کہاں دن گزارا کہاں رات کی
اسجد عقابی
اس حقیقت کے اعتراف کے ساتھ کہ نثر نگاری اور الفاظ کے پیرائے میں جذبات کی ترجمانی سے بندہ ناواقف اور ناتجربہ کار ہے، لیکن پھر بھی صاحب واقعہ کے بیجا اصرار اور دلخراش داستان نے چند سطور لکھنے پر مجبور کردیا ہے۔
بعض مصائب وآلام اس قدر ہولناک اور غیر متوقع طور پر انسانی زندگی میں رونما ہوتے ہیں، جن کا تصور کبھی حاشیہ خیال سے بھی نہیں گزرا ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک انہونی اور بعید از قیاس داستان الم ہے جس سے اعصابی نظام مفلوج اور ہوش و حواس کی سرحدیں دم توڑجاتی ہے۔
چند افراد پر مشتمل قافلہ، تالا بندی کے تقریباً دو مہینے بعد22 مئی 2020 کو، وطن مالوف جانے کی خوشی میں آنا فانا، پلک جھپکتے، بجلی کی سرعت سے تیاری کرتے ہیں اور ٹرین کیلئے بذریعہ بس اسٹیشن کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں۔ خوش گپیوں میں مصروف، موجودہ صورتحال پر رائے زنی کرتے، گزشتہ کی تکالیف اور شہر کی خاموش ہوتی سڑکوں، ان ہزاروں کلومیٹر پر پھیلی وسیع و عریض سڑکوں پر انسانی سیلاب کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، اس سمندر میں جان کی بازی ہارنے والے بدنصیب مزدور اور کبھی ان دیکھی تیز رفتار ٹرین کی پٹریوں کو حنائی رنگ سے رنگتے چند بے روزگار رنگریز، کبھی چلچلاتی اور آگ برساتی سورج کی تپش میں جلتی اور آگ اگلتی سڑکوں کو جان کا نذرانہ پیش کرکے ٹھنڈک پہنچانے والے غریب الوطن اور ان جیسے چند واقعات اسٹیشن کی دوری کو بسرعت طے کرنے کیلئے وقفہ وقفہ سے موضوع بحث بن رہے تھے، کبھی گاؤں پہنچنے کی خوشی، گاؤں کی پنگھٹ کے دلکش مناظر، پگڈنڈی کا پر تکلف سفر، کھیت کھلیانوں کے لہلہاتے سبزہ زار، ماں کے آنچل کی ٹھنڈی ہوا، شریک حیات کی دلفریب مسکراہٹ، چھوٹے بھائی بہنوں کے ساتھ گزارے حسین لمحات، بچوں کی کلکاریاں، غرضیکہ وہ کون سی چیز تھی، جو ان مجبور مسافرین کے زیر بحث نہیں تھی۔ بس تیزی سے سڑکوں کو ناپتے ہوئے منزل کی جانب رواں دواں تھی، بس کی رفتار اور متوقع خوشی نے باہم ایسا خمار آنکھوں پر چڑھا دیا تھا کہ یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ کب منزل پیچھے چھوٹ گئی اور بس فراٹے بھرتے ہوئے شہر کو عبور کرکے آگے کی جانب بڑھ گئی تھی، جب آنکھوں سے شہر کی بند دکانیں اور خال خال نظر آنے والے انسان بھی اوجھل ہوگئے تو یکایک خوابوں کا تسلسل ٹوٹا اور حقیقت کی دنیا میں واپسی کرتے ہوئے، لمحہ بھر تاخیر کئے بغیر بس کنڈکٹر سے اس بابت استفسار کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب، سفر کی ابتدا کے کچھ لمحوں بعد ہلکا سا دھچکا لگا۔ کنڈکٹر نے اطمینان قلب سے جواب دیا کہ میڈیکل سرٹیفکیٹ اور تھرمل اسکریننگ کیلئے یہاں لایا گیا ہے، اور ٹرین یہاں موجود ایک غیر آباد، چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن سے منزل مقصود کیلئے روانہ ہوگی۔
کشاں کشاں بس متعینہ جگہ پر پہنچ گئی، یہ سیکڑوں ایکڑ پر پھیلا غالباً آشرم تھا۔ دروازے پر مستعد نگہبان اور ڈیوٹی پر موجود پولس افسران مکمل چابک دستی سے اپنے کام میں منہمک تھے۔ وسیع و عریض بلند و بالا دروازے کے سامنے مزید چند بسیں پہلے سے قطار میں اپنے نمبر کے انتظار میں تھیں۔ کاغذات کی مکمل جانچ پڑتال اور ساتھ میں آنے والے سرکاری عملے سے مکمل استفسار کے بعد باری باری بسوں کو اندر داخلہ کی اجازت دی جارہی تھی۔ اس انتظار میں گھنٹوں بیت گئے، لیکن گھر جانے کی خوشی نے ان تکالیف کو خاطر میں لانا بھی گوارا نہ کیا۔ اس وقت تک یہی معلوم تھا کہ، ابتدائی جانچ پڑتال کے بعد فوراً اسٹیشن کیلئے روانہ کردیا جائے گا۔ جہاں سے اصل سفر کی شروعات ہوتی۔ لیکن آنے والے خطرات اور مصائب سے لاعلم بس ڈرائیور نے اپنا نمبر آنے کے بعد بس کو دروازے سے اندر کی جانب بڑھایا، جہاں تا حدِ نگاہ ہر چہار جانب اس کے حدود ہی نظر آرہے تھے۔ ابتدائی حصوں کو خوبصورت باغیچوں اور پھولوں کی گلیاروں سے سجایا گیا تھا۔ چو طرفہ پھیلے سبزہ زار اور رنگ برنگے مہکتے گلاب نے حسن کو دوبالاکردیا تھا۔ درمیان میں کئی بگہوں پر چھاؤں اور دیگر پروگراموں کیلئے شیلڈ کا بہترین مضبوط سائبان بنایا گیا تھا، تاکہ زائرین دھوپ کی تپش سے محفوظ رہیں۔ سامان کو بس سے اتارنے کیلئے کہا گیا، کنڈکٹر سے استفسار کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں سے آگے کی ذمہ داری یہاں کے منتظمین کی ہے۔ سامان وغیرہ درست کرنے کے بعد، ایک مخصوص سمت میں لے جایا گیا، جہاں قطار لگا کر بس میں موجود تمام افراد کی اسکریننگ کی گئی، اور گوشہ میں جاکر انتظار کرنے کو کہا گیا۔ اندر کا منظر تاریخ کی کتابوں میں موجود کیمپ کی مانند تھا۔ جہاں الگ الگ حصوں میں مختلف علاقوں کے افراد کو ٹھہرایا گیا تھا۔ وقت متعینہ پر مائک سے اعلان کیا جاتا، اور موجود افراد کھانے کیلئے لمبی قطاروں میں کھڑے ہوجاتے۔
اندر کے عجیب سماں اور انسانی ہجوم نے دل میں شکوک وشبہات کے شوشے پیدا کرنے شروع کردیے۔ چند منٹ تک محو حیرت ارد گرد کا جائزہ لینے کے بعد، صحیح صورتحال کی تفتیش کیلئے ڈیوٹی پر موجود پولس کے ممبران سے رابطہ کیا گیا۔ اپنے خیالات کے مطابق سوالات مرتب کرکے پوچھا گیا، لیکن ان کے غیر متوقع جواب نے پیروں کے نیچے سے زمین ہی کھسکا دی۔ بہت سپاٹ لہجے میں مختصراً جواب دیا گیا کہ، یہاں آنے والے مزدور دو دو دن تین تین دن ٹھہرتے ہیں، اگر مطلوبہ تعداد مکمل ہوجائے گی تو بذریعہ ٹرین انہیں منزل کی جانب روانہ کردیا جاتاہے۔ بصورت دیگر انتظار اور صرف انتظار۔ ۔۔
ان کے جواب سے حسین خوابوں کا شیش محل ٹوٹتا ہوا محسوس ہونے لگا، ناامیدی کی گھنگھور گھٹائیں چھانے لگی، یک لخت ارمانوں کا خون ہوگیا اور عید کی خوشیاں پھیکی پھیکی اور آنے والا وقت دھندلاہوتا چلا گیا۔ کہاں تو خوشی خوشی گھر جانے کیلئے روانہ ہوئے تھے اور کہاں قسمت نے شیلٹر ہوم (کیمپ) میں پہنچا دیا تھا۔ فوراً اطراف کا جائزہ لیا اور وہاں موجود چند افراد سے بات چیت کا سلسلہ شروع کیاگیا ، اس مبہم امید کے ساتھ کہ ابھی نکلنے کی کوئی سبیل پیدا ہوجائے، لیکن جوں جوں سوالات کا سلسلہ دراز ہوتا گیا، امید کی کرنیں معدوم ہوتی چلی گئیں۔ جذبات کے طوفان سرد پڑ تے گئے، مطمئن دل میں تلاطم خیز موجوں نے سونامی کا سماں برپا کردیا تھا۔ آنکھیں چھلکنے کو تیار تھی، لیکن نہ جائے رفتن نہ پائے رفتن۔
بالآخر از سر نو ہمت کو یکجا کرکے، پھر سے نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ، یہ طے کرکے بیٹھ گئے کہ اب جانا ہے، اور یہیں سے جانا ہے۔ کب جانا ہے، معلوم نہیں، کیسے جانا ہے معلوم نہیں لیکن سفر کا دوسرا پڑاؤ یہیں سے شروع ہونا تھا۔ رات کے تقریباً نو بجے، کھانے کا اعلان کیا گیا، بھوک پیاس سے نڈھال مزدوروں کا گروہ، جو معلوم نہیں کب سے کھانے کو ترس گئے تھے، کھانے کیلئے دوڑ پڑے، جسے جو ملا، جتنا ملا اسے بخوشی پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے کھالیا گیا ۔ رات بھر مسلسل بسوں کی چنگھاڑیں سنائی دیتی رہی ، اور لاچار و مجبور اور زندگی و موت کی کشمکش سے دوچار مہاجر مزدوروں کو چھوڑ کر دوبارہ روانہ ہوجاتی۔ بعض ایسےبھی تھے، جو کئی کئی دنوں کا مشقتوں بھرا سفر پیدل طے کرکے یہاں تک پہنچے تھے۔ اگرچہ اکثریت نوجوان مزدوروں کی تھی، لیکن ان میں بعض وہ بھی تھے جو زندگی کی آٹھ نو دہائی گزار چکے تھے، اور بعض شیر خوار بچے اور کچھ انگلی کے سہارے چلنے والے معصوم جنہیں اگلی منزل تک کا بھی علم نہیں تھا اور جنہیں یہ شعور تک نہیں تھا کہ آگے کتنی کلفتوں کا سامنا ہے لیکن وطن جانے کےلیے شیلٹر ہوم میں مجبوروی و بے کسی کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔
اس عارضی کیمپ میں ایک عجیب سماں تھا، مشترکہ پریشانی نے لوگوں کو ایک دوسرے کا شناسا بنا دیا تھا۔ ہر کوئی متجسس ہوکر کبھی نئے آنے والوں سے سوال کرتا اور کبھی وہاں موجود سرکاری عملے سے بات چیت کرنے کی کوشش کی جاتی۔ کبھی ان لاچار و مجبور، بے بس و بے کس مزدوروں کی بات سن لی جاتی اور کبھی جھڑک کر پرے ہٹادیا جاتا جس سے وہ خاموش ہوجاتے۔ کوئی سیدھے منہ بات کرلیتا اور کچھ ترش روئی سے مزدوروں کو ڈانٹ ڈپٹ کر بھگا دیتے اور بعضے تو ایسے شقی القلب بھی تھے، جو زبان کے بجائے ہاتھ میں موجود ڈنڈے کی زبان سے بات کرتے تھے۔
وقت کا پہیا سست رفتاری سے گزر رہا تھا۔ ہجر یار اور فرقت محبوب سے کہیں زیادہ یہ شب طویل تھی۔ ایک ایک لمحہ صدیوں کی مانند محسوس ہورہا تھا۔ غربت اور غریبی کی حقیقت کا اظہار اور ان کی سماجی و سیاسی حیثیت کو سمجھنے کیلئے اس سے بہتر اور واضح مثال بمشکل ہی کہیں نظر آتی۔
خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا، اور صبح کی روشنی نمودار ہوئی، سورج کی نئی کرنوں سمیت امید کے دئیے بھی تیز سے تیز تر ہوتے چلے گئے۔ بے چینی میں اضافہ ہونے لگا، نگاہیں کسی محسن کی تلاش میں تھی، جو نوید سحر کا پیام سنائے، جوں جوں سورج کی تمازت بڑھتی گئی، دل کی دھڑکن میں اضافہ ہونے لگا۔ معلوم نہیں، آج نمبر آئے گا یا نہیں۔ یا پھر مزید انتظار قسمت میں لکھا ہے۔ حالات کے رحم و کرم پر، بھنور میں پھنسے مزدوروں کو کون پوچھتا ہے۔ بالآخر صبح نو بجے کے قریب، منادی کرائی گئی کہ فلاں صوبہ کے مزدور لائن میں لگ جائیں۔ پلک جھپکتے، بھگدڑ مچ گئی، لوگ یہاں وہاں بھاگنے لگے۔ چھوٹے بڑے، عورت مرد، کبھی ایک قطار میں کھڑے ہوتے اور کبھی بزور لاٹھی دوسری قطار میں لگا دیا جاتا۔ کام شروع ہوا، مختلف اضلاع کو کاؤنٹر کے اعتبار سے تقسیم کردیا گیا تھا۔ نام پتہ، فون نمبر اور آدھار کارڈ نمبر لکھنے کے بعد میڈیکل ہیلتھ سرٹیفکیٹ دیا جارہا تھا۔ تقریباً ہر ضلع والوں کو الگ الگ بس میں سوار کرکے اسٹیشن بھیجا جارہا تھا۔ لیکن مزدوروں کی کثرت کی بنا پر کچھ افراد تو جانے میں کامیاب ہوگئے اور کچھ دل مسوس کر رہ گئے، کیونکہ انہیں مزید چوبیس گھنٹوں کیلئے روک دیا گیا تھا۔ بس میں سوار مسافرین کے درمیان دو روٹیاں اور چٹنی تقسیم کی گئی، یہ من و سلویٰ سے کم تو نہیں تھا۔ مسافرین نے ان دو روٹیوں سے اپنی بھوک پیاس بجھانے کی کوشش کی اور امید کی نئی کرنوں کے ساتھ اسٹیشن کی جانب روانہ ہوگئے۔
ریلوے اسٹیشن پر قطار در قطار، ضروری احتیاطی تدابیر کو مدنظر رکھتے ہوئے مسافرین کو پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا۔ ہیلتھ سرٹیفکیٹ چیک کرکے ہر کسی کو باری باری ٹرین میں سوار ہونے کی اجازت دی گئی، لیکن یہاں سوشل دسٹینسنگ کا برقرار رکھنا ممکن نہیں تھا۔ مسافرین کی تعداد زیادہ تھی، جس کی وجہ سے ایک ایک سیٹ پر تین اور کہیں چار افراد بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اسٹیشن پر مسافروں کو ایک پیکٹ میں دال چاول اور ایک بوتل پانی دیا گیا، تاکہ سفر کی شروعات اچھی رہے اور مسافرین کو پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے کچھ فراہم ہو جائے۔
