چٹانیں چور ہو جائیں جو ہو عزم سفر پیدا
اسعد اقبال
خود اعتمادی، دور اندیشی، شجاعت و بہادری، صبر و استقلال اور دانائی وہ اعلی صفات ہیں جو کسی بھی قوم کو حیات نو بخشتی ہیں، اسے قعر مذلت کی پستی سے اوج ثریا کی بلندی پر پہنچاتی ہیں، یہ وہ روشنی عطا کرتی ہیں جس کی روشن کرنیں قوم کے ہر ہر فرد کو آفتاب و ماہتاب بنادیتی ہیں۔ خود اعتمادی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ وہ بڑی دولت ہے جو کامیابی کا زینہ، ترقی کا راستہ، مصائب سے نکلنے کا سہارا اور تاریکی میں روشنی کا مینار ہے۔
زندگی میں آگے بڑھنے ، اپنے مقصد کے حصول، مصائب و مشکلات اور چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے خود اعتمادی اتنی ہی ضروری ہے جتنی ایک بلند و بالا عمارت کے لیے ستون کا ہونا ضروری ہے۔ اگر زندگی کے کسی موڑ پر شکست کا سامنا ہو تو یہ خود اعتمادی ہی ہے جو ناامیدی ، مایوسی اور احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچاتی ہے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ یہ خود اعتمادی ہی ہے جو خشکی پر بھی کشتیاں چلوادیتی ہے، اور کشتیاں جلا ڈالنے کا بھی حوصلہ دیتی ہے، یہ خود اعتمادی ہی ہے جو سمندر میں بھی راستے بنالیتی ہے، یہ خود اعتمادی ہی ہے جس کے قدموں سے بلند و بالا پہاڑ بھی روند دیئے جاتے ہیں۔خود اعتمادی اور توکل وہ صفات حمیدہ ہیں جن کے حاملین، افراد کی کثرت و قلت کی سوچ و فکر سے بے پرواہ ہوتے ہیں، جن کے عزم و حوصلہ کے سامنے آلام و مصائب کے پہاڑ بھی روئی کے گالے ثابت ہوتے ہیں۔
جوانو یہ صدائیں آ رہی ہیں آبشاروں سے
چٹانیں چور ہو جائیں جو ہو عزم سفر پیدا
کسی کام کے متعلق یہ خیال کرنا کہ یہ کام نہیں ہوسکتا یا میں اسے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا تو وہ کام کبھی بھی نہیں ہوسکتا ہے، چاہے اسے کرنے کے تمام ذرائع موجود ہوں یا اسے پانے کے تمام راستے کھلے ہوں، یہ خیال آپ کے عزم مصمم کی عمارت کو متزلزل کردے گا، یہ آپ کے اندر موجود صلاحیتوں کو نکھرنے نہیں دے گا، یہ آپ کو منجدھار میں ڈوبتا چھوڑ دے گا، یہ آپ کو بلندی سے پستی کی طرف لے جائے گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب آدمی کو یہ یقین ہی نہیں ہوگا کہ اس کی ذات سے یہ کام ہوسکتا ہے یا وہ اسے حاصل کرسکتا ہے تو کیسے اور کس طرح اسے کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ کامیابی قربانی کا تقاضا کرتی ہے، جد و جہد اور سعی بسیار کے بغیر کامیابی کا تصور سراب کی مانند ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ آپ تاریخ کے اوراق الٹیے اور کامیاب شخصیات کی زندگی کا مطالعہ کیجیے کہ کیسے انہوں نے اپنی مختصر سی زندگی میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں، تو آپ کو” خود اعتمادی” کی یہی صفت نظر آئے گی جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے ہر خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ تاریخ ایسے جیالوں اور علم کے ایسے متوالوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے تن تنہا وہ کام کئے ہیں جو جماعتوں اور اکیڈمیوں سے بھی مستبعد تصور کئے جاتے ہیں۔یہی وہ افراد ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو آنے والی نسلوں کے لیے مقتدا اور رہبر کے طور پر پیش کیا ہے۔
وہ شبنم کا سکوں ہو یا کہ پروانے کی بیتابی
اگر اڑنے کی دھن ہوگی تو ہوں گے بال و پر پیدا
اسی بات کو شاعر نے اپنے شعر میں یوں بیان کیا ہے:
نہ کر تقدیر کا شکوہ مقدر آزماتا جا ۔۔۔ملے گی خود بخود منزل قدم آگے بڑھا تا جا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ بغیر رکے ہوئے، بغیر تھکے ہوئے مکمل عزم و استقلال کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہیں۔ دنیا میں کامیابی و کامرانی ان کی قدم بوسی کرتی ہے جو کامیابی کے لئے ہنستے، کھیلتے اور مسکراتے تلاطم خیز موجوں کا مقابلہ کرتے ہیں، جن میں ہواؤں کے رخ کو بدلنے کی طاقت ہوتی ہے، جو حالات و زمانہ کی گردش سے بے پرواہ اپنے مشن کی تکمیل میں مشغول رہتے ہیں۔
Mashallah
Very motivational message for all
Thanks
Thanks my dear