدل رہے ہیں، جنہیں دستور کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ جو گنگا جمنی تہذیب سے ناواقف اور نابلد ہے۔ جو کثرت میں وحدت کے فلسفہ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔  جو اتحاد، یکجہتی اور بھائی چارے کے بجائے مذہبی سیاست کو فروغ دیتے ہیں۔ جو سیاست میں مذہب کی آمیزش کرکے پُرامن اور پُر سکون ماحول کو پراگندہ کردیتے ہیں۔ جن کے قلوب بغض، حسد، کینہ اور مفاد پرستی سے لبریز ہوتے ہیں۔ جن کے لبوں سے نفرت و عداوت میں ڈوبی ہوئی باتیں نکلتی ہیں۔ جو اشتعال انگیزی اور زبان درازی کے ذریعہ دیگر باشندگان ملک کے سینوں کو چھلنی کرتے ہیں۔ 

جمہوریت کی آن بان شان کے لئے چار بنیادی عناصر ہیں۔ ان چاروں کے بغیر جمہوریت کا استحکام ممکن نہیں ہے۔ مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا۔ مذکورہ چاروں عناصر کا اپنی حالت پر رہنا اور اپنے متعین کردہ فرائض کو بحسن و خوبی عدل و انصاف کے ساتھ انجام دینا ضروری ہے۔ اگر ان میں سے کسی بھی ایک شعبہ میں کمی ہوئی تو جمہوریت کا استحکام برقرار نہیں رہ سکے گا۔ بالترتیب ان عناصر اربعہ کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ دور میں نتائج مایوس کن نظر آتے ہیں۔ جن اہم ستونوں پر جمہوریت کا قیام ہے وہ خود اب اپنے قیام میں دوسرے کا سہارا تلاش کررہے ہیں۔

مقننہ: جس میں عوام اپنے نمائندے منتخب کرکے بھیجتے ہیں تاکہ وہ فلاح و بہبود کی راہ اپنائیں۔ گزشتہ چند سالوں کا اگر جائزہ لیا جائے، پارلیمانی الیکشن ہو یا اسمبلی الیکشن یا پھر دیگر چھوٹے چھوٹے علاقائی الیکشن ہو، ان تمام کا اگر ریکارڈ دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے مقننہ میں وہ لوگ بیٹھے ہیں جو سخت ترین جرائم میں ملوث رہے ہیں یا وہ ایسے مقدمات میں پھنسے ہوئے ہیں جو ایک انسان کو شرافت کی حدود سے نکال کر شیطنت کے دائرےمیں لاکھڑا کرتے ہیں۔ بعض اہم عہدوں پر براجمان لیڈران کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں لیکن اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے وہ عوام کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ بنیادی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں جرائم میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، کیونکہ ان کی پشت پناہی کرنے والے اور اس کو انجام دینے والے وہ لوگ ہیں جن پر قانونی گرفت مشکل سے مشکل  ہوتی جارہی ہے۔ تخریبی اور جرائم پیشہ اذہان کے مالک افراد سے ترقی و خوشحالی کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے ان افراد کا اضافہ ہورہا ہے ملک کی معیشت اور ملک کا  امن و سکون ختم ہوتا جارہا ہے۔ بہتری اور خوشحالی ایک صاف و شفاف ذہن کی پیداوار ہوسکتے ہیں عصبیت زدہ اذہان کی نہیں۔

عاملہ یا انتظامیہ: مقننہ کے ذریعہ بنائے گئے اصول و ضوابط کی پاسداری ہر شہری کے لئے ضروری ہے، لیکن پھر بھی اگر کوئی اس میں سستی برتتا ہے یا اس کے خلاف جاتا ہے تو اس کی روک تھام کے لئے  عاملہ کو طے کیا جاتا ہے تاکہ ملک میں امن و امان باقی رہے اور ملک کے اصول و ضوابط سے کوئی کھلواڑ کرنے کی جسارت نہ کرے۔ یقینا یہ ایک اہم اور قابل قدر شعبہ ہے لیکن کیا یہ شعبہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مخلص ہے۔ یہ ایسا سوال ہے جو اس پورے نظام کو کٹہرے میں لا کھڑا کرتا ہے۔ اگر یہ شعبہ اپنے امور کی انجام دہی میں مخلص ہوتا تو  دادری میں "اخلاق” اور چلتی ہوئی ٹرین میں حافظ جنید کا جنونی بھیڑیوں کے ہاتھ قتل نہیں ہوتا۔ دہلی کی سڑکوں پر دنگا فساد اور مساجد و مدارس پر حملے نہیں ہوتے۔ اوباش اور دنگائی ذہنیت کے افراد آزاد نہیں گھوم رہے ہوتے اور اس طرح سر عام معصوموں کو موت کی آغوش میں سلانے کی جرات نہیں کی جاتی، لیکن یہ سب کچھ ہورہا ہے کیونکہ جو لوگ اس کی روک تھام کے لئے پابند کئے گئے ہیں وہ اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ ملک میں ہوئے فسادات کی اگر تاریخ نکالی جائے اور ان کی جانچ کی جائے تو یہ بات صاف طور پر نظر آتی ہے کہ ہمارا یہ شعبہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہی نہیں بلکہ عصبیت کا شکار ہے۔ 