بارہ بج کر بیس منٹ پر ٹرین منزل مقصود کے لیے روانہ ہوئی، لوگوں میں خوشی کا ماحول تھا۔ امید کی کرن مزید پھیلتی جارہی تھی، گرمی کی شدت بھی اپنے گاؤں، اپنے گھر، اپنے لوگوں کے درمیان پہنچنے کی خوشی میں فرحت بخش محسوس ہورہی تھی۔ ٹرین مکمل رفتار سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ آٹھ گھنٹے بعد، تقریباً رات آٹھ بجے ٹرین لکھنؤ اسٹیشن پہنچ گئی۔ جہاں ہر وقت مسافروں کا جم غفیر ہوا کرتا تھا، آج اسٹیشن خالی پڑا ہوا تھا اور وہاں مکمل ہو کا عالم تھا۔ چند سرکاری عملے کے علاوہ کوئی موجود نہیں تھا۔ اسٹیشن پر مسافروں کیلئے کھانے کا نظم تھا، مگر انتظام کے ناقص اور ادھورا ہونے کی بنا پر، کچھ لوگوں کو نصیب ہوا اور کچھ محروم رہ گئے۔ اس افراتفری میں بعض کو ڈنڈے بھی برداشت کرنے پڑے، لیکن کیا کہا جائے۔ پیٹ کی آگ سب کچھ سہنے کے لائق بنا دیتی ہے۔ ٹرین یہاں سے آگے بڑھ گئی، اور پھر نہ معلوم کن راستوں پر چلنے لگی، ایسا محسوس ہونے لگا، منزل قریب ہونے کے بجائے اب دور ہورہی ہے۔ پوری رات گزر گئی۔ صبح ہوئی تو پانی ختم ہوچکا تھا۔ بے چینی ہر چہرہ پر عیاں تھی، کوئی پرسان حال نہیں تھا اور نہ کوئی غم گسار۔ ریلوے میں شکایت کی گئی۔ ۔۔۔پھر شکایت کی گئی۔ ۔۔۔بار بار شکایت کی گئی۔۔۔۔ جواب ملا۔۔۔لیکن نتیجہ صفر تھا۔ ۔۔۔دوپہر ہوگئی ۔۔۔لیکن کچھ انتظام نہیں ہوسکا۔ ۔۔۔بھوک پیاس کی شدت سے چھوٹے بچوں کی سسکیاں سنائی دی جارہی تھی۔ بڑوں کا حال برا تھا۔ نوجوان جہاں گاڑی رکتی پانی کی تلاش میں دوڑ پڑتے۔ کبھی صاف پانی میسر ہوتا اور کبھی گدلا پانی پیاس بجھانے کیلئے استعمال کیا جاتا۔ اسی حالت میں، صبح سے دوپہر، دوپہر سے شام ہوگئی۔ گاڑی میں موجود گارڈ منزل کی تعیین سے قاصر تھا، بلکہ اس نے صراحتاً اپنی لا علمی کا اظہار کیا تھا۔ شام پانچ بجے گاڑی دانا پور ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئی۔ یہاں معلوم ہوسکا کہ گاڑی کی اصل منزل کیا ہے۔ قرب و جوار کے علاوہ دور دراز کے افراد بھی ٹرین سے اتر گئے۔ بسوں کے ذریعہ اور اپنی سواریوں کا انتظام کرکے لوگ اپنی حقیقی منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔
چند مسافرین کا یہ ٹولہ بھی دانا پور سے دوسری ٹرین میں سوار ہوگیا۔ تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی، سیٹ پر جتنے افراد بیٹھے ہوئے تھے، اس سے کہیں زیادہ درمیان اور گیٹ پر کھڑے تھے۔ کھچا کھچ بھری ہوئی اس ٹرین میں شام کے وقت موسم ٹمپریچر تقریباً 43 ڈگری تھا۔
ٹھیک چھ بجے یہ ٹرین دانا پور ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہوئی اور رات کے دس بجے مظفر پور اسٹیشن پہنچ گئی۔ مسافرین کی بڑی تعداد یہاں اتر گئی، جس کی وجہ سے راستوں اور دروازوں پر کھڑے مسافرین کو کچھ راحت ملی اور انہیں چار گھنٹے کی مشقت کے بعد بیٹھنا نصیب ہوا۔ ٹرین وہاں سے سمستی پور کیلئے روانہ ہوئی، پھر وہاں سے دربھنگہ ہوتے ہوئے مدھوبنی کیلئے روانہ ہونا تھا۔ عموماً جو سفر چار گھنٹے میں طے ہوا کرتا تھا تقریباً صبح چار بجے دس گھنٹے بعد منزل پر پہنچ گئی۔ ۔۔۔ ابتداء سے لے کر انتہا ء تک محض ۲۴؍گھنٹوں کا سفر دو دن بعد مکمل ہوا۔ اس درمیان پیش آمدہ حالات نے زندگی بھر سوچنے کو مجبور کردیا کہ آخر سماجی تانے بانے کی اس مضبوط کڑی ’مزدوروں‘ کے ساتھ ایسا رویہ کیوں اپنایاجارہا ہے، ان ہی کے ووٹوں سے برسراقتدار پارٹی انہیں ہی کیوں لاک ڈائون میں بے یارومددگار چھوڑ چکی ہے ، کس طرح وہ اپنے آبائی گائوں جانے کےلیے سفر آخرت پر روانہ ہورہے ہیں ، کہیں ٹرین کی پٹریوں کو اپنے خون سے لالہ زار کررہے ہیں، تو کہیں سڑکوں پر لال لال نشان مشقتوں اور تکلیفوں کا گواہ بنا ہوا ہے ، کہیں ٹرکوں ، لاریوں کی زد میں آکر اپنے اہل وعیال کو یتیم کررہے ہیں، معصوم بچوں کی سسکیوں، آہوں اور درد سے کراہتی خاتون کی چیخیں آسمان چیر رہی ہیں لیکن حکمراں وقت کے کانوں پر کوئی جوں نہیں رینگ رہی وہ ان کی لاشوں پر سیاست کررہے ہیں دو ماہ کے بعد بھی انہیں کوئی سکون میسر نہیں ہوا ہے بلکہ اب تو ان کی تکلیفوں میں مزید شدت آگئی ہے۔ ٹرین کہنے کو تو ان مزدوروں کو لے کر جارہی ہے لیکن کیسے لے جارہی ہے وہ تحریر کردہ اس واقعے سے اندازہ لگاسکتے ہیں اور سوشل میڈیا پرمزدور ٹرین کے مسافروں کی روداد الم پڑھ کر کرسکتے ہیں کہ کس طرح وہ ٹرینوں میں ۲۴ گھنٹے کا سفر چار چار دن پانچ پانچ دن کرنے پر مجبور ہیں، جن مزدوروں کو گورکھپور جانا ہے انہیں ٹرین اڈیشہ لے جارہی ہے آپ سوچ سکتے ہیں کہ مالی اعتبار سے کمزور یہ انسان کس طرح دن ٹرینوں میں گزارتے ہوں گے بہت ایسے مجبور ولاچار ہیں جو بھوک وپیاس کی شدت برداشت کرنے کے لائق نہیں ہوتے ہیں اور ا ن کی جان حکمراں کی جانب سوالیہ آنکھیں کھولے ہوئے نکل جاتی ہے۔ یقیناً، الفاظ کسی کی تکلیف اور مشقت کی ترجمانی نہیں کرسکتے ہیں، لیکن ان کے ذریعے دوسروں کو حقیقت حال سے باخبر کیا جاسکتا ہے لیکن تکلیف کی شدت اور امید و بیم کے درمیان گزرے لمحات کا تدارک صاحب واقعہ کے علاوہ کوئی اور نہیں کرسکتا ہے۔جو لوگ مشقت اور تکلیف برداشت کرکے اپنے گھروں کو پہونچ رہے ہیں، ایک طرح سے ان کا سوشل بائیکاٹ کیا جارہا ہے۔ حتی کہ تمام تدابیر اور عمل سے گزرنے کے باوجود ان مسافرین کی حیثیت دوسروں کی نظر میں کسی مجرم سے کم نہیں ہے۔ غربت اور غریبی نے نوع انسانی کو ایسے منجدھار میں کھڑا کردیا ہے جہاں غیر تو غیر اپنے بھی اپنانے کو تیار نہیں ہے۔اللہ تمام عالم کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور اس بیماری اور مہاماری سے نجات عطا فرمائے۔