ہندی زبان اور مسلمان
ہمارے ملک ہندوستان میں سیکڑوں بولیاں بولی جاتی ہے اور سیکڑوں زبانیں ایسی ہیں جنہیں لکھا بھی جاتا ہے اور بولابھی جاتا ہے۔ علاقہ کے اعتبار سے جس طرح رسم و رواج بدلتے ہیں زبانیں بھی بدل جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی مختلف ریاستوں میں مختلف زبانوں کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ لیکن اجتماعی طور پر ملک میں سب سے زیادہ بولی جانے والی اور لکھی جانے والی زبان ہندی ہے جسے نارتھ انڈیا میں تقریبا تمام افراد سمجھتے اور بولتے ہیں۔ساؤتھ انڈیا میں اگرچہ ہندی زبان کا رواج عام نہیں ہے لیکن وہاں کے رہنے والے افراد بھی جب ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں مقیم ہوتے ہیں تو انہیں ہندی زبان کا سہارا لینا ہوتا ہے۔لیکن مجموعی طور پر دیکھا جائے تو تمام زبانیں علاقائی طور پر بولی یا سمجھی جاتی ہے اور انہیں علاقائی زبان کے طور پر پہچانا جاتا ہے لیکن اردو ایسی زبان ہے جسے علاقائی زبان کے طور پر نہیں بلکہ ہمارے ملک میں ایک مذہبی زبان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اور وقتا فوقتا ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جو اس بات کو مزید تقویت بخشتے ہیں کہ اردو اب صرف مسلمانوں کی زبان رہ گئی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ان کے علاوہ قابل شمار افراد ہی ہیں جو اس زبان سے لگاؤ رکھتے ہیں یا اسے پڑھنا اور لکھنا جانتے ہیں۔ ملک بھر میں فروغ اردو کے لئے قائم ادارے اپنی موت آپ مر رہے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے، حتی کہ جو افراد اردو زبان کے سہارے اپنے معاش سے وابستہ ہے ان کی نجی زندگی بھی اردو زبان سے خالی ہے۔
اخبارات و رسائل کی بات کی جائے تو ہمارے ملک میں سب سے زیادہ ہندی کے اخبارات شائع ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ پڑھی جانے والی زبان بھی ہندی ہے۔ سرکاری سطح پر یا عوامی سطح پر ہر جگہ ہندی زبان کا استعمال عام ہے، ہندوستان کے بیشتر نیوز چینل ہندی زبان کے ہیں اور بعض جو انگریزی شو چلاتے ہیں ان کے ناظرین کی تعداد ہندی کے مقابلہ میں حد درجہ کم ہوا کرتی ہے۔ گوگل اور سوشل میڈیا پر ہمارے ملک میں جتنا ہندی زبان میں لکھا اور پڑھا جاتا ہے کسی دوسری زبان میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ اگر صاف لفظوں میں کہا جائے تو ہندی ہندوستان کے عام لوگوں کی زبان ہے جسے وہ اپنی مادری ہی نہیں بلکہ مذہبی زبان بھی سمجھتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ انگریزی میں عبور رکھنے کے باوجود بیشتر افراد ہندی زبان میں بولنے اور لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس زبان کے سہارے عام افراد تک رسائی بآسانی ہوسکتی ہے، جبکہ انگریزی اور دیگر زبانوں کا حلقہ محدود ہے۔
اب بحیثیت مسلمان ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہئے کہ ہندی زبان ایک ایسی ضرورت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ہمارے مدارس اور دینی اداروں میں اردو زبان کا عام رواج ہے، حتی کہ ہماری بیشتر مذہبی کتابیں اردو زبان میں موجود ہیں، پرانی کتابیں جو عربی یا دیگر زبان میں لکھی گئی ہیں ان کے اردو تراجم ہمارے پاس ہے، جس سے گاہے بگاہے ہمارے لئے استفادہ آسان اور ممکن ہوجاتا ہے، لیکن ہمارے لئے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اب اردو زبان کو دیگر مذاہب کے افراد ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کا بڑا طبقہ نہیں جانتا ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم ایسے ماحول میں ہوتی ہے جہاں اردو زبان کا نام و نشان تک موجود نہیں ہوتا ہے۔ یا تو وہ انگریزی زبان سے واقفیت رکھتے ہیں یا پھر اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوکر ہندی زبان میں لکھنے پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں اب ایسے حالات میں ان تک دینی معلومات اور دینی پیغامات کیسے پہنچائے جائیں، یہ ایک سوال ہے جس کا ہمارے پاس جواب ہونا چاہئے۔
دوسری طرف ہمیں معلوم ہے کہ اس وقت ملک ہندوستان میں ایک بڑی جماعت وہ ہے جو باضابطہ منظم طریقے پر مذہب اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ ان کا مطمح نظر صرف مسلم قوم نہیں بلکہ مذہب اسلام ہے، اور یہ لوگ وقتا فوقتا اپنے حلقہ میں اور اپنے اطراف رہنے والوں کے درمیان مذہب اسلام کے متعلق غلط اور جھوٹی باتیں پھیلاتے ہیں تاکہ عوام میں بدگمانی پیدا ہو، اس کا سب سے خراب اثر یہ ہوا کہ ہمارے اپنے لوگ اور اپنے بچے بچیاں جو اسکول و کالج میں ہیں ان کے اذہان اپنے ہی مذہب کے احکامات و مسائل کے تئیں پراگندہ ہوتے جارہے ہیں۔ بسا اوقات بعض باتیں جب سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے ہمارے پاس پہنچتی ہے، جو واقع کے خلاف ہوتی ہے اور جس کا مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے یا پھر مذہب کے خلاف باضابطہ پروپیگنڈہ ہوتا ہے، ایسی صورت میں ہماری جانب سے یا تو بروقت جواب نہیں دیا جاتا ہے، اگر جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایسی زبان کا استعمال کیا جاتا ہے جسے وہ طبقہ جانتا ہی نہیں ہے جس کے لئے ہم جواب مرتب کررہے ہیں۔
موجودہ وقت میں انٹرنیت ایک ایسا آلہ ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں جکڑ لیا ہے، اور تقریبا ہر طرح کے پیغامات (صحیح اور غلط) یہاں موجود ہے۔ یہ ایک عام پلیٹ فارم ہے جہاں ہر کوئی اپنے اعتبار سے اپنی چیزیں لکھ کر اور اپنی باتوں کو ریکارڈ کرکے دوسروں کو فراہم کرسکتاہے۔ اس وقت ذرائع آمدنی میں بھی اس کا اہم کردار ہے، بے شمار ایسے طریقے پائے جاتے ہیں جن کے ذریعہ لوگ اپنے معاشی مسائل کو حل کر رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ انٹرنیٹ اور Artificial intelligenceکے اس دور میں ہم کہاں موجود ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم ہر کسی کو ہر فن میں ماہر بنانے کی کوشش کریں البتہ یہ ضروری ہے کہ ہم ایسے افراد تیار کریں جو عام لوگوں کی زبان میں عام لوگوں تک بآسانی اپنی بات پہنچا سکے۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ ہر مسئلہ اور ہر نئی اور پرانی چیز کے لئے سب سے پہلے گوگل اور انٹرنیٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اکثریت ان افراد کی ہے جو گوگل وغیرہ پر موجود مواد کو حتمی سمجھتے ہیں اور انہیں دوسروں تک پہنچانے میں کوئی تردد نہیں کرتے ہیں۔ حالانکہ بارہا اس بات کاتجربہ ہوا کہ اردو، انگریزی اور ہندی ان تینوں زبانوں میں مذہب اسلام کے متعلق بے شمار غلط باتیں انٹر نیٹ پر موجود ہیں۔ اردو زبان میں بہر حال کچھ اچھے ادارے اور اچھے افراد تحقیقی اور صحیح مضامین و معلومات نیز اسلامی مسائل شیئر کرتے ہیں لیکن بہرحال اردو کے قارئین کی تعداد مسلمانوں میں بھی چند فیصد ہی رہ گئی ہے۔ البتہ انگریزی اور ہندی کے مسائل بہت پیچیدہ ہیں۔ ہندی زبان میں انٹرنیٹ پر صحیح اسلامی معلومات نہ کے برابر ہے، بلکہ جو معلومات ہیں وہ بھی غیروں کی جانب سے اپلوڈ کی گئی ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ حدانیت و رسالت اور قرآن و حدیث تک کی معلومات ہندی زبان میں معتبر علماء اور اداروں کی جانب سے تصدیق شدہ موجود نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ ہندی زبان میں اسلام کے متعلق جاننا چاہتے ہیں انہیں وہ مواد فراہم ہوتے ہیں جو اسلام کی شبیہ بگاڑنے اور اسلام کو بدنام کرنے کے لئے تیار کئے جاتے ہیں ۔ اگر ہمارے ادارے اور علماء اس جانب توجہ دیں اور انٹرنیٹ پر اسلامی مواد آسان ہندی زبان میں فراہم کریں تو یقین مانیں اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ اور ان شاء اللہ اس کے دور رس نتائج ہمیں دیکھنے کو ملیں گے۔ جب بھی نیوز چینل یا سیاسی میدان میں کوئی اسلامی مسئلہ اچھالا جاتا ہے یا کسی اسلامی حکم پر بحث ہوتی ہے تو غیر مسلموں کی بڑی تعداد اس مسئلہ کو سمجھنا چاہتی ہے اور اس کی تہہ تک پہنچنا چاہتی ہے لیکن افسوس کہ ہم ان تک درست اور حقیقی معلومات پہنچانے میں ناکام ہوتے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ نیوز چینل پر جانے والے نام نہاد مسلمانوں کو اسلامی نمائندہ سمجھتے ہیں اور وہاں کی گئی بحث کو حتمی اسلامی معلومات گردانتے ہیں۔ ہم اپنی آرام گاہوں، پرتکلف دفاتر میں بیٹھ کر تبصرے کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کردیا ہے لیکن اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر غیروں تک پہنچانے کی کوشش کے معاملہ میں ہم کہیں نظر نہیں آتے ہیں۔ ہمارے پاس مذہب اسلام کی حقیقی تعلیمات ہیں لیکن ہم ان افراد تک پہنچانے سے عاجز و قاصر ہیں جو دن و رات مذہب اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔
ہندی اور انگریزی یا کسی بھی علاقائی زبان میں کتابیں لکھنا، کتابچہ شائع کروانا الگ بات ہے، اور ان مواد کو انٹرنیٹ پر فراہم کرنا الگ بات ہے۔ کتاب پڑھنے والوں کی تعداد انگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہے لیکن گوگل اور انٹرنیٹ پر وقت گزارنے والے ہر گھر میں پائے جاتے ہیں۔ ہمیں اپنا ٹارگٹ اور اپنا منصوبہ متعین کرنے کی ضرورت ہے، ضرورت ہے کہ ہم اس سوچ اور فکر سے باہر آئیں کہ اردو زبان میں لکھی گئی تحریر ہر جانب پھیل جاتی ہے اور یہ کافی ہے۔ ہمیں خود کو حالات کے موافق لانا ہوگا، اسلامی عقائد اور اسلام پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب فراہم کرنا ہوگا۔ ادیان عالم میں اسلام کی انفرادی حیثیت کو بتانا ہوگا۔ جب تک ہم آگے نہیں بڑھیں گے، حالات کے تقاضوں کو نہیں سمجھیں گے ارتداد اور اسلامی تعلیمات کے متعلق کم از کم اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے، اس وقت تک ہم غیروں کو تو درکنار اپنے لوگوں کو بھی مطمئن نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اردو زبان سے ناواقف مسلمان تک حقیقی اسلامی تعلیمات کو پہنچانا ہمارا فریضہ ہے۔ اور یہ ایسا فریضہ ہے جس کی ادائیگی میں کوتاہی بہرحال ہورہی ہے۔ اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں، اور اپنے اکابرین کی حیات و خدمات کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے حالات و واقعات کے اعتبار سے دینی علوم کی اشاعت میں اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ جب منطق و فلسفہ کے زور نے عوامی اذہان کو پراگندہ کرنے کی سعی کی اور شکوک و شبہات کے تانے بانے خام اذہان میں بٹھائے جانے لگے تو اس وقت علماء اسلام نے گوشہ نشینی اور کنارہ کشی اختیار کرنے کے بجائے اس فن کو اپنایا اور انہیں کے خود ساختہ دلائل و براہین کوبرائے کار لاتے ہوئے انہیں تارعنکبوت کی مانند روند کر رکھ دیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بانی دارالعلوم مولانا قاسم نانوتوی نے حالات کے اعتبار سے علم کلام اور فلسفہ میں جو درک پیدا کیا اور جس انداز سے عقلی طور پر اسلامی شعائر اور احکامات اسلامیہ کو اجاگر کیا ہے وہ آج بھی قابل تقلید ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے اہم اور بڑی مثال ہمیں سنت نبوی ﷺ سے فراہم ہوتی ہے، جب آپ ﷺ نے محسوس کیا کہ یہود جھل کھپٹ سے کام لیتے ہیں اور اپنی زبان کے پیغام کو سنانے اور لکھنے میں مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں تو نبی کریم ﷺ نے حضرت زید بن ثابت کو عبرانی زبان سیکھنے کا حکم دیا، تاکہ یہود سے تعاون کا سلسلہ بند کیا جاسکے۔
لیکن موجودہ دور میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ رہنے والے اور ہمارے درمیان رہنے والے افراد کی کثیر تعداد اردو زبان کے بجائے ہندی زبان کو ترجیح دے رہے ہیں اور ملکی سطح پر جو اہمیت اور رواج ہندی زبان کا ہے دوسری زبان اس کے مقابلہ میں کہیں نہیں ہے، ایسی صورت میں ضروری ہے کہ ہم اپنے اسلاف و اکابرین کے طرز کو اپنائے اور ہندی زبان کی جانب توجہ دیں، تاکہ بروقت اس طوفان بلا خیز کا مقابلہ کیا جاسکے جو ہمارے دروازہ پر دستک دے رہا ہے۔
آپ نے اس مضمون کے ذریعے حالات حاضرہ کے دکھتی رگ پر انگلی رکھنے کی کوشش کی ہے، ۔
اگر اہل نظر شروع سے بچوں کو اس کے لیے تیار کریں تو نتائج بہت ہی مثبت دیکھنے کو ملے گا،
جزاكم الله خيرا.