عدلیہ: باہمی چپقلش اور آپسی نزاعات کو سلجھانے اور انصاف قائم کرنے کے لئے یہ شعبہ مختص ہے۔  اس شعبہ کی اہمیت مسلم ہے۔ اس شعبے میں متعین افراد کو منصف اور انصاف پسند تصور کیا جاتا ہے۔یہاں عوام اس امید پر آتے ہیں کہ انہیں انصاف ملے گا اور ان کے حقوق کی بازیابی کی جائے گی۔ لیکن جب یہ شعبہ بھی دیگر طاقتوں کے زیر اثر ہوجائے اور ثبوت کے بجائے دیگر چیزوں پر فیصلے صادر کئے جائیں تو انصاف کا یہ مندر اپنا تقدس کھو دیتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں صادر ہونے والے بے شمار ایسے فیصلے ہیں جنہوں نے ملک کے شہریوں کو مایوس کیا ہے اور کہیں نہ کہیں اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ اب انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے خود کے ساتھ انصاف کرنے سے عاجز و قاصر ہیں۔ 

میڈیا: عوامی نمائندہ اور عوام کو حکومتی پالیسی اور ملک کے حالات سے باخبر رکھنے والا سب سے اہم اور معتبر ادارہ۔ میڈیا کی طاقت اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر یہ چاہے تو "ہیرو”کو "زیرو” اور "زیرو” کو "ہیرو” بنادے۔ ماضی میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں ۔ کسی بھی تحریک اور عوامی احتجاج کے کامیابی کی ضمانت میڈیا کے علاوہ اور کوئی نہیں لے سکتا ہے۔ میڈیا کا اصل کام یہی ہے کہ وہ اپنے ذرائع کا استعمال کرکے عوام الناس کو حالات سے باخبر رکھے لیکن افسوس کہ اب معاملہ برعکس ہوچکا ہے۔ اب میڈیا عوامی نمائندہ نہیں بلکہ مخصوص افراد کی ذہنیت کا غلام بن گیا ہے۔ ملک میں پیش آئے حادثات و واقعات پر بحث و مباحثہ کرنے اور ان کی صحیح رپورٹنگ کے بجائے اب حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور معمولی واقعات کی جانب ذہن مبذول کرانے کی ڈگر پر گامزن ہے۔ ملک کی معیشت، انتظام و انصرام، حقوق کی پامالی، کسانوں کی خودکشی، عوامی احتجاجات، روز  مرہ پیش آنے والے انسانیت سوز عصمت دری کے واقعات، جنونی بھیڑ کے ذریعہ معصوموں کا قتل، عبادت گاہوں پر حملے اور ان جیسے بے شمار حساس مسائل جن پر گفتگو کرنا اور ان کے خلاف عوام کو بیدار کرنا از حد ضروری اور ناگزیر ہے اب میڈیا کی دلچسپی کا باعث نہیں رہ گئے ہیں۔ انہیں تو کردار کشی، نفرت بھرے عنوانات، غیر ضروری مسائل، مذہنی معاملات، کرونا وائرس کا مذہب اور ان جیسے مسائل میں دلچسپی رہ گئی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب میڈیا جانبدار ہوجائے گا اور حقیقت سے چشم پوشی کرنے لگے گا تو حقیقت خرافات میں کہیں گم ہوجائے گی۔

 یہ وہ دستور تھا جس نے گزشتہ سات دہائیوں سے ملک کے ہر فرد اور ہر طبقہ کی حفاظت کی ہے۔ ہر کسی کے یکساں اور برابر کےحقوق کا ضامن رہا ہے۔ جس کی چھاؤں تلے غریب بھی خود کو محفوظ اور پر امن محسوس کررہا تھا۔ لیکن جب سے دستور میں یکے بعد دیگرے ترمیم اور اقلیتوں کے مذہبی امور اور ان کے رسم و رواج کو اس دستور کے سہارے نشانہ بنایا جانے لگا اور مخصوص ذہنیت کی نشو و نما اور ان کی دیکھ ریکھ کے لئے اس دستور سے چھیڑ چھاڑ کا عمل شروع ہوا، تب سے پورے ملک کا تانا بانا بکھرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ عوام الناس میں اضطرابی کیفیت پھیل چکی ہے۔ لوگ خوف و دہشت کے سائے تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کبھی شہریت ترمیمی بل کے تحت ملک کی ایک مخصوص اقلیت کو تختہ مشق بنایا جاتا ہے، اور صدیوں سے اس ملک میں رہنے والوں سے اس ملک کے شہری ہونے کا ثبوت مانگا جاتاہے۔ ان کے آباء و اجداد کی قربانیوں کو پس پشت ڈال کر انہیں پرایا بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ نواب سراج الدولہ، شہید ٹیپو سلطان، علماء صادق پور، سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، امام محمد قاسم نانوتوی، بانی تحریک ریشمی رومال شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، شہید اشفاق اللہ خان، جنرل شاہنواز خان، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، علی برادران اور ابو الکلام آزاد جیسے مسلم قائدین اور مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو پس پشت ڈالنے اور انہیں تاریخ کے صفحات سے مٹانے کی ناپاک سازش رچی جارہی ہے۔ ان کی قربانیوں اور ان کی قید و بند کی مصیبتوں کو بھول گئے  اور آج ان کی آل و اولاد سے ان کے ہی ملک میں شہری ہونے کا سرٹیفکٹ مانگا جارہا ہے۔ اور سرٹیفکٹ مانگنے والے وہ لوگ ہیں جن کے دزدیدہ تعلقات کے قصے تاریخ ہند کی کتابوں میں بھرے پڑے ہیں۔

کیا اس لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے۔۔۔بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگادے

ہمارا آئین، ہمارا دستور ہمارا ہے۔ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر اور ان کے ساتھیوں نے جس عرق ریزی کے ساتھ تمام طبقات اور ہر ہر فرد کی آزادی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس دستور کو تیار کیا تھا، ہم اسی دستور کو باقی رکھیں گے، اور ہم اسی دستور کے خواستگار ہیں۔ اس ملک میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں قسم کی بولیاں بولنے والے افراد پائے جاتے ہیں، ہر کسی کی تہذیب و ثقافت الگ ہے۔ مذہب سے قطع نظر یہاں علاقوں کے بدلنے سے رسم و رواج بدل جاتے ہیں۔ بولیاں بدل جاتی ہیں۔ طریقہ زندگی میں نمایاں فرق نظر آتا ہے اور یہی اصل ہندوستان ہے اور یہی ہمارا ملک ہے اور یہی ہمارے ملک کی شناخت ہے، جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے، مختلف تہذیب و ثقافت سے تعلق رکھنے والے، الگ الگ راہ و رسم کو اپنانے والے ایک ساتھ بیٹھ کر اپنے دکھ درد کا مداوا کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ پیار، محبت اور بھائی چارے والی زندگی گزارتے ہیں۔اور یہی وہ ہندوستان ہے جس کی تمنا ، جس کی آرزو ہمارے مجاہدین آزادی نے کی تھی۔ اور ہمیں یقین کامل ہے کہ حالات کے یہ دوچار تھپیڑے باد صر صر کی مانند گزر جائیں گے اور ہمارا ملک پھر سے امن و آشتی اور گنگاجمنی تہذیب کا علَم بردار بن کر پوری دنیا کے لئے ایک مثال بنے گا۔

ہے یہ آرزو اقبال کی رہیں شاداں مکیں تیرے۔۔۔رہیں سر سبز تیری گلیاں ہو ہر کوچے میں شادابی

ہماری ویب سائٹ پر موجود انگریزی گرامر سے استفادہ کے لئے درج ذیل لنک پر کلک کریں:

انگریزی زبان کے تمام اسباق

Related Posts

One thought on “یوم جمہوریہ تاریخ کے آئینہ میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے