بات 2005 کی ہے جب سینٹر میں یو پی اے کی حکومت تھی تو اس وقت آر جے ڈی اور لوجپا دونوں یو پی اے کی حکومت میں شامل تھے۔ لیکن بہار کا جب الیکشن ہوا تو غیر متوقع طور پر رام ولاس پاسوان نے اپنی پارٹی لوک جن شکتی پارٹی کو الگ کردیا اور لالو کے خلاف میدان میں کود گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لالو پرساد یادو کا پندرہ سالہ دور اقتدار ختم ہوگیا۔ آج پندرہ سال بعد جب سینٹر میں این ڈی اے کی حکومت ہے، جے ڈی یو اور لوجپا دونوں اس حکومت میں شامل ہیں پھر سے لوجپا نے جونیئر پاسوان کی قیادت میں جے ڈی یو کے خلاف الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ اس مرتبہ نتیش کمار کا پندرہ سالہ اقتدار لوجپا کی وجہ سے اختتام کو پہنچتا ہے یا پھر خود چراغ کی بتی گل ہو جائے گی۔
سیاست کا سب سے اہم اصول یہ ہے کہ، اس میں کوئی دوست اور دشمن نہیں ہوتا ہے۔ حالات اور موقع کے اعتبار سے سیاسی لیڈران پارٹیاں بدلتے ہیں اور پارٹیاں اپنا خیمہ تبدیل کرتی ہیں۔ اگر رام ولاس پاسوان کی بات کی جائے تو وہ ہندوستان کی سیاست کے سب سے زیادہ وقت شناس اور موقع شناس لیڈر مانے جاتے ہیں۔ حکومت چاہے کسی کی ہو، لیکن وہ اس کا حصّہ ضرور ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بارہا دم توڑتی ہوئی لوجپا کو رام ولاس پاسوان نے حیات نو عطا کی اور اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔
چراغ پاسوان اپنے والد کی طرح وقت شناس اور سیاسی سوجھ بوجھ کے حامل ہیں یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ابھی تو انہوں نے اس وادی میں قدم رکھا ہے اور قدم رکھتے ہی سیاسی گلیاروں میں اتھل پتھل مچادی ہے۔ پاسوان چاہتے ہیں کہ بہار میں این ڈی اے کی حکومت بی جے پی کی قیادت میں بنے، اسی لئے انہوں نے بی جے پی کے خلاف اپنے امیدوار کھڑے کرنے سے انکار کردیا ہے اور الیکشن میں وزیراعظم کے پوسٹر اور ان کے کاموں کا سہارا لینے کی بات کی ہے، دوسری جانب بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ بہار میں این ڈی اے کی حکومت نتیش کمار کی قیادت میں بنے گی اور اب ان دونوں پارٹیوں کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کا مسئلہ بھی حل ہوگیا ہے۔ نتیش کمار کی قیادت کو تسلیم کرتے ہوئے بی جے پی نے انہیں زیادہ سیٹیں دی ہیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ لوجپا بی جے پی کے ساتھ مل کر این ڈی اے کا حصہ ہونے کے باوجود جے ڈی یو کے خلاف الیکشن لڑے گی۔ حالانکہ بی جے پی نے واضح کردیا ہے کہ، بہار میں جو نتیش کمار کی قیادت تسلیم نہیں کرے گا وہ ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ حتی کہ بی جے پی نے انتباہ دیا ہے کہ بہار الیکشن میں ہمارے علاوہ اگر کسی دوسری پارٹی نے وزیر اعظم کا پوسٹر استعمال کیا تو اس کے خلاف الیکشن کمیشن میں شکایت درج کرائی جائے گی۔
البتہ چراغ پاسوان کے اقدام نے سیاسی مبصرین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ 2020 کے الیکشن میں بعینہ وہی ماڈل اپنانے کی کوشش کی گئی ہے جو 2005 میں اپنائی گئی تھی، لیکن اس کے چند دنوں بعد رام ولاس پاسوان نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہم (آر جے ڈی اور لوجپا) ایک ساتھ الیکشن لڑتے تو نتیش کمار وزیر اعلیٰ نہیں بن پاتے۔ لیکن یہ افسوس اس وقت کیا گیا جب نتیش کمار کے سر پر بہار حکومت کا تاج سجایا جا چکا تھا۔
اگر یہ فرض کیا جائے کہ، چراغ پاسوان اپنی اہمیت کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اپنے بل بوتے اپنے ووٹ بینک کے سہارے جیت حاصل کی جائے۔ اگر وہ اپنی سوچ میں کامیاب ہوتے ہیں تو دلت طبقہ کا ووٹ ان کیلئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا اور یہی ان کا اصل ووٹ بینک بھی ہے۔ اگر چراغ پاسوان اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ان کی وجہ سے جے ڈی یو کو بھاری نقصان سے دو چار ہونا پڑا تو الیکشن کے نتائج منظر عام پر آنے کے بعد منظر نامہ تبدیل ہوسکتا ہے، اور چراغ پاسوان کی یہ بات کہ بہار میں این ڈی اے کی حکومت بی جے پی کی قیادت میں بنے گی سچ ثابت ہوسکتی ہے۔