نشیب و فراز زندگی کا حصہ ہیں

نشیب و فراز زندگی کا حصہ ہیں

یہ دنیا ہے، یہاں زندگی میں نشیب و فراز، اتار چڑھاؤ، نرمی گرمی اور حالات کی تبدیلی معمول کی بات ہے۔ اس دنیا میں حالات کبھی یکساں نہیں ہوتے ہیں اور کبھی ایسا نہیں ہوتا ہے کہ زندگی کسی کے لئے ایک ہی رفتار کے ساتھ جاری رہے اورزندگی کے مختلف مراحل سے اسے کوئی سروکار نہ ہو۔ اس عالَم اسباب کی یہ اچھی بات ہے کہ ہمیشہ ایک فرد ایک حال میں نہیں رہتا ہے بلکہ کب کس کے مقدر کا ستارہ عروج پر پہنچ جائے،  کوئی پیشن گوئی نہیں کرسکتا ہے اور کب کسی کی قسمت کا سورج آنا فانا غروب ہوجائے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔ عالَم ارضی پر برسوں تک حکومت کرنے والے فراعنہ اور نماردہ بھی گزرے ہیں جن کی بنائی نشانیاں آج بھی دنیا کے لئے محو حیرت ہے لیکن قدرت نے انہیں بھی نشان عبرت بنادیا۔ قیصر و کسری کی سلطنتیں زمین بوس ہوگئی اور ان کے نام و نشان تک مٹ گئے ہیں۔ صدیوں تک حکومت کرنے والے روسی ارباب حکومت کے انجام سے ہر کوئی واقف ہے، مغلیہ سلطنت کا آخری چراغ برما کی کال کوٹھری میں چار سالوں تک قید و بند کی سزا جھیلنے کے بعد اس حال میں دنیا سے رخصت ہوا کہ اپنے ہی ملک میں دو گز زمین بھی میسر نہیں ہوسکی ہے۔ یہ دنیا ہے، یہ خدائی قانون ہے، یہاں ایام بدلتے رہتے ہیں۔ کب کس کے حق میں ہوجائیں کوئی پیشن گوئی نہیں کرسکتا ہے۔ تاریخ انسانی نے ایک بار نہیں بلکہ بار بار، ایک صدی میں نہیں بلکہ ہر صدی میں، ایک دہائی میں نہیں بلکہ ہر دہائی میں، ایک سال میں نہیں بلکہ ہر دن اور ہر ساعت میں چاند ستاروں کی مانند چمکنے والے انسانوں کو گھٹاٹوپ اندھیروں میں گم ہوتے دیکھا ہے۔ بڑے بڑے محلات اور عالیشان مکانوں میں رہنے والوں کو گداگری کرتے دیکھا ہے، بادشاہوں اور امراء کو جان کی امان طلب کرتے دیکھا ہے۔ خود مطلق العنان اور زمینی خدا سمجھنے والوں کو در بدر بھٹکتے دیکھا ہے۔ تاریخ انسانی نے انسانوں کے ایسے ایسے کھیل دیکھے ہیں جنہیں اگر دیکھا جائے اور پڑھا جائے تو عبرت حاصل کرنے کے لئے کافی و شافی ہے لیکن افسوس کہ انسان کل بھی امید و بیم میں پھنس کر لالچ میں برباد ہوا تھا اور آج بھی آس و یاس میں الجھ کر برباد ہورہا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ نشیب و فراز زندگی کا حصہ ہیں اور انسان کو ان مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔

انسان اگر اپنی حقیقت کو پہچان لے، اور اپنی      تخلیقی حیثیت کو سمجھ لے تو پھر وہ ایسے امور کی انجام دہی سے یقینا احتراز کرے گا جو ایک انسان کو صفت انسانیت سے نکال کر وحشی و درندہ سماج اور معاشرہ کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ انسان کی مختصر زندگی اس بات کی متقاضی نہیں ہوتی ہے کہ وہ اپنے اسباب و وسائل اور لوازمات کا غلط استعمال کرتے ہوئے دیگر انسانوں کے لیے خطرہ بن جائے اور اپنے جیسے دیگر انسانوں کے لئے خوف و دہشت کی علامت بن جائے۔ انسانیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کے دکھ درد میں شریک ہو اور خوشی و غم میں اپنا حصہ تلاش کرے تاکہ دوسرے انسان کو وہ قلبی سکون اور فرحت میسر آئے جو انسان کا حق ہے۔

اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ جب ایک جنس کے کئی افراد باہم مل جل کر رہتے ہیں تو ان میں آپسی رنجشیں پیدا ہوتی ہے۔ ان میں باہم اختلافات جنم لیتے ہیں، ان کی آرائے مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن یہ اختلاف اُس وقت تک مفید اور نافع ہوتے ہیں جب تک انہیں ذاتیات کا خاصہ نہ بنایا جائے، اگر ان اختلافات کو علمی اختلاف کے بجائے ذاتی بنالیا جائے تو پھر معاشرہ میں وہ تمام بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جو کسی بھی صالح معاشرہ کے لئے خیر کا باعث نہیں ہوتی ہے۔ یہ اختلافات بسا اوقات ذاتی جھگڑوں سے نکل خاندانی لڑائیاں بن جاتی ہیں اور کبھی ان میں اس قدر شدت پیدا ہوتی ہے کہ ایک چھوٹی سی چنگاری کی وجہ سے نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ عورتیں بیوہ ہوجاتی ہیں اور بچے یتیم ہوجاتے ہیں اور بوڑھے ماں باپ اپنی نوجوان اولاد کو خاک و خون میں تڑپتا دیکھ کر آبدیدہ ہوتے ہیں اور زندگی کی آرزو ختم کرلیتے ہیں۔ ایک انسان کی غلطی اور چھوٹی سی بات اس حد تک مضر ثابت ہوجاتی ہے کہ اس کی وجہ سے ہزاروں گھر تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ دنیا میں موجود ہر فرد اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اسے ایک دن اس دنیا سے جانا ہے۔ یہاں کے اسباب یہیں رہ جائیں گے، اور جس طرح خالی ہاتھ دنیا میں آئے تھے اسی طرح خالی ہاتھ دنیا سے جائیں گے۔ یہ زندگی کا ایسا سچ اور ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے اللہ تعالی نے اگر اسباب و وسائل اور مادی قوت سے نوازا ہے تو اسے نسل انسانی کی ترقی اور بہتری کے لئے استعمال کرنا چاہیے نہ کہ تباہی و بربادی کا ذریعہ بن جائیں۔ تاریخ انسانی دو طرح کے لوگوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہے، اول وہ جنہوں نے فلاح و بہبود اور انسانیت کے لئے کار کثیر انجام دیا ہے، انہیں یاد رکھا جاتا ہے، ان کے لئے دعائیں کی جاتی ہیں اور ان کی اچھی باتوں سے دوسروں کی زندگی میں روح پھونکنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور دوسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا کی نعمت کا غلط استعمال کیا ہے اور ہمیشہ نسل انسانی کو نقصان پہنچانے کے در پے رہے ہیں، ایسے افراد کو دنیا کوستی ہے ان کے وجود سے پناہ مانگتی ہے اور ان کے کالے کرتوتوں سے دوسروں کو آگاہ کرکے ان کے راستے سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لئے دنیا میں رہتے ہوئے ایسے کام کئے جائیں جس سے دین و دنیا دونوں کی بھلائی ہو اور آئندہ نسلیں ہمیشہ اچھے ناموں سے یاد رکھیں۔ جو لوگ دنیاوی زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھتے ہیں اور ان سے سبق حاصل کرتے ہیں وہ ہمیشہ دوسروں کے لئے نافع ثابت ہوتے ہیں ۔

Related Posts

One thought on “نشیب و فراز زندگی کا حصہ ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے