نسیم جاں فزا کی رخصت

نسیمِ جاں فزا کی رخصت 

مولانا محمد نوشادنوری قاسمی

اللہ رے وہ شام، وہ مرجھائی ہوئی اور غم زدہ شام، قیلولہ کی پرسکون نیند تو پہلے سے ہی غائب تھی، اب شام بھی آئی تو کچھ کم قیامت لے کر نہیں آئی، محلہ خانقاہ کی مسجد کے سامنے ایک بوسیدہ اور پرشکوہ عمارت، جو تقریبا ایک صدی سے علم و ادب کی پاسبانی میں مصروف ہے، جسے علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کا کاخ فقیری کہیے یا سلطان القلم مولانا سید ازہر شاہ قیصرؒ کی ادبی ریاست کا آستانہ، وہی اس قیامت خیزی کی گواہ بنی، یعنی معروف قلم کار، خانوادہ انوری کے چشم وچراغ، حالات وشخصیات کا فن کار مصور، جناب مولانا نسیم اختر شاہ قیصر صاحبؒ استاذ دار العلوم وقف دیوبند، ۱۱/ستمبر۲۲۰۲ء کو بوقت پانچ بجے شام ہمیں داغ مفارقت دے گئے،انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مسجدوں میں عصر کی نماز ہورہی تھی، کہیں میناروں سے حی علی الصلاۃ کی صدا بلند ہورہی تھی، عین اسی وقت اللہ کا ایک نیک بندہ، خداکی دعوت پر لبیک کہہ رہا تھا، وہ نماز کی طرف نہیں؛ بلکہ رب العالمین کے رحمت کدے کی طرف کوچ کررہا تھا، جوں ہی یہ خبر عام ہوئی، ہر شخص حیرت کی تصویر بنا ہوا تھا،کل ہی تو بتا یا گیا تھا کہ مولانا رو بہ صحت ہیں، درد میں بھی کمی ہے،ان کے تلامذہ ان کی درس گاہ میں واپسی کا بے صبری سے انتظار کرنے لگے تھے؛ مگرتقدیر کے قاضی کو کچھ اور ہی منظور تھا، اساتذہ، طلبہ اور اہالیان دیوبند جوق در جوق انوری منزل کی طرف لپکے، تاکہ لمبے سفر کے اس مسافر کو الوداع کہہ سکیں، شاہ منزل کے صحن میں ایک چارپائی پر، مولانا کی میت رکھی ہوئی تھی، ابھی لباس نہیں بدلا گیا تھا، ظاہری ہیئت یہی بتارہی تھی کہ ذرا سی آنکھ لگ گئی ہے، رنگ وکیفیت میں کسی تبدیلی کا شائبہ نہیں؛وہی موہنی مگر پرجلال چہرہ، کشادہ اور بارعب پیشانی، جس کی ہر لکیر میں علم وادب کی غیر مرئی سلوٹیں، کھڑی ناک، ستواں بدن، گھنی ڈاڑھی، بند مگر مائل بہ تبسم ہونٹ،وہی متانت وسنجیدگی، وہی دلآویزی اور دلکشی؛زندگی میں بھی کیا یہی ان کا سراپا نہیں تھا؟ ہاں اضافہ کرنا چاہیں تو روشن اور متفکر آنکھیں، خاکی یا نیلی شیروانی، شیروانی میں ایک خوب صورت قلم، سرپہ دیوبندی ٹوپی، جو ان کی خوب صورت زلفوں کو سمیٹنے میں کبھی کبھی اپنی تنگ دامانی کا شکوہ کرتی نظر آتی؛ ان سب کو بھی شامل کرلیں، شاہ صاحبؒ اپنے خوب صورت پیکر کے ساتھ، بیچ صحن میں دنیا کی بے ثباتی کاواضح نشان بن کر، اخروی زندگی کی دہلیز پر دستک کے لیے تیار تھے۔
وہ بالائی منزل پر رہتے تھے؛ مگر کچھ دنوں سے طبیب کے مشورے سے نیچے رہنے لگے تھے، برآمدہ پر ان کی دوائیں اورفکری غذائیں (کتابیں) منتشر تھیں، یہ علم وادب کا آستانہ ہے، یہاں سلف کے بہترین خلف تیار ہوتے رہے ہیں، اب بھی تیار ہوں گے ان شاء اللہ، مگر گھر کے بام ودرحزن وملال کی تصویر تھے، وہ شاہ صاحب کے علمی لطائف وظرائف، ان کی گفتگو کی شیرینی اوران کے قہقہوں کی چٹخ سے محرومی پر ماتم کناں تھے۔
گھر کی ویرانی یہ کہتی ہے کہ جانے والا ٭ لوٹ آنے کے ارادے سے نہیں نکلا ہے
مولانا نسیم اختر شاہ صاحب ؒ بڑے علمی خانوادے کے فرد فرید تھے، وہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے حفید، سلطان القلم مولانا سید ازہر شاہ قیصرؒ کے فرزند ارجمند تھے، علم وادب انہیں وراثت میں ملے تھے، وہ تاحیات اس وراثت کے امین اور قدر دان رہے، زمانہ طالب علمی سے انہوں نے لوح وقلم سے اپنا رشتہ بنایا اور وقت کے ساتھ وہ رشتہ مضبوط ہوتا گیا، ہندوستان کے اخبارات اور معتبر مجلات ورسائل ان کی فکری جولانیوں اور قلمی شہ پاروں کے امین بنے، بہت ہی قلیل مدت میں انہوں نے اہل علم وادب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی اور دیوبند کی ادبی روایت کے تسلسل کو جاری رکھا، خاکہ نگاری میں انہیں کمال حاصل تھا، وہ جس شخص کو جس طرح دیکھتے، اسی کیفیت میں انتہائی خوب صورتی کے ساتھ ان کی منظر کشی کرتے، اس گوشہئ ادب میں ان کی مہارت اور فن کاری کی گواہی بڑے بڑے اہل قلم نے دی، اس سلسلے میں وہ اپنے والد بزرگوار کے صحیح جانشین ثابت ہوئے، ان کے والد بزرگ وار کی کتاب ”یادگارِ زمانہ ہیں یہ لوگ“ خاکہ نگاری کا ایک خوب صورت مجموعہ ہے، مجھے نہیں معلوم کہ اردو ناقدین اس کتاب کو کس زاویہ سے دیکھتے ہیں؛ مگر اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا چند ہی سطروں کے مطالعہ کے بعد اپنے کو، تذکرہ میں شامل شخصیات کی بے تکلف محفل پاتاہے، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ماضی کی ان عبقری شخصیات کے کارواں میں شامل ہے، اور ان کے حالات وواقعات کا عینی شاہد ہے۔
مولانا نسیم اختر شاہ قیصرؒ نے اپنے والد کی کتاب کے نام کو ایک سیریز کی شکل دی اور تمام خاکوں کے نام اسی سے ملتے جلتے رکھے،”میرے عہد کے لوگ“،”جانے پہچانے لوگ“،”خوشبو جیسے لوگ“،”اپنے لوگ ”اور”کیا ہوئے یہ لوگ“؛ یہ ان کی کتابوں کے نام ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے نام رکھنے میں اپنے والدہی کی پیروی کی۔
مولانا خاکہ نگاری سے اپنی مناسبت کے بارے میں خود ہی رقم طراز ہیں:
”ابھی فکر وشعور کی چند ہی منزلیں طے کی تھیں کہ نہ معلوم شورش کاشمیری کی کتاب”چہرے“کیسے میرے ہاتھ لگ گئی، اس دن سے آج تک چہرہ شناسی میرا کام ہے؛ گو چہرہ شناسی کا دعوے تو نہیں کرسکتا؛ مگر جس کو جیسا دیکھا اور جیسا پایا، نوک ِقلم سے صفحہ قرطاس پر ویسی ہی تصویر بنانے کی کوشش کی ہے۔“(میرے عہد کے لوگ، ص:۷)
شاید اسی لیے کسی نامور عالم دین کے انتقال کے بعد، مولانا کے مضمون کا انتظار رہتا تھا اور جب وہ لکھتے تھے تو شخصیت کا پورا نقشہ سامنے آجاتاتھا، بعض دفعہ حیرت ہوتی تھی کہ صاحب تذکرہ شخصیت سے مولانا کی بہت زیادہ رسم وراہ نہیں ہے؛ اس کے باوصف مولانا ان کے فکر ومزاج کی واقعی صورت حال کشیدکرنے میں کامیاب ہوجاتے تھے، دیوبند کی جن شخصیات کو انہوں نے دیکھا، ان میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ سے عشق کی حدتک لگا ؤتھا، حضرت پر انہوں نے متعدد مضامین لکھے؛ لیکن ہمیشہ یہی کہتے سنا کہ”حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا“، اپنے نامور والد گرامی جناب سید ازہر شاہ قیصر اور نامور چچا حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیریؒ کے تذکرہ کو اپنے لیے سعادت سمجھتے، ہرسال دونوں کے یوم وفات پر مضمون لکھتے اور خود نہیں لکھ پاتے تو کسی صاحب قلم کو متوجہ کرتے، اس طرح اپنے تازہ مضمون سے یادوں کی قندیلیں روشن کرتے۔
وہ صرف قلم وقرطاس کے ہی آدمی نہیں تھے؛ اگر چہ علمی اور ادبی دنیا میں ان کا تعارف قلم سے ہی ہوا، وہ بہت ہی اچھے خطیب اور مقرر بھی تھے، ان کا یہ جوہر زیادہ تو نہیں کھلا، مگر جنہوں نے انہیں سنا وہ ان کی برجستگی، خوش کلامی اور خوب صورت انداز بیان سے بے حد متأثر ہوے، مجھے متعدد باران کی تقریریں سننے کا موقع ملا، دیوبند میں بھی اور دیوبند سے باہر بھی، میں نے یہ جانا کہ شاہ صاحب تحریر کے دھنی ہیں تو تقریر کے بھی غنی ہیں، بات سے بات نکالتے، حافظہ چوں کہ غضب کا تھااور اکابرین سے طویل استفادے کا انہیں موقع ملاتھا، اس لیے الفاظ اور تعبیرات کی جھڑی لگادیتے اور واقعات بھی کافی مؤثر اور موقع کے مناسب ہوتے، متعدد بار ایساہوا کہ انہیں اچانک دعوت خطاب دی گئی اور وہ مینہ کی طرح برس پڑے اور چشمہ کی طرح ابل پڑے، زبان وقلم کے اس خوب صورت امتزاج کی بنیاد پر انہیں یہ کہنے کا حق حاصل تھا:
ابھی یہ لوگ مگن ہیں،حروف تولنے میں ٭ ابھی توشہرنے لہجہ مراسناہی نہیں
وہ تربیت کا بھی خاص انداز رکھتے تھے، ان کی تربیت میں شفقت کا رنگ غالب تھا،اس لیے طلبہ ان سے قلبی تعلق رکھتے تھے،اگر کسی جگہ وہ کھڑے ہوتے اور کوئی طالب علم گزرتا تو بلاکر اس کے احوال دریافت کرتے اور دعائیں دیتے، ان کا تخصص اردو ادب تھا، اس لیے اس میدان میں انہوں نے کافی لوگوں کی رہنمائی فرمائی، انہوں نے مرکز نوائے قلم قائم کیا، جس سے کافی لوگوں نے استفادہ کیا اور کئی نامور اہل قلم تیار ہوئے۔
مولانا کو املاکرانے کی بھی بڑی اچھی مہارت تھی، اہل علم جانتے ہیں کہ املاکرانا آسان کام نہیں ہے، جو لوگ بہت خوب صورت لکھ لیتے ہیں، اسی خوب صورتی کے ساتھ املاکرانا بہت مشکل ہوتا ہے، اکثر کا حال تو یہ ہے کہ مضامین کا ورود ہی نہیں ہوتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فکر وخیال کے سوتے سوکھ گئے ہوں؛ لیکن مولانا اس میں بڑے ماہر تھے، وہ کمپوٹر آپریٹر کے پاس بیٹھ جاتے اور مسلسل مضمون املاکراتے، نہ ٹھہرتے اور نہ سوچتے، کہیں حوالہ دینا ہوتا تو وہ کسی کاغذ پر اسے لکھ کرلاتے اور مناسب جگہ اسے شامل مضمون کردیتے، جناب عمر الٰہی صاحب ان کے مضامین کو ٹائپ کرتے وہ برابر مولانا کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہیں۔
مولانا کی ایک امتیازی صفت خورد نوازی تھی، وہ چھوٹے چھوٹے کاموں پر بے انتہا تعریف کرتے اور تسلسل کے ساتھ کام کرتے رہنے کی ترغیب دیتے،مولانا سے متعلق تمام حضرات اس کی گواہی دیں گے، اس سلسلے میں مجھے بھی انہوں نے بہت حوصلہ دیا، قرطاس وقلم سے-نام کا ہی سہی- میرا بھی ایک رشتہ قائم ہے،کبھی کسی مضمون پر اور کبھی کسی کتاب کی اشاعت پر مجھے مبارک بادی دیتے اور کام کی اہمیت کا دل سے اعتراف کرتے، وہ غائبانہ بھی ذکر خیر کرتے، میں نے جب پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا تو کہنے لگے کہ آپ نے بہت اچھا کیا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ہے، میں نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا تھا، مگر ایم اے تک ہی سلسلہ جاری رہا، اس وقت ایم اے بھی کافی تھا، مگر اب پی ایچ ڈی سے کم کسی کو نہیں پڑھنا چاہیے، عربی زبان پر میرا ایک مضمون شائع ہوا تو کہنے لگے کہ بھائی! مجھے تو لگا کہ حضرت مولانا علی میاں ؒ کی روح سما گئی ہے۔
ایک دفعہ مدارس کے ترانے کا ذکر چل پڑا، میں نے اپنی دانست کے مطابق کہاکہ مدارس کی دنیا میں شاید دار العلوم دیوبندکے ترانے سے بہتر کسی ادارہ کاترانہ نہ ہو، مگر ان کی رائے دوسری تھی،وہ دوسرے ادارے کے ترانوں اور ان کی خصوصیات کا ذکر کرنے لگے،ان كي راے تھي كه دارالعلوم وقف دیوبند کا ترانہ(جوایک فاضل دار العلوم وقف دیوبند کا تیار کردہ ہے) بھی بہت اہم ہے، ترانہ نگار نے پرانی روش سے ہٹ کر ایک نئی راہ بنائی ہے، جو اس کی استاذانہ مہارت کی دلیل ہے، مجھے اس بات سے کافی حیرت ہوئی کیوں کہ میرا احساس تھا اور ہے کہ دار العلوم وقف دیوبند کے لیے نئے اوربہتر ترانے کی ضرورت ہے؛ ليكن كتب خانه كي يه چند منٹوں كي گفتگو ان كے ايك مستقل مضمون كي تمهيد بن گئي، ميں نے ديكھا كه دودن کے بعد شاه صاحبؒ دار العلوم وقف دیوبند کے ترانه کی منقبت میں ایک مضمون لکھ کر لے آئے، جو ماہنامہ ندائے دار العلوم وقف دیوبند کے کسی شمارے میں شائع ہوچکا ہے، يه شاه صاحبؒ كي دار العلوم وقف ديوبند كے تئيں مخلصانه جذبے كي دليل هے۔
شاہ صاحب مجلسی آدمی تھے، ان کے احباب مختصر اور مخصوص تھے؛ لیکن آخر تک اپنا مجلسی ذوق باقی رکھا،مجلسوں میں ان کا رنگِ ظرافت دیدنی ہوتا، وہ اپنی حاضر جوابی سے،محفل میں ایک سماں باندھ دیتے، دار العلوم وقف دیوبند میں عام طورسے محافظ خانہ میں بیٹھتے،جس میں ان کے دیرینہ رفیق مولانا عبداللہ جاوید اور حافظ انور صاحبان موجود ہوتے، کبھی لائبریری میں اور اکیڈمی کے دفترمیں جناب عمر الٰہی صاحب کے پاس بیٹھتے، عصر کے بعد پابندی سے سفید مسجد کے پاس ”نیوز پوائنٹ“ نامی اخباری دفتر میں بیٹھتے، جہاں اخباری نمائندوں کے علاوہ شہر کے دیگر حضرات بھی جمع ہوتے، جہاں مختلف علمی، سیاسی اوردینی موضوعات پر آزادانہ گفتگو ہوتی۔
ایک ڈیڑھ مہینے سے مولانا کمر کی تکلیف میں مبتلا تھے، جس میں وہ اپنے گھر میں محبوس ہوگئے، یہ عرصہ ان کے لیے بڑا شاق تھا، وہ چلنے پھرنے سے؛ بلکہ کچھ دنوں تک اٹھ کربیٹھنے سے معذور ہوگئے تھے، اس عرصہ میں جب بھی حال احوال کے لیے فون کیا، اسی قید وبند کا ذکرکرتے، مجلس میں ہرطرح کی باتیں ہوتیں، وہ ہربات میں شریک گفتگو ہوتے، منفی باتوں سے حتی الامکان گریز کرتے اور کوئی دوسرا کرتا تو ایک قہقہہ میں بات کوہواکر دیتے، کوئی بات ان کے خلاف ہوتی تو اسے بھی ہنسی میں اڑادیتے، ہم چھوٹوں کو متعدد بار یہ احساس ہوا کہ شاہ صاحب کی مجلس میں یہ بات نہیں کہنی چاہیے تھی؛ مگر وہ برا نہیں مانتے؛ بلکہ عادت کے مطابق وہ ایک قہقہہ لگا تے او ربات ختم۔
شاہ صاحب فقیر منش اور قلندر انسان تھے، جاننے والے اس کی گواہی دیں گے کہ وہ فقر غیور کے ساتھ جینے کے عادی تھے، نہ بناوٹ نہ تصنع، ظاہر وباطن کی سادگی اور متاع دنیا سے لاپرواہی؛ بلکہ شان ِ بے نیازی،اس تعلق سے ہمارا دینی حلقہ اب بہت زیادہ حساس نہیں رہا ہے، مادیت کی دوڑ میں کوئی بھی پیچھے رہنے کو تیار نہیں ہے؛لیکن ابھی بھی اسلاف کا خون وجگر رکھنے والے ایسے افراد-کمیابی کے ساتھ ہی سہی- موجود ہیں، قناعت پسندی جن کا شعار اور رضابالقضاء جن کی شناخت ہے، ہمارے شاہ صاحبؒ انہی کمیاب لوگوں میں تھے۔
ان کے جانے سے بلاشبہ دیوبند کی ادبی انجمن سونی ہوگئی،قلم چلاتے ہاتھ اگر گنے جائیں تو کئی سارے ہیں؛ لیکن ایسا قلم اب کسے نصیب،جو لکھے تو چمنستان ادب میں بہار تازہ آجائے، بولے تو موتی رولے، ادبی انجمنیں، اور دارالعلوم وقف دیوبند کے بام ودر؛ انہیں دیر تک یاد کریں گے، ان کی تحریریں ان کے وجودکا احساس دلائیں گی، ان کی لطافت، ان کی بذلہ سنجی، ان کی خو ش طبعی، ان کا نرالہ انداز، ان کی شیریں باتیں اور ان کا تحریری وتقریری رنگ وآہنگ؛ کبھی بھولے نہیں جاسکیں گے۔
آج پھر محرومیوں کی داستانیں اوڑھ کر ٭ کھوگئے انداز بھی، آواز بھی، الفاظ بھی
اللہ تعالے مولانا نسیم اختر شاہ صاحبؒ کی مغفرت فرمائے، اعلی علیین میں مقام کریم عطا فرمائے اور تمام پسماندگان، رفقاء اور طلبہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
***

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے